رمضان۔ دعاؤں کا مہینہ
یہ دنیا دارالمحن اور دارالابتلا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وقت کا اگلا لمحہ اپنی اوٹ میں ا س کے لیے کیا کیا دکھ ، مسائل ، پریشانیاں اور حوادث چھپائے ہوئے ہے ۔اوراگر بعض اوقات کسی حد تک انسان کو مستقبل کے خطرات اور مصائب و آلام کا اندازہ ہو بھی جائے تو کوئی شخص یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ اپنی قوت اور اپنی تدبیروں سے ان خطرات کو ٹلا سکے یا ان مصائب سے محفوظ رہ سکے ۔ انسان کی حیثیت ہی کیاہے ؟ اس کا کچھ بھی تو اس کااپنا نہیں۔ اس کی فکرونظر کی صلاحیتیں ، ا س کی تمام استعدادیں ، تمام قویٰ سب کچھ خداتعالیٰ کی عطا ہے۔ وہ جب چاہے اس کی صلاحیتوں کو سلب کر سکتاہے۔ اس کی قوتوں کو مفلوج کر سکتاہے ۔ پھر بہت سے طبعی حوادث اور آسمانی آفات ایسی ہوتی ہیں کہ ایک انسان توکیا سارے انسان مل کر بھی انہیں نہیں ٹلا سکتے۔ غرضیکہ آپ جتنا اپنے وجود پر غورکریں اتنا ہی اپنی بے حیثیتی اور خداتعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت اور کبریائی کااحساس اورعرفان نصیب ہوتا چلا جاتاہے اورانسان کے لیے کسی قسم کے کبر یا نخوت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام صاحب عرفان لوگ ہمیشہ خداتعالیٰ سے مدد اور اس کی حفاظت کے طالب رہتے ہیں اور ان میں سب سے بڑھ کر صاحبِ عرفان ہمارے سید و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ تھے۔ چنانچہ آپ ؐکی حیات طیبہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کے حضور دعائوں میں وقف تھا۔ اورآپ بڑی کثرت سے دعائیں مانگا کرتے تھے ۔
عام طورپر خیال کیا جاتاہے کہ دعا کا تعلق نزول بلا سے ہے ۔ جب کوئی مصیبت آ پکڑتی ہے تو لوگ دعائوں اور صدقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں حالانکہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کا محتاج ہے۔ حدیث شریف میں آیاہے کہ ’’مصیبت کے وارد ہونے سے پہلے جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ کیونکہ خوف و خطر میں مبتلا ہونے کے وقت ہر شخص دعا اور رجوع الی اللہ کر سکتاہے ۔ سعادت مندی یہی ہے کہ امن کے وقت دعا کی جائے ‘‘۔
اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’انسان کو چاہئے کہ کسی مشکل میں پڑنے کے بغیر بھی دعا کرتارہے کیونکہ اسے کیا معلوم کہ خداتعالیٰ کے کیا ارادے ہیں اور کل کیا ہونے والاہے۔پس پہلے سے دعا کروتا بچائے جائو۔ بعض وقت بلا اس طورپر آتی ہے کہ انسان دعا کی مہلت ہی نہیں پاتا ۔پس اگردعا کر رکھی ہو تو اس آڑے وقت میں کام آتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلدنمبر 10 صفحہ 122-123۔ ایڈیشن 1985ء )
قرآن مجید میں جہاں روزوں کی فرضیت اور شہر رمضان کی فضیلت اور برکات کا ذکر فرمایاگیاہے وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے قرب کی بشارت دیتے ہوئے یہ اعلان فرمایاہے کہ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتاہوں اور اس کا جواب دیتاہوں۔ اگر چہ اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ سے ہی ’’سَمِیْعُ الدُّعَاء‘‘اورمُجِیْبُ الدَّعْوَات ہے لیکن رمضان مبارک اور روزوں کے بیان میں قبولیت دعا کا ذکر ایک خاص مضمون پیدا کرتاہے اور روزوں کے ساتھ قبولیت دعا کے گہرے تعلق پر روشنی ڈالتاہے۔
