چائے کا سفر…چین سے ہندوستان کیسے لائی گئی
چائے کی پیالی پر کتنے رشتے جوڑے جاتے ہیں، بزنس ڈیلز کی جاتی ہیں، معاہدے کیے جاتے ہیں، ٹوٹے دل جوڑے جاتے ہیں، پرانی یادیں تازہ کی جاتی ہیں، مضامین لکھے جاتے ہیں، غزلیں لکھی جاتی ہیں اور محفلیں بر پا کی جاتی ہیں۔ یہ سب چائے کے کرشمے ہیں۔ دنیا میں اس وقت پانی کے بعد چائے سب سے زیادہ پی جاتی ہے ۔
اگرچہ بعض ممالک میں چائے اور کافی میں زبردست مقابلہ پا یاجاتا ہے۔ مگر چونکہ کہا جاتا ہے کہ سبز چائے کے صحت پرمثبت اثرات زیادہ ہیں اس لیے اچھی صحت کے پیش نظر چائے زیادہ پی جاتی ہے۔
آج سے170؍سال قبل چین دنیا میں چائے کا واحد پروڈیوسر اور برآمدی ملک (Exporter)تھا ۔اس کی اجارہ داری برطانیہ نے کیسے ختم کی؟…اس میں ایک ما ہر نباتیات ، پلانٹ ہنٹراور سیاح کا ہاتھ ہے اور اس کی کہانی کچھ یوں ہے۔
سکاٹ لینڈ کے ماہر نباتیات رابرٹ فارچون (Robert Fortune 1812-1880)نے 1843ء میں چین کا سفر کیا جس کے اخراجات رائیل ہارٹی کلچرل سوسائٹی نے برداشت کیے تھے۔ اس کے چین جانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ معلوم کرے کہ چین میں ان مشروبات کی کون سی اقسام ہیں جو برطانیہ میں مقبول عام ہو چکی ہیں۔ چار سال بعد1847ء میں فارچون نے ایک کتاب شائع کی
Three Years, Wanderings in the Northern Provinces of China
جس میں اس نے چین کے شمالی صوبوں کے حالات قلم بند کیے جہاں چائے کاشت ہوتی تھی ۔ لیکن 1848ءمیں جب برٹش انڈیا کمپنی نے اس کو چین جانے کا دوبارہ کہا تو اس کا مقصد کچھ اَور تھا ۔یعنی وہ بجائے مطالعہ کے اس دفعہ ان مشروبات کے پودے اور بیج چوری کر کے لائے۔اس کام کے لیے اس کی سالانہ تنخواہ 500؍ پاؤنڈ مقرر ہو ئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کو ان پودوں کے کمرشل حقوق بھی دیے گئے جو وہ اس مہم کے دوران حاصل کرے گا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا خیال تھا کہ اگر چین سے چائے کے بہترین پودے اور بیج حاصل کر لیے جائیں تو پھر ہندوستان میں چائے کی کاشت آسان ہو جائےگی، اور اس طرح اس تجارت پر قبضہ ہو جائےگا جسے انیسویں صدی کی معاشیات اور تجارت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت تھی۔ اس مقصد کے لیے ایک پلانٹ ہنٹر، جاسوس، باغباں، اور چور کی ضرورت تھی جس میں یہ سارے خواص موجود ہوں۔
ہانگ کانگ کے Museum of Teawareکے مطابق جس وقت فارچون اس مہم پر روانہ ہوا، اس وقت چین میںچائے کی سالانہ پروڈکشن پچاس ہزار ٹن تھی جس میں انیس ہزار ٹن برآمد کر دی جاتی تھی۔ جبکہ1886ءمیں پروڈکشن 250,000ٹن تک پہنچ گئی اور ایکس پورٹ 134,000ٹن کی جاتی تھی۔ چین کی کل ایکسپورٹ میں چائے62فی صد تھی۔
