الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

اس کالم ميں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامين کا خلاصہ پيش کيا جاتا ہے جو دنيا کے کسي بھي حصہ ميں جماعت احمديہ يا ذيلي تنظيموں کے زيرانتظام شائع کيے جاتے ہيں۔

قرآن کريم کي صداقت کا روشن نشان فرعون کي لاش کي دريافت

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ جون 2012ء ميں مکرم عامر شہزاد عادل صاحب نے فرعونِ مصر کي لاش کي کئي صديوں بعد دريافت کو قرآن کريم کي صداقت کے روشن نشان کے طور پر اپنے مضمون ميں پيش کيا ہے۔

فراعينِ مصر ميں سے رعمسيس ثاني بہت مشہور فرعون تھا جس کے عہد کي تعميرات اور کثير تعداد ميں مجسمے آج بھي موجود ہيں۔ قاہرہ کے ايک معروف علاقہ کا نام ‘‘رعمسيس سکوائر’’ ہے جس ميں رعمسيس کا بڑا مجسمہ نصب ہے جسے مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے تعمير کروايا تھا۔

رعمسيس نے 1304 سے 1237 قبل مسيح تک 67 سال حکومت کي۔ اسي فرعون کے گھر حضرت موسيٰ عليہ السلام نے پرورش پائي۔ سورةالفجر ميں اس کے ليے ‘‘فِرْعَوْنَ ذِالْاَوْتَادْ’’ کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہيں يعني وہ فرعون جو کيل کانٹوں سے ليس تھا۔

رعمسيس ثاني کے بعد اس کا بيٹا منفتاح تخت نشين ہوا جو فرعون خروج (Pharaoh of Exodus) کے نام سے مشہور ہے۔ اسي فرعون کے عہد ميں حضرت موسيٰ عليہ السلام کي قيادت ميں مصر سے بني اسرائيل نے خروج کيا۔ منفتاح نے اُن کا پيچھا کيا اور بحيرۂ قلزم ميں اپنے لشکر سميت غرق ہوا۔ سورت يونس ميں اس کا ذکر آتا ہے کہ آئندہ نسلوں کي عبرت کے ليے اس فرعون کي لاش محفوظ کرلي گئي ۔

آنحضرت ﷺ کے زمانہ ميں عربوں کو قطعاً علم نہيں تھا کہ فرعون کتنے تھے اور وہ کب سے حکومت کررہے تھے۔ يہ تاريخ تو انيسويں صدي ميں آشکار ہوئي جب ماہرين آثار قديمہ نے کھدائي کي۔ فرعونِ موسيٰ کي لاش 1907ء ميں ايک انگريز سرگرافٹن سمتھ کي مساعي سے برآمد ہوئي تھي۔

ايک محقّق احمدبيگ لکھتے ہيں کہ حضرت موسيٰ ؑ کے فرعون دو تھے۔ اوّل رعمسيس دوم جس کا تعلق فراعين کے انيسويں خاندان سے تھا۔ اس خاندان کا باني رعمسيس اوّل تھا جس نے صرف دو سال حکومت کي تھي ۔ اس کا جانشين سيتي اوّل تھا جس کے بعد رعمسيس ثاني تخت نشين ہوا۔ خروج سے ايک سال پہلے اس کي وفات ہوئي اور منفتاح اس کا جانشين بنا جو بني اسرائيل کا تعاقب کرتے ہوئے بحيرۂ قلزم ميں غرق ہوا۔ کئي شہادتوں کي بِنا پر اس کي لاش شناخت کرلي گئي۔

انگريز ماہرين آثار قديمہ نے جب مميوں کو کھول کھول کر اُن کے حنوط کي تحقيق شروع کي اور 44 مميوں کا مشاہدہ کيا تو منفتاح کي پٹياں کھولنے پر سب حيران رہ گئے کہ اُس کے جسم پر نمک کي ايک تہ جمي ہوئي ہے جو کسي اَور ممي کے جسم پر نہيں پائي گئي۔ فرعون بحيرات مرّہ (Bitter Lakes) يعني کڑوے پاني کي جھيلوں ميں غرق ہوا تھا۔ بعدازاں انہيں نہرسويز ميں شامل کرليا گيا تھا۔ جزيرہ نما سيناء کے مغربي ساحل پر موجود پہاڑي کو ‘‘جبل فرعون’’ اور اس پہاڑي کے نيچے ايک غار ميں گرم پاني کے چشمے کو مقامي لوگ ‘‘حمامِ فرعون’’ کہتے ہيں اور سينہ بہ سينہ چلنے والي روايات کے مطابق کہا جاتا ہے کہ اس جگہ فرعون کي لاش ملي تھي۔

