حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا عشق قرآن
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل مولانا حکیم نور الدین ؓایک بہت بڑے عالم دین اور عاشق قرآن تھے۔ آپ نے ساری عمر مطالعہ کتب اور قرآن شریف پر غوروفکر میں گزاردی۔ آپ جہاں بھی رہے آپ نے قرآن شریف کے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر 1893ء میں قادیان میں مستقل رہائش اختیار کی تو قادیان میں بھی درس القرآن کا آغاز فرمایا۔ جس میں قادیان سے باہر سے آنے والے احمدی دوست اور غیر از جماعت احباب بھی شامل ہوتے۔ اگر ضرورت سے کسی جگہ چند یوم کےلیے تشریف لے گئے تو وہاں بھی درس القرآن کا سلسلہ جاری رہتا۔ غرضیکہ آپ ساری عمر قرآن شریف پڑھنے اور پڑھانے میں مصروف رہے۔ آپ کی تفسیر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست فیض یافتہ مفسر قرآن کی تفسیر ہےجس میں حضرت مولانا حکیم نورالدینؓ نے نہایت پُر معارف نکات بیان فرمائے ہیں اور مخالفین اسلام کو اپنے الزامی جوابات سے ساکت کیا ہے اور اپنے عشق قرآن سے احباب جماعت کے دلوں میں قرآن شریف کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لائے ہوئے علم الکلام سے روشناس کیا ہےاور سادہ اور آسان زبان میں بیان کیا ہے۔ ذیل میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکے عشق قرآن کے چند واقعات پیش خدمت ہیں۔
قرآن شریف سیکھنے کا طریق
’’بارہا یہ بات میرے دل میں پیدا ہوتی ہے اور جوش اُٹھتا ہے کہ لوگ اس ارشاد الٰہی پر کیوں عمل نہیں کرتے ؟ تمہیں فخر ہے کہ قرآن فہمی ہم میں ہے۔ مگر یہ فخر جائز اس وقت ہوگا کہ تم ایک بار اس قرآن کو دستور العمل بنانے کے واسطے سارا پڑھ لو۔
لوگ مجھ سے پوچھا کرتے ہیں کہ قرآن شریف کیونکر آسکتا ہے۔ میں نے بارہا اس کے متعلق بتایاہے کہ اوّل تقویٰ اختیار کرو۔ پھر مجاہدہ کرو اور پھر ایک بار خود قرآن شریف کو دستورالعمل بنانے کے واسطے پڑھ جاؤ۔ جو مشکلات آئیں ان کو نوٹ کرلو۔ پھر دوسری مرتبہ اپنے گھر والوں کو سناؤ۔ اس وقت مشکلات باقی رہ جائیں ان کو نوٹ کرو۔ اس کے بعد تیسری مرتبہ اپنے دوستوں کو سناؤ۔ چوتھی مرتبہ غیروں کے ساتھ پڑھو۔ میں یقین کرتا ہوں اور اپنے تجربے سے کہتا ہوں کہ پھر کوئی مشکل مقام نہ رہ جائے گا۔ خدا تعالیٰ خود مدد کرے گا۔ لیکن غرض ہو اپنی اصلاح اور خدا تعالیٰ کے دین کی تائید۔ کوئی اور غرض درمیان نہ ہو۔ بڑی ضرورت عمل درآمد کی ہے۔‘‘
( حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 315)
قرآن مجید کے مطالعہ سے اکتاہٹ نہیں ہوتی
