خطبہ جمعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ فروری 2020ء
’’اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے وہ پیشگوئی جس کے پورا ہونے کا ایک لمبے عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق اپنے الہام اور اعلام کے ذریعہ مجھے بتا دیا ہے کہ
پیشگوئی میرے وجود میں پوری ہو چکی ہے
اور اب دشمنانِ اسلام پر خدا تعالیٰ نے کامل حجت کر دی ہے اور ان پر یہ امر واضح کر دیا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے فرستادہ ہیں‘‘
(المصلح الموعودؓ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرزندِ ارجمند حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے وجود باجود میں پیشگوئی مصلح موعود کے پورا ہونے ، اس پیشگوئی کے اغراض و مقاصد اور اس ضمن میں افرادِ جماعت احمدیہ کی ذمہ داریوں کا بیان
پیشگوئی مصلح موعود کے بارے میں کیے جانے والے بعض اعتراضات کے بصیرت افروز جوابات
‘علومِ ظاہر ی و باطنی’ سے پُر کیے جانے کی مناسبت سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے علمی کارناموں کا مختصر تذکرہ
حضرت مصلح موعودؓ کی کتب، لیکچرز اور تقاریر کے مجموعے ‘انوارالعلوم’ کو پڑھنے کی تحریک
محترمہ مریم الیزبتھ صاحبہ اہلیہ محترم ملک عمر علی کھوکھر صاحب رئیس ملتان و سابق امیر جماعت ملتان اور عزیز جاہد فارس احمد (واقفِ نَو) کی وفات۔ مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍فروری2020ء بمطابق 21؍تبلیغ 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، (سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
جماعت احمدیہ میں 20؍فروری کا دن پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے خاص طور پر یاد رکھا جاتا ہے اور جماعتوں میں یوم ِمصلح موعود کے حوالے سے جلسے بھی ہوتے ہیں۔ گو مَیں اس بات کی پہلے بھی کئی جگہ وضاحت کر چکا ہوں لیکن نئے آنے والوں اور بچوں کے لیے بھی دوبارہ وضاحت کر دوں کہ یوم ِمصلح موعود حضرت خلیفة المسیح الثانی، حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش کی یاد میں نہیں منایا جاتا بلکہ ایک پیشگوئی کے پورا ہونے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ ایسی پیشگوئی جو اسلام کی برتری اور سچائی ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے الہام کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے کی تھی جو حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش سے تین سال پہلے کی گئی تھی ۔ جس میں ایک خادم ِاسلام موعود بیٹے کی پیدائش کی خبر تھی جو دشمنوں کے لیے نشان کے طور پر پیش کی گئی تھی۔ پس کل 20فروری تھی اور اس پیشگوئی کو 134سال ہو گئے اور سو سال سے زائد عرصے سے یہ چمکتا ہوا نشان ہے۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا اس حوالے سے جماعتوں میں جلسے بھی ہوتے ہیں اور موعود بیٹے کے بارے میں پیشگوئی جو مختلف پہلو اور مختلف خصوصیات اپنے اندر لیے ہوئے ہے ان کے بارے میں کچھ حد تک بیان جلسوں میں بھی ہوتا ہے۔ لیکن ایک دو گھنٹے کے جلسے میں تمام نکات اور ان کی اہمیت اور ان کے پورا ہونے کی شان بیان نہیں ہو سکتی۔ پس جب جلسے میں اس کا پورا احاطہ نہیں ہو سکتا تو ایک خطبے میں اس کے مختلف پہلو بیان کرنا تو بالکل ناممکن ہے۔ اس لیے مَیں نے سوچا کہ وہ نکات جن کی تفصیلات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود بیان کی ہیں ان میں سے بعض حوالے بیان کر دوں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جو بیان کیا ہے اسے پڑھنے اور سننے کا ایک اپنا ہی لطف اور احساس ہوتا ہے۔ بہرحال ان مختصر حوالوں سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس پیشگوئی کی وسعت کتنی ہے اور کس شان سے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے موعود بیٹے کی ذات میں پوری ہوئی۔
بہرحال اس سے پہلے مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں پیشگوئی کے الفاظ اور تفصیل بیان کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی پیشگوئیوں کا ذکر فرماتے ہوئے اور مخالفین کو یہ بتاتے ہوئے کہ پیشگوئی مصلح موعود کے ضمن میں کیا پیشگوئیاں ہیں فرماتے ہیں کہ
‘‘پہلی پیشگوئی بِاِلہَامِ اللہِ تَعَالیٰ و اِعْلَامِہ عزّوجلّ۔ خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے (جَلَّشَانُہٗ وَ عَزَّاسْمُہُ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا ۔ مَیں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو مَیں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لیے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر ! تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا ۔ تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں’’ (یعنی خدا تعالیٰ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے) ‘‘اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔’’ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں) ‘‘اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ ﷺکو انکار اور تکذیب کی راہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریّت و نسل ہو گا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اُس کا نام عَنموَائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رِجس سے پاک ہے وہ نور اللہ ہےمبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیّوری نے اُسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔’’ (آگے آپؑ نے فرمایاکہ) ‘‘(اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ۔ فرزند دلبند، گرامی ارجمند، مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْاٰخرِ، مَظْہَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلَاءِ۔ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رَستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔’’
