تکمیل اشاعت ہدایت کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تڑپ
’’ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خداتعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں تکمیل ہدایت ہو گئی تھی لیکن اُس زمانہ میں وہ وسائل موجود نہیں تھے جن سے اشاعت ہدایت کی تکمیل ہو سکے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد ثانی کے وقت اس فرض کی ادائیگی آپؐ کے غلام ِصادق علیہ الصلوٰۃ و السلام کے سپرد ہوئی۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں:
‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگرچہ تکمیل ہدایت ہوگئی جیسا کہ آیت
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ (المائدۃ:4)
اور نیز آیت
یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً ۙ فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ(البیّنۃ:3۔4)
اس پر گواہ ہے۔لیکن اس وقت تکمیل اشاعت ہدایت غیر ممکن تھی۔اور غیر زبانوں تک دین کو پہنچانے کے لئے اور پھر اس کے دلائل سمجھانے کے لئے اور پھر ان لوگوں کی ملاقات کے لئے کوئی احسن انتظام نہ تھااور تمام دیار بلاد کے تعلقات ایسے ایک دوسرے سے الگ تھے کہ گویا ہر ایک قوم یہی سمجھتی تھی کہ اُن کے ملک کے بغیر اورکوئی ملک نہیں۔ جیسا کہ ہندو بھی خیال کرتے تھے کہ کوہ ہمالیہ کے پار کوئی آبادی نہیںاور نیز سفر کے ذریعے بھی سہل اورآسان نہیں تھے اور جہاز کا چلنا بھی صرف باد شرط پر موقوف تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے تکمیل اشاعت کو ایک ایسے زمانہ پر ملتوی کر دیاجس میں قوموں کے باہم تعلقات پیدا ہو گئے اور برّی اور بحری مرکب ایسے نکل آئے جن سے بڑھ کر سہولت سوار ی کی ممکن نہیں۔اور کثرت مطابع نے تالیفات کو ایک ایسی شیرینی کی طرح بنا دیاجو دنیا کے تمام مجمع میں تقسیم ہو سکے۔ سو اس وقت حسب منطوق آیت
وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ(الجمعۃ:4)
اورنیز حسب منطوق آیت
قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعًا(الاعراف:159)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کرملک ہند میںاردو نے جو ہندوئوں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہو گئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تمام خدام حاضر ہیںاور فرض اشاعت پورا کر نے کے لئے بدل و جان سرگرم ہیں۔آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے کیونکہ آ پ کا دعویٰ ہے کہ میں تمام کافہ ناس کے لئے آیا ہوںاور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جوزمین پر رہتی ہیںقرآنی تبلیغ کر سکتے ہیںاور اشاعت کو کما ل تک پہنچا سکتے ہیںاور اتمام حجّت کے لئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیںتب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے جواب دیاکہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں۔’’
(تحفہ گولڑویہ ،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 262تا263)
جس زمانہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام مبعوث ہوئے اس وقت ہر جہت سے اسلام اور بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ و سلم پر دل خراش حملے ہو رہے تھے لیکن آپؑ نےاللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ جس تڑپ ، جوش اور جاں فشانی کے ساتھ تکمیل اشاعت ہدایت کا فرض ادا کیا اس کی نظیر ہمیں کہیں نہیں ملتی۔اس تڑپ اور جوش کا اظہار آپؑ نے نثر اور نظم دونوں میں بارہا فرمایا ہے۔اور حقیقت یہی ہے کہ آپؑ نے اپنی ساری زندگی دین مصطفیٰ ﷺکی اشاعت کے لیے قربان کر دی تھی۔آپؑ فرماتے ہیں:
جانم فدا شود برہ دین مصطفےٰ
ایں است کام دل اگر آید میسّرم
میری جان محمد مصطفےٰ ﷺ کے دین پر فدا ہو۔ یہی میرے دل کا مدعا ہے کاش یہ مقصد مجھے مل جائے۔
1885ء میں اشاعت ہدایت کے لیے آپ کی تڑپ کا اظہار اس وقت بھی ہوا جب حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی سفر حج پر جانے لگے۔ آپ علیہ السلام نے اُن کو درج ذیل دعا لکھ کر دی اور ہدایت فرمائی کہ وہ یہ دعا خاص طور پر خانہ کعبہ اور میدان عرفات میں کریں۔
‘‘اے ارحم الراحمین جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجّت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر’’۔
(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 265)
مجھ کو دے اک فوق عادت اے خدا جوش و تپش
جس سے ہوجائوں میں غم میں دیں کے اک دیوانہ وار
وہ لگادے آگ میرے دل میں ملّت کے لئے
شعلے پہنچیں جس کے ہر دم آسماںتک بے شمار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 147)
آپؑ کے اندر اشاعت ہدایت کے لیے اتنا جوش موجزن تھاکہ اس کا اندازہ کرنا انسانی فکر و فہم سے باہر ہے۔ آپؑ نے اپنی تحریرات میں اس تڑپ کا اظہار کئی بار فرمایا ۔آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘ مَیں اُس مولیٰ کریم کا اس وجہ سے بھی شکر کرتا ہوں کہ اس نے ایمانی جوش اسلام کی اشاعت میں مجھ کو اس قدر بخشا ہے کہ اگر اس راہ میں مجھے اپنی جان بھی فدا کرنی پڑے تو میرے پر یہ کام بفضلہ تعالیٰ کچھ بھاری نہیں۔اگرچہ مَیں اِس دنیا کے لوگوں سے تمام امیدیں قطع کر چکا ہوں مگر خدا تعالیٰ پر میری امیدیں نہایت قوی ہیں ۔سو میں جانتا ہوں کہ اگرچہ مَیں اکیلا ہوں مگر پھر بھی میں اکیلا نہیں وہ مولیٰ کریم میرے ساتھ ہے اور کوئی اُس سے بڑھ کر مجھ سے قریب تر نہیں اُسی کے فضل سے مجھ کو یہ عاشقانہ رُوح ملی ہے کہ دکھ اٹھا کر بھی اس کے دین کے لئے خدمت بجا لاؤں اور اسلامی مہمّات کو بشوق و صدق تمام تر انجام دوں۔ اس کام پر اُس نے آپ مجھے مامور کیا ہے اب کسی کے کہنے سے میں رُک نہیں سکتا…اور چاہتا ہوں کہ میری ساری زندگی اسی خدمت میں صرف ہو۔ اور در حقیقت خوش اور مبارک زندگی وہی زندگی ہے جو الٰہی دین کی خدمت اور اشاعت میں بسر ہو۔’’
(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 35تا36)
ایک اور موقع پرحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خداتعالیٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اُس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچا لیں۔ اگر خداتعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کرکے تبلیغ کریں اور اسی تبلیغ میں زندگی ختم کردیں خواہ مارے ہی جاویں۔’’
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 219۔ایڈیشن2003ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی حیات طیّبہ کا ہر لمحہ اشاعت ہدایت کے لیے آپؑ کی تڑپ پر صاد کرتے ہیں۔چنانچہ حضرت مولوی فتح دین صاحب دھرم کوٹی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
‘‘میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حضور اکثر حاضر ہوا کرتا تھا اور کئی مرتبہ حضور کے پاس ہی رات کو قیام کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بے قراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کونہ سے دوسرے کونہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں جیسے کہ ماہی بے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدت درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ میں اس حالت کو دیکھ کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوا اور دل میں کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ اس وقت میں پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی وہ حالت جاتی رہی۔
صبح میں نے اس واقعہ کا حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے ذکر کیا کہ رات کو میری آنکھوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہے کیا حضور کو کوئی تکلیف تھی یا درد گردہ وغیرہ کا دورہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا‘‘ میاں فتح دین! کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو جو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آرہی ہیں ان کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے اور یہ اسلام ہی کا درد ہے جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے۔’’
(سیرت المہدی، حصہ سوم صفحہ 29)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ایک بزرگ صحابی حضرت پیر سراج الحق نعمانی رضی اللہ عنہ کو بھی حضور کے قرب میں رہنے کا خوب موقع ملا ۔ اشاعت ہدایت کے حوالے سے آپؑ کے جذبے اور تڑپ کی گواہی حضرت پیر صاحب ؓنے ان الفاظ میں دی کہ
‘‘آپؑ اکثر سوتے کم تھے اور بہت کم لیٹتے تھے اور رات اور دن کا زیادہ حصہ مخالفوں کے رد اور اسلام کی خوبیاں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ثبوت رسالت و نبوت اور قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے کے دلائل اور توحید باری تعالیٰ اور ہستی باری تعالیٰ کے بارہ میں لکھنے میں گزرتا تھا اور اِس سے جو وقت بچتا تو دعاؤں میں خرچ ہوتا۔ دعاؤں کی حالت میں نے آپ کی دیکھی ہے کہ ایسے اضطراب اور ایسی بے قراری سے دعا کرتے تھے کہ آپ کی حالت متغیر ہو جاتی ۔ اور بعض وقت اسہال ہو جاتے اور دوران سر ہو جاتا۔ ’’
(تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 11)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اشاعت ہدایت کے لیے جذبہ اس قدر تھا کہ غیروں نے بھی اس کا اعتراف کیا۔ چنانچہ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لکھا:
‘‘دین اسلام کی حمایت کے لئے آپ نے ایسی کمر ہمت باندھی ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کو لندن میں دعوتِ اسلام بھیجی ہے اسی طرح روس، فرانس اور دوسرے ممالک کے بادشاہوں کو اسلام کا پیغام دیا ہے۔ آپ کی تمام تر سعی جد و جہد یہ ہے کہ تثلیث و صلیب کا عقیدہ جو سراسر کفر و الحاد ہے صفحہ ہستی سے مٹ جائے اور اس کی بجائے اسلامی توحید قائم ہو جائے۔
(تاریخ احمدی جلد اوّل صفحہ 476)