’’مَیں نے دُنیا کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور بہت ہی پڑھی ہیں مگر ایسی کتاب دُنیا کی دِلرُبا راحت بخش، لذّت دینے والی، جس کا نتیجہ دُکھ نہ ہو نہیں دیکھی جس کو بار بار پڑھتے ہوئے، مطالعہ کرتے ہوئے اور اس پر فِکر کرنے سے جی نہ اُکتائے، طبیعت نہ بھر جائے اور یا بَد خُو دِل اُکتا جائے اور اسے چھوڑ نہ دینا پڑا ہو۔ مَیں پھر تم کو یقین دلاتا ہوں کہ میری عمر، میری مطالعہ پسند طبیعت، کتابوں کا شوق اِس امر کو ایک بصیرت اور کافی تجربہ کی بنا پر کہنے کے لیے جرأت دلاتے ہیں کہ ہرگز ہرگز کوئی کتاب ایسی موجود نہیں ہے اگر ہے تو وہ ایک ہی کتاب ہے۔ وہ کونسی کتاب؟ ذٰلک الکتب لا ریب فیہ کیسا پیارا نام ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے سوا کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ اس کو جتنی مرتبہ پڑھو جس قدر پڑھو اور جتنا اس پر غور کرو اسی قدر لُطف اور راحت بڑھتی جاوے گی طبیعت اُکتانے کے بجائے چاہے گی کہ اَور وقت اسی پر صَرف کرو۔ عمل کرنے کے لیے کم از کم جوش پیدا ہوتا ہے اور دل میں ایمان، یقین اور عرفان کی لہریں اُٹھتی ہیں۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ 34)
خوشی حاصل کرنے کا ذریعہ
’’میں تم کو قرآن شریف سناتا ہوں مدعا اس سے میرا یہ ہوتا ہے کہ تم اس پر عمل کرو اور عمل کرکے اس سے نفع اٹھاؤ۔ قرآن کریم پر عمل کرنے سے انسان کے آٹھ پہر خوشی سے گزرتے ہیں۔ قرآن شریف پر عمل کرنے سے انسان کو خوشی وعزت اور کم سےکم بندوں کی اتباع اور محتاجی سے نجات ملتی ہے۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 37)
گناہوں سے بچاتی ہے
’’ایک مرتبہ میرے دل میں ایک گناہ کی خواہش پیدا ہوئی۔ مَیں نے بہت سی حمائلیں خرید لیں۔ ایک جیب میں، ایک صدری میں اور ایک ہاتھ میں۔ ایک بسترے میں۔ ایک الماری میں۔ غرض کوئی جگہ خالی نہ رہی۔ جب خیال آیا تو فوراً قرآن نظر پڑتا یہاں تک کہ نفس کی وہ خواہش جاتی رہی۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد نمبر 2صفحہ 21)
دشمن سے حفاظت کا باعث
’’ہمارے نبی کریمؐ نے زرہ بنائی۔ وہ اسلام ہے اور پھر میرے ہاتھ میں ہے۔ وہ قرآن ہے۔ کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کوئی شخص اس کتاب کے فہم والے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مجھ سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ میں تمہیں دشمن کے مقابل پر اس کے معنے سمجھاؤں گا۔‘‘(حقائق الفرقان جلد نمبر 3صفحہ133)
قرآن شریف لغویات سے محفوظ رکھتا ہے
’’اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر یہ خاص فضل کیا ہے۔ میں تو ان لغو باتوں کے نزدیک بھی نہیں آ سکتا۔ اب لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا خدا بھی جھوٹ بول سکتا ہے۔ پہلے خدا کے بولنے کا تو فیصلہ کرو۔کہ آیا بولتا بھی ہے یا نہیں۔ اب پوچھتے ہیں کہ اگر خدا بُروں کو دوزخ میں ڈالنے کا وعدہ کرتا ہے تو کیا نیکوں کو نہیں ڈال سکتا۔ میں خدا کے فضل سے اس پر بحث کر سکتا ہوں۔
میں نے قرآن کی غرض سمجھی ہوئی ہے۔ مگرلوگوں نے قرآن کی اور ہی غرض سمجھی ہے۔ بعض سمجھتے ہیں کہ قرآن میں صیغے عجیب عجیب ہیں۔ وہ حل ہو جاویں۔‘‘
( حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ 172)
قرآن شریف حصول راحت کا ذریعہ
’’میں اپنے تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ قرآن شریف سے بڑھ کر راحت بخش کوئی کتاب اور اس کا مطالعہ نہیں ہے… مجھے قرآن اس قدر محبوب ہے کہ میں بار بار اس کا تذکرہ کرنا۔ اس کا پیارا نام لینا اپنی غذا سمجھتا ہوں اور اُسی دُھن اور لَوْ میں ابھی تک میں نے اس مضمون پر جو میں نے شروع کیا تھا کچھ بھی نہیں کہہ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض آدمی میرے اس قسم کے طرزِ بیان کو پسند نہ کرتے ہوں۔ مگر میں کیا کروں۔ میں مجبور ہوں۔ اپنے عشق کی وجہ سے بار بار اپنے محبوب کے تذکرہ سے ایک لذّت ملتی ہے۔ کہے جاتا ہوں۔‘‘
( حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 248-247)
قرآن شریف سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں
’’میں نے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں۔ اور خوب سمجھ کر پڑھی ہیں۔ مجھے قرآن کے برابر پیاری کوئی کتاب نہیں ملی۔ اس سے بڑھ کر کوئی کتاب پسند نہیں ہے۔ قرآن کافی کتاب ہے۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 342)
قرآن شریف کی بار بار نئی جلوہ گری
’’مَیں جب قرآن شریف پڑھتا ہوں۔ تو اسے نئی شان میں پاتا ہوں۔ قرآن کے بعد کوئی نئی کتاب آنے والی نہیں۔ بس وہی نئی شان میں جلوہ گر ہوتا ہے۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد نمبر 3صفحہ 107)
قرآن غنی کردیتا ہے
’’میراتو اعتقاد ہے کہ اس کتاب کا ایک رکوع انسان کو بادشاہ سے بڑھ کر خوش قسمت بنادیتا ہے جس باغ میں مَیں رہتا ہوں۔ اگر لوگوں کو خبر ہوجاوے تو مجھے بعض دفعہ خیال گزرتا ہے کہ میرے گھر سے قرآن نکال کر لے جاویں۔ مسلمانوں کے پاس ایسی مقدس کتاب ہو اور پھر وہ تکالیف میں مشکلات میں پھنسے ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔‘‘
( حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 76)
قرآن شریف کے تین لفظوں سے مذاہب کا ردّ
’’اپنی بات بتاتا ہوں۔ جس قدر مذاہب ہیں۔ مَیں نے ان کو ٹٹولا ہے۔ ان کو پرکھ پرکھ دیکھا ہے۔ قرآن کریم کے تین تین لفظوں سے مَیں ان کو ردّ کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 502)
تین ماہ میں قرآن پڑھا سکتا ہوں
’’میں تین مہینے میں قرآن شریف پڑھا سکتا ہوں۔ بشرطیکہ پانچ سات آدمیوں کی ایک جماعت ہو۔ قرآن کے لیے بھی دعا مانگنی چاہیے اور متقی بننا چاہیے۔‘‘
( حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 457)
ہزاروں بار قرآن شریف کا سنانا
’’میں تم کو بہت مرتبہ قرآن سُناتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں کہ ہزاروں مرتبہ تو سُن چکے ہیں۔ کہاں تک سنیں ؟ہم تو اس واسطے تم کو قرآن سناتے ہیں کہ کوئی عذر باقی نہ رہے۔ اور تم میں سے کوئی تو ڈرے۔‘‘
( حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 304)
بچوں کو قرآن شریف سنانے کے فائدے
’’مَیں اپنے بچوں کو بھی قرآن شریف سنایا کرتا ہوں۔ اب کوئی یہ نہ جانے۔ کیا سمجھتے ہیں کیونکہ اس کا اثر کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے۔ ایک عورت بیمار تھی وہ اس حالتِ مرض میں جرمن بولتی تھی۔ لوگ حیران تھے۔ مگر آخر معلوم ہوا کہ چھوٹی عمر میں کسی پادری کی زبان سے جرمنی زبان کا لیکچر سنتی تھی۔ اس نہانی اثر کی وجہ سے مرض میں جرمن بولتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے پیدا ہوتے ہی اذان سنانے کا حکم دیا ہے۔ یہ لغو نہیں بلکہ اس کا اثر آئندہ عمر پر پڑتا ہے۔‘‘
( حقائق الفرقان جلد نمبر 2صفحہ 321)
قرآن شریف میری غذا ہے
’’قرآن شریف میری غذا اور میری تسلی اور اطمینان کا سچا ذریعہ ہے اور میں جب تک ہرروز اس کو کئی مختلف رنگ میں پڑھ نہیں لیتا۔ مجھے آرام اور چین نہیں آتا۔ بچپن ہی سے میری طبیعت خدانے قرآن شریف پر تدبر کرنے والی رکھی ہے۔ اور میں ہمیشہ دیر تک قرآن شریف کے عجائبات اور بلند پروازیوں پر غور کیا کرتا ہوں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس قدر اہتمام اس کی تبلیغ میں کیا ہے۔ اس نے مجھے سورۂ شریف (سورۃ جمعہ ) میں بہت ہی زیادہ غور اور فکر کرنے کی طرف متوجہ کیا اور میں نے دیکھا ہے کہ اس سورۂ شریف میں قیامت تک کے عجائبات سے آگاہ کیا گیا ہے۔‘‘
( حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 82)
عشق قرآن
’’میرے پاس کوئی ایسا چاقو نہیں جس سے مَیں اپنا دل چیر کر تمہیں دکھلا سکوںکہ مجھے قرآن سے کس قدر محبت اور پیار ہے۔ قرآن کا ایک ایک حرف کیسا عمدہ اور پیارا لگتا ہے۔ مجھے قرآن کے ذریعہ سے بڑی بڑی فرحتوں کے مقام پر پہنچایا جاتاہے۔ دنیا میں جتنی حکمتیں بنی ہوئی ہیں۔ سب اسی حکیم کی بنائی ہوئی ہیں۔‘‘
( حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 50)
درس سننے والوں کے لیے دعا
’’میری طبیعت تو ضعیف ہے۔ مگر دل میں آیا کہ زندگی کا بھروسہ نہیں۔ معلوم نہیں کہ کسی وقت موت آجاوے۔ کچھ قرآن سنا دیا جاوے تو اچھا ہے۔ فرمایا۔ آج مجھے بہت جوش ہوا کہ درس قرآن سننے والوں کے واسطے خصوصیت سے دُعا کروں۔ پس جو اس وقت حاضر ہیں ان کے واسطے میں نے بہت بہت دعائیں درس شروع کرنے سے پہلے کی ہیں۔‘‘
( حقائق الفرقان جلد 3صفحہ 5)
ایک غیر مسلم اخبار نے آپ کی وفات پر لکھا :
’’وہ ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک عالم متبحرو جید فاضل تھے۔ کلام اللہ سے جو آپ کو عشق تھا وہ غالباً بہت کم عالموں کو ہوگا اور جس طرح آپ نے عمر کا آخری حصہ احمدی جماعت پر صرف قرآن مجید کے حقائق و معارف آشکار افرمانے میں گزارا۔ بہت کم عالم اپنے حلقہ میں ایسا کرتے ہوئے پائے گئے۔‘‘
(میونسپل گزٹ 19؍ مارچ 1914ء بحوالہ حیات نور صفحہ 765)
ہر احمدی تفسیر میں خلیفہ اول کی روشنی آتی ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکے درس القرآن میں شامل رہے اور آپ نے گورنمنٹ کالج کی تعلیم کو چھوڑ کر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے قرآن مجید کے علوم اور معارف سیکھے۔ آپ ان درس القرآن کے بارے میں اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’حضرت خلیفہ اوّل کو قرآن شریف سے انتہاء درجہ کا عشق تھا جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ اس لیے آپ نے قادیان آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے قرآن شریف کا درس شروع کر دیا۔ یہ درس مسجد اقصیٰ میں ہوا کرتا تھا اور اوائل زمانہ میں کبھی کبھی خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس درس میں چلے جایا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے درس میں اعلیٰ درجہ کی علمی تفسیر کے علاوہ واعظانہ پہلو بھی نمایاں ہوتا تھا۔ کیونکہ آپ کا قاعدہ تھا کہ رحمت والے واقعات کی تشریح کر کے نیکی اور انابت الی اﷲ کی رغبت دلاتے اور عذاب والے واقعات کے تعلق میں دلوں میں خشیت اور خوف پیدا کرنے کی کوشش فرماتے تھے اور آپ کا درس بے حد دلچسپ اور ہر طبقہ کے لیے موجبِ جذب و کشش ہوا کرتا تھا یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کے علم التفسیر کا ایک کثیر حصہ بلاواسطہ یا بالواسطہ آپ ہی کی تشریحات اور انکشافات پر مبنی ہے اور آپ کے درس میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ایک وسیع سمندر ہے جس کا ایک حصہ موجزن ہے اور دوسرا ساکن اور عمیق اور اس سے ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق پانی لے رہا ہے۔ درس کے دوران میں بعض دفعہ لوگ سوال بھی کیا کرتے تھے اور حضرت خلیفہ اوّل ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ ہر سوال کا جواب دیتے تھے اور جواب میں مخاطب کے مذاق اور حالات کے پیشِ نظر کبھی کبھی کوئی نہ کوئی لطیفہ بھی بیان کرتے تھے۔
مگر بعض اوقات جب آپ کو سوال کرنے والے میں بلاوجہ سوال پوچھنے کا میلان محسوس ہوتا تھا یا آپ خیال کرتے تھے کہ یہ سوال ایسا ہے کہ وہ خود توجہ دے کر اس کا جواب سوچ سکتا ہے تو ایسے موقعہ پر یا تو خاموشی کے ساتھ گزر جاتے تھے اور یا کہہ دیتے تھے کہ یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے خود سوچو۔ افسوس ہے کہ اس وقت کے نوٹ لینے والوں نے پوری احتیاط سے آپ کے اس درس کے نوٹ قلمبند نہیں کیے اور آپ کی تفسیر کا معتد بہ حصہ ضبطِ تحریر میں نہیں آسکا۔ ہاں سننے والوں کے سینے اب تک اس بیش بہا خزانہ کے امین ہیں اور ہر احمدی تفسیر میں حضرت خلیفہ اوّل کے علم کی روشنی نظر آتی ہے۔‘‘
(الفضل 6؍دسمبر 1950ء )
’’خاکسار راقم الحروف نے بھی جب کہ میں بی اے میں پڑھتا تھا تعلیم کا سلسلہ درمیان میں چھوڑ کر حضرت خلیفہ اوّل سے قرآن شریف پڑھا اور پورا قرآن شریف ختم کر کے پھر اپنی تعلیم کی طرف لوٹ آیا۔ یہ بھی گویا ایک پبلک درس تھا جس میں بہت سے دوسرے دوست بھی شریک ہوتے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل کے قرآن کے درس کا نمایاں رنگ یہ ہوتا تھا کہ گویا ایک عاشق صادق اپنے دلبر و معشوق کو سامنے رکھ کر اس کے دلربا حسن و جمال اور دلکش خدوخال کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ اﷲ اﷲ! کیا مجلس تھی اور اس مجلس کا کیا رنگ تھا۔‘‘
( الفضل 6؍ دسمبر 1950ء )
٭…٭…٭