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 647)
یہ ہیں پیشگوئی کے الفاظ جو موعود بیٹے کی خصوصیات اور مختلف پہلو بیان کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے نشان مانگنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جو چلّہ کاٹا تھا اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو الہام کیا جس کی تفصیل ابھی مَیں نے بیان کی ہے اس چلّہ کی جگہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے اور اس میں جو دعائیں آپ نے کیں ان کی قبولیت کے نتیجے میں الہام کا ذکر کرتے ہوئے جس کے نتیجہ میں آپؑ نے مصلح موعودؓ کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
‘‘آج سے پورے اٹھاون سال پہلے، (جب یہ بیان کر رہے ہیں اس وقت اس پیشگوئی کو اٹھاون سال ہوئے تھے) جس کو آج انسٹھواں سال شروع ہو رہا ہے، 20؍فروری کے دن 1886ء میں اس شہر ہوشیار پور میں’’، (آپؓ یہ خطبہ ہوشیار پور میں دے رہے تھے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اس شہر ہوشیار پور میں) اس مکان میں ( جہاں آپؓ کھڑے تھے آپؓ نے اشارہ کیا)جو کہ میری انگلی کے سامنے ہے ایک ایسے مکان میں جو اس وقت ‘طویلہ’ کہلاتا تھا جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رہائش کا اصلی مقام نہیں تھا، (وہ باقاعدہ گھر نہیں تھا) بلکہ ایک رئیس کے زائد مکانوں میں سے وہ ایک مکان تھا (جیسے بعض دفعہ انیکسیاں بنا دی جاتی ہیں) جس میں شاید اتفاقی طور پر کوئی مہمان ٹھہر جاتا ہو یا وہاں انہوں نے سٹور بنا رکھا ہو یا حسبِ ضرورت جانور باندھے جاتے ہوں،’’ (ایک زائد جگہ تھی، زائد کمرہ باہر تھا۔) آپؓ فرماتے ہیں ‘‘قادیان کا ایک گمنام شخص جس کو خودقادیان کے لوگ بھی پوری طرح نہیں جانتے تھے لوگوں کی اس مخالفت کو دیکھ کر جو اسلام اور بانیٔ اسلام سے وہ رکھتے تھے اپنے خدا کے حضور علیحدگی میں عبادت کرنے اور اس کی نصرت اور تائید کا نشان طلب کرنے کے لیے آیا اور چالیس دن لوگوں سے علیحدہ رہ کر اس نے اپنے خدا سے دعائیں مانگیں۔ چالیس دن کی دعاؤں کے بعد خدا نے اس کو ایک نشان دیا۔ وہ نشان یہ تھا کہ مَیں نہ صرف ان وعدوں کو جو مَیں نے تمہارے ساتھ کیے ہیں پورا کروں گا اور تمہارے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا بلکہ اس وعدے کو زیادہ شان کے ساتھ پورا کرنے کے لیے مَیں تمہیں ایک بیٹا دوں گا جو بعض خاص صفات سے متصف ہو گا وہ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا۔ کلام الٰہی کے معارف لوگوں کو سمجھائے گا۔ رحمت اور فضل کا نشان ہو گا اور وہ دینی اور دنیوی علوم جو اسلام کی اشاعت کے لیے ضروری ہیں اسے عطا کیے جائیں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کو لمبی عمر عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا’’۔ (اور آج دنیا کے جس ملک میں بھی جماعتِ احمدیہ قائم ہے اس پیشگوئی کی شہرت اور اس عظیم بیٹے کی شہرت ہے۔)
(ماخوذ از دعوی مصلح موعود کے متعلق پُرشوکت اعلان۔ انوارالعلوم جلد17صفحہ 146-147)
جب یہ اشتہار شائع ہوا تو اس وقت مخالفین نے اعتراض شروع کر دیے کہ یہ کون سی پیشگوئی ہے۔ کوئی بھی اعلان کر سکتا ہے کہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہو گا۔ اس کا جواب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے دیا اور اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ‘‘جب یہ اشتہار شائع ہوا تو دشمنوں نے اس پر پھر اعتراضات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ تب 22؍مارچ 1886ء کو آپؑ نے ایک اَور اشتہار شائع فرمایا۔ دشمنوں نے اعتراض یہ کیا تھا کہ ایسی پیشگوئی کا کیا اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ کیا ہمیشہ لوگوں کے ہاں لڑکے پیدا نہیں ہوا کرتے؟ شاذ و نادر کے طور پر کوئی ایسا شخص ہوتا ہے کہ جس کا کوئی لڑکا نہ ہو یا جس کے ہاں لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں۔ ورنہ عام طور پر لوگوں کے ہاں لڑکے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور کبھی ان کی پیدائش کو کوئی خاص نشان قرار نہیں دیا جاتا۔ پس اگر آپ کے ہاں بھی کوئی لڑکا پیدا ہو جائے تو اس سے یہ کیونکر ثابت ہو گا کہ دنیامیں اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا کوئی خاص نشان ظاہر ہوا ہے۔ آپؑ نے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لوگوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے بائیس مارچ کے اشتہار میں تحریر فرمایا کہ ‘‘یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤوف و رحیم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لیے ظاہر فرمایا’’۔ پھر اسی اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تحریر فرمایا کہ
‘‘بِفَضْلِہٖ تَعَالیٰ وَاِحْسَانِہِ وَبِبَرَکَةِ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ ’’ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ اگر آپؑ اپنے ہاں محض ایک بیٹا پیدا ہونے کی خبر دیتے تب بھی یہ خبر اپنی ذات میں ایک پیشگوئی ہوتی کیونکہ دنیا میں ایک حصہ خواہ وہ کتنا ہی قلیل کیوں نہ ہو بہرحال ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جن کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوتی۔ دوسرے آپؑ نے جب یہ اعلان کیا اس وقت آپؑ کی عمر 50؍ سال سے اوپر تھی اور ہزاروں ہزارلوگ دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں جن کے ہاں پچاس سال کے بعد اولاد کی پیدائش کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے اور پھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاں لڑکے تو پیدا ہوتے ہیں مگر پیدا ہونے کے تھوڑے عرصے ہی بعد مر جاتے ہیں اور یہ سارے شبہات اس جگہ موجود تھے۔ پس اوّل تو کسی لڑکے کی پیدائش کی خبر دینا کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہو سکتا۔ لیکن آپ بطور تنزل اس اعتراض کو تسلیم کر کے فرماتے ہیں کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ محض کسی لڑکے کی پیدائش کی خبر دینا پیشگوئی نہیں کہلا سکتا تو سوال یہ ہے کہ مَیں نے محض ایک لڑکے کی پیدائش کی کب خبر دی ہے۔ مَیں نے یہ تو نہیں کہا کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا بلکہ مَیں نے یہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری دعاؤں کو قبول فرما کر ایک ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔’’
