اعمال صالحہ کرنے والے صالحین ہوتے ہیں پھر اُن کو صالحین میں داخل کرنے سے کیا مراد ہے ؟
‘‘یہ بات خوب یاد رکھنی چاہئے کہ ہر شخص خدا تعالیٰ سے لڑائی رکھتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہو تا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور دُعائیں کرتا ہے اور بہت ساری اَمانی اور امیدیں رکھتا ہے لیکن اس کی وہ دُعائیں نہیں سنی جا تی ہیں یا خلاف اُمید کو ئی بات ظاہر ہو تی ہے تو دل کے اندراللہ تعالیٰ سے ایک لڑائی شروع کر دیتاہے۔خدا تعالیٰ پر بد ظنّی اور اُ س سے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن صالحین اور عباد الرحمٰن کی کبھی اللہ تعالیٰ سے جنگ نہیں ہو تی کیو نکہ رضا با لقضا کے مقام پر ہو تے ہیں ۔اور سچ تو یہ ہے کہ حقیقی ایمان اس وقت تک پیدا ہو ہی نہیں سکتا جب تک انسان اس درجہ کو حاصل نہ کر ے کہ خدا تعالیٰ کی مرضی اُس کی مرضی ہو جائے۔ دل میں کوئی کدورت اورتنگی محسوس نہ ہو بلکہ شرح صدر کے ساتھ اس کی ہر تقدیر اور قضا کے ماننے کو تیار ہو۔ اس آیت (الفجر :29،28)میں
رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً
کا لفظ اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔یہ رضا کا اعلیٰ مقام ہے جہاں کو ئی ابتلا باقی نہیں رہتا ۔دوسرےجس قدر مقامات ہیں وہاں ابتلا کا اندیشہ رہتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ سے بالکل راضی ہو جاوے اور کوئی شکوہ شکایت نہ رہے اُس وقت محبت ذاتی پیداہو جاتی ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ سے محبتِ ذاتی پیدا نہ ہو تو ایمان بڑے خطرہ کی حالت میں ہے۔ لیکن جب ذاتی محبت ہو جا تی ہے تو انسان شیطان کے حملوں سے امن میں آجاتا ہے ۔اس ذاتی محبت کو دعا سے حاصل کر نا چاہئے۔ جب تک یہ محبت پیدا نہ ہو انسان نفسِ امّارہ کے نیچے رہتا ہے اور اس کے پنجہ میں گرفتا ر رہتا ہے اور ایسے لوگ جو نفسِ امّارہ کے نیچے ہیں اُن کا قول ہے ‘‘ایہہ جہان مٹھا اگلا کِن ڈِٹھا’’۔ یہ لوگ بڑی خطر ناک حالت میں ہو تے ہیں۔ اور لوّامہ والے ایک گھڑی میں ولی اور ایک گھڑی میں شیطان ہو جاتے ہیں۔اُن کا ایک رنگ نہیں رہتا کیونکہ اُن کی لڑائی نفس کے ساتھ شروع ہو تی ہے جس میں کبھی وہ غالب اور کبھی مغلوب ہو تے ہیں۔ تا ہم یہ لوگ محلِ مدح میں ہو تے ہیں کیونکہ اُن سے نیکیاں بھی سرزد ہو تی ہیں اور خوفِ خدا بھی ان کے دل میں ہو تا ہے۔ لیکن نفسِ مطمئنّہ والے بالکل فتحمند ہو تے ہیں اور وہ سارے خطروں اور خوفوں سے نکل کر امن کی جگہ میں جا پہنچتے ہیں۔ وہ اس دارالامان میں ہو تے ہیں جہاں شیطان نہیں پہنچ سکتا۔ لوّامہ والا جیسا کہ مَیں نے کہا ہے دارالامان کی ڈیوڑھی میں ہو تا ہے اور کبھی کبھی دشمن بھی اپنا وار کر جاتا ہے اور کوئی لاٹھی مارجاتا ہے۔ اس لیے مطمئنّہ والے کو کہا ہے
فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(الفجر:30-31)
۔یہ آواز اس وقت آتی ہے جب وہ اپنے تقویٰ کو انتہائی مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے ۔تقویٰ کے دو درجے ہیں ۔بدیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سر گرم ہو نا ۔یہ دوسرا مرتبہ مُحسنین کا ہے ۔اس درجہ کے حصول کے بغیر اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہو سکتا اور یہ مقام اور درجہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتا ۔
