خلاصہ خطبہ جمعہ

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت خباب بن ارتؓ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

ہجرتِ مدینہ کے بعد آنحضورﷺ نے حضرت خبابؓ کی مؤاخات آزاد کردہ غلام حضرت تمیم کے ساتھ قائم فرمائی۔ آپؓ غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں شامل ہوئے۔

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 08؍ مئی 2020ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیزنےمورخہ 08؍ مئی 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم سفیر احمد صاحب کے حصے میں آئی۔ تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج مَیں ایک بدری صحابی حضرت خباب بن ارتؓ کا ذکر کروں گا۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ بنو سعد بن زید سے تھا۔ زمانہ جاہلیت میں آپؓ غلام بنا کر مکّے میں بھیج دیے گئے تھے۔ اوّلین اسلام قبول کرنے والوں میں آپؓ کا چھٹا نمبر تھا۔ اوّلین اسلام قبول کرنے والوں کو کُفّارِ مکّہ نے شدید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ اِن لوگوں کو لوہے کی زرہیں پہنا کر سورج کی شدید دھوپ میں جھلسایا گیا۔ کفّار نے اِ ن کی پیٹھ پر گرم گرم پتھر رکھےیہاں تک کہ اِن کی پیٹھ سے گوشت جاتا رہا لیکن دیگر اصحاب کی طرح حضرت خبابؓ نے بھی کسی صورت اسلام سے انکار نہ کیا۔

حضرت عمرؓ کےقبولِ اسلام سے قبل حضرت خبابؓ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی طبیعت میں سختی کا مادہ زیادہ تو تھا ہی مگر اسلام کی عداوت نے اسے اور بھی زیادہ کردیا تھا۔ وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے کہ غریب اور کم زور مسلمانوں کو تکالیف دے کر اسلام سے پھیر سکیں۔ جب تمام تکالیف کے باوجود اِن ناتواں مسلمانوں کے پایۂ ثبات میں لغزش نہ آئی تو عمر کو خیال گذرا کہ کیوں نہ اسلام کے بانی کا ہی خاتمہ کردیا جائے۔ اس خیال کے تابع تلوار تھامے آنحضرتﷺ کی تلاش میں گھر سے نکلے۔ راستے میں کسی نے پوچھا کہ عمر! کہاں جاتے ہو توجواب دیا کہ محمد(ﷺ)کا کام تمام کرنے جارہا ہوں۔ اس نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو تمہاری بہن فاطمہ اوربہنوئی سعید بن زید مسلمان ہوچکے ہیں۔ حضرت عمر ؓنےفوراًاپنی بہن کے گھر کا رُخ کیا۔ گھر کے نزدیک پہنچے تو حضرت خبابؓ کی خوش الحانی سے تلاوت کی آواز سنائی دی جس سے اُن کا غصّہ دوچند ہوگیا۔ تیزی سے گھر میں داخل ہوئے لیکن آہٹ سُن کر اُن کی بہن نے قرآنی اوراق فوراً چھپا دیے۔ عمر اندر داخل ہوئے اور للکار کر کہا کہ سنا ہے تم اپنے دین سے پِھر گئے ہو اور یہ کہہ کر اپنےبہنوئی سے لپٹ گئے۔ آپ کی بہن فاطمہ درمیان میں آئیں تو وہ بھی زخمی ہوئیں لیکن انہوں نے نہایت دلیری سے کہا کہ ہاں! ہم مسلمان ہوچکے ہیں اور تم سے اب جو ہوسکتا ہے کرلو۔ بہن کی بات سُن کر عمر نے اُن کی طرف دیکھا جو زخمی ہوچکی تھیں۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد عمرؓ نے کہا کہ اچھا مجھے وہ کلام تو دکھاؤ جو تم پڑھ رہے تھے۔ پہلے تو فاطمہ نے اس خیال سے کہ عمر اوراقِ قرآنی کو ضائع نہ کردیں انکار کیا۔ لیکن عمر کے اصرار پر کہا کہ تم نجس ہو اور قرآن کو پاکیزگی کی حالت میں ہاتھ لگانا چاہیے پس پہلے تم غسل کرلو۔ غسل کےبعد عمر نے قرآنی اوراق دیکھے تو یہ سورة طہٰ کی ابتدائی آیات تھیں۔ انہوں نے مرعوب دل کےساتھ انہیں پڑھنا شروع کیا ہر ہر لفظ دل پر اثر کرتا گیا اور عمرؓ کی سوئی ہوئی فطرت بیدار ہوگئی۔ آپؓ نے کہا کہ یہ کیسا عجیب اور پاک کلام ہے۔ یہ الفاظ سُن کر خبابؓ نے خدا کا شکر کیا اور بتایا کہ یہ سب رسول اللہﷺ کی دعا کا نتیجہ ہے کیونکہ ابھی کل ہی آپؐ یہ دعا کر رہے تھے کہ عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام یعنی ابوجہل میں سے کوئی ایک ضرور اسلام کو عطاکردے۔ عمرؓ وہاں سے سیدھے رسول اللہﷺ کی خدمت میں دارِ ارقم پہنچے جہاں کا پتا آپؓ کو خبابؓ نے بتایا تھا۔ آنحضرتﷺ نے آپؓ سے فرمایا کہ عمرکس ارادے سے آئے ہو۔ واللہ! مَیں دیکھتا ہوں کہ تم خدا کے عذاب کےلیے نہیں بنائے گئے۔ اس کے بعد عمرؓ نے اسلام قبول کرلیا۔