(ماخوذ از الموعود۔انوارالعلوم جلد17 صفحہ529-530)
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آج دنیا گواہ ہے کہ اس موعود بیٹے نے دنیا کے کناروں تک شہرت پائی ہے اور بیرونِ ہندوستان یا بیرونِ قادیان دنیا کا ہر مشن آپؑ کی سچائی کا ثبوت ہے۔ بہت سارے مشن دنیا میں حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں قائم ہوئے تھے اور وہی سلسلہ، اسی نظام کا سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔
بعض لوگوں کا یہ بھی اعتراض تھا کہ مصلح موعودؓ بعد کے کسی عرصے میں پیدا ہوں گے سو سال بعد دو سو سال بعد یا تین سو سال بعد۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہ کس وجہ سے حضرت مسیح موعوؑد نے نشان مانگا تھا اور کیوں آپؑ کے زمانہ میں یہ پیدا ہونا اور نشان پورا ہونا چاہیے تھا ،حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ
‘‘بعض لوگ کہتے ہیں کہ مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی آئندہ نسل سے تین چار سو سال کے بعد آئے گا۔’’ یہاں بھی نسل کا ذکر ہے کہ آئندہ نسل سے کوئی تین چار سو سال کے بعد آئے گا۔ ‘‘موجودہ زمانہ میں نہیں آ سکتا مگر ان میں سے کوئی شخص خدا کا خوف نہیں کرتا کہ وہ پیشگوئی کے الفاظ کو دیکھے اور ان پر غور کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو لکھتے ہیں اس وقت اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام اپنے اندر نشان نمائی کی کوئی طاقت نہیں رکھتا ۔چنانچہ پنڈت لیکھرام اعتراض کر رہا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے۔ اِندرمَن اعتراض کر رہا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے۔ آپؑ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! تُو ایسا نشان دکھا جو ان نشان طلب کرنے والوں کو اسلام کا قائل کر دے۔ تُو ایسا نشان دکھا جو اِندرمَن مرادآبادی وغیرہ کو اسلام کا قائل کر دے اور یہ معترض ہمیں بتاتے ہیں۔’’ آپؓ فرماتے ہیں کہ یہ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں ‘‘یہ معترض ہمیں بتاتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی تو خدا نے آپؑ کو یہ خبر دی کہ آج سے تین سو سال کے بعد ہم تمہیں ایک بیٹا عطا فرمائیں گے جو اسلام کی صداقت کا نشان ہو گا۔ کیا دنیا میں کوئی بھی شخص ہے جو اس بات کو معقول قرار دے سکے؟’’ انتہائی نامعقول بات ہے۔ ‘‘یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص سخت پیاسا ہو اور کسی شخص کے دروازہ پر جائے اور کہے بھائی! مجھے سخت پیاس لگی ہوئی ہے خدا کے لیے مجھے پانی پلاؤ اور وہ گھر والا آگے سے یہ جواب دےکہ صاحب! آپ گھبرائیں نہیں۔ مَیں نے امریکہ خط لکھا ہوا ہے وہاں سے اسی سال کے آخر تک ایک اعلیٰ درجہ کا ایسنس آ جائے گا۔’’ شربت آ جائے گا ‘‘اور اگلے سال آپ کو شربت بنا کر پلا دیا جائے گا۔ کوئی پاگل سے پاگل بھی ایسی بات نہیں کر سکتا۔ کوئی پاگل سے پاگل بھی ایسی بات خدا اور اس کے رسول کی طرف منسوب نہیں کر سکتا۔پنڈت لیکھرام، منشی اندرمن مرادآبادی اور قادیان کے ہندو تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کہ اس کا خدا دنیا کو نشان دکھانے کی طاقت رکھتا ہے ایک جھوٹا اور بے بنیاد دعویٰ ہے۔ اگر اس دعویٰ میں کوئی حقیقت ہے تو ہمیں نشان دکھایا جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں ا ور کہتے ہیں کہ اے خدا! مَیں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تُو مجھے رحمت کا نشان دکھا۔ تُو مجھے قدرت اور قربت کا نشان عطا فرما۔ پس یہ نشان تو ایسے قریب ترین عرصہ میں ظاہر ہونا چاہیے تھا جبکہ وہ لوگ زندہ موجود ہوتے جنہوں نے یہ نشان طلب کیا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 1889ء میں’’
eighteen eighty nine میں ‘‘جب میری پیدائش اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت ہوئی تو وہ لوگ زندہ موجود تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ نشان مانگا تھا۔ پھر جوں جوں مَیں بڑھا اللہ تعالیٰ کے نشانات زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوتے چلے گئے۔’’
(مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں،انوارالعلوم جلد17ص223۔222)
پس یہ نشان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی زندگی میں اور ان لوگوں کی زندگی میں جو اسلام پر اعتراضات کرتے تھے ظاہرہونا ضروری تھا جنہوںنے یہ نشان مانگا تھا اور یہ ظاہر ہوا۔ یہ بھی بڑی اہم بات ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ اس پیشگوئی کی اغراض کیا تھیں اور کیوں حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں ان اغراض کا حصول ضروری تھا ۔کچھ تو ابھی مَیںنے مختصر بیان کیا اور کیوں آپؑ کے یہ بیٹے جو آپؑ کی جسمانی اور خونی اولاد اور آپؑ کا وہ بیٹا ہےجس کے جسمانی باپ آپؑ تھے اس کے حق میں یہ نشان پورا ہونا ضروری تھا۔ بہرحال ان اغراض کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ آپؓ فرماتے ہیں کہ
‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اپنے 20؍فروری 1886ء کے اشتہار میں ذکر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر فرمایا ہے کہ یہ پیشگوئی جو دنیا کے سامنے کی گئی اس کی کئی اغراض ہیں۔ اول یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی ہے کہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت سے نجات پائیں اور جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آئیں’’ یعنی روحانی طور پر مردہ ہو چکے ہیں زندہ ہوں۔ ‘‘اگر یہ سمجھا جائے کہ اس پیشگوئی نے چار سو سال کے بعد پورا ہونا ہے۔’’ آپؓ مزید وضاحت فرما رہے ہیں۔ ‘‘تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ مَیں نے یہ پیشگوئی اس لیے کی ہے کہ جو آج زندگی کے خواہاں ہیں وہ بیشک مرے رہیں چار سو سال کے بعد ان کو زندہ کر دیا جائے گا۔ یہ فقرہ بالبداہت باطل اور غلط ہے ۔آپؑ فرماتے ہیں یہ چلہ اس لیے کیا گیا ہے تا کہ وہ لوگ جو دین اسلام سے منکر ہیں ان کے سامنے خدا تعالیٰ کا ایک زندہ نشان ظاہر ہو اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت کا انکار کر رہے ہیں ان کو ایک تازہ اور زبردست ثبوت اس بات کا مل جائے کہ اب بھی خدا تعالیٰ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے۔ وہ الہامی الفاظ جو اس پیشگوئی کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہیں یہ ہیں کہ ‘خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں’۔ اب اگر ان لوگوں کے نظریہ کو صحیح سمجھ لیا جائے جو یہ کہتے ہیں کہ مصلح موعود تین چار سو سال کے بعد آئے گا تو اس فقرہ کی تشریح یوں ہوتی ہے کہ یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی ہے تاکہ وہ لوگ جو آج زندگی کے خواہاں ہیں مرے رہیں۔ چار سو سال کے بعد ان کی نسلوں میں سے بعض لوگوں کو زندہ کر دیا جائے گا۔ مگر کیا اس فقرہ کو کوئی شخص بھی صحیح تسلیم کر سکتا ہے؟
دوسرے یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی تھی تا دین اسلام کا شرف ظاہر ہو اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر عیاں ہو۔ اس فقرہ کے صاف طور پر یہ معنی ہیں کہ دین اسلام کا شرف اس وقت لوگوں پر ظاہر نہیں۔ اسی طرح کلام اللہ کا مرتبہ اس وقت لوگوں پر ظاہر نہیں۔ مگر کہا یہ جاتا ہے کہ خدا نے یہ پیشگوئی اس لیے کی ہے تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ آج سے تین سو سال کے بعد یا چار سو سال کے بعد جب یہ لوگ بھی مر جائیں گے، ان کی اولادیں بھی مر جائیں گی اور ان کی اولادیں بھی مر جائیں گی لوگوں پر ظاہر کیا جائے۔ جب نہ پنڈت لیکھرام ہو گا نہ منشی اندرمن مرادآبادی ہو گا نہ ان کی اولادیں ہوں گی اور نہ ان کی اولادوں کی اولادیں ہوں گی اس وقت دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کیا جائے گا۔ بتاؤ کہ کیا کوئی بھی شخص ان معنوں کو درست سمجھ سکتا ہے؟’’ ان میںکوئی عقل ہے؟
تیسرے آپؑ نے فرمایا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘‘یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی ہے تا کہ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔ اس کے معنی بھی ظاہر ہیں کہ حق اس وقت کمزور ہے اور باطل غلبہ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایسا نشان ظاہر ہو کہ عقلی اور علمی طور پر دشمنانِ اسلام پر حجت تمام ہو جائے اور وہ لوگ اس بات کو ماننے پر مجبور ہو جائیں کہ اسلام حق ہے اور اس کے مقابل میں جس قدر مذہب کھڑے ہیں وہ باطل ہیں۔
چوتھی غرض اس پیشگوئی کی یہ بیان کی گئی تھی کہ تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں اور جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ اب یہ غور کرنے والی بات ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو اس صورت میں کس طرح قادر سمجھ سکتے تھے۔ اگر یہ کہہ دیا جاتا کہ تین سو سال کے بعد یا چار سو سال کے بعد ایک ایسا نشان ظاہر ہو گا جس سے تم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاؤ گے کہ اسلام کا خدا قادر ہے۔ ایسی پیشگوئی کو لیکھرام کیا اہمیت دے سکتا تھا یا وہ لوگ جو اس وقت دین اسلام پر اعتراضات کر رہے تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات کو باطل قرار دے رہے تھے، اسلام کو ایک مردہ مذہب قرار دے رہے تھے ان پر کیا حجت ہو سکتی تھی کہ تم چار سو سال کے بعد خدا تعالیٰ کو قادر سمجھنے لگ جاؤ گے چار سو سال کے بعد پوری ہونے والی پیشگوئی سے وہ لوگ خدا تعالیٰ کو کس طرح قادر سمجھ سکتے تھے۔ وہ تو یہی کہتے کہ ہم ان زبانی دعووں کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ چار سو سال کے بعد ایسا ہو جائے گا۔ یہ تو ہر کوئی کہہ سکتا ہے۔ بات تب ہے کہ ہمارے سامنے نشان دکھایا جائے اور اسلام کے خدا کا قادر ہونا ثابت کیا جائے۔’’ پس یہ نشان آپؑ کی زندگی میں پورا ہونا تھا ۔
‘‘پانچویں غرض یہ بیان کی گئی تھی کہ تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تمہارے ساتھ ہوں۔’’ یعنی اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ ‘‘اگر اس پیشگوئی نے چار سو سال کے بعد ہی پورا ہونا تھا تو اس زمانہ کے لوگ یہ کس طرح یقین کر سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ چھٹی غرض یہ بیان کی گئی تھی کہ تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور اس کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے۔ اس کے معنی بھی یہی بنتے ہیں کہ وہ لوگ جو میرے زمانہ میں اسلام کی تکذیب کر رہے ہیں۔’’ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ‘‘ان کے سامنے میں یہ پیشگوئی کرتا ہوں کہ انہیں اسلام کی صداقت کی ایک بڑی کھلی نشانی ملے گی مگر ملے گی چار سو سال کے بعد۔ جب موجودہ زمانہ کے لوگوں بلکہ ان کی اولادوں اور ان کی اولادوں میں سے بھی کوئی زندہ نہیں ہو گا۔’’ اب یہ بھی کوئی عقل کی بات نہیں ہے۔ ‘‘ساتویں آپؑ نے بیان فرمایا کہ یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی ہے تا کہ مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے اور پتہ لگ جائے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ چار سو سال کے بعد آنے والے وجود سے اس زمانہ کے لوگوں کو کیونکر پتا لگ سکتا ہے کہ وہ (مجرم)جھوٹ بول رہے تھے۔’’