جب انسان بدی سے پر ہیزکرتا ہے اور نیکیوں کے لیے اس کا دل تڑپتا ہے اور و ہ خدا تعالیٰ سے دُعائیں کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُس کی دستگیری کرتا ہے اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے دارالامان میںپہنچا دیتا ہے اور فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیکی آواز اُسے آجا تی ہے یعنی تیری جنگ اب ختم ہو چکی ہے اور میرے ساتھ تیری صلح اور آشتی ہو چکی ہے۔ اب آمیرے بندوں میں داخل ہو جو
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ
کے مصداق ہیں اور رُوحانی وراثت سے جن کو حصّہ ملتا ہے۔ میری بہشت میں داخل ہو جا ۔
یہ آیت جیسا کہ ظاہر میں سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد اُسے آواز آتی ہے آخرت پر ہی موقوف نہیں بلکہ اِسی دُنیا میں اِسی زندگی میں یہ آواز آتی ہے ۔اہلِ سلوک کے مراتب رکھے ہوئے ہیں ۔اُن کے سلوک کا انتہائی نقطہ یہی مقام ہے جہاں اُن کا سلوک ختم ہو جا تا ہے اور وہ مقام یہی نفسِ مطمئنّہ کا مقام ہے ۔اہلِ سلوک کی مشکلات کو اللہ تعالیٰ اُٹھا دیتاہے اور ان کو صالحین میں داخل کردیتا ہے۔ جیسے فرمایا
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّھُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ(العنکبوت:10)
یعنی جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے ہم اُن کو ضرور ضرور صالحین میں داخل کر دیتے ہیں ۔اس پر بعض اعتراض کر تے ہیں کہ اعمال صالحہ کرنے والے صالحین ہوتے ہیں پھر اُن کو صالحین میں داخل کرنے سے کیا مراد ہے ؟
اصل بات یہ ہے کہ اس میں ایک لطیف نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ صلاحیت کی دو قسم ہو تی ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسان تکالیف شاقہ اُٹھا کر نیکیوں کا بوجھ اُٹھا تاہے ۔نیکیاں کرتا ہے لیکن ان کے کرنے میں اُسے تکلیف اور بوجھ معلوم ہو تا ہے اور اندر نفس کے کشاکش موجود ہو تی ہے اور جب وہ نفس کی مخالفت کرتا ہے تو سخت تکلیف محسوس ہو تی ہے۔ لیکن جب وہ اعمالِ صالحہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے جیسا کہ اس آیت کا منشاء ہے۔اُس وقت وہ تکالیف شاقہ اور محنتیں جو خود نیکیوں کے لیے برداشت کرتا ہے اُٹھ جاتی ہیں اور طبعی طور پر وہ صلاحیت کا مادہ پیدا ہو جا تا ہے۔ اور وہ تکالیف، تکالیف نہیں رہتی ہیں اور نیکیوں کو ایک ذوق اور لذّت سے کرتا ہے۔ اور ان دونو میں یہی فرق ہو تا ہے کہ پہلا نیکی کرتا ہے مگر تکلیف اور تکلّف سے اور دوسرا ذوق اور لذّت سے۔ وہ نیکی اس کی غذاہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔ اور وہ تکلّف اور تکلیف جو پہلے ہو تی تھی اب ذوق وشوق اور لذّت سے بدل جاتی ہے۔ یہ وہ مقام ہو تا ہے صالحین کا جن کے لیے فرمایا:
لَنُدْخِلَنَّھُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ (العنکبوت:10)
اس مقام پر پہنچ کر کوئی فتنہ اور فساد مومن کے اندر نہیں رہتا ۔ نفس کی شرارتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کے جذبات پر فتح پا کر مطمئن ہو کر دارالامان میں داخل ہو جا تاہے’’۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ507تا509۔ایڈیشن 2003ء)