قديم مصري يہ عقيدہ رکھتے تھے کہ مرنے کے بعد روح پھر لاش ميں واپس آجاتي ہے۔ اسي بِنا پر مُردہ بادشاہوں کے ليے بڑے کمرے بناکر ممّي کے ساتھ کپڑے، برتن، خوراک اور زيور وغيرہ رکھ ديتے تھے۔ ممّي بنانے کا طريق يہ تھا کہ پہلے دماغ کا مغز، آنتيں اور دل وغيرہ نکال کر ايک نرم کپڑا جسم ميں بھر ديتے۔ پھر يہ لاش کئي ہفتے نمکين پاني کے ايک بيرل ميں گلے تک ڈبودي جاتي۔ پھر اسے نکال کر خشک کرتے اور اس پر بروزہ اور چربي وغيرہ مل کر پٹياں لپيٹ ديتے۔ يہ عمل ستّر دن ميں مکمل ہوتا۔ پھر نقّاش کي مدد سے ہرم کي ديوار يا کفن پر فرعون کي تصوير بھي بنا ديتے تھے تاکہ پہچاننے ميں غلطي نہ لگے۔

حضرت خليفةالمسيح الرابع رحمہ اللہ نے اپني کتاب Revelation, Rationality, Knowledge and Truth ميں فراعين موسيٰ کے بارے ميں تفصيلي تحقيق پيش فرمائي ہے۔ حضورؒ فرماتے ہيں: فرعون سے اللہ تعاليٰ کے اس خطاب کے ايک معني يہ ہوسکتے ہيں کہ اس کي زندگي بچانے کا وقت تو گزر چکا ہے لہٰذا اب صرف اس کا مُردہ جسم ہے جسے بچايا جائے گا۔ دوسرے ممکنہ معني يہ ہيں کہ ايمان لانے کا وقت اب گزر چکا ہے لہٰذا اس کي روح کو نجات نہيں ملے گي البتہ جسماني طور پر اسے بچاليا جائے گا۔ ہمارے نزديک قرآن کريم کي مراد مؤخرالذکر معني سے ہے۔ اس بحث کا نتيجہ کچھ بھي کيوں نہ نکلے کہ يہ فرعون ڈوبنے سے مرا تھا يا ڈوبتے ہوئے بچاليا گيا تھا، اس قرآني بيان کے اعجاز ميں کسي شک و شبہ کي گنجائش باقي نہيں رہتي کہ فرعون کا جسم بلاشبہ محفوظ رہا اور آئندہ نسلوں پر يہ حقيقت بالکل اسي طرح منکشف ہوئي جس طرح قرآن کريم نے پيشگوئي فرمائي تھي۔

يہ امر ہنوز حل طلب ہے کہ يہ فرعون رعمسيس ثاني ہي تھا يا کوئي اَور؟ ليکن اس امر ميں تو شک و شبہ کي گنجائش ہي نہيں کہ وادي شاہانِ مصر (Valley of Kings) سے برآمد ہونے والي ايک ممّي اسي فرعون کي ہے جس نے حضرت موسيٰ عليہ السلام سے ٹکر لي تھي۔ يہ ثابت کرنے کي ضرورت نہيں ہے کہ يہ رعمسيس ثاني تھا يا منفتاح تھا۔ دونوں کي ہي ممّياں محفوظ ہيں جو ہميشہ قرآني پيشگوئي پر مُہرِ تصديق ثبت کرتے رہيں گي۔

………٭………٭………٭………

چند شہدائے احمديت

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ جون 2012ء ميں چند شہدائے احمديت کا تذکرہ حضرت خليفةالمسيح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے جن ميں سے درج ذيل شہداء کا ذکرخير قبل ازيں الفضل ڈائجسٹ ميں شائع نہيں ہوا۔

محترم عبد الحميد صاحب شہيد

3؍اکتوبر 1974ء کو جماعت اسلامي کي تحريک پر مکرم ڈاکٹر رشيد احمد صاحب کے بارہ ميں ايک سوچي سمجھي سکيم تيار کرکے کنري ميں يہ مشہور کرديا گيا کہ انہوں نے قرآن کريم جلا ديا ہے۔ چنانچہ شہر کے اوباشوں اور غنڈوں پر مشتمل جلوس نکالا گيا جس کي پشت پناہي جماعت اسلامي اور پوليس کر رہي تھي۔ يہ جلوس ڈاکٹر رشيد صاحب کے کلينک پر حملہ آور ہوا اور اُسے مکمل تباہ کرديا۔ پھر اُن کے مويشيوں کے باڑے کو آگ لگادي۔ يہ ديکھ کر محترم عبدالحميد صاحب مويشيوں کو بچانے کے ليے آگے بڑھے تو ہجوم ميں سے کسي نے اُن پر گولي چلا دي اور وہ موقع پر ہي شہيد ہوگئے۔ شہيد مرحوم غيرشادي شدہ تھے۔ پسماندگان ميں والدين اور بہن بھائي تھے۔ آپ کے والد مکرم سردار احمد صاحب نے1987ء ميں وفات پائي۔