(الموعود۔ انوارالعلوم جلد17 صفحہ 542 تا 544)
پس یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی اپنی اولاد سے متعلق تھی اور جیسا کہ پیشگوئی کے الفاظ ہیں کہ تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت اور نسل کا ہو گا۔ بعد کی نسل میں سے نہیں۔ یہ آپؑ کے بیٹے کے بارے میں تھی جو بڑی شان سے پوری ہوئی اور باون سال تک حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت ایک روشن چمکتے نشان کی طرح دنیا پر ظاہر ہوئی اور آپؓ کے علم و معرفت کا جو کام ہے اس کے غیر بھی معترف ہوئے جس کی تفصیل جماعت کے لٹریچر میں موجود ہے اگر بیان کرنے لگوں تو کافی وقت لگ جائے۔
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ یہ اعلان فرماتے ہوئے کہ مَیں ہی مصلح موعود ہوں۔ پہلے آپؓ پر یہ اعتراض تھا کہ آپؓ نے اعلان نہیں کیا، 1944ء میں آپؓ نے اعلان کیا۔ اعلان فرماتے وقت آپؓ نے فرمایا کہ
‘‘مَیں کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پیشگوئیوں کا مورد بنایا ہے جو ایک آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمائیں۔ جو شخص سمجھتا ہے کہ مَیں نے افترا سے کام لیا ہے یا اس بارہ میں جھوٹ اور کذب بیانی کا ارتکاب کیا ہے وہ آئے اور اس معاملہ میں میرے ساتھ مباہلہ کر لے اور یا پھر اللہ تعالیٰ کی مؤکد بعذاب قسم کھا کر اعلان کر دے کہ اسے خدا نے کہا ہے کہ مَیں جھوٹ سے کام لے رہا ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اپنے آسمانی نشانات سے فیصلہ فرما دے گا کہ کون کاذب ہے اور کون صادق۔’’ جو آپ کے مخالفین تھے اور جماعت کے اندر بھی جو علیحدہ ہونے والے تھے ان میں سے کوئی اس مقابلے میں نہیں آیا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ‘‘اور اگر وہ کہتے ہیں کہ خواب تو سچا ہے جیسا کہ مصری صاحب نے کہا’’ (کہ بعض مرتد ہو گئے تھے کہ )‘‘تو پھر اس کی حقیقت پر وہ مضمون لکھیں۔ مَیں ان کے اس مضمون کا جواب دوں گا اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ اس مقابلہ میں آئے تو ایسی منہ کی کھائیں گے کہ مدتوں یاد رکھیں گے۔ غرض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے وہ پیشگوئی جس کے پورا ہونے کا ایک لمبے عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق اپنے الہام اور اعلام کے ذریعہ مجھے بتا دیا ہے کہ پیشگوئی میرے وجود میں پوری ہو چکی ہے اور اب دشمنانِ اسلام پر خدا تعالیٰ نے کامل حجت کر دی ہے اور ان پر یہ امر واضح کر دیا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے فرستادہ ہیں۔ جھوٹے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو جھوٹا کہتے ہیں۔ کاذب ہیں وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاذب کہتے ہیں۔ خدا نے اس عظیم الشان پیشگوئی کے ذریعہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے۔’’ آپؓ فرماتے ہیں ‘‘بھلا کس شخص کی طاقت تھی کہ وہ 1886ء میں آج سے پورے اٹھاون سال قبل اپنی طرف سے یہ خبر دے سکتا کہ اس کے ہاں نو سال کے عرصہ میں ایک لڑکا پیدا ہو گا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ وہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا میں پھیلائے گا۔ وہ علوم ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ وہ جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی قربت اور اس کی رحمت کا وہ ایک زندہ نشان ہو گا۔ یہ خبر دنیا کا کوئی انسان اپنے پاس سے نہیں دے سکتا تھا۔ خدا نے یہ خبر دی اور پھر اسی خدا نےاس خبر کو پورا کیا اس انسان کے ذریعہ’’(آپؓ اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ اس خبر کو پورا کیا اس انسان کے ذریعہ) ‘‘جس کے متعلق ڈاکٹر یہ امید نہیں رکھتے تھے کہ وہ زندہ رہے گا یا لمبی عمر پائے گا۔’’ یعنی حضرت مصلح موعودؓ کی شروع کی جو صحت کی حالت تھی وہ یہ تھی کہ ڈاکٹر امید نہیں رکھتے تھے کہ زندہ رہے گا بھی کہ نہیں۔ بہرحال پھر آگے آپؓ اپنے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ‘‘میری صحت بچپن میں ایسی خراب تھی کہ ایک موقع پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے کہہ دیا کہ اسے سِل ہو گئی ہے۔ کسی پہاڑی مقام پر اسے بھجوا دیا جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے مجھے شملہ بھجوا دیا مگر وہاں جا کر مَیں اداس ہو گیا اور اس وجہ سے جلدی ہی واپس آ گیا۔ غرض ایسا انسان جس کی صحت کبھی ایک دن بھی اچھی نہیں ہوئی اس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اس لیے زندہ رکھا کہ اس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے مہیا کرے۔ پھر مَیں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لیے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے۔ وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا وہ چشمہ روحانی جو میرے سینہ میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ مَیں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے قرآن سکھایا گیا ہے تو مَیں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔’’ یہ چیلنج آپؓ نے اس زمانے میں دیا تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں ‘‘لیکن مَیں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو۔ خدانے مجھے علم قرآن بخشا ہے اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کے لیے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے۔ خدا نے مجھے اس غرض کے لیے کھڑا کیا ہے کہ مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں۔ دنیا زور لگا لے، وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے، عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے، دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقتور قومیں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں ناکام کرنے کے لیے متحد ہو جائیں پھربھی مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے۔’’
