انسان جب اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اور ساری راحت اور لذّت اللہ تعالیٰ ہی کی رضا میں پاتا ہے تو کچھ شک نہیں دنیا بھی اس کے پاس آجاتی ہے
جو شخص رُو بدُنیا ہوتا ہے وہ تھوڑی دُور چل کر رہ جاتا ہے کیونکہ نامرادیاں اور ناکامیاں آخر آکر ہلاک کر دیتی ہیں۔ لیکن جو شخص ساری قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ رُو بخدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کے لیے اس کی سب حرکات و سکنات ہوتی ہیں تو خدا تعالیٰ دنیا کو بھی ناک سے پکڑ کر اس کا خادم بنا دیتا ہے اگرچہ اس حالت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ دنیادار تو دُنیا کا دیوانہ ہوتا ہے لیکن یہ رُوبخدا شخص جس کی دنیا خادم کی جاتی ہے دنیا اور اس کی لذّتوں میں کوئی لذّت نہیں پاتا۔ بلکہ ایک قسم کی بدمزگی ہوتی ہے کیونکہ وہ لُطف اور ذوق دنیا کی طرف نہیں ہوتا بلکہ کسی اَور طرف ہوجاتا ہے۔
انسان جب اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اور ساری راحت اور لذّت اللہ تعالیٰ ہی کی رضا میں پاتا ہے تو کچھ شک نہیں دنیا بھی اُس کے پاس آجاتی ہے۔ مگر راحت کے طریق اَور ہو جائیں گے وہ دنیا اور اس کی راحتوں میں کوئی لذت اور راحت نہیں پاتا۔ اسی طرح پر انبیاء اور اولیاء کے قدموں پر دُنیا کو لا کر ڈال دیا گیا ہے مگر اُن کو دنیا کا کوئی مزا نہیں آیا۔ کیونکہ اُن کا رُخ اَور طرف تھا۔ یہی قانون قدرت ہے۔ جب انسان دنیا کی لذت چاہتا ہے تو وہ لذت اُسے نہیں ملتی لیکن جب خدا تعالیٰ میں فنا ہو کر دنیا کی لذت کو چھوڑتا ہے اور اس کی آرزو اور خواہش باقی نہیں رہتی تو دُنیا ملتی ہے مگر اس کی لذت باقی نہیں رہتی۔ یہ ایک مستحکم اصول ہے۔ اس کو بھولنا نہیں چاہئے خدایابی کے ساتھ دنیا یابی وابستہ ہے۔ خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرے گا اُسے تمام مشکلات سے نجات ملے گی اور ایسے طور پر اسے رزق دے گا کہ اُسے علم بھی نہ ہو گا۔ یہ کس قدر برکت اور نعمت ہے کہ ہر قسم کی تنگی اور مشکل سے آدمی نجات پا جاوے۔ اور اللہ تعالیٰ اُس کے رزق کا کفیل ہو۔ لیکن یہ بات جیساکہ خود اس نے فرمایا۔ تقویٰ کے ساتھ وابستہ ہے اور کوئی امر اس کے ساتھ نہیں بتایا کہ دنیوی مکروفریب سے یہ باتیں حاصل ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں کی علامات میں سے یہ بھی ایک علامت ہے کہ وہ دنیا سے طبعی نفرت کرتے ہیں۔ پس جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو جاوے اور دنیا اور آخرت کی راحت اُسے مل جاوے وہ یہ راہ اختیار کرے۔ اگر اس راہ کو تو چھوڑتا ہے اور اَور راہیں اختیار کرتا ہے تو پھر ٹکریں مار کر دیکھ لے کہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ ہوں گے جن کو نصیحت بُری لگے گی اور وہ ہنسی کریں گے لیکن وہ یاد رکھیں کہ آخر ایک وقت آ جائے گا کہ وہ ان باتوں کی حقیقت کو سمجھیں گے اور پھر بول اُٹھیں گے کہ افسوس ہم نے یونہی عمر ضائع کی۔ لیکن اس وقت کا افسوس کچھ کام نہ دے گا۔ اصل موقعہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور پیغام موت آ جائےگا۔