محترم بشارت احمد صاحب شہيد

مکرم بشارت احمد صاحب ولد غلام حسين صاحب يکم نومبر1948ء کو موضع تہال ضلع گجرات ميں پيدا ہوئے۔ مرحوم پيدائشي احمدي تھے۔ مرحوم کے چار بھائي اور ايک بہن تھي۔ آپ اپنے بھائيوں ميںسب سے چھوٹے تھے۔ آپ نے تہال سے پرائمري پاس کي اور ساتھ ہي قرآن کريم ناظرہ بھي پڑھ ليا۔ بعد ازاں 1966ء ميں ميٹرک کے بعد فوج ميں بھرتي ہوئے۔

1974ء ميں جماعت احمديہ کے خلاف ملک گير تحريک کے دوران تہال کے گردونواح کے چھ گاؤں تہال پر حملہ آور ہوئے، احمديوں کے گھروں کا سامان لُوٹ کر اور مال مويشي چھين کر مکان کو آگ لگادي گئي۔ وہاں کے .S.P چيمہ صاحب نے نہايت دليري سے ان شرپسندوں کو روکا بلکہ اس ہنگامہ ميں بلوائيوں ميں سے دو مارے بھي گئے۔ مخالفت وقتي طور پر تو کچھ سرد پڑگئي مگر چنگارياں اندر ہي اندر سلگتي رہيں۔ 7؍ اکتوبر 1974ء کو  شہيد مرحوم کے دو بھتيجوں نے گھر آکر بتايا کہ چند غيراحمدي لڑکے راستہ ميں تھے انہوں نے ہميں مرزائي مرزائي کہنا شروع کرديا اور ساتھ ہي پتھراؤ بھي کيا اور ہم مشکل سے جان بچاکر نکلے ہيں۔ مکرم بشارت احمد صاحب سے برداشت نہ ہوسکا۔ اٹھے کہ ميں ان کے گھر والوں کو کہتا ہوں کہ يہ کيا شرافت ہے کہ ہمارے بچوں کو بھي گلي ميں سے نہيں گزرنے ديتے، اپنے بچوں کو سمجھاؤ۔ سب نے روکا کہ آپ نہ جائيں، حالات خراب ہيں مگر آپ نہ مانے اور کہا کہ ميںان کو محض کہنے جا رہا ہوں کونسي لڑائي کرني ہے۔چنانچہ آپ ان بچوں کے گھر اُن کے والدين کو سمجھانے گئے تو اُن بچوں کي والدہ بولي تُوکافر ہے ہمارے گھر سے نکل جا۔ تُو نے ہمارا صحن ناپاک کرديا ہے۔ آپ باہر نکلے ہي تھے کہ منصوبہ کے مطابق وہاں چھپے ہوئے لوگوں نے پيچھے سے نکل کر آپ پر اندھادھند لاٹھيوں کے وار کرنے شروع کرديے۔ ايک لاٹھي آپ کے سر پر لگي جس سے سر کي ہڈي ٹوٹ گئي اور آپ بيہوش ہوکر گر پڑے اور حملہ آور بھاگ گئے۔ آپ کے اقرباء کو جب پتہ چلا تو فوراً موقعہ واردات پر پہنچے۔ آپ ميں ابھي زندگي کي رمق موجود تھي چنانچہ آپ کو ہسپتال پہنچايا گيا مگر آپ زخموں کي تاب نہ لاکر شہيد ہوگئے۔ آپ نے اپنے پيچھے ايک بيٹي اور بيوہ چھوڑي۔

مکافات عمل ديکھيے کہ جس خاندان نے مکرم بشارت احمد صاحب کو شہيد کيا تھا اُن کا ايک بيٹا ريل گاڑي سے گر کر مرگيا اور اس کي لاش کے کئي ٹکڑے ہوگئے۔ جس وقت اُس کي نعش گاؤں لائي گئي تو اس ميں سے سخت بدبو آتي تھي۔ اس کي بقيہ نرينہ اولاد بھي منشيات کے دھندے ميں ملوّث ہوگئي اور سارا خاندان برباد ہوگيا يعني وہ عورت جس نے شرارت کي تھي اس کي اولاد کايہ حال ہوا۔