اس وقت چین میں چائے دو ہزار سال سے پی جا رہی تھی اور دو سو سال بعد جب برطانیہ کے لوگوں کو اس کا نشہ چڑھ گیا، تو اس وقت برٹش انڈیا کمپنی کی چین سے تجارت پر مونوپلی ختم ہو چکی تھی،چائے کی ڈیمانڈ بڑھ چکی تھی مگر سپلائی بہت کم تھی۔ فارچون نے شنگھائی میں ایک چائے کی فیکٹری کا معائنہ کر نے کا پروگرام بنایا جس کے لیے اس نے چہرے کے بال منڈوا ئے اور مینڈارین لباس زیب تن کر لیا۔ یوں ایک سرکاری افسر بن کر اس نے خود کو ظاہر کیا کہ وہ چین کے کسی دوسرے صوبے سے یہاں آیا ہے۔لوگوں کو وہ ٹوٹی پھوٹی چینی زبان میںکہتا کہ میں چین کے ایک دور دراز صوبے سے ہوں جو دیوار چین کے اس پار ہے۔ فیکٹری کے مینیجر نے اس کو فیکٹری کا دورہ کرایا جہاں چائے کے پتے درختوں سے توڑے جاتے، ان کو سکھایا جاتا یا پھر ان کو گرم پانی میں ڈالا جاتا تھا۔
اکتوبر 1848ءمیں اس نے سبز چائے کی فیکٹری کا دورہ کیا اور مینو فیکچرنگ پروسیس کو بغور دیکھا۔ تین مزید فیکٹریوں کا معائنہ کیا اور جنوری 1849ء میں وہ شنگھائی واپس آگیا۔ فیکٹری والوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ فارچون یہاں ایک خاص مشن پر آیا تھا۔ یعنی وہ چائے کے بیجوں کو چوری کرے، ان کو ہارویسٹ کرنے کا طریقہ سمجھے، نیزیہ جانے کہ چائے کو پروسیس کیسے کیا جاتا ہے۔اس کے بعد وہ ہندوستان آئےجہاں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی چین کے مقابل پر چائے بنانے کا منصوبہ شروع کرنے والی تھی تا کہ چین کی چائے پراجارہ داری کو ختم کیاجا سکے۔ لیکن کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ فارچون کے اس اقدام سے ہندوستان جلد ہی نہ صرف چائے کا دنیا میں سب سے بڑا پروڈیوسر بلکہ مارکیٹ بھی بن جا ئےگا۔
انڈیا برانڈ ایکویٹی فاؤنڈیشن India Brand Equity Foundation کے مطابق 2018ءمیںچائے کی انڈین ایکسپورٹ 837.33 ملین ڈالرز تھی اور اس وقت انڈیا، چین کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر چائے پیدا کرنے والا ملک ہے۔
برطانیہ میں سب سے پہلی بار Chinese Tea چا ئنیز چائے1635ءمیں فروخت ہوئی جس کی ایک پاؤنڈ کی قیمت آج کے حساب سے 1200 ڈالرز بنتی ہے۔
چائے کی پیداوار اور اس کی پروڈکشن پر چین کی اجارہ داری انیسویں صدی کے آخرتک رہی۔ برطانیہ خود چائے کاشت نہ کرسکا بلکہ یہاں چائے ہالینڈ سے آتی تھی۔ اس کے بعد برطانیہ نے چین کے ساتھ معاہدہ کر کے چاندی کے عوض چائے لینا شروع کر دی جو جلد ہی چاندی کے بجائے افیون میںتبدیل ہوگئی جو برطانوی ہندوستان میں بھی کاشت کی جاتی تھی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1788ءمیں ارادہ کیا کہ چائے کی کاشت ہندوستان میں کی جائے جس سے برطانیہ میں چائے سستی قیمت پر دستیاب ہو جا ئےگی۔ اس دوران آسام میں کمپنی کے کارندوں نے جنگلی چائے کے پودے دریافت کیے جو آخر کار دارجیلنگ (نارتھ بنگال)پہنچ گئے۔
