برصغیر پاک و ہند میں موجود مقدس مقامات
برصغیر پاک و ہند میں موجود مقدس مقامات جن کو مسیح الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعیننےبرکت بخشی
سفر امرتسر بابت کاپیاں براہین احمدیہ
حضرت مولوی نور احمد صاحبؓ لکھتے ہیں:
‘‘اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے ایسا ہوا کہ 1878ء میں حضرت غلام احمد صاحب نے پادری رجب علی کے مطبع سفیر ہند میں ‘‘براہین احمدیہ’’کے چھپوانے کا انتظام کیا۔ان کے پریس میرے سپرد تھے اور میرے ہی اہتمام سے سب کام ہوتے تھے۔ اور خاص کرکتاب ‘‘براہین احمدیہ’’ پادری صاحب نے چھاپنے کے لیے میرے سپرد کی اور مَیں نے اس کا اول حصہ اسی مطبع میں چھاپا۔پھرمَیں نے اپنا پریس علیحدہ لگالیا۔ چونکہ چھپائی کا کام میرے ہاتھ سے صفائی سے ہوتا تھا۔ اس لیے رجب علی صاحب نے دوسرا حصہ میرے ہی پریس میں چھپوایا اور تیسرا حصہ بھی۔ تیسرا حصہ میرے پریس میں چھپ رہا تھا تو پادری صاحب مذکور نے حضرت صاحب کو بڑے تقاضے کے خط لکھے کہ روپیہ جلد بھیجو۔
میں نے اپنا پریس ہال بازار میں کھڑا کیا تھا۔پادری صاحب نے بھی اپنا پریس ہال بازار میں ہی کھڑا کیا۔ ان کا مطبع ہال بازار سے ایک طرف کو تھا اور میرا مطبع بازار میں لبِ سڑک تھا۔ حضرت صاحب روپیہ لے کر قادیان سے امرتسر رجب علی صاحب کو دینے کے لیے تشریف لائے اور آپ نے ہال بازار میں چھاپہ خانہ دریافت کیا تو بتانے والے نے میرے مطبع کا پتہ بتادیا تو حضرت صاحب میرے مطبع میں تشریف لے آئے یہاں تیسرا حصہ براہین احمدیہ کا چھپ رہا تھا۔ حضرت صاحب نے سمجھا کہ رجب علی کا یہی پریس مین ہو گا۔ میں گھر پر تھا میرے ملازموں سے آپ نے فرمایا کہ پادری رجب علی صاحب کہاں ہے انہیں بلاؤ۔ جب مجھے اطلاع ہوئی، گھر قریب ہی تھا ،میں جلد آیا اور السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کیا۔ حضرت صاحب رجب علی کو تو جانتے تھے اور مجھ سے واقف نہ تھے۔ مجھ کو دیکھ کر متعجب سے ہوئے اور فرمایا یہ پریس رجب علی صاحب کاہے؟ میں نے ادب سے عرض کیا کہ آپ ہی کا ہے۔ پھر فرمایا کہ رجب علی صاحب کا پریس کہا ں ہے؟ اور ہماری کتاب جو چھپ رہی ہے اس مطبع میں کیسے آئی؟ میں نے عرض کیا کہ یہ ساری کتاب میں نے اپنے مطبع ‘‘ریاض ہند’’ میں چھاپی ہے۔ صرف پہلا حصہ پادری صاحب کے پریس میں چھپا ہے۔ اور وہ بھی میں نے ہی چھاپا ہے۔ اب ان کا پریس بند ہے اور وہ خیر الدین کی مسجد کے پیچھے رہتے ہیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ رجب علی صاحب ہمیں تنگ کرتے ہیں اور پیشگی روپیہ لے لیتے ہیں اور وقت پر کام نہیں دیتے۔ اب ہم ان کو روپیہ دینے آئے ہیں اور کتاب ابھی چھپی نہیں اگر پہلے سے ہمیں معلوم ہوتا تو آپ سے ہی چھپواتے۔ ہمیں اس وقت بڑی خوشی ہوئی کہ ایک مسلمان کے مطبع میں کتاب چھپ رہی ہے۔ اور ہمارا یہ منشاء ہے کہ جلد چہارم آپ ہی چھاپیں اور چھپنے کے بعد جب کتاب مکمل ہو جائے تو ایک ماہ کے بعد بتدریج آپ کو روپیہ دیں کیا آپ یہ انتظام کرسکتے ہیں۔ خاکسار نے عرض کیا کہ مجھے منظور ہے۔ آپ ایک ماہ بعد بتدریج عنایت فرمانا شروع کریں۔ حضرت نے اس پر بڑی خوشی ظاہر فرمائی اور جلد چہارم چھاپنے کے لیے مجھے کہا اور فرمایا کہ کاغذ بھی اپنے پاس سے لگاؤ اور چھپائی اور ترتیب اور کٹائی اور سلائی سب کام تیار اور مکمل کر کے ہمیں دو۔ میں نے سب کچھ منظور کر لیا اور کچھ عرصہ بعد کتاب چھاپنی شروع کر دی اور پروف صحت کے واسطے قادیان آپ کی خدمت میں روانہ کرتا رہا۔ یہ پہلی ملاقات حضرت مسیح موعود ؑ کی مجھ سے ہوئی اور میں قادیان شریف اس عرصہ میں کبھی کبھی آتا رہا۔
(رسالہ نور احمد۔ صفحہ 6،5طبع ثانی پاکستان ٹائمز پریس رتن چند روڈ لاہور)
٭…٭…٭