فرائض مستورات ( قسط نمبر 4 آخر)
از: سیدناحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
نماز کي پابند رہو
اول نماز ہے اس کی پابندی نہایت ضروری ہے۔ عام طور پر عورتوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ چھوٹی عمر میں کہتی ہیں ابھی بچپن ہے جوان ہو کر نماز پڑھیں گی جب جوان ہوتی ہیں تو بچوں کے عذر کر دیتی ہیں اور جب بوڑھی ہوجاتی ہیں تو کہتی ہیں اب تو چلا نہیں جاتا نماز کیا پڑھیں۔ گویا ان کی عمر ساری یونہی گزر جاتی ہے۔ تو اکثر عورتیں نماز پڑھنے میں بہت سست ہوتی ہیں اور اگرپڑھتی ہیں تو چند دن پڑھ کے پھر چھوڑ دیتی ہیں یا اگر پڑھتی ہیں تو اس طرح پڑھتی ہیں کہ انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کیا پڑھتی ہیں۔ جلدی جلدی رکوع اور سجدہ کر کے فارغ ہو بیٹھتی ہیں اس طرح کی نماز کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے ان کی نماز اس طرح ہوتی ہے جس طرح مرغی دانے چگتی ہے۔ آخر سوچنا چاہیے نماز کوئی ورزش نہیں ہے بلکہ خداتعالیٰ کی عبادت ہے اس لیے اسے سمجھ کر اور اچھی طرح جی لگا کر پڑھنا چاہیے۔ اور کوئی نمازسوائے ان ایام کے جن میں نہ پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے نہیں چھوڑنی چاہیے۔ کیونکہ نماز ایسی ضروری چیز ہے کہ اگر سال میں ایک دفعہ بھی جان بوجھ کر نہ پڑھی جائے تو انسان مسلمان نہیں رہتا۔ پس جب تک ہر ایک مسلمان مرد اور عورت پانچوں وقت بلاناغہ نمازیں نہیں پڑھتے وہ مسلمان نہیں ہو سکتے۔ ہاں اگر کہو آج تک ہم نے کئی نمازیں نہیں پڑھیں ان کے متعلق کیا کیا جائے تو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ خداتعالیٰ نے توبہ رکھی ہے۔ اگر آج سے پہلے تم نے جان بوجھ کر نمازیں چھوڑی ہیں تو تو بہ کر لو اور عہد کرو کہ آئندہ کوئی نماز نہ چھوڑیں گی۔ مینہ برستا ہو یا آندھی ہو، کپڑے پاک ہوں یا ناپاک، کوئی ضروری سے ضروری کام ہو یا عدم فرصت، کچھ ہو کسی صورت میں نماز نہ چھوڑنی چاہیے۔ اول تو ضروری ہے کہ کپڑے پاک و صاف ہوں لیکن اگر ایسی صورت ہو کہ پاک کپڑے تیار نہ ہوں یا پہنے ہوئے کپڑے اتارنے سے بیمار ہو جانے کا خوف ہو تو خواہ کپڑے بچہ کے پیشاب میں تر ہوں تو بھی ان کے ساتھ نماز پڑھ لینا جائز ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچہ کو خود کپڑوں پر پیشاب کر اکے اسی طرح نماز پڑھ لینی چاہیے بلکہ یہ ہے کہ اگر پاک کپڑے مہیا ہونے کی صورت نہ ہو تو انہی کے ساتھ پڑھ لی جائے ورنہ اچھی بات یہی ہے کہ کپڑوں کو صاف کر لینا چاہیے۔ بچہ کاپیشاب ہوتا ہی کتنا ہے۔ بچہ جب تک دودھ پیتا ہے روٹی نہیں کھاتا اس وقت تک شریعت نے یہ رکھا ہے کہ اس کے اوپر سے پانی بہا کر نچوڑ دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ تو خواہ کچھ ہو نماز ضرور پڑھنی چاہیے کیونکہ نماز کسی صورت میں معاف نہیں ہو سکتی۔ یہ ایمان کا ستون ہے۔ جس طرح چھت بغیر ستون کے قائم نہیں رہتی اسی طرح نماز کےبغیر ایمان قائم نہیں رہتا۔
زکوٰة ديتي رہو