محترم چودھري عبدالرحيم صاحب شہيد اورمحترم چودھري محمد صديق صاحب شہيد

مکرم چودھري عبدالرحيم صاحب 1910ء ميں پيدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام چودھري شاہ نواز صاحب اور والدہ کا نام حاکم بي بي صاحبہ تھا۔شہيد مرحوم پيدائشي احمدي تھے۔ شہادت کے وقت آپ کي عمر قريباً ساٹھ سال تھي۔ آپ کا گاؤں ‘تلونڈي جُھنگلاں’قاديان سے چار ميل کے فاصلہ پر تھا۔ 1947ء ميں ہجرت کرکے پہلے کھرولياں ضلع سيالکوٹ ميں رہائش اختيار کرلي۔ پھر چار سال کے بعد فيصل آباد ميں سسرال کے ہاں چند سال گزارے۔ 1961ء ميں موسيٰ والا چلے آئے جہاں آپ کو زمين کي الاٹمنٹ ہوئي تھي۔

موسيٰ والا ميں مسجد احمديہ ميں احمدي اور غيراحمدي دونوں نماز پڑھتے تھے۔ بعد ميں ايک اور مسجد تيار کي گئي جو کہ غيراحمديوں نے گاؤں ميں ہي واقع اپني زمين پر تعمير کروائي۔ فريقين نے اس ميں حصہ ڈالا اور احمدي اور غيراحمدي دونوں اپني اپني نماز عليحدہ پڑھنے لگے۔ گاؤں کے چند شرپسندوں اور ڈسکہ شہر سے مولويوں نے آکر اندر ہي اندر شرارت کا منصوبہ بنايا۔ مسجد کے اردگرد آباد مقامي لوگ ايک برادري کے تھے اور آپس ميں باہم رشتہ دار تھے جس کي وجہ سے ان کا يہ منصوبہ ظاہر نہ ہوسکا۔

26؍ستمبر 1976ء کو نماز عيد پڑھني تھي جہاں  غيراحمدي بھي نماز پڑھتے تھے۔ نمازفجر کے بعد چودھري عبدالرحيم صاحب نے اپنے دو بيٹوں کوکہا کہ صفيں وغيرہ عيدگاہ لے جائيں اور ساتھ ہي خود بھي تيار ہوگئے۔ شرپسندوں نے منصوبہ کے مطابق پہلے ان لڑکوں پر حملہ کرديا۔ جب چودھري عبدالرحيم صاحب اور ان کے بھائي محمد صديق صاحب عيدگاہ ميں داخل ہوئے تو چند افراد نے ان دونوں پر بھي کلہاڑيوں اور ڈنڈوں کے ذريعہ اچانک حملہ کرديا جبکہ يہ دونوں خالي ہاتھ تھے۔ چودھري عبدالرحيم صاحب زخموںکي تاب نہ لاکر ايک گھنٹہ کے بعد اپنے خالق حقيقي سے جا ملے اور چند گھنٹے بعد چودھري محمد صديق صاحب نے بھي دَم توڑ ديا۔

چودھري عبدالرحيم صاحب نے بيوہ امانت بي بي صاحبہ کے علاوہ پانچ بيٹے اور دو بيٹياں چھوڑيں۔ چودھري محمد صديق صاحب کے پسماندگان ميں آپ کي بيوہ عائشہ بي بي صاحبہ کے علاوہ  تين بيٹے اور تين بيٹياں شامل تھے۔

………٭………٭………٭………

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ نومبر 2011ء ميں مکرم عبداللہ زرتشت صاحب کے قلم سے درج ذيل دو شہدائے احمديت کا تذکرہ حضرت خليفةالمسيح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔

مکرم رستم خان خٹک صاحب شہيد

خلافت ثالثہ کے عہد کے پہلے شہيد مکرم رستم خان صاحب تھے جنہيں مردان ميں 11؍فروري 1966ء کو شہيد کرديا گيا۔ آپ پشاور کے قريب ايک گاؤں جلوزئي کے رہنے والے تھے۔ خود احمدي ہوئے تھے اور اپنے علاقے ميں اکيلے احمدي تھے۔ سارا گاؤں ان کا مخالف ہوگيا، انہيں گھر سے نکال ديا گيا اور جائيداد سے عاق کرديا گيا۔ مختلف طريقوں سے دبائو بھي ڈالاگيا کہ قاديانيت سے توبہ کرلو۔ ان کي پانچ بيٹياں اور ايک بيٹا ہے۔ چچا وغيرہ چاہتے تھے کہ ان کي نسل کو ہي ختم کر ديا جائے۔ چنانچہ بيٹيوں کو گاؤں لے جاکر بيچنے کي اور بيٹے کوبارہا جان سے مارنے کي کوشش کي گئي۔ شہيد اپني سروس کے سلسلے ميں زيادہ تر باہر رہتے تھے۔ گاؤں کي مسجد کے مولوي نے فتويٰ ديا کہ جو کوئي رستم خان کي نسل کو ختم کرے گا وہ جنّتي ہوگا۔ ان کي بيگم کو ايک دو دفعہ کسي مرگ پر گاؤں جانا ہوا تو کھانے پينے کے برتن الگ ہوتے تھے۔ سب اچھوتوں والا سلوک کرتے تھے۔ کھانے ميں زہر ملانے کي بھي ناکام سازش کي گئي۔

جب 9؍فروري 1966ء کو شہيد کے والدکي وفات ہوئي تواُن کي لاش لے کر يہ فيملي گائوں گئي۔ گاؤں ميں مولوي نے اعلان کيا کہ لوگو! خوش ہو جاؤ، آج رستم خان قادياني آيا ہے۔ اس کو قتل کردو اور اس کي اولاد کو علاقہ غير ميں بيچ دو يا پھر گاؤں ميں بياہ دو۔ اس کا ايک بيٹا ہے اس کو مار ڈالو اور اب جو بھي ثواب کمانا چاہتا ہے، بہادر بنے اور سامنے آئے کيونکہ جنّت کمانے کا بڑا ذريعہ سامنے آيا ہے۔

رات کو رستم شہيدکے والدکي تدفين سے پہلے جب يہ اعلان ہوا توانہوں نے اپني بيگم کو بلاکر کہا کہ تم کسي طرح سے اپنے بھائيوں عبدالسلام اور عبدالقدوس کو اطلاع کرو کہ وہ تعزيت کے بہانے گاؤں آئيں اور بچوں کو ساتھ لے جائيں کيونکہ حالات ٹھيک نہيں ہيں اور مجھے بيٹيوں کا خطرہ ہے۔

دوسري طرف بيٹا عبدالحميد جو اُن دنوں کيڈٹ کالج حسن ابدال ميں پڑھتا تھا اور اٹھارہ سال کا تھا، دادا کي وفات پر گاؤں آ رہا تھا۔ جونہي وہ گاؤں پہنچا۔ اُس نے ديکھا کہ ايک شخص منہ پر ڈھاٹا باندھے گاؤں کے باہر جہاں ويگن رُکتي ہے، ايک جگہ چھپ کر بيٹھا ہوا تھا۔ عبدالحميد نے اُس کو ديکھ ليا اور پيچھے سے جاکر پکڑ ليا۔ ديکھا تو وہ اُس کا چچا تھا۔ اس نے کہاچچا آپ۔ چچا گھبرا کر بولا کہ ہاں مَيں تمہاري حفاظت کے ليےبيٹھا تھا کيونکہ لوگ تمہيں قتل کرنا چاہتے ہيں۔ اُس نے جب يہ واقعہ اپني امي کو سنايا تو وہ اَور بھي پريشان ہوگئيں اور انہيں اور دوسرے بچوں کو ماموں کے آنے پر وہاں سے نکلواديا۔

دوسرے روز 11؍فروري 1966ء کو رستم خان شہيد صبح کي نماز کے ليےوضو کرنے کھيتوں کي طرف جا رہے تھے تو فائر کي آواز آئي۔ان کي بيگم يہ آوازسن کر باہر کي طرف بھاگيں۔ پيچھے سے رستم شہيد کے بھائيوں نے پکڑليا ليکن وہ چونکہ پہلے سے چوکنّا تھيں اس ليےاُن کو دھکا دے کر باہر نکل گئيں۔ باہر جاکر ديکھا تو دشمن اپنا کام کرچکے تھے اوران کے خاوند راہِ مولا ميں شہيد ہوچکے تھے۔ اب وہ لوگ بچوں کو ڈھونڈنے لگے ليکن بچے تو وہاں سے پہلے ہي نکل چکے تھے۔ان کي بيگم کو اللہ تعاليٰ نے صبر کي طاقت دي۔ گاؤں کے مولوي نے آکر کہا کہ کِس پر رپورٹ درج کروگي؟ انہوں نے کہا يہ معاملہ خدا کے سپرد ہے۔ تم سب لوگ راستے سے ہٹ جاؤ۔ ميں اپنے خاوند کي لاش کو پشاور لے کے جاؤں گي اور وہاں ہماري جماعت کے لوگ دفن کريں گے۔ ايک بيوہ عورت کي دلجوئي کي بجائے تمام گاؤں والے ان پر دباؤ ڈالنے لگے کہ اس کو يہيں دفنا دو اور بچوں کو ہمارے سپرد کردو تاکہ ہم انہيں پھر مسلمان بناليں۔