حضرت خبابؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے ایک دفعہ اپنی تکالیف کا اظہار کیا تو آپؐ نے فرمایا تم سے پہلے وہ لوگ گذرے ہیں کہ اُن میں سے ایک شخص کے لیے گڑھا کھودا جاتا اور اُس میں اُسے گاڑ دیا جاتا۔ پھر آرا لایا جاتا اور اس شخص کے دو ٹکڑے کردیے جاتے۔ لوہے کی کنگھیوں سے اس کا گوشت ہڈیوں سے نوچ کر الگ کردیا جاتا لیکن یہ بات اس کو دین سے نہ روک سکتی تھی۔ پھر آپؐ نے اپنے مشن کی کامیابی نیزآئندہ آنے والی آسانیوں کا نقشہ کھینچ کر اِن اصحاب کو تسلّی دی اور صبر کی تلقین فرمائی۔

حضرت خبابؓ سے مروی ہے کہ اُن کا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمہ تھا جس کا آپؓ نے تقاضاکیا تو عاص بن وائل نے کہا کہ وہ قرض تب تک ادا نہیں کرے گا جب تک خبابؓ محمد(ﷺ)کا انکار نہ کریں۔ خبابؓ نے فرمایا کہ اُس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی خواہ وہ مرکر پھر زندہ ہی کیوں نہ ہوجائے۔ عاص بن وائل نے خباب کی بات کا تمسخر کرتے ہوئے کہا کہ جب مَیں مر کر پھر اپنے مال اور اولاد کے پاس آؤں گا تب تیرا قرض ادا کردوں گا۔ اِس پر سورةمریم کی آیات 78 تا 81 نازل ہوئیں جن میں ایسا قول کہنے والوں کے لیے عذاب کی وعید ہے۔

حضرت خبابؓ لوہار تھے اور تلواریں بنایا کرتے تھے رسول اللہﷺ اِن سے بہت الفت رکھتے اور ان کے پاس تشریف لےجایا کرتے۔ اُن کی مالکہ کو عِلْم ہوا تو اس بدبخت عورت نے آپؓ کے سر پر گرم گرم لوہا رکھ کر انہیں اذیت دینا شروع کردی۔ جب یہ بات آپؐ کو معلوم ہوئی تو آپؐ نے دعا کی جس کے نتیجے میں اُس عورت کے سر میں ایسی بیماری ہوئی کہ اسے سر پر داغ لگوانےپڑے چنانچہ وہ حضرت خبابؓ سے ہی اپنے سر پر گرم لوہا لگواتی تھی۔

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت خبابؓ کوپہنچنے والے مصائب کے متعلق اُن سے پوچھا ۔ کفّارِ مکّہ کی ایذارسانیوں کو یاد کرتےہوئے آپؓ نے فرمایا کہ ایک دفعہ لوگوں نے آگ جلائی اور اُس آگ میں مجھے ڈال دیا۔ ایک شخص میرے سینےپر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا ۔ پس میری کمر تھی کہ جس نےاس آگ کو ٹھنڈا کیا۔ جب آپؓ نے کمر سے کپڑا اٹھایا تو وہ برص کی طرح سفید تھی۔