اشاعت اسلام کے لیے یہ آپؑ کی تڑپ ہی تھی کہ ہر آن آپؑ نئے نئے ذرائع کی تلاش میں رہتےتھے۔ چنانچہ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ نشر و اشاعت کے کام میں مدد دینے والی اکثر و بیشتر اہم ایجادوں کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور حیات (1835ء۔1908ء)کے گرد چکر لگاتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک ایجاد ایسی ہے جس کا وجود حضرت مسیح موعودؑ کے بین الاقوامی مشن کو فروغ دینے کے لیے از بس ضروری تھا۔ ان ایجادات میں سے ایک فونوگراف بھی ہے ۔…حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اکتوبر 1901ء میں اطلاع ہوئی کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے فونوگراف خریدا ہے تو حضورؑ جو دنیا میں اپنی آواز پہنچانے کی صبح و شام نئی نئی راہیں سوچتے تھے بہت خوش ہوئے اور فرمایا ‘‘جب وفد نصیبین جائے تو ہم اپنی ایک تقریر جو عربی زبان میں ہو اور قریباً چار گھنٹہ کے برابر ہو اس میں بند کر دیں جس میں ہمارے دعاوی اور دلائل بیان کئے جائیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جہاں جہاں یہ لوگ جائیں گے وہاں اس تقریر کو اس کے ذریعہ سنائیں۔ اس سے عام تبلیغ ہو جائے گی اور گویا ہم ہی بولیں گے اور یوں مسیحؑ کے سیاح ہونے کے معنی پورےہو جائیں گے۔ آج تک اس فونو گراف سے صرف کھیل کی طرح کام لیا گیا ہے مگر حقیقت میں خدا نے ہمارے لئے یہ ایجاد رکھی ہوئی تھی اور بہت بڑا کام اس سے نکلے گا۔’’
قادیان میں فونوگراف کا چرچا ہوا تو دوسرے لوگوں میں بھی اس کے دیکھنے کی بڑی خواہش پیدا ہوئی۔ قادیان کے آریہ سماجی لالہ شرمپت رائے کو تو اس قدر اشتیاق ہوا کہ انہوں نے براہ راست حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں بھی درخواست کر دی۔ یہ 20؍نومبر1901ء کا واقعہ ہے۔حضورؑ نے نماز ظہر کے وقت حضرت نواب صاحب سے اس کا تذکرہ فرمایا تو نواب صاحب نے اس کی بخوشی اجازت دے دی۔ ان لوگوں کا فونوگراف دیکھنا تو محض تماشائی کے رنگ میں تھا مگر حضرت مسیح موعودؑ نے اسے تبلیغ کا ایک بھاری ذریعہ بنالیا اور وہ یوں کہ حضورؑ نے چند منٹو ںمیں خاص اس تقریب کے لیے ایک لطیف اور تبلیغی نظم کہی جس کے ابتدائی دو شعر یہ تھے؎
آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے
ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے
جب تک عمل نہیں ہے دل پاک صاف سے
کم تر نہیں یہ مشغلہ بت کے طواف سے
افسوس وفد نصیبین کے التواء کی وجہ سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تقریر کے ریکارڈ کی تجویز رہ گئی اور جماعت کو قیامت تک کے لیے حضور کی آواز سے محروم ہونا پڑا۔
(تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ192۔194)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام جس عالمگیر اشاعت اسلام کے مقصدکولے کر مبعوث ہوئےاس کی تکمیل آپ نے تمام میسر ذرائع سے دن رات کو ایک کر کے کر دی تھی۔
پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریرات، ملفوظات، اشتہارات اورآپ کی حیات طیّبہ کے واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ تکمیل اشاعت ہدایت کے لیے آپؑ نےاپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرضِ منصبی جو آخری زمانہ میں مقدر تھا پورا کر دکھایا۔
کیا ہم یہ گوارا کر سکتے ہیں کہ جس پیغام کی اشاعت کے لیے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنی زندگی قربان کر دی تھی اس پیغام کی اشاعت کے لیے آرام سے بیٹھے رہیں؟ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
‘‘تکمیل اشاعت ہدایت کا کام اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کیا گیا ہے۔ وہ ہدایت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کُل انسانیت کے لئے لائے تھے اور جس کے پھیلانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے چین تھے اس کی تکمیل کا یہ زمانہ ہے جب سب ذرائع میسر ہیں۔ جس طرح یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد کیا گیا تھا اسی طرح اب یہ کام آپؑ کے ماننے والوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ ان کے سپرد ہے جو یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍نومبر 2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل2؍دسمبر2016ءصفحہ6)
اللہ تعالیٰ تمام احمدیوں کو اشاعت ہدایت میں بھر پور حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں:
‘‘مَیں جانتا ہوں کہ خداتعالیٰ میرے ساتھ ہے اگر میں پیسا جائوں اور کچلا جائوں اور ایک ذرّے سے بھی حقیر تر ہو جائوں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں تب بھی میں آخر فتحیاب ہوں گا ۔مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا ۔دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لاحاصل ہیں۔
اے نادانو اور اندھو مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جائوں گا۔ کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا۔ یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔ میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا۔ میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں ۔کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا۔دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا۔ میں اس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی اور مجھے اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو۔ ’’
(انوارالاسلام ، روحانی خزائن جلد9صفحہ 23تا24)
تصویر:
https://commons.wikimedia.org/wiki/File:EdisonPhonograph.jpg
٭…٭…٭