اس وقت ان کي بيگم نے نعش کے سامنے ايک تقرير کي کہ ‘‘آج تو ميں اپنے خاوند کي لاش کو يہاں سے لے جاکر رہوں گي۔ ليکن ياد رکھنا کہ جس سچائي کو رستم خان نے پايا تھا، مَيں اور ميري اولاد اُس سے مُڑنے والے نہيں۔ ان شاء اللہ رستم خان کي نسل پھيلے گي’’۔ تمام لوگوں نے کہا کہ يہ عورت پاگل ہوگئي ہے، بجائے بَين کرنے کے بڑي بڑي باتيں کرتي ہے۔ اگلے دن ان کي بيگم شہيد کي لاش لے کر پشاور آئيں اور وہاں تدفين ہوئي۔

ايک سال کے اندر اندر ان کے ايک بھائي جس نے ان کے بيٹے کو مارنے کي کوشش کي تھي، اُس کا جواں سال اکلوتا بيٹا کنويں ميں ڈوب کر مر گيا۔ دوسرے چچا کے بيٹے کا ايکسيڈنٹ ہوگيا۔ تيسرے چچا کو ناگہاني موت آگئي۔ اور ايک چچا کا سارا گھر بارشوں سے گر گيا اور اُس کے دو بچے موقع پر ہي مَرگئے۔ جبکہ شہيد مرحوم کے بيٹے کرنل عبدالحميد خٹک راولپنڈي ميں رہتے ہيں اور پانچوں بيٹياں امريکہ و کينيڈا ميں اپني فيمليوں کے ساتھ خوش و خرم ہيں۔

محترم مولوي عبد الحق نور صاحب شہيد

آپ قاديان کے قريب ايک گاؤں ‘‘بھٹياں گوت’’ کے رہنے والے تھے۔ آپ کے والد مکرم الٰہي بخش صاحب ايک معروف زميندار تھے اور ہندو، سکھ اور مسلمان سب آپ سے اپنے معاملات کے فيصلے کرواتے تھے۔ آپ نے چار سال تک بطور ہيڈماسٹر ملازمت کي اور پھر ملازمت کو خيرباد کہہ ديا۔ لمبي سوچ بچار اور دعاؤں کے بعد 1934ء کے جلسہ سالانہ پر بيعت کي تو شديد مخالفت شروع ہوگئي۔ آپ نے مخالف مولوي کو دعوتِ مباہلہ دي جس ميں آپ نے تحرير کيا کہ ‘‘اگر حضرت مسيح موعود عليہ السلام سچے ہيں تو سب سے پہلے مخالف مولوي کا بيٹا مرے گا اور اس کے بعد وہ خود بھي مر جائے گا’’۔ چنانچہ مولوي محمد اسماعيل جس کے ساتھ آپ نے مباہلہ کيا تھا مر گيا۔ يہ اطلاع آپ کے بھائي نے دي۔ آپ نے جوش ميں آکر کہا کہ تحرير مباہلہ ميں تو تھا کہ اس کا بيٹا پہلے فوت ہوگا۔ جاکر پتہ کرو کہ اس کا بيٹا فوت ہوا ہے کہ نہيں۔ چنانچہ پتہ کرنے سے معلوم ہوا کہ پہلے مولوي مذکور کا بيٹا فوت ہوا تھا اور پھر وہ مرا۔ اس واقعہ کو ديکھ کر آپ کے بھائي نے بھي بيعت کرلي۔

1942ء ميں آپ کرونڈي منتقل ہوگئے اور زمينوں کے ٹھيکے وغيرہ لينے شروع کيے۔ آپ بہترين داعي الي اللہ تھے۔ آپ کي تبليغ سے آپ کے رشتہ داروں ميں سے قريباً پچاس افراد احمدي ہوئے۔ کرونڈي جماعت کي داغ بيل آپ نے ہي ڈالي۔ شہادت کے وقت تک کرونڈي جماعت کے صدر تھے۔ زميندارہ کا وسيع تجربہ ہونے کي وجہ سے شہيد مرحوم کو تقسيم ہند کے بعد محمود آباد، ناصر آباد اور دوسري اسٹيٹس ميں کام کي نگراني پر مقرر کيا گيا۔

