ایک احمدی کا سب سے بڑا فریضہ……
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ 30؍ مئی 2014ء میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کا ایک احسان اور بہت بڑا احسان جس نے جماعت احمدیہ کو ایک اکائی میں پرویا ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد جاری نظام خلافت ہے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ کے گزشتہ 106 سال اس بات کے گواہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد جیسا کہ آپ علیہ السلام نے رسالہ الوصیۃ میں بیان فرمایا تھا افراد جماعت نے کامل اطاعت کے ساتھ نظام خلافت کو قبول کیا۔ دنیا میں بسنے والا ہر احمدی چاہے وہ کسی قوم یا ملک سے تعلق رکھتا ہے اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کے ساتھ جو خلافت علی منہاج النبوۃ کا سلسلہ شروع ہونا تھا اس سے جُڑ کر رہنا اس کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔ مَیںان لوگ کی بات نہیں کر رہا جو شروع میں علیحدہ ہو گئے اور ان کی اب حیثیت بھی کوئی نہیں۔ جو جماعت احمدیہ کی اکثریت ہے، وہ جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام و مرتبہ کو سمجھتی ہے وہ بہر حال اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ خلافت سے جڑ کر رہنا ہی اصل چیز ہے۔ اسی سے جماعت کی اکائی ہے۔ اسی سے جماعت کی ترقی ہے۔ اسی سے دشمنان احمدیت اور اسلام کے حملوں کے جواب کی طاقت ہم میں پیدا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اب اسلام کی اس نشأۃ ثانیہ میں خلافت کے نظام سے وابستہ ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف زبانی ایمان کا اعلان اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل کرنے والا نہیں بنا دیتا بلکہ آیت استخلاف میں جہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں میں خلافت کا وعدہ فرمایا ہے، ان کے خوف کو امن میں بدلنے کی خوشخبری دی ہے،خلافت سے وابستہ رہنے والوں کو تمکنت عطا فرمانے کا اعلان فرمایا ہے وہاں ان انعامات کا صرف ان لوگوں کو مورد ٹھہرایا ہے جو عبادتوں اور دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہوں اور اس مقصد کے لئے قربانیاں کرنے والے ہوں کہ خدا کی توحید دنیا میں قائم کرنی ہے۔پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہنے والے تو بہت سے ہوں گے لیکن حقیقی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنے والے وہی ہیں جو ہر حالت میں صرف خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتے ہیں۔ غیر اللہ کی طرف اُن کی نظر نہیں ہوتی۔ پس ہر یوم خلافت جو ہم مناتے ہیں، ہمیں اپنی دعاؤں اور عبادتوں اور توحید پر قائم رہنے اور توحید کو پھیلانے کے معیاروں کو ماپنے کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے۔ ورنہ اگر یہ نہیں، اگر ہمارے معیار اللہ تعالیٰ سے تعلق میں پہلے سے بلند نہیں ہو رہے تو جلسے، تقریریں، علمی باتیں اور خوشیاں منانا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ پس اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دعاؤں کی طرف ہماری توجہ ہو گی، توحید کی حقیقت کو سمجھنے کی طرف ہماری نظر ہو گی تو ہم میں سے ہر ایک ان فضلوں کا وارث بنے گا جس کا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘
(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 20؍ جون 2014ء صفحہ 5-6)
حضور پُر نور ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ 25؍ مئی 2018ء میں ممبران جماعت احمدیہ عالمگیر کو اس بابرکت نظامِ خلافت کے استحکام اور اس کی برکات سے فیض یاب ہونے کے لیے ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اگر جماعتی ترقی کو ہمیشہ قائم رکھنا ہے، خلافت کے نظام کے دائمی رہنے کے لئے کوشش کرنی ہے تو پھر جماعت کے اندر وہ نمونے بھی مستقل مزاجی سے قائم رکھنے پڑنے ہیں ۔ تبھی وہ ترقیات بھی ملیں گی جو پہلے ملتی رہی ہیں ۔
پس … ہمیں اپنی عبادتوں کے معیار بھی اونچے کرنے ہوں گے۔ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کرنی ہو گی۔ اپنے ہر قول و فعل کو ہر قسم کے شرک سے کلیۃً پاک کرنا ہو گا۔ اپنے اموال کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہو گا۔ اور خلافت سے وفا اور اطاعت کے معیاروں کی بھی ہر وقت حفاظت کرنی ہو گی تبھی ہم خلافت کے انعام اور اس کے ساتھ رکھی ہوئی اللہ تعالیٰ کی برکات سے فیض پا سکتے ہیں اور تاقیامت رہنے والی خلافت سے جُڑے رہ سکتے ہیں اور اپنی نسلوں کو ان کے ساتھ جڑا رکھنے والا بن سکتے ہیں ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دائمی خلافت کی خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں ۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔
جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے۔ وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بَلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسّم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اَور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305-306)
پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ انعام دیا اور گزشتہ تقریباً 110 سال سے ہم اللہ تعالیٰ کے اس فضل کے نظارے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کو دیکھ رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آیا ہے اس بات کی توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ کی جو ہدایات ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے خلافت کی برکات سے ہمیشہ فیض پاتا چلا جائے۔‘‘ (آمین)
(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 15؍ جون 2018ءصفحہ9)
٭…٭…٭