حضورِانور نے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے بعض اقتباس پیش فرمائے جن میں حضرت خباب کی اِن تکالیف کا درد بھرا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ خبابؓ کی کمر ننگی ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ پیٹھ کا چمڑا انسانوں جیسا نہیں بلکہ جانوروں جیسا ہے تو وہ گھبرا گئے۔ جب خبابؓ سے دریافت کیا تو آپؓ ہنسے اور فرمایا کہ یہ یادگار ہے اُس وقت کی جب ہم نو مسلم غلاموں کو عرب کے لوگ مکّہ کی گلیوں میں سخت اورکھردرے پتھروں پر گھسیٹا کرتے تھے۔

جب اسلام کی ترقی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اِن قربانیوں کا صلہ کس طرح دیا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک موقعے پر فرماتے ہیں۔ ایک دفعہ اپنے عہدِ خلافت میں حضرت عمرؓ مکّہ تشریف لائے تو شہرکے بڑے بڑے رؤسا ان سے ملنے کے لیے آئے۔ ان کا خیال تھا کہ اب وہ اپنی گم شدہ عزت کو دوبارہ حاصل کرسکیں گے۔ ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ حضرت بلالؓ آگئے اور اس کے بعد یکےبعددیگرے اوّل الایمان غلام آتے چلے گئے۔ یہ سب وہ لوگ تھے جو اِن رؤسا یاان کے آباء کے غلام رہ چکے تھے۔ حضرت عمرؓ نے پرانے ایمان لانے والے ہر غلام کی آمد پر ان کااستقبال کیا، اپنے قریب جگہ دی اور اُن رؤسا کو پیچھے ہٹاتے گئے۔ یہاں تک کہ وہ جوتیوں تک جا پہنچے اس بات سے اُن کے دل کو سخت چوٹ لگی۔ وہ سب رؤسا کمرے سے باہر نکل آئے اور آپس میں شکوہ کرنے لگے اُن ہی میں سے ایک نوجوان نے کہا کہ اگر تم سوچو تو یہ ہمارے باپ دادا کا قصور تھا جس کی آج ہمیں سزا ملی۔ خدا نے جب اپنا رسول مبعوث فرمایا تو ہمارے باپ دادا نے اُس کی مخالفت کی اور ان غلاموں نے اُس کو قبول کیا اور ہر طرح کی تکالیف برداشت کیں۔

یہ نوجوان رؤسا حضرت عمرؓ کے پاس دوبارہ آئے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا معاف کرنا کہ مَیں مجبور تھا یہ لوگ شاید تمہارے غلام ہوں گے لیکن یہ رسول اللہﷺ کی مجلس میں معزز لوگ تھے۔ اُن نوجوان رؤسا نے کہا ہم جانتے ہیں یہ ہمارا ہی قصور تھا اور پھر انہوں نے اس کے کفارے کے متعلق دریافت کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور شمال کی طرف اشارہ کردیا جہاں اسلامی افواج جنگوں میں مشغول تھیں۔ چنانچہ وہ رئیس زادے وہاں سے اٹھے اورجنگوں میں شامل ہونے کےلیے چل پڑے اور اُن میں سے ایک بھی زندہ واپس نہیں آیا یوں انہوں نے اپنے خاندانوں کے نام پر سے داغِ ذلّت مٹادیا۔

ہجرتِ مدینہ کے بعد آنحضورﷺ نے حضرت خبابؓ کی مؤاخات آزاد کردہ غلام حضرت تمیم کے ساتھ قائم فرمائی۔ آپؓ غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ حضرت خباب طویل اور شدید علالت میں مبتلا رہے اور 37 ہجری میں 73 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت علیؓ جب جنگِ صفین سے واپس لوٹے تو حضرت خبابؓ کی قبر پر دعا کی کہ اللہ خبابؓ پر رحم فرمائے وہ اپنی خوشی سے اسلام لائے اور ایک مجاہد کی سی زندگی گذاری۔ جسمانی طور پر وہ آزمائے گئےاور جو شخص نیک کام کرے اللہ اُس کا اجر ضائع نہیں کرتا۔

…٭…٭…٭…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button