میں پھر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی فکر کرو۔ کیونکہ اگر خدا تعالیٰ مہربان ہو جاوے تو ساری دنیا مہربان ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ ناراض ہو تو پھر کوئی بھی کام نہیں آسکتا۔ جب اس کا غضب آگیا تو دنیا میں کوئی مہربان نہ رہے گا خواہ کیسا ہی مکر و فریب کرے۔ تسبیحیں ڈالے۔ بھگوے اور سبز کپڑے پہنے۔ مگر دنیا اس کو حقیر ہی سمجھے گی۔ اگر چند روز دنیا دھوکہ کھا بھی لے تو بھی آخر اس کی قلعی کُھل جائے گی اور اس کا مکر و فریب ظاہر ہو جائے گا۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے دنیا اس کی کتنی ہی مخالفت کرے وہ اپنی مخالفت اور منصوبوں میں کامیاب نہوگی۔ اس کو گالیاں دے۔ لعنتیں بھیجے۔ لیکن ایک وقت آجائے گا کہ وہی دنیا اس کی طرف رجوع کرے گی اور اس کی سچائی کا اعتراف اسے کرنا پڑے گا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اللہ جس کا ہو جاتا ہے دنیا بھی اس کی ہو جاتی ہے۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ ابتداءً اہل دنیا اُن کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اُسے قسم قسم کی تکلیفیں دیتے اور اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ کوئی پیغمبر اور مرسل نہیں آیا جس نے دُکھ نہ اُٹھایا ہو۔ مکار، فریبی، دکاندار اس کا نام نہ رکھا ہو۔ مگر باوجود اس کے کہ کروڑ ہا بندوں نے اس پر ہر قسم کے تیر چلانے چاہے۔ پتھر مارے۔ گالیاں دیں۔ انہوں نے کسی بات کی پروا نہیںکی۔ کوئی امر اُن کی راہ میں روک نہیں ہو سکا۔ وہ دنیا کو خدا تعالیٰ کی کلام سناتے رہے اور وہ پیغام جو لے کر آئے تھے اس کے پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ان تکلیفوں اور ایذارسانیوں نے جو نادان دنیا داروں کی طرف سے پہنچیں ان کو سُست نہیں کیا بلکہ وہ اَور تیز قدم ہوتے یہانتک کہ وہ زمانہ آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے وہ مشکلات ان پر آسان کر دیں اور مخالفوں کو سمجھ آنے لگی اور پھر وہی مخالف دنیا ان کے قدموں پر آگری اور اُن کی راستبازی اور سچائی کا اعتراف ہونے لگا۔
دل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں وہ جب چاہتا ہے بدل دیتا ہے۔
یقیناً یاد رکھو۔ تمام انبیاء کو اپنی تبلیغ میں مشکلات آئی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جو سب انبیاء علیہم السلام سے افضل اور بہتر تھے۔ یہانتک کہ آپ پر سلسلہ نبوت اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا یعنی تمام کمالاتِ نبوت آپ پر طبعی طور پر ختم ہو گئے۔ باوجود ایسے جلیل الشان نبی ہونے کے کون نہیں جانتا کہ آپ کو تبلیغ رسالت میں کس قدر مشکلات اور تکالیف پیش آئیں اور کفار نے کس حد تک آپ کو ستایا اور دُکھ دیا۔ اس مخالفت میں اپنی ہی قوم اور چچا اور دوسرے بزرگ سب سے بڑھ کر حصّہ لینے والے تھے۔ آپ کی مصیبتوں اور تکلیفوں کا زمانہ اتنا لمبا ہوا کہ تیرہ برس تک اپنی قوم سے ہر قسم کے دُکھ اُٹھاتے رہے۔ اس حالت میں کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص کامیاب ہو گا۔ کیونکہ ہر طرف مخالفت کا بازار گرم تھا اور خود اپنے رشتہ دار ہی تشنہ خون ہو رہے تھے جدّی اور برادری کے لوگوں نے جب قبول نہ کیا تو اَوروں کو اَور بھی مشکلات پیش آگئے۔ غرض اس طرح پر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم)کی مصیبتوں کا زمانہ دراز ہو گیا۔
(ملفوظات جلد 7 صفحہ 195تا 198۔ ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