نماز کےبعد دوسرا حکم زکوٰۃ کا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جس مال پر ایک سال گزر جائے اس میں سے غریبوں اور مسکینوں کی امداد کے لیے چالیسواں حصہ نکالا جائے۔ اگر اسلامی حکومت ہو تو اس کو وہ حصہ دے دیا جائے۔ اگر نہ ہو تو جو انتظام ہو اس کو دیا جائے۔ ہم احمدیوں کا ایک باقاعدہ انتظام ہے اس لیے احمدی عورتوں کو چاہیے کہ منتظمین کو زکوٰۃ کا مال دے دیا کریں۔ زیوروں کے متعلق یہ حکم ہے کہ اگر پہنے جاتے ہوں تو ان کی زکوٰۃ نہ دی جائے اور اگر ان کی بھی دی جائے تو اچھی بات ہے۔ ہاں اگر ایسے زیور ہوں جو عام طور پر نہ پہنے جاتے ہوں کبھی بیاہ شادی کے موقع پر پہن لیے جاتے ہوں ان کی زکوٰۃ دینا ضروری ہے اور جو عام طور پر پہنے جاتے ہوں ان کی زکوٰۃ دی جائے تو جائز ہے اور نہ دی جائے تو گناہ نہیں۔ ان کا گِھسنا ہی زکوٰۃ ہے۔ ہمارے ملک میں عورتوں کو زیور بنوانے کی عادت ہے اس لیے قریباً سب عورتوں پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے وہ اس کا خیال نہیں رکھتیں۔ حالانکہ یہ اتنا ضروری حکم ہے کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد جب کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ جب تک زکوٰۃ کی اونٹ باندھنے کی رسی تک نہ دیں گے میں ان سے جنگ کروں گا۔ اور یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جو زکوٰۃ نہ دے وہ مسلمان نہیں۔ تم اپنی حالت پر غور کرو کہ تم میں سے بہت سی تو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے مسلمان نہیں رہتیں اور جو اس سےبچ جاتی ہیں ان میں سے اکثر زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے مسلمان نہیں کہلا سکتیں۔
روزے رکھو
تیسرا حکم روزے کا ہے۔ اس کے متعلق حکم ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آئے تو سوائے ان دنوں کے جن میں خداتعالیٰ نے عورتوں کو روزے رکھنے سے منع کیا ہے باقی دنوں میں روزے رکھنے چاہئیں۔ اس کے متعلق مجھے زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نمازیں تو نہیں پڑھتے لیکن روزے بڑی پابندی کے ساتھ رکھتے ہیں۔ گو خداتعالیٰ کے لیے نہیں بلکہ تماشا کے طور پر رات کو اٹھتے ہیں اور روزے کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔
حج خانہ کعبہ
چوتھا حکم یہ ہے کہ اگر خدتعالیٰ کسی کو توفیق دے تو حج کرے۔ اس کے لیے کئی شرطیں ہیں۔ مثلاً مال ہو، رستہ میں امن ہو اور اگر عورت ہو تو اس کے ساتھ اس کا خاوند یا بیٹا یا بھتیجا یا ایسا ہی کوئی اَور رشتہ دار محرم جانے والا ہو۔
صدقہ و خيرات
یہ تو وہ باتیں ہیں جو ہر ایک مومن مرد اور عورت پر فرض ہیں۔ ان کے علاوہ صدقہ و خیرات ہے۔ یہ اگرچہ فرض نہیں لیکن دینا ضروری ہے۔ اپنے خاندان میں اپنے محلہ میں جو غریب اور محتاج ہو اس کو دینا چاہیے۔ ہم احمدیوں میں صدقہ کا رواج بہت کم ہو گیا ہے جس کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ احمدی جو چندہ دیتے ہیں اسی کو صدقہ سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ دین کے لیے چندہ دینا اور بات ہے اور صدقہ دینا اور بات۔ صدقہ و خیرات وہاں کے غریب اور محتاج لوگوں کا حق ہوتا ہے جہاں انسان رہے۔ اس میں مذہب کی شرط نہیں خواہ کسی مذہب کا انسان ہو اگر محتاج ہو تو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ مثلاً اگر تمہیں کوئی غریب عورت ملے تو تمہیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ چونکہ یہ ہندو ہے اس لیے اسے کچھ نہیں دینا چاہیے بلکہ اس کوبھی ضرور دینا چاہیے یہ تو خداتعالیٰ کے حکم ہیں۔
