امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2019ء (19تا 21؍اکتوبر)
………………………………………………
19؍اکتوبر2019ءبروزہفتہ (حصہ دوم آخر)
………………………………………………
تقریب عشائیہ ناظمین و ناظمات جلسہ سالانہ جرمنی
پروگرام کے مطابق آج شام حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناظمین و ناظمات جلسہ سالانہ 2019ءکے عشائیہ کااہتمام لجنہ کے نماز ہال سے ملحقہ ہال میں کیا گیا تھا۔
افسران جلسہ سالانہ اور نائب افسران اور ناظمین کی کل تعداد 87 ہے۔جب کہ لجنہ جلسہ گاہ کی ناظمہ اعلیٰ ،نائب ناظمہ اعلیٰ اور ناظمات کی تعداد 69 ہے۔یہ سبھی آج کی اس تقریب میں شامل تھے۔
7بج کر40منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہال میں تشریف لائے اور دعا کروائی اور ان سبھی خدمت کرنے والوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیت میں کھانا تناول کیا۔بعد ازاں 8بج کر 10منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کے ہال میں تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔
اعلانات نکاح
نمازوں کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیزنے 19نکاحوں کا اعلان فرمایا۔
حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ نکاح اور مسنون آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا: اب میں چند نکاحوں کا اعلان کروں گا۔
عزیزه ماہده ظفر بنت مشہود احمد ظفر صاحب (مربی سلسلہ جر منی)کا عزیزم فہیم احمد خان (مربی سلسلہ سوئٹزر لینڈ) ابن مکرم وسیم احمد خان صاحب کے ساتھ طے پایا۔
عزیزه فرحانہ خلت بنت مکرم انور احمد صاحب (لاہور، پاکستان)کا نکاح عزیزم اُسامہ ادیب (مربی سلسلہ ، ایڈیشنل نظارت تعلیم القرآن و وقف عارضی پاکستان) کے ساتھ طے پایا۔ لڑکی کی طرف سے اس کے بھائی راویل احمد صاحب (جرمنی) جبکہ لڑکے کے والد مکرم اظہر الحق صاحب (جرمنی) وکیل تھے۔
عزیزه عروب ناصر (واقفہ نو) بنت مکرم طاہر احمد صاحب (مربی سلسلہ جرمنی) کا نکاح عزیزم صہیب ناصر (متعلم در جہ شاہد جامعہ احمدیہ جرمنی) ابن مکرم محمد صادق ناصر صاحب کے ساتھ طے پایا۔
عزیزه نورین مہرواحمد (واقفہ نو) بنت مکرم مشتاق احمد چٹھہ صاحب (فرنکفرٹ جرمنی) کا نکاح عزیزم عامر محمود (واقف نو) ابن مکرم شاہد محمود صاحب (اوبرسٹ ہاؤزن، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔
عزیزه عِلز اخالد (واقفہ نو) بنت مکرم ہارون احمد صاحب (فرنکفرٹ جرمنی)کا نکاح عزیزم قاصد احمد(واقف نو)ابن مکرم عرفان احمد صاحب (درائے آئش جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔
عزیزه عمرانہ جاوید احمد (واقفہ نو) بنت مکرم اَحسن جاوید صاحب (اوفن باغ، جرمنی)کا نکاح عزیزم دانیال احمد (واقفِ نو) ابن مکرم الیاس احمد صاحب (مائنز، جرمنی)کے ساتھ طے پایا۔
عزیزه حسبانہ سلیم طور (واقفہ نو) بنت مکرم سلیم احمد طور صاحب (نور در شٹڈ، جرمنی) کا نکاح عزیزم محمد راحیل حفیظ ابن مکرم محمد حفیظ صاحب(روئیڈس ہائم، جرمنی)کے ساتھ طے پایا۔
عزیزه دُرّ مکنون انجم (واقفہ نو) بنت مکرم اُلفت حسین انجم صاحب (مرحوم، ہیوگلز ہائم، جرمنی) کا نکاح عزیزم ہارون احمد مبارک ابن مکرم محمود مبارک صاحب (ہیوگلز ہائم، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔ لڑکی کے ولی اس کے بھائی بلال احمد صاحب ہیں۔
عزیزه منزہ بھٹی (واقفہ نو) بنت مکرم فہیم احمد بھٹی صاحب (ایڈ نگن جرمنی)کا نکاح عزیزم کلیم احمد ابن مکرم نعیم احمد صاحب (ہائلبرون، جرمنی)کے ساتھ طے پایا۔
عزیزہ زارا احمد بنت مکرم عامر ہمایوں احمد صاحب (کینیڈا)کا نکاح عزیزم محسن امجد (واقف نو) ابن مکرم طارق امجد صاحب (امریکہ )کے ساتھ طے پایا۔
عزیزہ صدف اقبال سلیم بنت مکرم نسیم اقبال صاحب (ہمبرگ، جرمنی)کا نکاح عزیزم مرزاطلحہ سلیم (واقف نو) ابن مکرم مرزا نعیم احمد صاحب (ہمبرگ، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔
عزیزہ ماہرہ نجیب بنت مکرم نجیب احمد ملک صاحب (رائن ہائم، جرمنی)کا نکاح عزیزم عثمان طاہر حنیف (واقف نو) ابن مکرم محمد حنیف صاحب (شٹوٹن ، جرمنی)کے ساتھ طے پایا۔
عزیزه مناہل بٹ بنت مکرم وسیم احمد بٹ صاحب (وِلڈ برگ، جرمنی) کا نکاح عزیزم عقیل بابر ابن مکرم بابر جلال صاحب (مؤر فیلڈن والڈ ورف، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔
عزیزه کاشفہ عزیز بنت مکرم عزیز الله صاحب (کرون برگ، جرمنی)کا نکاح عزیزم تابش احمد ابن مکرم عرفان احمد صاحب (درائے آئش، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔
عزیزہ ہادیہ احمد بنت مكرم محمود احمد صاحب (میٹمن، جرمنی)کا نکاح عزیزم سید شہزاد احمد ابن مکرم سید حامد مقبول صاحب (نوئیس، جرمنی)کے ساتھ طے پایا۔
عزیزہ فامیہ احمد بنت مکر م قدیر احمد صاحب (برلن، جرمنی)کا نکاح عزیزم فراست احمد وڑائچ ابن مکرم بشارت احمد وڑائچ صاحب (ہو ہن شٹائن، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔
عزیزہ مبشرہ بھٹی بنت مکرم محمد علی بھٹی صاحب (ریڈ شٹڈ، جرمنی) کا نکاح عزیزم مہران منصور ابن مکرم منصور احمد بھلّی صاحب (لاہور، پاکستان حال جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔
عزیزہ غزالہ ارشاد بنت مکر م ارشاد احمد خان صاحب (مربی سلسلہ پاکستان) کا نکاح عزیزم ولید احمد خان ابن مکرم نعیم احمد صاحب (فرینکفرٹ، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔ لڑکی کے ولی پاکستان میں ہیں اور ان کی طرف سے لڑکی کے بھائی مکرم محمد عمار احمد خان صاحب آف جرمنی لڑکی کے وکیل ہیں۔
عزیزہ کِرن جنجوعہ بنت مکرم محمد انیس جنجوعہ صاحب (فریدرش ڈورف جرمنی) کا نکاح عزیزم غضنفر علی ابن مکرم نذیر احمد صاحب (مرحوم) (باد ہوم بُرگ، جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔
نکاحوں کے اعلان کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ دعا کرلیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام رشتوں کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔
دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ تشریف لے گئے۔
………………………………………………
20؍اکتوبر2019ءبروزاتوار
………………………………………………
حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح 7بجے تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔نماز کی ادائیگی کے بعد حضو رانور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور نےدفتری ڈاک اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا اور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
فیملی ملاقات
پروگرام کے مطابق ساڑھے 11 بجے حضو رانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج صبح کے اس سیشن میں 39 فیملیز کے 146 افراد اور 13 سنگل افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی مختلف 29 جماعتوں سے آئی تھیں۔ بعض فیملیز اور احباب بڑے لمبے سفر طے کرکے پہنچے تھے۔
DUSSELDORFسےآنے والے250کلومیٹر، CALW سے آنے والے 285 کلومیٹر اور MUNCHEN(میونخ)سے آنے والی فیملیز 405 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اپنے آقا سے ملاقات کے لیے پہنچی تھیں۔ہر ایک نے حضو رانور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔ملاقاتوں کایہ پروگرام دوپہر2 بجے تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
مسجد بیت الحمید کا افتتاح
آج پروگرام کے مطابق فرینکفرٹ سے 115 کلومیٹر کے فاصلہ پرواقع FULDA شہر میں مسجد بیت الحمید کے افتتاح کی تقریب تھی ۔ 3بج کر 45 پر حضور انور اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور FULDA شہر کے لیے روانگی ہوئی۔قریباً ایک گھنٹہ 15منٹ کے سفر کے بعد 5بجے حضور انور کی فلڈا مسجد بیت الحمید تشریف آوری ہوئی۔مقامی جماعت کے احباب مردوخواتین حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی آمد کے منتظر تھے جو نہی حضور انور گاڑی سے باہر تشریف لائے تو احباب نے بڑا پر جوش استقبال کیا اور بچوں اور بچیوں نے خیر مقدمی گیت اور دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ خواتین نے اپنے ہاتھ بلند کرتے ہوئے شرف زیارت پایا۔ آج کا دن جماعت FULDA کے لیے بھی خوشیوں اور برکتوں کا دن تھا۔ حضور انور کے مبارک قدم ان کے مسکن میں دوسری بار پڑے تھے اور پھر آج ان کی مسجد کا افتتاح ہو رہا تھا۔ ہرایک خوش تھا اور اھلاً و سھلاً و مرحبا کی صدائیں ہر طرف سے آرہی تھیں۔ صدر جماعت فلڈا مکرم نجم الثاقب صاحب اور مبلغ سلسلہ فلڈا اعجاز احمد جنجوعہ صاحب نے حضور انور کو خوش آمدید کہا۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمسجد کی بیرونی دیوار میں نصب تختی کی نقاب کشائی فرمائی ۔ اس موقع پر درج ذیل میڈیا کے نمائندے بھی موجود تھے۔
صوبہ ھیسن کے ریڈ یو HR کا نمائندہ، اخبار OSTHESSEN NEWS کا نمائندہ،اخبار FULDA ZEITUNG کا نمائندہ۔
نقاب کشائی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے ہال میں تشریف لے آئے اور مسجد کا معائنہ فرماتے ہوئے اس کے نقشہ کے حوالے سے دریافت فرمایا اور فرمایا نقشہ میں تھوڑی سی تبدیلی کے ذریعہ مسجد کے پچھلے حصہ میں ایک مکمل صف بن سکتی تھی۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں جس کے ساتھ مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔پھر حضور انور لجنہ ہال میں تشریف لے گئے جہاں بچیوں کے گروپس نے مختلف ترانے اور دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ خواتین نے شرف زیارت حاصل کیا۔ حضو رانور نے ازراہ شفقت ان سب بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
اس کے بعد حضور انور مسجدکے بیرونی احاطہ میں تشریف لے آئے اور حضور انور نے ایک پودا لگایا۔ بعدازاں حضور انور نےمسجد کا بیرونی احاطہ اور اس میں پہلے سے تعمیر شدہ عمارت دیکھی اور کچھ دیر کے لیے یہاں کے مبلغ سلسلہ اعجاز احمد جنجوعہ صاحب کے گھر تشریف لے گئے موصوف کا گھر پہلے سے تعمیر شدہ عمارت کے ایک حصہ میں ہے۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کے احاطہ کے ساتھ ہی فلڈا جماعت کے ایک ممبر مکرم مرزا مسعود احمد صاحب کے نئے تعمیر ہونے والے گھر کا سنگ بنیاد رکھا اور اسی احاطہ میں ازراہ شفقت ایک پودا بھی لگایا۔ اس دوران بچے ایک قطار میں کھڑے ہو چکے تھے حضور انور نے ازراہ شفقت بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔ اس کے بعد مجلس عاملہ جماعت فلڈا اور مسجد تعمیر کرنے والے شعبہ اور کارکنان نے حضور انور کے ساتھ گروپ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔
فلڈا شہر اور مسجد کا تعارف
شہر FULDA جرمنی کے وسط میں واقع ہے اور یہ کیتھولک چرچ کاخاص علاقہ ہے اور یہ شہر شروع سے ہی عیسائیت کا ایک اہم مرکز ہے۔اس شہر میں جماعت کا قیام 1980ء کی دہائی میں ہوا۔آغاز میں دس سے پندرہ خاندان یہاں آباد ہوئے۔جماعت کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا 1993ء میں یہاں کی جماعت کو 2 حصوں میں تقسیم کر کے جماعت فلڈا ایسٹ اورفلڈاویسٹ بنائی گئیں۔مسجد کے لیے 3478مربع میٹر کے رقبہ پر مشتمل قطعہ زمین سال 2013ء میں تین لاکھ 50ہزار یورو میں خریدا گیا۔ 26جون 2013ء کو حضور انو رایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورہ کے دوران اس مسجد کاسنگ بنیاد رکھا۔اس مسجد میں 420نمازی نماز اداکرسکتے ہیں۔ مسجد میں 6میٹر چوڑا گنبد اور 2 مینار ہیں۔ نماز کے لیے 2ہال،4دفاتر،لائبریری، کچن ، سٹور اور مربی ہاؤس بھی ہے۔اس مسجد کی تعمیر پر 1.6 ملین یورو خرچ ہوئے۔
مسجد کے افتتاح کے حوالے سے تقریب
مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب کا انعقاد FULDA شہر کے ایک ہوٹل MARITIM کے ایک ہال میں کیا گیا تھا۔آج کی اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں کی تعداد 330 تھی۔جن میں
٭…MR.HEIKO WINGEN FELD لارڈ میئر فلڈا
٭…MR.BIRGIT KOMPEL سابق ممبر پارلیمنٹ
٭…KURT ALBRECHT چیئرمین راؤنڈ ٹیبل آف ریلجیئنز فلڈا
٭…SARA KAUTZSCHچیئروومن LUTHER CHURCH
٭…VOSEF BENKNERچیئر مین SPDکونسل فلڈا
٭…ALJA EPP-NALIWAIKO چیئر مین گرین پارٹی کونسل فلڈا
٭…JURGEN PLAPPERTچیئر مین لبرل پارٹی کونسل فلڈا شامل تھے۔
اس کے علاوہ مختلف علاقوں کے میئر، کونسل کے ممبران، حکومتی دفاتر میں کام کرنے والے افراداور علاوہ ازیں پروفیسرز،ڈاکٹرز، اساتذہ ، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔
پروگرام کے مطابق حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 5 بج کر 45 منٹ پر مسجد بیت الحمید سے اس تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے ۔ پولیس نے ESCORTکیا۔ 6 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہوٹل MARITIM میں تشریف آوری ہوئی۔جہاں ہال کے بیرونی دروازہ پر لارڈ میئر فلڈا نے حضو ر انور کا استقبال کیا۔ حضور انور کی آمد سے قبل تمام مہمان اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے ۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم حافظ ذاکر مسلم بٹ صاحب نے کی بعد ازاں مکرم ڈاکٹر رانا مکرم احمد صاحب نے اس کا جرمن ترجمہ پیش کیا۔
بعد ازاں سب سے پہلے مکرم نیشنل امیر صاحب جر منى عبد الله واگس ہائوزر صاحب نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا اور مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے فلڈا شہر اور جماعت کا تعارف کروایا۔ امیر صاحب نے بتایا:فلڈ امیں احمدیوں کی تعداد 450 کے قریب ہے۔ 1984ء میں یہاں پہلے احمدی آباد ہوئے اور 1990ء میں ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لیا جو بطور نماز سنٹر استعمال کیا گیا۔ فلڈا کے شہر میں شروع سے ہی interreligious dialogues منعقد کیے گئے اور تبلیغی سٹینڈز بھی لگوائے گئے۔
شهر فلڈا صوبہ Hessen کے سب سے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے اور اس کی ابتدا Stone Age میں ملتی ہے۔ اس شہر کی آبادی 7 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی شہرت خاص طور پر اس کے پرانے cloister کی وجہ سے ہے جو کے 744 عیسوی میں بنا۔ یہ Saint Boniface نے بنوایا جو حقیقت میں عیسائیت کو جرمنی کے علاقہ میں لانے والا تھا۔ اسی طرح یہ شہر اپنے میوز یمنر کی وجہ سےبھی مشہور ہے۔ علاوہ ازیں شہر میں بہت سے تعلیمی ادارے قائم ہیں جس وجہ سے یہ شہر خاص طور پر طلباء کے لیے دلچسپ ہے۔
امیر صاحب نے نئی مسجد کے بارہ میں بتایا کہ جماعت 2009ء سے ہی ایک مسجد کی جگہ کی تلاش میں تھی۔ آخر کار 2013ء میں یہ جگہ ملی اور خرید لی گئی۔ تعمير کا آغاز لیکن د سمبر 2016ء میں ہوا۔ 26 جون 2013ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیت الحمید کا سنگِ بنیاد رکھا۔ مسجد پر کل 1.6 ملین یورو خرچ ہوئے جس کا کثیر حصہ جماعت فلڈانے ہی ادا کیا ہے۔ آخر پر امیر صاحب نے سب مہمانوں کا اس تقریب میں شمولیت پر شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد Sara Kautzsch صاحبہ نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوفہ Lutherchurchفلڈا کی چیئر مین ہیں۔
موصوفہ نے اپنی گزارشات میں سب کو خوش آمدید کہا اور سلام پیش کیا۔ ساتھ اس بات کی خوشی کا بھی اظہار کیا کہ جماعت کی مسجد Lutherchurch کے قریب واقع ہے۔ اس لحاظ سے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم تمام اس علاقہ میں رہنے والوں کے مسائل حل کرنے میں مددگار بنیں۔ اس لیے ہمیں مل کر اس پر کام کرنا ہو گا اور لوگوں کو خدا کے قریب لانا ہو گا کیونکہ ہم سب خدا پر ایمان لاتے ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ اس طرح سے امن قائم ہو سکے گا۔
موصوفہ نے اس کے بعد دوسری عیسائی جماعتوں کی طرف سے بھی سلام اور مبارک باد پیش کی اور کہا کہ امید ہے کہ اس مسجد کے قیام سے فلڈ امیں اب مزید امن پھیلے گا۔آخر پر انہوں نے جماعت کو مسجد کے مکمل ہونے پر پھر مبارک باد پیش کی اور حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اس موقع کی نسبت سے ایک تحفہ پیش کیا۔
بعد ازاں Kurt Albrecht صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوف Roundtable of Religions Fulda کے چیئر مین ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے تمام حاضرین کو خوش آمدید کہا اور شکریہ ادا کیا کہ ان کو بھی اس فنکشن پر ایڈر یس کرنے کا موقع دیا جارہا ہے۔ موصوف نے کہا کہ فلڈا میں 100سے زائد ممالک کے لوگ اکٹھے رہتے ہیں۔ ان سب کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے۔ اس لیے ایک ایسی تنظیم کا ہونا ضروری ہے۔ جو سب کو لے کر چلے۔
پھر موصوف نے کہا کہ Roundtable of Religions Fulda کا بالکل یہی مقصد ہے کہ مختلف مذاہب کی جماعتیں مل کر بیٹھیں اور پیار اور محبت سے شہر میں رہیں۔اس کے بعد موصوف نے اپنی اس تنظیم کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ احمدیہ مسلم جماعت بھی شروع سے ہی اس تنظیم میں شامل ہے۔ اتنے مختلف مذاہب اور مختلف فرقوں کے لوگ جب اکٹھے ہوتے ہیں تو سب سے ضروری یہ بات ہوتی ہے کہ آپس میں رواداری پیدا ہو اور جو باتیں ایک دوسرے میں ایک جیسی ہوں، ان پر زور دیا جائے۔ پھر موصوف نے کہا کہ یہ بات بھی خاص طور پر مد نظر رکھنی چاہیے کہ انسانی قدروں کو دیکھا جائے ۔ تب ہی سب انسان محبت اور امن میں اکٹھے ہو کر رہ سکتےہیں۔ آخر پر انہوں نے کہا کہ آج آپ لوگوں کی جماعت کے لیے ایک نہایت ہی اہم دن ہے اور امید ہے کہ آپ کو اب ایک ایسا گھر مل گیا ہو گا، جس میں آپ اپنی ضروریات کے مطابق اپنے پروگرامز منعقد کر سکیں گے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کاخطاب
بعد ازاں 6بج کر 25منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطاب فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے تشہد،تعوذ اور تسمیہ کے بعد فرمایا ۔
معزز مہمانان! السلام علیکم ورحمۃالله وبرکاتہ! اللہ تعالیٰ کی آپ سب پر سلامتی اور رحم ہو۔ سب سے پہلے تو میں آپ سب لوگوں کا شکریہ ادا کر تا ہوں جو آج ہمارے اس مسجد کے فنکشن میں شامل ہونے کے لیے تشریف لائے۔ جماعت احمدیہ کےلیے تو یقیناًیہ بہت خوشی کا موقع ہے، خاص طور پر فلڈا کے لوگوں کےلیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک جگہ جمع ہونے کےلیے ،ایک جگہ نماز ادا کرنے کے لیے ،ایک جگہ میسر کی۔ اب وہ آسانی سے اس میں اپنی تعلیم کے مطابق 5 وقت نمازوں کےلیے، عبادت کےلیے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس عبادت کی جگہ کو، اس مسجد کی تعمیر کو ممکن بنانے کےلیے یہاں کے لوگوں کا بھی بہت کردار ہے۔ اس لحاظ سے میں آپ سب لوگوں کا ،اس شہر کے لوگوں کا شکریہ ادا کر تا ہوں کہ آپ لوگوں نے یہاں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ کونسل کا شکریہ، میئر کا شکریہ جنہوں نے اس تعمیر میں ہماری مدد کی۔ مجھے بہت سارے چہرے نظر آرہے ہیں، بلکہ اکثریت احمدیوں کی نہیں ہے، اور شاید مسلمان بھی نہیں ہیں۔ شاید احمدی مسلمانوں کے علاوہ ایک دو مسلمان ہوں۔ آپ لوگوں کا یہاں آنا آپ کے کھلے دل کی عکاسی کرتا ہے۔ اس شہر میں جس کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہاں عیسائیت بہت پرانی ہے اور اس لحاظ سے، عیسائیت کے حوالہ سے اس کی ایک تاریخی حیثیت ہے۔ یہاں مسجد بنانا یقیناً یہاں کے لوگوں کا جو عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، ایک ایسا عمل ہے جو ان کی روشن دماغی اور روشن خیال کا اظہار کر تا ہے۔ اس عمل سے جس سے آپ لوگوں کی روشن دماغی کا اظہار ہوتا ہے، یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ لوگ سب مذاہب کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتے ہیں۔ ابھی ایک مقرر نے جو یہاں راؤنڈ ٹیبل کے نمائندے تھے، انہوں نے بتایا کہ یہاں 100 سے زیادہ قومیں آباد ہیں اور مختلف مذاہب آباد ہیں۔ ان سب کا یہاں آباد ہونا ، اس شہر میں جس کی عیسائیت کے حوالہ سے بہت اہمیت ہے یہاں کے عیسائی لوگوں کے کھلے دل ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ میں پھر کہنا چاہوں گا کہ اس کے لیے میں آپ کا شکریہ ادا کر تا ہوں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا ۔اس زمانہ میں جب کہ دنیا ایک ہو چکی ہے۔ رابطوں کے ذریعہ سے، جو رسل و رسائل کے رابطے ہیں، ٹی وی ہے، انٹر نیٹ ہے اور ٹرانسپورٹ کے ذرائع سے دنیا ایک ہو چکی ہے۔ وہ سفر جو آج سے چند دہائیاں پہلے یا 100سال پہلے دنوں بلکہ مہینوں میں ہوتا تھاوہ اب چند گھنٹوں میں ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اب ہم ایک ہو چکے ہیں۔ اب یہ بات ہم سب کو سمجھ لینی چاہیے کہ دنیا کی ترقی ہمیں ایک کررہی ہے۔ اس ترقی کا تب ہی فائدہ ہے جب ہم آپس کے اس ملاپ کو اپنے فائدے کےلیے بھی استعمال کریں۔ بجائے اس کے کہ دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف تحفظات پیدا ہوں اور ایک دوسرے سے خوف پیدا ہو، ایک دوسرے کےلیے نیک جذبات پیدا ہونے چاہئیں اور یہ ہرفریق کا کام ہے، چاہے وہ عیسائی ہے، مسلمان ہے، یہودی ہے ،ہندو ہے یا کوئی اور ہے، کہ ہم ایک دوسرے کےلیے نیک جذبات اپنے دلوں میں پیدا کریں تا کہ اس چیز کا فائدہ اٹھایا جائے جس نے اس زمانہ میں لوگوں کو ایک کر دیا ہے اور دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا۔ہمارے نیشنل امیر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ یہاں ایک میوزیم بھی ہے۔ یقیناً اس میوزیم میں پرانی چیزیں رکھی ہوں گی۔ پرانی چیزوں کو سنبھالنا بہت اچھی بات ہے۔ پرانی چیزوں کو تب ہی preserveکیا جاسکتا ہے جب اس کے نیک نتائج سے فائدہ اٹھایا جائے اور بعض ایسی چیزیں جن سے ماضی میں نقصان ہوا ہو، ان تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان نقصانات سے بچا جا سکے۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ اس میوزیم کی تفصیل کیا ہے لیکن عموماً میوزیم میں ہر قسم کی چیز یں رکھی جاتی ہیں۔ اور میوزیم کی یہ چیزیں جہاں ہمیں اپنی تاریخ سے آگاہ کرتی ہیں وہاں ہمیں آئندہ کےلیےنئے راستے بھی دکھاتی ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہاں رہنے والے ہر شخص کو چاہے وہ مسلمان ہے، عیسائی ہے یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا ہے ،یالا مذہب ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پھر یہاں تعلیم کے مواقع ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ جگہ تعلیمی لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔ یہاں کے لوگوں میں تعلیم کی طرف بھی رجحان ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا تب ہی فائدہ ہے، جب وہ دلوں کو کھولے۔ اصل تعلیم وہ ہے جو دلوں میں روشنی پیدا کرنے والی ہو۔ اس سے ذہن میں وسعت بھی پیدا ہو اور وسعت حوصلہ بھی پیدا ہو اور پھر ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنے کا احساس بھی پیدا ہو۔ تب ہی اس تعلیم کا فائدہ ہے، نہیں تو اگر وسعت حوصلہ نہیں، ایک دوسرے کے احساسات سمجھنے کی طرف توجہ نہیں ایک دوسرے کی تقریبات اور خوشی کے مواقع میں شرکت کرنے کا حوصلہ نہیں تو پھر تعلیم بے وقعت ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے مجھے خوشی ہے کہ میں یہاں بہت سے ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں جو ایسے فنکشن میں آئے ہیں، جو خالصتاً مذہبی فنکشن ہے، جس کا آپ لوگوں سے بر اہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ یہ کھلے دل کا اظہار جہاں یہاں رہنے والے عیسائیوں کی طرف سے ہو رہا ہے وہاں یہاں رہنے والے مسلمانوں کی طرف سے بھی ہو اور سب سے بڑھ کر احمدی مسلمانوں کی طرف سے ہو اور دیگر مذاہب والوں کی طرف سے بھی ہو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔ساره صاحبہ جو لوتھر چرچ کی نمائندہ تھیں، نے بڑی اچھی بات کی کہ خدا کی عبادت ایک جیسی چیز ہے، جس کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہیے اور خدا کی عبادت کے ساتھ امن کا پیغام بھی ملتا ہے۔ یہی حقیقی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے در اصل وہی لوگ ہیں جو امن پھیلانے والے ہوں۔ یہی چیز ہے جو انسانی قدروں کو قائم کرتی ہے۔مدینہ میں بانیٔ اسلام ﷺ کے زمانہ میں نجران سے ایک عیسائی و فد ملاقات کےلیے آیا۔ بات چیت ہو رہی تھی تو اس عرصہ میں ان کی عبادت کا وقت ہو گیا۔ بڑے بے چین تھے کہ اب وہ کہاں عبادت کریں گے۔ تو اس وقت حضرت محمد رسول اللہ ﷺنے ان کی پریشانی دیکھ کر پوچھا کہ کیا وجہ ہے تو معلوم ہوا کہ عبادت کا وقت ہو رہا ہے اور وہ جگہ تلاش کر رہے ہیں۔ اس وقت وہ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ مسجد بھی ایک خدا کی عبادت کےلیے بنائی گئی ہے۔ تم اس میں اپنی عبادت کر سکتے ہو۔ چنانچہ انہوں نے اس مسجد میں اپنی عبادت کی۔ یہی وہ حقیقی چیز ہے، جس سے حقیقی امن بھی قائم ہوتا ہے۔ اور آپس میں انٹر فیتھ تعلقات بہتر ہوتےہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا۔اسلام اسی بات کی تعلیم دیتا ہے۔ آج اسلام اور مسلمان کا نام اسی وجہ سے بدنام ہوگیا ہے کہ یہ امن کو برباد کرنے والے ہیں۔ جب کہ “اسلام” نام کا مطلب ہی امن ہے۔ اگر ایک مسلمان دوسرے کو امن مہیا نہیں کرتا تو وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔ اس لیے بانیٔ اسلام ﷺ نے فرمایا ہے کہ حقیقی مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ پس حقیقی اسلام تو یہی ہے جو امن دیتا ہے، امن پسند شہری وہ ہے جو کسی کا امن تباہ نہیں کر رہا، اس کے ساتھ تم بھی امن سے رہو۔ اور اگر کہیں اصلاح کی ضرورت پڑے تو قانون ہاتھ میں نہیں لینا جیسا کہ آج کل کے بعض انتہاپسند گروپ حرکتیں کر رہے ہیں۔ جو بالکل اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں۔ بلکہ قانون کے ادارے موجود ہیں، ان کی مدد لو۔ اسلام کی حقیقی تعلیم یہی ہے کہ کسی کا امن برباد نہیں کرنا۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا تمام انسانیت کی جان بچانا ہے۔ یہی وہ تعلیم ہے جو مذاہب کی تعلیم ہے اور یہی وہ تعلیم ہےجس کو اسلامی تعلیم نے اور قرآن کریم نے اپنے اندر سمویا ہے۔ پس حقیقی اسلامی تعلیم تو یہ ہے کہ جس کو اگر صحیح سمجھاجائے تو امن پیار اور آشتی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہےاور یہی وہ مشن ہے جس کو لےکر جماعتِ احمدیہ مسلمہ ساری دنیا میں اسلام کی حقیقی تصویر دکھارہی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا۔دوسرے مقرر تھے، جو راؤنڈ ٹیبل آف فلڈ اکے نمائندے تھے، جنہوں نے بتایا تھا کہ یہاں 100 سے زیادہ قومیت کے لوگ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مختلف مذاہب کے لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ مذاہب کے لوگ ایک جگہ جمع ہوئے اور پھر باقاعدہ اس کے لیے ہر سال انہوں نے ایک تقریب منعقد کرنی شروع کر دی۔ ان سے یہ بات سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اس تقریب میں جماعت احمدیہ کی نمائندگی بھی ہے۔ انہوں نے بڑی اچھی بات کی کہ اصل چیز انسانی قدریں ہیں۔ یہی اصل چیز ہے، انسانی قدریں ہی ہیں جو حقیقت میں ہمیں دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، اگر ہم نے بھی دوسرے جانوروں کی طرح ایک دوسرے کو نوچنا، گھسیٹنا ہے تو ہمارے اور دوسرے جانوروں میں کیا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دماغ دیا ہے، اگر اسے موقع پر استعمال نہیں کرنا تو پھر اس اشرف المخلوقات کا حصہ ہونا بے فائدہ ہے۔ اصل تو قدریں تب ہی قائم ہوتی ہیں، جب ہم اپنے آپ کو دوسرے جانوروں سے بہتر کر کے بتائیں۔ یہی افضلیت ہے جو اللہ تعالی ٰنے صرف اور صرف انسان میں پیدا کی ہے کہ دماغ دیا ہے، جس کا وہ استعمال کر سکتا ہے۔ اور اسی دماغ کو استعمال کر کے وہ انسانی قدروں کو قائم کر سکتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا۔ ہمارے بانیٔ جماعت احمدیہ جن کو ہم مسیح موعود و مہدی معہود مانتے ہیں۔ ان کے زمانہ میں بھی انٹر فیتھ کانفرنس ہوئی تھی۔ اس کا نفرنس میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ ہر مذہب اپنے مذہب کے بارے میں لیکچر دے اور یہ شرط تھی کہ کسی مذہب کی برائی بیان نہیں کرنی، کسی مذہب کا استہزاء نہیں کرنا کسی مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی۔ بلکہ صرف اپنے مذہب کی خوبیاں ہر ایک کے سامنے رکھنی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالی ٰنے انسان کو عقل دی ہے، اشرف المخلوقات بنایا ہے، اب ہر انسان کا کام ہے کہ وہ خوبیاں دیکھے اور خود جج کرے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں۔ کوئی کسی کے مذہب کو زبردستی بدل نہیں سکتا۔ جب انسانی عقل ہے، اس کو سوچنے اور سمجھنے اور پرکھنے کا الله تعالیٰ نے ادراک دیا ہوا ہے تو پھر کوئی ایسی فکر کی بات بھی نہیں ہے۔ ہر مذہب کی بات سن لینا اور ہر مذہب کی تعلیم کو سمجھنا اور پرکھنا، یہ روشن خیالی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسانی قدروں کا بھی اظہار کرتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے امن و سلامتی اور پیارو محبت کا پیام ابھر کر سامنے آتا ہے اور مزید پھیلتا ہے۔ پس ہمیں ہمیشہ انسانی قدریں قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کے جذبات، احساسات کا بھی خیال رکھیں۔ ایک دوسرے کی خدمت بھی کریں۔
• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ تاکید کی ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں کہ جن کی نمازیں ان کے لیے ہلاکت کا باعث بن جائیں گی، ان کی تباہی کا باعث بن جائیں گی۔ آگے اس کی وضاحت فرمائی کہ کیوں ہلاکت کا باعث بنیں گی؟ کیونکہ ایسے نمازی یتیموں اور مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے، معاشرے کا امن برباد کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔جب ایسی حرکتیں کرو گے ، انسانی قدروں کو قائم کرنے کی کوشش نہیں کروگے تو پھر اللہ کے حضور عبادت بے فائدہ ہے اور اللہ تعالیٰ ایسی عبادتیں قبول نہیں کرتا۔ تو یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ عبادت کرو، نمازیں پڑھو، پانچ وقت آؤلیکن اس کے ساتھ انسانیت کی خدمت بھی کرو، انسانی قدریں بھی قائم کرو۔ پس یہ ہے وہ چیز جسے جماعت احمد یہ دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور مجھے امید ہے کہ اس مسجد کے بننے کے بعد یہاں احمدی پہلے سے بھی بڑھ کر خدمت کے کاموں میں حصہ لیں گے۔ اب اس مسجد بننے کے بعد ہم انسانیت کی مزید خدمت کرنے والے ہوں گے اور انسانی قدروں کو قائم کرنے والے ہوں گے۔ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے ہوں گے۔ برداشت کا مادہ بھی ہم میں پہلے سے زیادہ ہو گا اور ایک دوسرے کے مذہب کی عزت و احترام بھی کرنے والے ہوںگے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: پس اللہ کرے کہ یہ مسجد اب یہاں حقیقی طور پر حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے والی ہو اور آپ لوگ دیکھیں کہ احمدی پہلے سے بڑھ کر اس ملک کے، اس شہر کے لوگوں کی خدمت کرنے والے ہیں اور انسانی قدروں کو قائم کرنے والے ہیں اور امن و سلامتی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے والے ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں یہ توفیق عطا فرمائے۔ شکریہ۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب 6بج کر 45منٹ تک جاری رہا۔بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔ اس کے بعد مہمانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں کھانا تناول کیا۔