دسمبر1966ء ميں بعض شرپسند عناصر نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنايا اور کرائے کے دو قاتل اس غرض کے ليےبھيجے جو آپ کے پاس اس انداز سے آئے گويا وہ بيعت کرنا چاہتے ہيں۔ آپ حسب معمول ان کو تبليغ کرتے ہوئے شام کے وقت اپنے گھر لے آئے۔ ان کي خاطرمدارات کي، نمازيں باجماعت اداکيں۔ پھر فجر کي نماز پر آپ نے خود پاني گرم کرکے ان کو وضو کروايا اور انہيں نماز پڑھائي اور نماز کے بعد انہيں باہر اپنے باغ ميں سير کروانے لے آئے۔ جب کافي دير ہوگئي تو آپ کے بيٹے نے اپنے ايک بھتيجے سے کہا کہ جاکر ديکھو وہ واپس کيوں نہيں آئے۔ بھتيجے نے ديکھا کہ وہ مہمان جو مولوي صاحب کے ساتھ باغ ميں گيا تھا بھاگ رہا ہے۔ اُسے شک ہوا تو اُس نے اپنے چچا کو بھي آواز دي۔ پھر دونوں نے باغ ميں ديکھا تو مولوي صاحب شہيد کرديے گئے تھے۔ شہيد مرحوم موصي تھے۔ ايک سال تک کرونڈي ميں امانتاً دفن رہے پھر ربوہ ميں بہشتي مقبرہ ميں تدفين عمل ميں آئي۔

………٭………٭………٭………

عزيزم معيد وشال احمد کھرل

ماہنامہ ‘‘مصباح’’ ربوہ اکتوبر 2011ء ميں مکرمہ ناصرہ کھرل صاحبہ آف ہالينڈ نے اپنے واقفِ نَو بيٹے عزيزم معيد وشال احمد کھرل کي ياديں بيان کي ہيں جو قريباً دس ماہ تک کينسر ميں مبتلا رہنے کے بعد وفات پاگيا۔

مضمون نگار رقمطراز ہيں کہ 1974ء ميں سارا خاندان مُرتد ہونے کے باوجود ميرے والد صاحب اس ليےاحمديت پر قائم رہے کيونکہ ايک شام نيم کشفي حالت ميں انہوں نے ‘‘احمديت سچي جماعت ہے’’لکھا ہوا ديکھا تھا۔ يہ اُن کے دل ميں گڑ گيا۔

ميرا بيٹا ابھي آٹھويں ميں تھا کہ اُس کے اساتذہ نے ہميں بلايا اور کہا کہ يہ مستقبل کا آئن سٹائن ہے۔ ليکن افسوس کہ اوليول شروع ہوتے ہي وہ کينسر کے جان ليوا مرض ميں مبتلا ہوگيا۔ اسي دوران اُس کے دل ميں حضورانور سے ملاقات کي شديد خواہش پيدا ہوئي۔ حُسن اتفاق تھا کہ حضورانور اُنہي دنوں ہالينڈ تشريف لے آئے اور ہم برف باري کے باوجود ڈيڑھ گھنٹے کا سفر تين گھنٹے ميں کرکے ملاقات کے ليےپہنچ گئے۔ حضورانور نے ہوميوپيتھک علاج کي تاکيد کي اور دعائيں ديں شايد اسي ليے اُس کا آخري دس ماہ کا عرصۂ حيات صبر وسکون اور حوصلے سے گزرا۔

عزيزم وشال کو جامعہ جانے کي تمنّا تھي۔ نماز وقت پر ادا کرتا، قرآن کريم کي تلاوت باقاعدہ کرتا، مسجد ميں جانے کے ليےبے چين رہتا۔

خواب ميں کئي مرتبہ حضرت مسيح موعودؑ کي زيارت کي۔ ايک خواب ميں حضرت مسيح موعودؑ کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے حضورؑ نے فرمايا کہ ‘تم معيد ہو’۔ اس کے بعد اُس نے اعلان کرديا کہ اُسے آئندہ معيد کہہ کر ہي پکارا جائے۔

ايک اَور خواب ميں اُس نے ديکھا کہ اسپتال ميں وہ حضورؑ کي تصوير کے سامنے کھڑا ہے اور پوچھنا چاہتا ہے کہ مَيں ٹھيک ہوگيا ہوں ليکن يہ معجزہ کيسے ہوگيا؟ پھر اپنے منہ سے چيونگم نکال کر جب وہ تصوير کي طرف پلٹا تو اب وہاں فريم ميں شہيدانِ لاہور ميں سے ايک شہيد کي تصوير تھي۔ يہ خواب سنتے ہي ميرے دل ميں جيسے خطرے کي گھنٹي بجي۔ اور الٰہي تصرف ديکھيے کہ وہ سانحہ لاہور کے ايک سال بعد ٹھيک اُسي دن يعني 28مئي 2011ء کو خداتعاليٰ سے جاملا۔ شام چھ بجے اُسے بے چيني شروع ہوئي اور اُس نے سونے کي خواہش کي۔ مَيں وضو کرکے اُس کے پاس آبيٹھي اور قرآني آيات پڑھني شروع کيں۔ اُس نے اچانک آنکھ کھولي، سوري ماما کہہ کر اور گہري سانسيں ليتے ہوئے آنکھيں ہميشہ کے ليےبند کرليں۔

………٭………٭………٭………

گينز بُک آف ورلڈ ريکارڈ

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ جنوري 2011ء ميں گينز بُک آف ورلڈ ريکارڈ کے بارے ميں مکرم راجہ اطہر قدوس صاحب کا ايک معلوماتي مضمون شامل اشاعت ہے۔

10؍نومبر 1945ء کي شام آرتھرگينس سن اينڈ کمپني کے مينيجنگ ڈائريکٹر Sir Hugh Beaver آئرلينڈ ميں پرندوں کا شکار کھيل رہے تھے۔ انہوں نے Golden Plovers کے ايک غول کو نشانہ بنايا مگر پرندوں کي تيزي کے باعث ان کا نشانہ چُوک گيا۔ رات کو جب وہ اپنے ساتھيوں ميں بيٹھے تھے تو انہوں نے Plovers کو دنيا کا تيزرفتار ترين پرندہ قرار ديا۔ پھر لندن واپس آکر انہوں نے ايک ايسي کتاب کي اشاعت کا منصوبہ بنايا جس ميں دنيا کے سب سے بڑے، سب سے چھوٹے، سب سے تيز اور سب سے طويل چيزوں کے بارے ميں معلومات ہوں۔ خوش قسمتي سے اُن کے ادارے کا ايک افسر دو جڑواں بھائيوں Norris اور Ross Mc. Whirters سے واقف تھا جو ايک صحافي کے بيٹے تھے۔ انہيں بچپن ہي سے مختلف موضوعات پر ريکارڈ جمع کرنے کا شوق تھا اور انہوں نے بہت سي نادر اشياء بھي جمع کررکھي تھيں۔ 1951ء ميں انہوں نے اخبارات، انسائيکلوپيڈياز اور ايسے دوسرے اداروں کو اعدادوشمار کي فراہمي کا کام شروع کيا۔ بعدازاں انہوں نے اپني پہلي کتاب The Guiness Book of Superlatives کي پہلي جلد شائع کي جو 198 صفحات پر مشتمل تھي۔ کرسمس تک يہ کتاب Non-Fiction Best-Seller فہرست ميں پہلے نمبر پر آگئي۔ اس کے بعد اب تک سوائے 1957ء اور 1959ء کے يہ کتاب ہر سال باقاعدگي سے ريکارڈ update کرتے ہوئے شائع ہورہي ہے۔

اس وقت تک يہ کتاب 25 زبانوں ميں چھ کروڑ سے زيادہ تعداد ميں شائع ہوچکي ہے اور ہر ہفتے اس کتاب کي اشاعت ميں پچاس ہزار کاپيوں کا اضافہ ہوجاتا ہے۔

………٭………٭………٭………

ماہنامہ ‘‘تشحیذالاذہان’’ ربوہ اپریل 2011ء میں مکرم مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ بچوں کے حوالے سے کہی گئی اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:

خدا کے خلیفہ ، مرے نونہالو!
بتاؤ تو کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟
تمہارے دلوں میں ہر اِک کے لیے وہ
صفا و وفا دیکھنا چاہتے ہیں
ہر اِک قول و فعل میں وہ تمہارے
بھلا ہی بھلا دیکھنا چاہتے ہیں
صداقت کے انوار چہروں پہ ہر دَم
وہ جلوہ نما دیکھنا چاہتے ہیں
علوم و ہنر میں وہ سارے جہاں کے
تمہیں رہ نما دیکھنا چاہتے ہیں
اگر اُن کی ہر دَم اطاعت کرو گے
تو دنیا کے روشن ستارے بنو گے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button