کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ یہ جماعت گناہوں سے پاک ہو اور اپنے چال چلن کا عمدہ نمونہ دکھاوے

ہماری جماعت (جس سے مخالف بغض رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ جماعت ہلاک اور تباہ ہو جاوے)کو یاد رکھنا چاہیے کہ میں اپنے مخالفوں سے باوجود اُن کے بغض کے ایک بات میں اتفاق رکھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ یہ جماعت گناہوں سے پاک ہو اور اپنے چال چلن کا عمدہ نمونہ دکھاوے۔ وہ قرآن شریف کی تعلیم پر سچّی عامل ہواور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع میں فنا ہو جاوے۔ ان میں باہم کسی قسم کا بغض و کینہ نہ رہے۔ وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری اور سچی محبت کرنے والی جماعت ہو۔ لیکن اگر کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہو کر بھی اس غرض کو پورا نہیں کرتا اور سچی تبدیلی اپنے اعمال سے نہیں دکھاتا وہ یاد رکھے کہ دشمنوں کی اس مراد کو پورا کر دے گا وہ یقیناً ان کے سامنے تباہ ہو جاوے گا۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کا رشتہ نہیں اور وہ کسی کی پروا نہیں کرتا۔ وہ اولاد جو انبیاء کی اولاد کہلاتی تھی یعنی بنی اسرائیل جن میں کثرت سے نبی اور رسول آئے اور خدا تعالیٰ کے عظیم الشّان فضلوں کے وہ وارث اور حقدار ٹھہرائے گئے تھے۔ لیکن جب اس کی رُوحانی حالت بگڑی اور اُس نے راہ مستقیم کو چھوڑدیا۔ سرکشی اور فسق و فجور کو اختیار کیا۔ نتیجہ کیا ہوا؟ وہ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ(البقرۃ:62) کی مصداق ہوئی۔خد ا تعالیٰ کا غضب ان پر ٹوٹ پڑا۔ اور ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا۔ یہانتک وہ گِر گئے کہ انسانیت سے بھی اُن کو خارج کیا گیا۔ یہ کس قدر عبرت کا مقام ہے۔ بنی اسرائیل کی حالت ہر وقت ایک مفید سبق ہے۔ اسی طرح یہ قوم جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے وہ قوم ہے کہ خدا تعالیٰ اس پر بڑے بڑے فضل کرے گا۔ لیکن اگر کوئی اس جماعت میں داخل ہو کر خدا تعالیٰ سے سچی محبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچّی اور کامل اتباع نہیں کرتا وہ چھوٹا ہو یا بڑا کاٹ ڈالا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ ہو گا۔ پس تمہیں چاہیے کہ کامل تبدیلی کرو اور جماعت کو بدنام کرنے والے نہ ٹھہرو۔

امتیازِ ذات

بعض نادان ایسے بھی ہیں جو ذاتوں کی طرف جاتے ہیں اور اپنی ذات پر بڑا تکبّر اور ناز کرتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی ذات کیا کم تھی جن میں نبی اور رسول آئے تھے لیکن کیا اُن کی اس اعلیٰ ذات کا کوئی لحاظ خدا تعالیٰ کے حضور ہوا۔ جب اس کی حالت بدل گئی۔ ابھی میں نے کہا ہے کہ ان کا نام سؤراور بندر رکھا گیا اور اسے اس طرح پر انسانیت کے دائرہ سے خارج کر دیا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت لوگوں کو یہ مرض لگا ہوا ہے۔…میں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ذات کچھ بھی چیز نہیں ہے اور اُسے ذرا بھی تعلق نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جو سیّد ولد آدم اور افضل الانبیاء ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے صاف طور پر فرمایا کہ اے فاطمہؓ تو اس رشتہ پر بھروسہ نہ کرنا کہ میں پیغمبر زادی ہوں۔ قیامت کو یہ ہر گز نہیں پوچھا جاوے گا کہ تیرا باپ کون ہے۔ وہاں تو اعمال کام آئیں گے۔ میں یقیناً جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے قرب سے زیادہ دور پھینکنے والی اور حقیقی نیکی کی طرف آنے سے روکنے والی بڑی بات یہی ذات کا گھمنڈ ہے کیونکہ اس سے تکبّر پیدا ہوتا ہے اور تکبّر ایسی شئے ہے کہ وہ محروم کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ اپنا سارا سہارا اپنی غلط فہمی سے اپنی ذات پر سمجھتا ہے کہ میں گیلانی ہوں یا فلاں سیّد ہوں۔ حالانکہ وہ نہیں سمجھتا کہ یہ چیزیں وہاں کام نہیں آئیں گی۔