کھانے کے بعد بعض مہمانوں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی سعادت پائی اور شرف مصافحہ حاصل کیا اور تصاویر بھی بنوائیں۔
بعدازاں پروگرام کے مطابق یہاں سے واپس بیت السبوح کے لیے روانگی ہوئی۔ پولیس نے شہر سے گزرتے ہوئے موٹروے تک قافلہ کو Escortکیا۔
7بج کر 40منٹ پر یہاں سے روانہ ہو کر 8بج کر 55منٹ پر حضور انور کی بیت السبوح تشریف آوری ہوئی۔ بعدازاں حضور انور نے تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے آج کے خطاب نےشامل ہونے والے مہمانان پر گہرے اثرات چھوڑے۔بہت سے مہمانوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ مہمانوں کے تاثرات پیش ہیں ۔
مہمانوں کے تاثرات
• مس کیر اہ ہانیمن ( Miss kirah Hanemann) صاحبہ جن کا تعلق محکمہ پولیس سے ہے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں: جب آپ کے خلیفہ ہال میں داخل ہوئے تو مجھ پر ایک ناقابل بیان روحانی کیفیت طاری ہوئی جو میں سمجھتی ہوں کہ قرآنی تعلیم کے حسن کی تاثیر کا اظہار تھا جو امام جماعت احمدیہ کو دیکھنے سے ہوا۔ کسی کی شخصیت کا ایسااثر میرے لیے زندگی میں پہلا تجربہ تھا۔ اس لیے اب میری خواہش ہے کہ میں جماعت احمدیہ سے مضبوط تعلق استوار کروں اور اگلے رمضان کا سارا مہینہ آپ لوگوں کے ساتھ گزاروں جس سے اس روحانی تجربے کو مزید تقویت ملے۔
• ایک مہمان ہارالڈ بو ئنزل (Harald Boensel)نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: امام جماعت احمدیہ نے اپنی تقریر میں جس قدر مشترک پر اکٹھے ہونے کو باہمی یگانگت اور گلوبل پیس کی بنیاد بنا کر امن عالم کی تحریک کی ہے مجھے یہ طرز عمل دنیا کے موجودہ حالات میں انتہائی قابل عمل لگتا ہے اور اسی کی اس وقت دنیا کو ضرورت ہے اور میں جان چکا ہوں کہ اس سے قبل جو تعارف ہمیں اسلامی تعلیمات کے بارے میں تھا وہ اسلام کی درست تصویر پیش نہیں کرتا۔ اس لیے آج کی شام میرے لیے ایک مثبت اور پرامن پیغام لائی ہے۔
• ایک مہمان مسٹر ہیلموٹ کیر اہ( Helmot Kirah)جو ایک مقامی سکول کی طرف سے تقریب میں شامل ہوئے تھے کہتے ہیں۔ امام جماعت احمدیہ کی آج کی تقریر سب سکولوں میں طلباء کو سنوا کر پوچھنا چاہیے کہ آپ اس سے کیا سمجھے اور آپ کے خیال میں یہ خوبصورت تعلیم کس مذہب کی ہو سکتی ہے؟ کم از کم مجھے تو آپ اس کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ ضرور مہیا کریں تا کہ میں اپنے سکول کے طلباء کے ساتھ اس شام کی کیفیات شیئر کر سکوں۔
• ایک مہمان خاتون مس ایرگ( Miss Ihrig )صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علاوہ اس تقدس اور احترام کے اثر کے جو امام جماعت احمدیہ کی شخصیت کے لیے میرے دل میں موجود رہا میں ان کی تقریر کے اس جملے کے اثر میں ہوں، کہ جو آپ نے فرمایا کہ‘‘اس زمانے میں بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ ہمیں اپنے دلوں کو کھولنا پڑے گا اور دوسروں کے خیالات اور اعتقادات کے لیے اپنے دل میں وسعت پیدا کرنی پڑے گی۔ ’’
• ایک سٹوڈنٹ لیوکس جیرک Lucas Goerke کہتے ہیں: بین المذاہب ہم آہنگی اور گلوبل پیس پر آپ کے خلیفہ کی تمام باتوں سے اتفاق کرنے کے نتیجے میں معاشرہ دیر پا امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اور مجھے امام جماعت احمدیہ کی طبیعت میں انکسار اور سادگی بہت پسند آئی۔
• من پریت سنگھ صاحبہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں: امام جماعت احمدیہ کے ہال میں آنے پر جس طرح کی خاموشی اور احترام کی فضاء پیدا ہوئی وہ تو بادشاہوں جیسی تھی مگر جو تاثیر ان کے الفاظ میں تھی اور جس طرح ان کی باتوں نے سیدھا دل پر جا کر اثر کیا ہے یہ بات دنیاوی طور پر عظیم شخصیات کے حصے میں نہیں آتی۔ آپ کا وجود ایک روحانی اثر ڈالنے والا وجود تھا اور امن پر بات کرنے کے علاوہ امن اور سکون آپ کی ذات اور چہرے سے بھی عیاں تھا۔ خاص طور پر آپ نے بد امنی کے حالات کے تناظر میں جانوروں کی مثال دے کر انسانیت پرستوں کے ضمیر کو جھنجوڑا ہے اور یہ مثال ترقی یافتہ معاشروں کے لیے برمحل اشارہ تھا۔ مجھے امام جماعت احمدیہ کا خطاب اپنی جامعیت کے لحاظ سے بہت پسند آیا۔
• ایک ساتھ والے شہر کے مئیر‘ورنرڈیٹرش’(werner Dietrich) صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ مجھے امام جماعت احمدیہ کی تقریر کے الفاظ کے انتخاب نے بہت حیران کیا۔ آپ نے ٹھہراؤ اور پر سکون لب و لہجے میں سارا پیغام بھی دیا، دوطرفہ تحفظات اور تعلقات کا موازنہ بھی پیش کیا اور معاشرے کے طبقات میں موجود باہمی کشمکش کے اسباب بھی کھول کر بتائے اور کھلے لفظوں میں ان عوامل کی نشاندہی بھی کر دی جو معاشرے کا امن برباد کرتے ہیں مگر اس کے باوجود کسی طبقے یا فرقے یا گروہ کی عزت نفس پر کوئی سخت بات نہیں کی بلکہ اجتماعی انسانی ضمیر اور بین الاقوامی انسانی قدروں کے حوالے سے Food for Thought کے رنگ میں بات کرتے گئے اور اختتام اپنوں اور غیروں کے لیے دعائے خیر کے کلمات سے کیا۔
• مس سائیبلے(Miss Sybille) صاحبہ کہتی ہیں: امام جماعت احمدیہ نے بنی نوع انسان کو نصیحت کرنے کے لیے بھی اور تنبیہ کرنے کے لیے بھی الفاظ کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا اور لہجے کو بھی ملائم رکھا۔ ان کی شخصیت کی طرح ان کے الفاظ اور لب و لہجہ بھی پر سکون اور ملاطفت رکھتا تھا۔ ان کی تقریرسے قبل مجھے ان کی ذات سے جس تقدس اور نور کا احساس ہو رہا تھا، ان کی گفتگو نے اس تاثر کی تائید اور تصدیق کی ہے۔ موصوفہ مزید کہتی ہیں کہ آپ لوگوں نے بہت اعلی ٰاور عمدہ طریق پر اس دعوت کا انتظام کیا جس کی انتہا امام جماعت احمدیہ کا بنفس نفیس شرکت کرنا تھا۔ میں مسلسل یہ سوچتی رہی کہ کیا صرف ساڑھے چار سو لوگوں سے ملنے کے لیے اور وہ بھی معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقات کے لیے پوپ کو بلایا جاتا تو وہ اتنا لمبا سفر کر کے ملنے آتے؟ میرے دل و دماغ پر اس نوعیت کے موازنے نے امام جماعت احمدیہ کا تاثر مزید گہرا کر دیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر مذ ہبی لیڈرشپ ہو تو ایسی ہونی چاہیے جو عام آدمی کے مسائل تک ذاتی طور پر رسائی رکھ سکے۔
