کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد کو نہیں آئے گا
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسٹر ایل من سیکرٹری لیگ آف نیشنز سے ملاقات کی اور انہیں متنبہ کیا کہ لیگ آف نیشنز اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کرپائے گی اگر اس کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر نہیں ہوگی
انیسویں صدی امت مسلمہ کے لیے ہولناک چیلنج لے کر آئی۔ قوموں کی تاریخ میں سیاسی اقتدار تو آنی جانی چیز ہے۔ لیکن اصل چیلنج مادیت کا طوفانِ تندو تیز تھا جو کہ چراغِ مصطفویٰؐ سے سرگرم ستیزتھا۔ اور چشم مسلم ورطۂ حیرت میں گم تفسیرحَدَبٍ یَنْسِلُوْن دیکھ رہی تھی ۔مادیت کے علمبردار اپنے زعم میں یہ سمجھتے تھے۔ بقول گلائیڈسٹون برطانوی وزیر اعظم کہ اگر آسمان بھی گرا تو اپنی سنگینوں سے تھام لیں گے۔ ایسے عالم میں جب عقل و سائنس کو ہی مسئلہ کے حل کی کلید سمجھا جارہا تھا اور کوئی بھی اس فلاسفی کا قائل نہیں تھا؎
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
لہٰذا اہل مشرق توسرگشتہ خمار رسوم وقیود تھے اور اہل مغرب مذہب کو محض دل کو خوش رکھنے کا ایک خیال سمجھتے تھے۔ لیکن سائنس جو ستاروں کی گزرگاہوں کا سراغ لگا رہی تھی کچھ چنگاریاں بھی ساتھ لے آئی۔ ڈارون نے نیچرل سلیکشن اور Survival Of the Fittestکا اصول پیش کیا جس کے مطابق جانوروں کی بعض Speciesبعض Speciesکے مقابلہ میں زیادہ باصلاحیت ہوتی ہیں۔ اس اصول کو جب انسانوں پر لاگو کیا گیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ بعض قومیں بعض قوموں کے مقابلے میں زیادہ باصلاحیت اور بہتر استعداد رکھتی ہیں لہٰذا اُن کے حقوق زیادہ ہیں۔ اس طرح بعض قوموں کو بعض قوموں کے استحصال کا جواز مل گیا۔
ایسے عالم میں جب کوئی دم مارنے کی مجال نہیں رکھتا تھااور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ قادیان کے گوشوں سے ایک شخص جس کا دل عشقِ مصطفیٰؐ سے لبریزاور اس کی آنکھ مدینہ و نجف کے سرمہ سے روشن تھی اسلام کی ابدی سچائیوں کے دفاع میں نکلا جہاںکسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں تھی۔ آپؑ نے1907ء میں دنیا کو اس تباہی سے خبردار کردیا جو ناانصافی کے تصورات کی وجہ سے دنیا پہ آنے والی تھی۔ آپؑ نے فرمایا:
’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 269)
اس کے سات سال بعددنیا پہ جنگ عظیم اوّل کی صورت میں ایسی تباہی آئی جس کی مثال ماضی میں ملنی محال تھی۔ تہذیب کی کشتی تاریخ کے سمندر میں پانچ یا چھ ہزار سال کا فاصلہ طے کرآئی ہے اور اب یہ چٹانوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپؑ کے خلفاء کے ذریعے دنیا کو بار بار انتباہ کیا گیا۔ اگر دنیا بین الاقوامی تعلقات کے سلسلہ میں اسلام کے مبنی برانصاف اصولوں پر عمل نہیں کرتی تو دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔
1924ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ لندن تشریف لائے۔ اُس وقت سیاسی دنیا کے ارباب بست و کشاد لیگ آف نیشنز کی تشکیل دے رہے تھے تاکہ آئندہ جنگ کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسٹر ایل من سیکرٹری لیگ آف نیشنز سے ملاقات کی اور انہیں متنبہ کیا کہ لیگ آف نیشنز اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کرپائے گی اگر اس کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر نہیں ہوگی۔
(The Muslim Times, April, 30, 1936)
لیکن لیگ آف نیشنز کے مدارالمہام نے اس نصیحت پر کان نہیں دھرا اور دنیا کو اس کی قیمت دوسری جنگ عظیم کی شکل میں چکانی پڑی۔ وقتاً فوقتاً خلفائے احمدیت دنیا کو خبردار کرتے رہے ہیں کہ اگر بڑی طاقتیں انصاف کا دامن نہیں پکڑتیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے کمزور قوموں کے استحصال سے باز نہیں آتیں تو دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکے گا۔
آج کل دنیا کورونا کے حملے کی وجہ سے ایک نازک دَور سے گزر رہی ہے۔ معاشی لحاظ سے دنیا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں اس کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دے رہی ہیں۔ امریکہ اور چین دو بدو ہوتے نظر آتے ہیں۔ دنیا کے ورلڈ آرڈر میں تبدیلیاں ہوتی نظر آتی ہیں۔ اگر اس وقت دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے تنگ دائرے سے نکل کر ایک گلوبل سوچ نہیں اپناتیں اور ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرا کر اپنے مفادات کے حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو دنیا کے امن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’…وبا کی وجہ سےمعاشی حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں۔ جب ایسے معاشی حالات آتے ہیں جیسے آج کل ہیں تو پھر جنگوں کے امکان بھی بڑھ جاتے ہیں۔ … اور پھر دنیا دار حکومتیں اپنے مفادات کے حل دنیاوی حیلوں سے تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اپنے عوام کی توجہ بٹانے کے لیے ایسی باتیں کرتی ہیں جو پھر مزید مشکلات میں ان کو ڈالنے والی ہوں۔ پھر مزید تباہی میں یہ لوگ چلے جاتے ہیں… پس اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں کو بھی عقل دے کہ وہ بھی عقل سے کام لیں اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے دنیا میں مزید فساد پیدا ہو اور دنیا میں مزید تباہی آئے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍اپریل 2020ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍مئی2020ءصفحہ9)
گذشتہ ڈیڑھ صدی کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ انتباہ اپنے ساتھ واقعاتی شہادتیں رکھتے ہیں۔ اگر دنیا نے اس نصیحت پہ کان نہ دھرا تو پھر کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد کو نہیں آئے گا۔