ذات اور قوم کی بات تو مَرنے کے ساتھ ہی الگ ہو جاتی ہے۔ مَرنے کے بعد اس کا کوئی تعلق باقی رہتا ہی نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں یہ فرماتا ہے۔

مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ(الزلزال:9)

کوئی بُرا عمل کرے خواہ کتنا ہی کیوں نہ کرے اس کی پاداش اس کو ملے گی۔ یہاں کوئی تخصیص ذات اور قوم کی نہیں اور پھر دوسری جگہ فرمایا

اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ(الحجرات:14)

اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکرّم وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔

پس ذاتوں پر ناز اور گھمنڈ نہ کرو کہ یہ نیکی کے لیے روک کا باعث ہو جاتا ہے۔ ہاں ضروری یہ ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرو۔ خدا تعالیٰ کے فضل اور برکات اسی راہ سے آتے ہیں۔ میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت ہمارے شامل حال ہو گی کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اور سچی اتباع کریں۔ قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستور العمل بناویں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں نہ صرف قال سے۔ اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے ۔ تو یقیناً یاد رکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہو سکتے اس لیے کہ خدا ہمارے ساتھ ہو گا۔

لیکن اگر ہم خدا تعالیٰ کے نافرمان اور اس سے قطع تعلق کر چکے ہیں تو ہماری ہلاکت کے لیے کسی کو منصوبہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ کسی مخالفت کی حاجت نہیں۔ وہ سب سے پہلے خود ہم کو ہلاک کر دے گا۔
ہمیشہ سے سنت اللہ اسی طرح پر چلی آئی ہے ۔ جب بنی اسرائیل نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی اختیار کی اور اس نے گناہ کیا۔ خدا تعالیٰ نے اس قوم کو ہلاک کیا۔ حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پیغمبر اُن میں موجود تھے۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہ سے سخت بیزار اور متنفر ہے۔ وہ کبھی پسند نہیں کر سکتا کہ ایک شخص بغاوت کرے اور اس کو سزا نہ دی جاوے۔

یہ بات بھی خوب یاد رکھو کہ گنہگار خداتعالیٰ پر ایمان اور یقین نہیں رکھتا۔ اگر ایمان رکھتا تو ہر گز گناہ کرنے کی جُرأت نہ کرتا۔ حدیث میں جو آیا ہے کہ چوری کرنے والا یا زانی یا بدکار اپنے فعل کے وقت مومن نہیں ہوتا۔ اس کا بھی یہی مطلب ہے کیونکہ سچا ایمان تو گناہ سے دُور کرتا ہے اور شیطان کی کشتی میں وہ شیطان پر غالب آجاتا ہے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص علانیہ بدکاری میں مبتلا ہے اور دوسری خطا کاریوں سے باوجودیکہ اُن کی بُرائی سے آگاہ ہے باز نہیں آتا تو پھر بجز اس کے اور کیا کہنا پڑے گا کہ وہ خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا۔ اگر ایمان رکھتا تو کیوں ان بدیوں سے نہ بچتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ گناہ سے سخت بیزار ہے اور اس کا نتیجہ بہت ہی بُرا اور تکلیف دہ ہے۔

(ملفوظات جلد 7صفحہ 187تا190۔ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button