•مس اوش کنس ( Miss Oschkinis) صاحبہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں: امام جماعت احمدیہ گفتگو کرتے ہیں تو بات کو گھما پھرا کر نہیں کرتے بلکہ صاف، سیدھی اور سچی بات کرتے ہیں اور اس میں اثر پیدا کرنے کے لیے لہجے کو سخت نہیں ہونے دیتے۔ ان کی پر سکون باتیں قابل یقین لگتی ہیں کیونکہ ان میں انسانیت کے لیے سچی اور بے لوث ہمدردی پائی جاتی ہے اور آپ کے کام کرنے والے کارکنان بھی پیسے لیے بغیر بے لوث انداز میں اتنے بڑے پروگرام کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ معاشرے میں دیرپا امن اور انسانی قدروں کے قیام کے لیے ایسی محنتی جماعت اور ایسے قابل اعتماد اور بے لوث ہمدردی کرنے والے لیڈر کی ضرورت ہے۔
• ڈاکٹر کوہلر (Dr. Koehler)صاحبہ نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا۔مجھے اس بات نے بہت متاثر کیا ہے کہ آپ کے امام کتنے کھلے دل کے انسان ہیں اور یہی خوبی ہے جس کی وہ تلقین کر رہے تھے کہ انسانی قدروں کے قیام کے لیے اپنے دلوں کو کھولنا پڑے گا اور تحفظات دور کرنے ہوںگے اور آپ کی جماعت کے افراد بہت ہی نیک اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ میں بھی اپنے ہسپتال میں کوشش کرتی ہوں کہ بین المذاہب ہم آہنگی بڑھے اور لوگوں کو روحانیت سے سکون حاصل ہو۔ یہی سکون و امن مجھے آج کی تقریب میں دیکھنے کو ملا ہے۔ میں بہت خوش ہوں کہ مجھے یہاں شامل ہونے کا موقع ملا۔
• ہارالڈ بیونزل (Harald Boensel) صاحب کہتے ہیں۔ حضور نے اپنی تقریر بہت ہی خوبصورت رنگ میں پیش کی اور میں نے اس تقریر سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہم سب میں جو باتیں مشترک ہیں ان کو سامنے لایا گیا ہے اور دیرپا امن کے قیام کے لیے انسانیت کی قدر مشترک کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب آنے کا راستہ کھولا گیا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ اسلام کے بارے میں ہمارا جو عام طور پر تصور ہے وہ ٹھیک نہیں ہے اور ہمیں اسلام کو امام جماعت احمدیہ کے بیان کردہ نکات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
• سونجاشمٹ ( sonja Schmidt) صاحبہ کہتی ہیں۔ میں حضور کی تہ دل سے شکر گزار ہوں۔ آپ نے وہ باتیں فرمائیں جو میری روح میں موجود تھیں۔ آپ نے ان روحانی حقائق کو اجاگر بھی کیا اور ان کا آج کے جدید زمانے میں قابل عمل ہونا بھی ثابت کر کے دکھایا ہے۔ میں اگرچہ ایک عیسائی ہوں مگر میں خود کو مسلمانوں کی طرح ہی اس تقریرکا مخاطب سمجھتی ہوں۔
• ایک خاتون مس پیو( Miss Peiv)صاحبہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ مجھے آپ کے خلیفہ ایک حیران کن وجود لگے ہیں ۔ میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں کچھ وقت کے لیے یہاں رہوں گی اور جلدی واپس چلی جاؤں گی کیونکہ میرے چار بچے ہیں اور میری بہن آج ان کا خیال رکھ رہی ہے۔ مگر اب میں نے اسے message کر دیا ہے کہ میں کچھ زیادہ دیر یہاں رہوں گی کیونکہ میں حضور کی مکمل تقریر سننا چاہتی ہوں۔ ان کی موجودگی میں اٹھ کے جاناممکن نہیں ہے۔
ایک استاد بین ایلم (Ben Elm) صاحب کہتے ہیں: میں حضور کے خطاب سے بہت ہی متاثر ہوا ہوں۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ آپ نے کوئی پہلے سے تیار شدہ تقریر نہیں پڑھ کے سنائی بلکہ دوسرے مہمانوں کی تقاریر کو بھی اپنی تقریر میں شامل کیا۔ امن کا جو پیغام اور مذاہب کی جو ذمہ داریاں آپ کے خلیفہ نے اپنی تقریر میں بیان کی ہیں، وہی معاشرے میں حقیقی امن کی ضمانت ہیں۔
• جرمنی کے مشہور ٹی وی اور ریڈیو اسٹیشن کی ایڈیٹر مس کلوسٹر من ( Miss Klostermann) اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: آپ کے خلیفہ کے الفاظ علم و حکمت سے بھرے ہوئے تھے۔
• ایک سیاسی نمائندہ(Elvira Mihm)صاحبہ کہتی ہیں : مجھے یہ سارا پروگرام بہت ہی پسند آیا ہے۔ آپ کے خلیفہ ایک مسحور کن شخصیت کے مالک ہیں اور ان کو دیکھ کر ایک خاص طرح کی تعظیم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کا خطاب بھی ان کی ذات سے ہم آہنگ تھا۔
• تھومین (Thomain) صاحبہ کہتی ہیں: میں نے خلیفہ کے وجود کو ایک روحانی تاثیر رکھنے والا وجود پایا اور سارے پروگرام میں مجھ پر یہی تاثر غالب رہا۔ مجھے حضور کا وجود ایک بہت ہی آرام دہ احساس دلاتا رہا اور ان کی تقریر بھی میرے لیے معاشرتی تجزیہ اور جدید دور میں انسانی قدروں کی اہمیت اجاگر کرنے والی تھی۔ خاص طور پر یہ بات کہ وہ دوسروں کی تقاریر کو اپنی تقریر میں شامل کرتے رہے اور ان کے بیان کردہ نکات کی اہمیت کو بھی اپنی تقریر کا حصہ بنایا۔
• دانيلا اوٹر وائن(Daniela Otterwein)صاحبہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں: مجھے حضور بہت ہی اچھے لگے اور میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی کہ آپ کتنے عظیم انسان ہیں۔ ایک ایسی شخصیت جس سے نور ہی نور ظاہر ہو رہا ہے۔ مجھے اس سے قبل اسلام کا کوئی علم نہیں تھا۔ میرے لیے آپ ہی کی ذات اور اسلام کا پہلا تعارف ہے، جو مجھے بہت پر کشش لگا۔
• ایک مہمان جو کہ پیشہ کے لحاظ سے استاد ہیں وہ بھی اس تقریب میں شامل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں: اسلام کو بالکل اس طرح کے لیڈر کی ضرورت ہے تاکہ تمام مذاہب میں لڑائیاں ختم کی جائیں۔ آپ کے خلیفہ صرف لیڈر نہیں ہیں بلکہ ایک بہت پڑھے لکھے شخص معلوم ہوتے ہیں۔ میں نے انٹرنیٹ سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں اور آپ ایک بہت اچھے مقرر بھی ہیں۔
• ایک مہمان اولیور وائسن بیرگر( Oliver Weissen berger) صاحب کہتے ہیں: میں بہت متاثر ہوا ہوں اور ہماری میزبانی بہترین طریق پر کی گئی۔ امام جماعت احمدیہ کی شخصیت بہت متاثر کن تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ میں آج یہاں پر موجود تھا۔ امام جماعت احمدیہ نے قابل ستائش امن کا پیغام دیا ہے جس کی اس وقت دنیا کو اشد ضرورت ہے۔ اس سے قبل میرا یہ تاثر تھا کہ اسلام دوسرے مذاہب سے رواداری کا سلوک نہیں کرتا مگر خلیفہ نے اس بات کو مکمل طور پر رد فرمایا ہے اور دلیل کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا ہے۔