اس جگہ ایک اور اہم نکتہ بھی پیش نظررکھناضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں خصوصیت سے آنحضرت ﷺسے مخاطب ہوتے ہوئے یہ خبر دی کہ ’’اِذَا سَاَ لَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْبٌ۔اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ‘‘۔جب تجھ سے میرے بندے سوال کریں تو مَیں یقینا قریب ہوں۔مَیں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتاہوں۔ گویاآنحضرت ﷺ کے وسیلہ کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کیونکہ آپ ؐکا وجود مبارک اور آپؐ کی زندگی کالمحہ لمحہ اس بات پر شاہد تھاکہ خداتعالیٰ کے ساتھ آپ کا زندہ اور کامل تعلق ہے۔ اور وہ ہمیشہ آپ ؐکی دعائوں کوقبول فرماتاہے ۔ یہ آپ ؐکی دعائوں کا ہی اعجاز تھاکہ صدیوں کے روحانی مردے زندہ ہوگئے اور گونگوں اوربہروں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔ پس ہمیں یہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ اگرآپ چاہتے ہیں کہ آپ کی دعائیں بھی قبول ہوں اور خدا تعالیٰ آپ کی فریادوں کو سُنے اوراپنے افضال و انوار نازل فرمائے اور آپ کا معین و مددگار ہو تواس کے لیے ضروری ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے وہ گُر سیکھیں جو خدا کے ہاں شرف قبولیت پاتے ہیں۔ آپ ؐکی پیروی اور اطاعت کے طفیل ان فریادوں ، ان التجائوں پر خداتعالیٰ کی نظر کرم ہوگی اور آپ کی دعائوں کو قوت پرواز عطا ہوگی اور ملاء اعلیٰ میں خدائے محسن و منان کے ہاں مقبول ہوکر آپ کی دنیا و عاقبت کے سنورنے کے سامان ہوں گے۔
حضر ت نبی اکرم ﷺ کی پاک دعائیں کتب احادیث میں محفوظ ہیں۔ ذیل میں ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتاہے۔ امیدہے کہ افراد جماعت رمضان کے ان نہایت مبارک ایام میں خصوصیت سے یہ دعائیں کرکے ان سے وابستہ برکات کو حاصل کرنے کی سعی کریں گے ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کی کہ یا رسول اللہ! مجھے کچھ ایسے کلمات بتائیں جو مَیں صبح کے وقت اورشام کے وقت دہرایا کروں۔ آپ ﷺنے فرمایا تم یہ کہا کرو:
’’اے اللہ !آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ، غیب اور حاضر کے جاننے والے ، ہر چیز کے ربّ اور اس کے مالک،مَیں گواہی دیتاہوں کہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ مَیں اپنے نفس کے شر سے اور شیطان اوراس کے ساتھیوں کے شر سے تیری پناہ میں آتاہوں۔‘‘
حضور اکرم ﷺ نے فرمایاکہ تم یہ کلمات صبح بھی پڑھا کرو اور شام کے وقت بھی اور اس وقت بھی جب تم اپنے بستر پر جائو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺدُعا کے لیے ایسے کلمات پسند فرمایا کرتے تھے جو جامع ہوں اور انسان کی تمام حاجات و مہمات پر حاوی ہوں۔ چنانچہ ایک ایسی ہی دُعا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ۔ آپ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دعاکثرت سے یہ کیا کرتے تھے کہ’’ اَللّٰھُمَّ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘۔ اے اللہ توُ ہمیں اس دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ چنانچہ حضرت انس ؓکا یہ طریق تھا کہ آ پ جب بھی کوئی دعا کرتے تو یہ دُعا بھی ضرور کیاکرتے تھے ۔ اس دُعا میں لفظ حَسَنَۃ بہت ہی پیارا ہے اورجامع لفظ ہے جو ہرخیر کے عطا ہونے اور شر سے محفوظ رہنے کے معنے بھی رکھتاہے۔
حضرت طارق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! جب مَیں اپنے ربّ سے دُعا کروں تو کیا عرض کیا کروں؟ حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ تم یہ کہا کرو کہ اے اللہ ! تُو میر ی مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے عافیت بخش اور مجھے رزق عطا فرما۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا :’’ یہ دُعا تیرے لیے دنیا و آخرت کو جمع کر دے گی۔‘‘