پس یہ کوئی معمولی اعلان نہیں تھا جیسا کہ مَیں نے کہا آپؓ کا جو خلافت کا باون سالہ دور ہے اور اس کا ہر دن جو ہے اس کی شان کو ظاہر کر رہا ہے۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ ‘‘اے میرے دوستو! مَیں اپنے لیے کسی عزت کا خواہاں نہیں نہ جب تک خدا تعالیٰ مجھ پر ظاہر کرے کسی مزید عمر کا امیدوار’’ ہوں۔ یہ بھی نہیں کہتا کہ مزید عمر ملے ‘‘ہاں خدا تعالیٰ کے فضل کا مَیں امیدوار ہوں اور مَیں کامل یقین رکھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی عزت کے قیام میں اور دوبارہ اسلام کو اپنے پاؤں پر کھڑے کرنے اور مسیحیت کے کچلنے میں میرے گذشتہ یا آئندہ کاموں کا ان شاء اللہ بہت کچھ حصہ ہو گا اور وہ ایڑھیاں جو شیطان کا سر کچلیں گی اور مسیحیت کا خاتمہ کریں گی ان میں سے ایک ایڑھی میری بھی ہو گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ’’ آپؓ نے فرمایا۔ ‘‘مَیں اس سچائی کو نہایت کھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ یہ آواز وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی آواز ہے۔ یہ مشیت وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی مشیت ہے۔ یہ سچائی نہیں ٹلے گی نہیں ٹلے گی اور نہیں ٹلے گی۔ اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا۔’’ ان شاء اللہ تعالیٰ۔‘‘ مسیحیت دنیا میں مغلوب ہو کر رہے گی۔ اب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچا سکے۔ خدا میرے ہاتھ سے اس کو شکست دے گا اور یا تو میری زندگی میں ہی اس کو اس طرح کچل کر رکھ دے گا کہ وہ سر اٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھے گی اور یا پھر میرے بوئے ہوئے بیج سے وہ درخت پیدا ہو گا جس کے سامنے عیسائیت ایک خشک جھاڑی کی طرح مرجھا کر رہ جائے گی اور دنیا میں چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر اڑتا ہوا دکھائی دے گا۔’’ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ ‘‘مَیں اس موقع پرجہاں آپ لوگوں کو یہ بشارت دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی اس پیشگوئی کوپورا کر دیا جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی تھی وہاں مَیں آپ لوگوں کو ان ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں۔’’ اور یہ ذمہ داریاں آج بھی ہماری ہیں ‘‘جو آپ لوگوں پر عائد ہوتی ہیں آپ لوگ جو میرے اس اعلان کے مصدِق ہیں۔’’ جو تصدیق کر رہے ہیں کہ مَیں مصلح موعود ہوں ‘‘آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اسلام اور احمدیت کی فتح اور کامیابی کے لیے بہانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ بیشک آپ لوگ خوش ہو سکتے ہیں۔’’ پیشگوئی کا اظہار کرنے کے لیے خوشی کی جا تی ہے آپ خوش ہو سکتے ہیں ‘‘کہ خدا نے اس پیشگوئی کو پورا کیابلکہ مَیں کہتا ہوں کہ آپ کو یقیناً خوش ہونا چاہیے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے خود لکھا ہے کہ تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو۔’’اس پیشگوئی کے بعد، اس کے بعد،آپ نے فرمایا خوشی سے اچھلو ‘‘کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی۔’’ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ‘‘پس مَیں تمہیں خوش ہونے سے نہیں روکتا۔ مَیں تمہیں اچھلنے کودنے سے نہیں روکتا۔ بیشک تم خوشیاں مناؤ اور خوشی سے اچھلو اور کودو لیکن مَیں کہتا ہوں کہ اس خوشی اور اچھل کود میں تم اپنی ذمہ داریوں کو فراموش مت کرو جس طرح خدا نے مجھے رؤیا میں دکھایا تھا کہ مَیں تیزی کے ساتھ بھاگتا چلا جا رہا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی جا رہی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے الہاماً میرے متعلق یہ خبر دی ہے کہ مَیں جلد جلد بڑھوں گا ۔پس میرے لیے یہی مقدر ہے کہ مَیں سرعت اور تیزی کے ساتھ اپنے قدم ترقیات کے میدان میں بڑھاتا چلا جاؤں۔ مگر اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے قدم کو تیز کریں اور اپنی سست روی کو ترک کر دیں۔ مبارک ہے وہ جو میرے قدم کے ساتھ اپنے قدم کو ملاتا اور سرعت کے ساتھ ترقیات کے میدان میں دوڑتا چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرے اس شخص پر جو سستی اور غفلت سے کام لے کر اپنے قدم کو تیز نہیں کرتا اور میدان میں آگے بڑھنے کی بجائے منافقوں کی طرح اپنے قدم کو پیچھے ہٹا لیتا ہے۔’’ آپؓ فرماتے ہیں ‘‘اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو، اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہو تو قدم بہ قدم اور شانہ بشانہ میرے ساتھ بڑھتے چلے آؤ تا کہ ہم کفر کے قلب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑ دیں اور باطل کو ہمیشہ کے لیے صفحہ عالم سے نیست و نابود کر دیں اور انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔ زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں۔’’
(الموعود، انوارالعلوم جلد17 صفحہ 645تا 649)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم کام کرنے والے ہوں صرف جلسہ مصلح موعود منانے والے ہی نہ ہوں۔ اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں اور صرف اسی بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہم جلسے منا رہے ہیں ۔حقیقی طور پر ہم اس مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں، اس کام کو آگے بڑھانے والے ہوں جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا اور جس کے لیے آپ نے بیشمار پیشگوئیاں بھی فرمائیں اور مصلح موعود کی پیشگوئی بھی ان میں سے ایک پیشگوئی ہے۔