………………………………………………
21؍اکتوبر2019ءبروزسوموار
………………………………………………
حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےصبح7بجےبیت السبوح تشریف لاکر نمازفجرپڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پرتشریف لےگئے۔
صبح حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ نےدفتری ڈاک ،خطوط اوررپورٹس ملاحظہ فرمائیں اورہدایات سےنوازا۔حضورانورکی دفتری امورکی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
آج پروگرام کےمطابق بیت السبوح فرینکفرٹ سے برلن(BERLIN)کےلیے روانگی تھی۔حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ ساڑھےگیارہ بجےاپنی رہائش گاہ سےباہرتشریف لائے اور کچھ دیرکےلیےمسجدکےہال میں تشریف لےگئےجہاں تعلیم الاسلام کالج ربوہ اولڈسٹوڈنٹس کی انتظامیہ اورتاریخ کمیٹی وانتظامیہ اخباراحمدیہ جرمنی نےعلیحدہ علیحدہ گروپ کی صورت میں تصاویربنوانےکی سعادت پائی۔
حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکوالوداع کہنے کےلیےاحباب جماعت مردوخواتین کی ایک بڑی تعداد بیت السبوح کےبیرونی احاطہ میں جمع تھی۔حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزازراہِ شفقت احباب کے درمیان تشریف لےآئےاورقریباً 10منٹ احباب کےدرمیان رونق افروز رہے۔ اس دوران بچیاں گروپ کی صورت میں الوداعی دعائیہ نظمیں پڑھتی رہیں اورخواتین شرفِ زیارت سےفیضیاب ہوئیں۔
حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےازراہِ شفقت مختلف احباب سے گفتگو فرمائی۔
بیت السبوح کےکچن میں کام کرنےوالےایک نوجوان خالدکےہاتھ کی ایک انگلی پرپٹی بندھی ہوئی تھی اوراس کےہاتھ میں دردہوتی تھی۔حضورانورنے ازراہِ شفقت اس کےہاتھ کوپکڑکرہاتھ کےمختلف حصوں میں اپنی انگلی رکھ کرپوچھاکہ یہاں دردہوتی ہےیایہاں دردہوتی ہےاورپھرموصوف کے لیے ہومیونسخہ بھی تجویزفرمایا۔
بعدازاں11بج کر45منٹ پرحضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےاجتماعی دعاکروائی اوراپناہاتھ بلندکرکےسب کوالسلام علیکم کہااورقافلہ برلن(BERLIN) کےلیےروانہ ہوا۔
یہاں بیت السبوح(فرنکفرٹ)سے برلن کا فاصلہ 550 کلومیٹرہے۔پروگرام کے مطابق 325کلومیٹرکافاصلہ طے کرنےکےبعد2بج کر30منٹ پر علاقہ OSTERFELD میں واقع ہوٹلAMADEUSمیں تشریف آوری ہوئی۔ نمازظہروعصر کی ادائیگی اوردوپہرکے کھانےکاانتظام یہاں کیاگیاتھا۔
حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ نے 3بجے ہوٹل کے ایک ہال میں تشریف لا کر نماز ظہرو عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی اور دوپہر کے کھانےکے بعد 4بج کر15منٹ پر یہاں سےآگےبرلن کے لیے روانگی ہوئی یہاں سے برلن کا فاصلہ225کلومیٹرتھا۔قریباًاڑھائی گھنٹے کےسفرکےبعد6بج کر 45منٹ پر ‘‘مسجدخدیجہ’’ برلن میں حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا ورودمسعودہوا۔جہاں احباب جماعت نےبڑی تعدادمیں اپنےپیارےآقا کااستقبال کیا۔مردوخواتین کی ایک بڑی تعداددوپہرکےبعدسے ہی مسجدپہنچناشروع ہوگئی تھی اورحضورانورکی آمدپرمسجداورمشن ہاؤس کابیرونی احاطہ احباب سےبھراہوا تھا۔ اَھلاً وسھلاً ومرحباکی صدائیں ہرطرف سےآرہی تھیں۔بچیاں گروپس کی صورت میں خیرمقدمی گیت اوردعائیہ نظمیں پیش کررہی تھیں۔جونہی حضورانورگاڑی سےباہر تشریف لائےتوصدر جماعت برلن حافظ اسامہ احمدصاحب اورمبلغ سلسلہ برلن سعیداحمد عارف صاحب نےحضورانور کوخوش آمدیدکہا۔
حضورانورنےاپناہاتھ بلند کرکےسب کوالسلام علیکم کہا اوراپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔
مسجدخدیجہ برلن شہرکےعلاقہPANKOWمیں واقع ہےاوربرلن شہرکایہ علاقہ سابقہ مشرقی جرمنی میں شامل تھا۔مسجدخدیجہ کاسنگِ بنیادحضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاپنےدورہ جرمنی کے دوران2جنوری2007ءکورکھاتھا اورمسجدکی تعمیرمکمل ہونے کےبعد17؍اکتوبربروز جمعۃالمبارک 2008ء کواس کاافتتاح فرمایاتھا۔
اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے 2 ہال ہیں اور ہرہال کارقبہ168مربع میٹر ہے۔ مسجدکےمینارکی اونچائی 13 میٹر ہے اورگنبدکاقطر9میٹرہے۔
مسجدکی تعمیرکےساتھ اسی احاطہ میں ایک رہائشی حصہ اوردفاتر تعمیرکیےگئے ہیں۔رہائشی حصہ میں ایک4کمروں کی رہائش گاہ،اس کےعلاوہ2کمروں کی رہائش گاہ اورایک کمرہ مہمان خانہ شامل ہے،اس کےعلاوہ4دفاتر،ایک لائبریری اورایک کانفرنس روم شامل ہے۔یہاں بڑے جماعتی کچن کی سہولت بھی موجود ہےاور22گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ ہے۔
یہ تاریخی مسجد1.7ملین یورومیں مکمل ہوئی تھی اوراس کےاخراجات لجنہ اماءاللہ نےبرداشت کیےتھےاوراس مسجد کاڈیزائن محترمہ مبشرہ الیاس صاحبہ نےتیار کیاتھا۔ یہ مسجد صرف خواتین کی مالی قربانیوں سےتعمیرہو ئی تھی۔1.3ملین یورو کا خرچ لجنہ اماءاللہ جرمنی نےبرداشت کیاتھاجبکہ بقیہ4لاکھ یورومیں سےبڑاحصہ لجنہ اماءاللہ یوکےنے اداکیاتھا۔یہ2منزلہ مسجددور سےنظرآتی ہےاوراس کابلندمیناراورگنبدلوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتےہیں۔
حضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے8بجےمسجدخدیجہ تشریف لاکرنماز مغرب وعشاءجمع کرکےپڑھائیں۔نمازوں کی ادائیگی کےبعدحضورانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنی رہائش گاہ پرتشریف لےگئے۔
شہربرلن1183ء سے دریائےSPREEکےکنارے آبادہے۔892مربع کلومیٹرکےرقبہ پرمشتمل اس شہرکی آبادی3.4ملین ہے۔1871ء میں اس شہرکوپہلی بارجرمنی کے دارالحکومت کادرجہ حاصل ہوا۔دوسری جنگِ عظیم میں اس شہر کی آبادی4.3ملین تھی جس میں سے2.8ملین لوگ زندہ بچے اور6لاکھ مکانات تباہ ہوئے۔دیواربرلن کی تعمیر سےیہ شہر2حصوں میں تقسیم ہوگیااورایک حصہ روس کےزیرِ اثر آگیاجومشرقی جرمنی کہلاتاتھا۔10نومبر1989ءکودیوارِ برلن گرائی گئی اوریوں برلن کےدونوں حصے اکٹھے ہوگئے۔
یہاں‘‘مسجدخدیجہ’’اس لحاظ سےتاریخی اہمیت کی حامل ہےکہ یہ مسجدشہرکےاس حصہ میں تعمیرہوئی ہے جو روس کے زیرِاثرتھااوراس تاریخی مسجد کی تعمیرکاچرچا دنیا بھر کےپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیانےکیاتھا۔
…………………………………………………………(باقی آئندہ )