رسول اللہ ﷺکے چچا حضر ت ابوالفضل عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺسے عرض کی کہ مجھے کوئی بات سکھائیں جو مَیں اللہ سے طلب کیاکروں۔ آپ ؐ نے فرمایا :’’سَلُوْا اللّٰہَ الْعَافِیَۃ‘‘ ۔ اللہ سے عافیت طلب کیا کریں۔ حضر ت عباس ؓکہتے ہیں کہ مَیں کچھ دنوں کے بعد پھر حاضر ہوا اور دوبارہ یہی درخواست کی تو آپ ؐنے فرمایا :’’اے عباس!اے رسول اللہ کے چچا! آپ اللہ سے دنیا و آخر ت میں عافیت مانگا کریں ۔‘‘
سُبحان اللہ !حضور اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کی کیسی پاکیزہ تربیت فرمائی تھی ۔ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی کیسی محبت راسخ کردی تھی اور وہ کس طرح حضور اکرم ؐسے دُعائوں کے ڈھنگ سیکھا کرتے تھے اور معلوم کیاکرتے تھے تاوہ بھی ان دُعائوں کو دہرایا کریں۔ صحابہ رسول کا یہ جذبہ اور یہ پاکیزہ اُسوہ بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔
حضرت شھر بن حوشب ؓبیان کرتے ہیں کہ مَیں نے ام المومنین حضرت امِّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی کہ اے امّ المومنین! جب رسول اللہ ﷺآپ کے پاس آیا کرتے تھے تو زیادہ ترکونسی دعا پڑھا کرتے تھے ۔ آپ ؓنے فرمایا کہ آپ ؐ اکثر یہ دُعا کیاکرتے تھے :’’یٰٓا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دِیْنِکَ‘‘۔ اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثبات عطا فرما۔
آج کے مادہ پرست دور میں جبکہ معاشرہ میں ہر طرف شیطانی خیالات کا زور ہے اورباطل قوتیں کئی انداز میں لوگوں کو خداکے دین سے برگشتہ کرنے کے لئے زور مار رہی ہیں یہ دُعا غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’اے اللہ !دلوں کو پھیرنے والے تُوہمارے دلوں کو اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف پھیر دے۔
حضور اکرم ﷺ کی پاکیزہ دعائوں کا ذکر کتب احادیث میں بکثرت موجود ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ احباب جماعت حتی المقدور ان دُعائوں کو حفظ کر کے انہیں مبارک کلمات میں خداتعالیٰ کی جناب سے خیر وبرکت کے طالب ہوتے ہوں گے۔ لیکن اس وقت رسول اللہ ﷺکی رحمت کے ایک اور خاص پہلو کا تذکرہ مقصودہے۔آپؐ کی شفقتیں بے انتہا ہیں اورکسی کے بس میں نہیں کہ ان کا احاطہ کرسکے ۔ دیکھیں آپ کی نظر اُمّت کے ان کمزوروں کی طرف کیسے رحمت سے پڑتی ہے جو خواہش کے باوجود ان تمام دعائوں کو یاد نہیں کر سکتے۔
حضر ت ابوامامہ ؓسے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بڑی کثرت سے دُعائیں کیاکرتے تھے اور ہمارے لیے ممکن نہیں تھاکہ ان سب دعائوں کو یاد رکھ سکتے ۔ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ !آپ نے بہت سی دعائیں کی ہیں ہم انہیں حفظ نہیں کرسکتے ۔تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایک ایسی دعا نہ بتائوں جو ان سب دعائوں پر حاوی ہے؟ تم یہ کہا کروکہ:
’’ اے اللہ! مَیں تجھ سے ہر وہ خیر طلب کرتاہوں جو تجھ سے تیرے نبی محمد ﷺنے طلب کی تھی اور ہر اس شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس شر سے بچنے کے لیے تیرے نبی محمد ﷺ نے تیری پناہ طلب کی تھی۔ اور تو ہی ہے جس سے مد د طلب کی جاتی ہے اور بلاغ تیرا ہی کام ہے اور اللہ کے سوا کسی کو کوئی طاقت اور غلبہ حاصل نہیں‘‘ ۔
سبحان اللہ ! ہمارے محبوب آقا ،رحمۃ للعالمین ﷺ کے ہم پر کس قدر احسانات ہیں ۔ امت پر آپ کی کتنی شفقتیں ہیں ۔ آپ ؐ نے کیسی جامع دعا ہمیں سکھا دی۔
اے اللہ! تیرے پیارے رسول نے یہ دعائیں مانگیں ہم تیرے ادنیٰ بندے اور تیرے رسول ؐکے ادنیٰ غلام ہیں ۔ ہمیں بھی یہ دعائیں کرنے کی توفیق بخش اور اپنے فضل اوررحم سے ہمارے حق میں ان دعائوں کافیض جاری فرما کہ تو دعائوں کو بہت سننے والاہے۔
٭…٭…٭