اخلاق حسنہ سيکھو
ان کےعلاوہ وہ حکم ہیں جو بندوں کو بندوں کے متعلق ہیں۔ مثلاً یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آؤ۔ کسی کی غیبت نہ کرو، چغلی نہ کرو، کسی کے مال میں خیانت نہ کرو، کسی سے بغض اور کینہ نہ رکھو۔ عورتوں میں چغلی اور غیبت کی مرض بہت پائی جاتی ہے۔ اگر کسی کے متعلق کوئی بات سن لیں تو جب تک دوسری کے سامنے بیان نہ کر لیں انہیں چین نہیں آتا۔ جو بات سنتی ہیں جھٹ دوسری جگہ بیان کر دیتی ہیں۔ حالانکہ چاہیے یہ کہ اگر کوئی کسی بھائی بہن کا نقص اور عیب بیان کرے تو اسے منع کر دیا جائے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔ تو چغلی کرنا بہت بڑا عیب ہے اور اتنا بڑا عیب ہے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ اسی کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں دو قبریں آئیں۔ آپؐ وہاں ٹھہر گئے اور فرمایا خداتعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ان قبروں کے مردے ایسے چھوٹے چھوٹے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں پڑے ہوئے ہیں کہ جن سے بآسانی بچ سکتے تھے لیکن بچے نہیں۔ ان میں سے ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے اپنے آپ کو نہیں بچاتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا۔ تو چغلی بہت بڑا عیب ہے اس میں ہرگز مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمہارے سامنے کوئی کسی کے متعلق برا کلمہ کہے تو اسے روک دو اور کہہ دو ہمیں نہ سناؤ بلکہ جس کا عیب ہے اسے جاکر سناؤ۔ پھر اگر کوئی بات سن لو تو جس کے متعلق ہو اس کو جا کر نہ سناؤ تاکہ فساد نہ ہو۔
اسی طرح کسی کی غیبت بھی نہیں کرنی چاہیے۔ کیا اپنے نقص کم ہوتے ہیں کہ دوسروں کے نقص بیان کرنے شروع کر دیئے جاتے ہیں؟ تمہیں چاہیے کہ دوسروں کے عیب نکالنے کی بجائے اپنے عیب نکالو تاکہ تمہیں کچھ فائدہ بھی ہو۔ دوسروں کے عیب نکالنے سےسوائے گناہ کے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
اپنی اصلاح کي فکر کرو
پس اگر عیب ہی نکالنے ہیں تو اپنے عیب نکالو تاکہ ان کے دور کرنے کی کوشش کر سکو۔ تم اپنے متعلق دیکھو کہ تم میں چڑچڑاپن تو نہیں پایا جاتا تم خواہ مخواہ دوسری عورتوں سے لڑائی فساد تو نہیں کرتیں۔ تمہارے اخلاق میں تو کوئی کمزوری نہیں۔ اور جب تمہیں اپنی کوئی کمزوری معلوم ہو جائے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کرو۔ تم اپنی مجلسوں میں ہی دیکھ لو ذرا ذرا سی بات پر عورتیں ایک دوسری سے اس طرح لڑتی ہیں کہ گویا انسان نہیں حیوان ایک جگہ جمع کیے ہوئے ہیں۔ پس اپنے اخلاق اور عادات درست کرو۔ جس مجلس میں جاؤ ادب اور تہذیب سے بیٹھو۔ ایک دوسری کے ساتھ محبت اور الفت سے ملو۔ نرمی اور پیار سے بات کرو۔ اگر کوئی سختی بھی کر بیٹھے تو صبر اور تحمل سے کام لو اور خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔
خاتمہ تقرير
یہ اسلام کی تعلیم ہے جو مختصر طور پر اس وقت مَیں نے تمہارے سامنے بیان کی ہے اس پر عمل کرو تامسلمان بنو۔ جو اس پر عمل نہ کرے اس کو کوئی حق نہیں ہےکہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھے۔
٭…٭…٭