قرنطینہ اور اس میں چند سبق
1931ء میں محترم مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب تبلیغ اسلام کے لیے فلسطین تشریف لے گئے۔ ان دنوں بصرہ(عراق) میں ہیضہ کی وبا پھیل گئی تھی۔ آپ کا گزر بھی چونکہ بصرہ سے ہوا اس لیے آپ کو کچھ ایام قرنطینہ میں رہنا پڑا۔ بعد میں آپ نے اس کے متعلق ایک مضمون لکھا جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
میں ہندوستان سے فلسطین کے لیے براستہ عراق اور شام آیا ہوں، اس راستہ کے لیے کراچی سے بصرہ تک جہاز پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ بصرہ سے بغداد تک ریل ہے۔ بغداد سے دمشق، بیروت سے ہوتے ہوئے بذریعہ موٹر حیفا پہنچتے ہیں۔ میں 16؍اگست کراچی سے جہاز پر سوار ہوا اور 20؍اگست کو بصرہ پہنچ گیا۔ بصرہ میں ہیضہ پھوٹ چکا تھا اس لیے بندرگاہ پر اترنے سے قبل دو ٹیکے لگوانے ضروری تھے، میں نے ایک ٹیکہ کراچی میں لگوایا تھا اور ایک جہاز میں۔ بغداد کے مسافروں کو بصرہ جانے کی اجازت نہ تھی۔ میں بندرگاہ سے سیدھا ریلوے سٹیشن پر آیا اور بغداد پہنچ گیا۔ بصرہ کا ہیضہ آئندہ سارے قرنطینہ کی بنا ٹھہرتا ہے محض اس بنا پر کہ یہ مسافر بصرہ کی ہوا کے قریب سے گذرا ہے۔ عراق حکومت نے ضروری قرار دیا ہے کہ وہ کم از کم پانچ دن بغداد میں ٹھہرے، اس کے بعد دائرۃالصحت (Health Department)کی طرف سے اجازت ملتی ہے۔ میں اپنے حالات کے ماتحت قریباً نو دن کے بعد طبی سرٹیفکیٹ لے کر روانہ ہوا لیکن جب یکم ستمبر کو دمشق پہنچا تو وہاں ایک دن کے لیے ٹھہرایا گیا اور انہوں نے امتحان کے بعد سرٹیفکیٹ دیا کہ ہیضہ کے جراثیم یا اثر نہیں ہے۔ حدود فلسطین پر پھر روک لیا گیا کہ امتحان دو دفعہ ہونا ضروری تھا، نیز وہ فرنچ حکومت کا امتحان ہے، ہم ازخود امتحان کریں گے اس لیے مجبوراً حیفا کے قرنطینہ میں ایک ہفتہ کےقریب ٹھہرا اور دو دفعہ امتحان ہوا اور طبی تصدیق کے بعد 8؍ستمبر کو منزل مقصود پر پہنچا، الحمدللہ۔
قرنطینہ کیا ہے؟ ہر حکومت کسی وبائی علاقہ کے باشندہ یا اس سے گزرنے والے کو اپنے علاقہ میں داخل کرنے سے پہلے اطمینان کرتی ہے کہ اس پر اس مرض کا تو کوئی اثر نہیں۔ دراصل اسی اطمینان کی خاطر ٹھہرانے کا نام قرنطینہ ہے اور اس جگہ کو بھی کہتے ہیں جس مقام پر اس غرض سے رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ Quarantineکو عربی میں ‘‘حجر صحی’’ اور ‘‘محجر صحی’’کہتے ہیں۔ مجھے دو مقام میں قرنطینہ میں ٹھہرنا پڑا ہے، مجھے معلوم ہے کہ اس جگہ انسان کی کیا حالت ہوتی ہے، کسی کو ملنے کی اجازت نہیں ہوتی، نہ کوئی چیز لینے کی اجازت ہوتی ہے۔ حیفا میں احباب جماعت اور مولانا جلال الدین صاحب ملنے کی خاطر آئے مگر مصافحہ کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ جنگلہ کے باہر سے ہی السلام علیکم کر کے چلے گئے۔ کھانے کا بھی انتظام اچھا نہیں ہوتا اور پھر لطف یہ کہ اس کھانے کے اخراجات بھی وصول کیے جاتے ہیں۔ قصہ مختصر قرنطینہ چند روز کے لیے قید تنہائی ہوتی ہے اور اگر اسلامی رنگ میں سمجھا جاوے تو اعتکاف کی عبادت کی تمدنی شکل ہے۔