آپ کے کاموں کے سلسلے میں بھی صرف ایک بات کا یہاں مختصر ذکر مَیں کر دیتا ہوں کہ پیشگوئی میں الفاظ ہیں کہ علوم ِظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور آپ کے جو کام ہیں ان کی ایک جھلک جو ہے مَیں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتب لیکچرز اور تقاریر کا مجموعہ انوار العلوم کے نام سے شائع ہو رہا ہے۔ بہت ساری جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ جو اردو پڑھنا جانتے ہیں ان کو پڑھنا چاہیے ویسے بعض کتابوں کے انگریزی ترجمے بھی ہو رہے ہیں۔ اس وقت انوار العلوم کی چھبیس (26)جلدیں شائع ہو چکی ہیں ان چھبیس جلدوں میں کل چھ سو ستر (670)کتب لیکچرز اور تقاریر آ چکی ہیں۔ خطبات محمود کی اس وقت تک کل انتالیس (39)جلدیں شائع ہو چکی ہیں جن میں 1959ء تک کے خطبات شائع ہو گئے ہیں۔ ان جلدوں میں 2367 خطبات شامل ہیں۔ تفسیر صغیر دس سو اکہتر (1071)صفحات پر مشتمل ہے۔ تفسیر کبیر دس (10)جلدوں پر محیط ہے اس میں قرآن کریم کی انسٹھ (59)سورتوں کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ تفسیر کبیر کے دس جلدوں کے صفحات کی کل تعداد پانچ ہزار نو سو سات (5907)ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے درس القرآن جو کہ غیر مطبوعہ تفسیر تھے وہ ریسرچ سیل نے کمپوز کرنے کے بعد فضل عمر فاؤنڈیشن کے سپرد کر دیے ہیں۔ اس کے 3094 صفحات ہیں۔ اس کے بعد اب ریسرچ سیل کو مَیں نے کہا تھا کہ حضرت مصلح موعود کی تحریرات اور فرمودات سے تفسیر قرآن اکٹھی کی جائے جس پر کام شروع کیا گیا ہے اور اب تک نو ہزار (9000)صفحات پر مشتمل تفسیر لی جا چکی ہے اور اس پر مزید کام جاری ہے۔
یہ تو ہے ایک مختصر جائزہ آپؓ کے کاموں کا لیکن اسی جائزے کو حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت میں بھی اپنے ایک خطبہ میں ایک وقت بیان فرمایا تھا ۔حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کا وہ اقتباس بھی مَیں پڑھ دیتا ہوں۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ
خدا تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں کہا تھا کہ‘‘ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا’’ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ مَیں نے بہت سی تفصیلات جمع کی تھیں لیکن اس وقت مَیں صرف وہ نقشہ ہی پیش کر سکتا ہوں جو مَیں نے اس غرض کے لیے تیار کروایا ہے اور وہ یہ ہے حضورؓ کی ایک تفسیر تو تفسیر کبیر ہے جو خود اتنی عجیب تفسیر ہے کہ جس شخص نے بھی غور سے اس کے کسی ایک حصہ کو پڑھا ہو گا وہ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو گا کہ اگر دنیا میں کوئی خدا رسیدہ بزرگ پیدا ہوتا اوروہ صرف یہ حصہ قرآن کریم کا تفسیری نوٹوں کے ساتھ شائع کر دیتا تو یہ اس کو دنیا کی نگاہ میں بزرگ ترین انسانوں میں سے ایک انسان بنانے کے لیے کافی تھا لیکن اس پر ہی بس نہیں۔ قرآن کریم پر اَور بہت سی کتب لکھیں اور میرا خیال ہے کہ حضور نے صرف قرآن کریم کی تفسیر پر ہی آٹھ دس ہزار صفحات لکھے ہیں ،تفسیر کبیر کی گیارہ مجلدات بھی ان میں شامل ہیں۔ کلام کے اوپر حضور نے دس کتب اور رسائل لکھے۔ روحانیات، اسلامی اخلاق اور اسلامی عقائد پر اکتیس کتب اور رسائل تحریر فرمائے۔ سیرت و سوانح پر تیرہ کتب و رسائل لکھے۔ تاریخ پر چار کتب و رسائل۔ فقہ پر تین کتب و رسائل۔ سیاسیات قبل از تقسیم ہند پچیس کتب اور رسائل۔ سیاسیات بعد از تقسیم ہند و قیام پاکستان نو کتب اور رسائل۔ سیاست کشمیر پندرہ کتب اور رسائل۔ تحریک احمدیت کے مخصوص مسائل اور تحریکات پر ایک کم سو کتب اور رسائل یعنی ننانوے۔ ان سب کتب و رسائل کا مجموعہ 225 بنتا ہے تو جیسا کہ اس وقت شاید آپؒ کو معلومات بھی پوری نہ دی گئی ہوں ، اب زیادہ مزید معلومات ہیں جیسا کہ مَیں نے پہلے بیان کیا۔ بہرحال آپؒ فرماتے ہیں تو جیسا کہ فرمایا تھا الہام میں کہ وہ علومِ ظاہری وباطنی سے پُر کیا جائے گا ان پر ایک نظر ڈال لیں تو ان میں علوم ِظاہری بھی نظر آتے ہیں اور علوم ِباطنی بھی نظر آتے ہیں اور پھر لطف یہ کہ جب بھی آپؓ نے کوئی کتاب یا رسالہ لکھا ہر شخص نے یہی کہا کہ اس سے بہتر نہیں لکھا جا سکتا۔ سیاست میں جب آپؓ نے قیادت سنبھالی یا جب بھی آپؓ نے سیاست کے بارے میں قائدانہ مشورے دیے، بڑے سے بڑے مخالف بھی آپؓ کی بے مثال قابلیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ غرض حضور کے علوم ظاہری و باطنی کے پُر ہونے سے متعلق ایک بڑی تفصیل ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کہتے ہیں کہ اس کے ہزارویں حصہ میں بھی مَیں نہیں جا سکتا۔ صرف ایک سرسری سی چیز آپ کے سامنے رکھ دی ہے اور پھر اسی پر ختم کرتا ہوں۔
(ماخوذ از ماہنامہ انصار اللہ حضرت مصلح موعود نمبر مئی جون جولائی 2009صفحہ 64-65)
اللہ تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں آپؓ پر اور ہر آن اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرماتا رہے اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے اس بیٹے کی طرح اسلام کی اشاعت کا درد اپنے دل میں بھی پیدا کرنے والے ہوں اور اسلام کی خدمت کے لیے ہم ہر وقت کمر بستہ ہوں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جو دین کی خدمت کرنے والے ہوں نہ کہ ان لوگوں میں جن کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایاتھا کہ
‘‘آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو’’
(کلام محمود صفحہ 97)
اللہ تعالیٰ نہ کرے کہ ہم یہ سلسلہ بدنام کرنے والے ہوں بلکہ خدمت میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جانے والے ہوں۔
نمازوں کے بعد مَیں دو جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ غائب جنازے ہیں۔ ایک محترمہ مریم الزبتھ صاحبہ کا ہے جو مکرم و محترم ملک عمر علی کھوکھر صاحب رئیس ملتان اور سابق امیر ملتان کی دوسری اہلیہ تھیں۔ چھیاسی سال کی عمر میں ایک حادثے کے نتیجہ میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ یہ اور ان کی بیٹی لفٹ میں تھیں۔ وہاں حادثہ ہوا اور لفٹ کی خرابی کی وجہ سے ان کی بیٹی بھی اس میں زخمی ہوئی ہیں۔ ہسپتال میں ہیں۔ بہرحال یہ survive نہیں کر سکیں۔ یہ جرمن خاتون تھیں، ہیمبرگ میں رہتی تھیں اور 1934ء کی ان کی پیدائش ہے۔ 1952ء میں انہوں نے بیعت کی اور ملک عمر علی کھوکھر صاحب کے ساتھ ان کی شادی ہوئی۔ پھر یہ پاکستان منتقل ہو گئیں۔ پھر ان کی وفات کے بعد جرمنی آ گئیں۔ پھر واپس پاکستان چلی گئیں۔
وصیت کے بابرکت نظام میں یہ شامل تھیں۔ صوم و صلوٰة کی یہ پابند تھیں۔ وقت پر نماز پڑھنے کا بڑا اہتمام کرتی تھیں اور سورج غروب ہونے اور سورج طلوع ہونے کے وقتوں کا بڑا حساب رکھا کرتی تھیں۔ قرآن کریم کی تلاوت بھی باقاعدگی سے کرنے والی تھیں۔ باقاعدگی سے روزے رکھا کرتی تھیں۔ آپ کے بچوں نے یہ بیان کیا ہے کہ ہمارے ابا جان سے ان کی شادی 1952ء میں ہوئی۔ اس وقت کے مربی سلسلہ جرمنی مکرم عبداللطیف صاحب نے بیعت کروا کر نکاح پڑھوایا۔ شادی کے بعد پاکستان آ گئیں اور بچے کہتے ہیں پھر ہماری والدہ سیدہ سیدہ بیگم صاحبہ جو پہلی والدہ تھیں ۔مکرم ملک عمر علی صاحب کی اہلیہ تھیں جو حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی بیٹی تھیں وہ ان کے ساتھ مل کے رہنے لگیں اور ملک صاحب کی جو بڑی اہلیہ سیدہ بیگم صاحبہ تھیں ان کا بڑا احترام کیا کرتی تھیں۔ پاکستان آ کر انہوں نے نماز اور قرآن کریم پڑھنا شروع کیا۔ اس کے لیے ایک پڑھانے والے کا ان کے لیے انتظام کیا گیا اور سب سے پہلے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو کتاب پڑھی وہ ‘‘اسلامی اصول کی فلاسفی ’’تھی۔ پاکستان رہنے کی وجہ سے اردو اور سرائیکی زبان بھی کچھ بول لیتی تھیں اور سمجھتی بھی ٹھیک طرح تھیں۔ ان کے دو بچے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ جب ان کی شادیوں کے فیصلہ کا وقت آیا تو ملک صاحب کی جو بڑی اہلیہ سیدہ بیگم صاحبہ تھیں ان پہ فیصلہ چھوڑا کہ آپ جہاں بہتر سمجھتی ہیں، جو رشتےبہتر ہوں ان کی شادیاں کر دیں۔ ان کے بطن سے ایک بیٹا ہے طارق علی اور بیٹی ہیں طاہرہ۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے درجات بلند فرمائے۔
دوسرا جنازہ ہے عزیزم جاہد فارس احمد کا جو بارہ سال کی عمر میں وفات پا گیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ یہ طارق نوری اور عطیة العزیز خدیجہ کا بیٹا تھا اور عزیزم جاہد کے نانا فاروق احمد خان ہیں جو حضرت نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہ کے سب سے بڑے پوتے ہیں۔ انہوں نے بھی لکھا ہے اوران کے ساتھی جو لڑکے تھے اور بہت سارے لوگوں نے بھی مجھے لکھا کہ بڑی نمایاں خصوصیات کا حامل یہ بچہ تھا۔ انتہائی سلجھا ہوا، خلافت کے ساتھ گہری محبت رکھنے والا اور مجھے باقاعدگی سے یہ خط لکھا کرتا تھا۔ اس نے ہمیشہ امتحان ہوا یا جو دوسری باتیں ہوئیں ہمیشہ مجھے خط لکھا۔ اپنے احمدی ہونے پر فخر تھا اور پاکستان میں احمدی ہونا، سکول میں بھی بتانا یہ بڑی بات ہے اور یہ خطبات باقاعدہ سنا کرتا تھا۔ واقفِ نو تھا۔ کلاسز میں بھی شامل ہونے والا تھا۔ اپنی عمر کے لحاظ سے وقفِ نو کا نصاب بھی اس کو سارا یاد تھا۔ قصیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یاد کر رہا تھا۔ جماعتی چندوں میں تحریک جدید اور وقف جدید میںجو اس پر لاگو تھے ان میںباقاعدگی سے خود ہی حصہ لیتا تھا۔ نماز سینٹر میں باقاعدگی سے نماز پڑھنے جانا، باجماعت نماز کی طرف توجہ تھی۔ فجر کے بعد باقاعدگی سے تلاوت کیا کرتا تھا اور اس کے ساتھیوں نے بھی لکھا ہے کہ اس کی بڑی اچھی آواز تھی۔
ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور گھر میں جنریٹر میں آگ لگنے کی وجہ سے اس کو بھی آگ لگی اور زخمی ہوا۔ ٹھیک ہو رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے پہلے یہی بتایا کہ یہ ٹھیک ہو رہا ہے زخم مندمل ہو رہے ہیں لیکن پھر کوئی انفیکشن زیادہ بڑھ گئی۔ اس ہسپتال کی انفیکشن ہوئی یا کیا وجہ ہوئی بہرحال اس انفیکشن کی وجہ سے پھر باقی اعضاء پر بھی اثر ہونا شروع ہوا اور پھر ہسپتال میں اس کی وفات ہو گئی۔ مرحوم بچہ ہے یقینا ً اس عمر کے بچے معصوم بچے ہیںجنتی تو ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے پیاروں کی قربت میں جگہ دے ۔ اور اس کی ماں نے ہی اس کو پالا ہے۔ باپ نے تو کبھی زندگی بھر نہیں پوچھا۔علیحدہ ہو گیا تھا اور ماں اور نانا نانی اس کو پالتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور حوصلہ دے اور جو ان کے لیے عظیم صدمہ ہے اس کو برداشت کرنے کی توفیق دے اور بچے کی نانی طاہرہ بیگم جو مریم بیگم صاحبہ کی بیٹی ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا لفٹ کے حادثہ میں وہ بھی زخمی ہوئی ہیں، ہسپتال میں ہیں اللہ تعالیٰ ان کوبھی صحت و سلامتی والی زندگی عطا فرمائے اور ان کو اپنے بچوں کی آئندہ ہمیشہ خوشیاں دکھائے۔
جاہد کی جو والدہ ہیں اس کے کزن طارق علی کھوکھر کا بیٹا کہتا ہے کہ مَیں وہاں ہسپتال میں تھاجاہد کی ایک اچھی عادت یہ تھی کہ جب ہسپتال میں تھا تو بیماری کی حالت میں بھی بعض دفعہ کبھی بے ہوشی کی حالت طاری ہو جاتی تھی تو ہر وقت مجھ سے پوچھتا تھا کہ مَیں نے نماز پڑھی ہے کہ نہیں یا غنودگی ہوتی تھی اور مَیں کہتا نہیں پڑھی توفوراً لیٹے لیٹے نماز پڑھنا شروع کر دیتا تھا۔
اللہ تعالیٰ جیسا کہ مَیں نے کہا اس کے درجات بلند کرتا رہے اور ان کی ماں اور نانا نانی کو بھی صبر اور حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 13؍مارچ2020ء صفحہ 5تا9)