چین سے اپنے مشن کی تکمیل کے بعد فارچون نے کمپنی کو لکھا مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے مسرت ہوتی ہے کہ میں نے بیجوں اور پودوں کی بڑی تعداد کی سپلائی حاصل کر لی ہےاور مجھے امید ہے کہ یہ بخیریت ہندوستان پہنچ جائے گی۔فارچون نے یوں 13,000چائے کےپودے اور 10,000بیج جمع کر لیے ۔وہ مہینوں تک ان کو گلاس کی بوتلوں میں سٹور کر تا رہا تا کہ ان کولمبے سفر کے دوران ہوا اور کافی دھوپ پہنچتی رہے ، یہاں سے وہ ان کو ہانگ کانگ لے گیا جہاں اس مال و اسباب کو بحری جہاز پر لاد دیا گیا جو ہندوستان جا رہا تھا۔ مگر کلکتہ سے جہاز سیلون (سری لنکا)کی طرف موڑ دیا گیا ۔ یوں جب تک یہ بیج اور پودے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بوٹانیکل سٹوریج میں پہنچے یہ گل سڑ چکے تھے۔
اب فارچون نے1849ءمیں ایک بار پھر کوشش کی اور Wuyi Mountains سے پودوں کی ہزاروں شا خیں چوری کر لیں جو کالی چائے کے لیے مشہور ہیں۔ فارچون اور اس کے نئے خادم Sing Hooنے بچوں کو ملازم رکھ لیا کہ وہ بیج جمع کرنے میں ان کی مدد کریں، اس کے ساتھ انہوں نے قریب میں واقع خانقاہ سے پودے خرید لیے۔ ان نمونوں کو اس نے شنگھائی لے جا کر ہندوستان بھجوادیا۔ اس دفعہ اس نے بوتلوں کے اندر مٹی بھی رکھدی تا کہ راستے میں سفر کے دوران وہ پھوٹنا شروع ہو جائیں۔
اب تک ہندوستان میں کافی پی جاتی تھی مگر فارچون کی زندگی میں ہی ہندوستان چین سے چائے کی پیداوار میں سبقت لے گیا۔ رفتہ رفتہ کسانوں نے چائے کی پیداوار زیادہ کردی اور کافی کی کمی ہوتی گئی۔ 1869ءمیں کافی کے پودوں میں fungus لگ گیا جس سے کافی کی پیداوار کو نقصان پہنچا۔
زندگی کے آخری سالوں میں فارچون اس ارادے سے چین گیا کہ امریکہ کے فارمرز کے لیے چائے کے بیج لائے جو کیرولائنا اور ورجینیا کی ریاستوں میںکاشت کیے جا سکیں۔ مگر امریکی فارمرز کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کیونکہ سول وار کے بعد کھیتوں میں کام کر نے کےلیے غلام ملنے مشکل ہوگئے۔ فارچون کی جب 1880ءمیں وفات ہوئی تو اس وقت چوری کیے ہوئے چائے کے بیجوں کے علاوہ اس کی اسٹیٹ 5ملین ڈالرز تھی۔ ایک سال بعد لندن کی آکسفورڈ سٹریٹ پر ایک چائے کی دکان کا افتتاح ہوا جو انڈین ٹی کے لیے مخصوص تھی اور جلد ہی لندن کی مار کیٹوں اور ریستورانوں میں چائے فروخت ہونا شروع ہو گئی۔ ہندوستان میں چائے کی کاشت نے چین کا رول عالمی منڈی میں محدود کر دیا۔ ٹی ٹریڈ سے ہانگ کانگ کی کالونی وجود میں آئی، اور برٹش ایمپائر مشرق بعید میں اپنا اثر و رسوخ جمانے میں کامیاب ہو گئی۔ اب برطانیہ کی اقتصادیات کا انحصار چائے پر تھا۔
اب تک چائے ہندوستانیوں میں مقبول عام نہیں ہوئی تھی۔ لوگ اس کو انگلش مشروب کہتے تھے ۔ اس کو زیادہ تر برٹش امیگرینٹ یا ان سے سروکار رکھنے والے افراد پیتے تھے۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد انڈیا ٹی بورڈ نے ایک اشتہاری مہم شروع کی اور جلد ہی یہ مہم رنگ لائی۔ اس وقت چائے ہندوستانیوں کا پسندیدہ مشروب ہے۔
آج برطانیہ میں بارہ پودے ایسے ہیں جو فارچون کے نام سے منسوب ہیں۔ یہ پودے یورپ میں نہیں پائے جاتے تھے بلکہ یہ وہ ہیں جو ایک زمانے میں چین سے لائے گئے تھے۔
٭…٭…٭