قرنطینہ میں پہلی بات یا پہلا سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ قرنطینہ پر جو جھنڈا لگایا جاتا ہے وہ زرد رنگ کا ہوتا ہےاور یہ گویا مریضوں کے مقام کی علامت ہے، احادیث میں آیا ہے کہ مسیح موعود نازل ہوگا تو دو زرد چادروں میں ہوگا۔ علم تعبیر میں اس سے مراد دو بیماریاں ہیں لیکن قرنطینہ کے جھنڈے کا یہ رنگ ظاہر طور پر بھی اس کی تائید کرتا ہے۔ اے کاش ہمارے مخالف سمجھیں۔
دوسرا سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ انسان کو صحبت بد سے ضرور بچنا چاہیے، اب دیکھیے میں بصرہ میں داخل بھی نہ ہوا لیکن محض اس کی حدود میں سے گذرنے کا یہ نتیجہ بھگتنا پڑا، خوب فرمایاہے:
وَلَا تَرْکُنُوْا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ۔
تیسرا سبق یہ ملتا ہے کہ جب دنیاوی حکومت اپنے ملک میں داخلہ کے لیے اتنی احتیاط کرتی ہے تو روحانی اور آسمانی حکومت کے ہاں کتنی احتیاط ہوگی۔ دنیا کے انسانوں کو تو لوگ دھوکا بھی دے لیتے ہیں مگر وہ خدا جس کی انسان کی قلبی گہرائیوں تک نگاہ ہے اس کی نگاہ سے بے احتیاط کہاں تک بچ سکتا ہے۔
چوتھا سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ نئی سلطنت میں داخل ہونے سے پہلے امتحان اور ابتلاء کا ہونا ضروری ہے تاکہ پوری صفائی ہوجائے، اسی طرح مرضِ کفر کو چھوڑ کر جب انسان ایمانی سلطنت میں داخل ہونا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ ابتلاؤں سے گزرے تاکہ اس کا تنقیہ ہوجاوے اور رجس و کدورت سے پاکیزگی کا سرٹیفکیٹ حاصل کر لے، فرمایا:
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۔
پانچواں سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ یہ ابتدائی تکلیف دراصل انسان کی اپنی ذات کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو لوگ آسمانی سلسلوں کی مشکلات کو اپنی تباہی سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں بلکہ یہ مشکلات تو انسان کو کندن کرنے اور محض اس کی خیرخواہی کی بنا پر ہوتی ہیں۔
چھٹا سبق یہ ملتا ہے کہ اسلام ایک کامل مذہب ہے اور عین فطرت کے مطابق ہے کیونکہ اس نے انسان کو مجاہدات کی عادت ڈلوا کر جفاکش بنانا چاہانیز آئندہ آنے والے حوادث کے لیے مستعد بنایا ہے چنانچہ بلحاظ تنہائی اعتکاف کو اس قرنطینہ سے بہت مشابہت ہے۔
ساتواں سبق۔ جب تک امتحان کا نتیجہ نہیں نکلتا، انسان کو ڈر ہوتا ہے اور جب اس کی صحت کا سرٹیفکیٹ اسے ملتا ہے تو وہ تمام کلفت کو بھول کر شاداں و فرحاں ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس دنیا کی تکالیف رضوان الٰہی کے سرٹیفکیٹ کے بعد لاشئی محض ہوتی ہیں اورانسان خوش خوش آلام و مصائب کو یکدم فراموش کر کے جنت میں داخل ہوجاتا ہے جہاں نہ موت ہے نہ موت کا خطرہ۔ اور وہ سرٹیفکیٹ خدا تعالیٰ کی دلربا اور دلآویز آواز ہے جس کے الفاظ یہ ہوتے ہیں۔
یٰآیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔
(ماخوذ از رسالہ ’’مصباح‘‘15؍اکتوبر 1931ء)
(مرسلہ مکرم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن)