حضرت مصلح موعود ؓ

ہدایاتِ زریں (مبلغین کو ہدایات) (قسط ہفتم)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(بعد از نماز مغرب)

میں نے پہلے دس باتیں بیان کی تھیں۔ اب گیارہویں بات بتاتا ہوں۔

گیارہویں ہدایت

گیارہویں بات جس کا یاد رکھنا مبلغ کے لئے ضروری ہے۔ وہ نازک امر ہے بہت لوگ اس کی طرف توجہ نہیں رکھتے اس لئے بعض دفعہ زک پہنچ جاتی ہے۔ میں نے اس سے خاص طور پر فائدہ اٹھایا ہے اور یہ ان باتوں میں سے ہے جو بہت سہل الحصول ہیں۔ مگر تعجب ہے کہ بہت لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔اور وہ یہ ہے کہ دشمن کو کبھی حقیر نہ سمجھو اور اس کے ساتھ ہی کبھی یہ خیال اپنے دل میں نہ آنے دو کہ تم اس کے مقابلہ میں کمزور ہو۔

مجھے مباحثات کم پیش آئے ہیں اس لئے میں اس معاملہ میں کم تجربہ رکھتا ہوں مگر میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ نہایت کم علم اور معمولی سے آدمی نے ایسا اعتراض کیا ہے کہ جو بہت وزنی ہوتا ہے اور کئی دفعہ میں نے بچوں کے منہ سے بڑے بڑے اہم اعتراض سنے ہیں۔ اس لئے یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارا مدّمقابل کم علم اور جاہل انسان ہے اوراس کی ہمیں کیا پرواہ ہے۔ بلکہ یہی مدّنظر رکھنا چاہئے کہ یہ بہت بڑا دشمن ہے۔ اور اگر بچہ سامنے ہو اور اس کا رُعب نہ پڑسکے تو یہ خیال کرلینا چاہئے کہ ممکن ہے میرا امتحان ہونے لگا ہے۔ پس ایک طرف تو خواہ بچہ ہی مقابلہ پر ہو اس کو حقیر نہ سمجھو بلکہ بہت قوی جانو۔ اور دوسری طرف اس کے ساتھ ہی تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ہم حق پر ہیں ہمیں کسی کا کیا ڈر ہوسکتا ہے۔ گویا نہ تو مدمقابل کو حقیر سمجھنا چاہئے اور نہ مایوس ہونا چاہئےکیونکہ جب خدا تعالیٰ پر اعتماد ہو تو اس کی طرف سے ضرور مدد آتی ہے اور خدا ہی کی مدد ہوتی ہے جس کے ذریعہ انسان دشمن کے مقابلہ میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ ورنہ کون ہے جو سب دنیا کے علم پڑھ سکتا ہے؟ پھر کون ہے جو سب اعتراضات نکال سکتا ہے اور پھر کون ہے جو ان کے جوابات سوچ سکتا ہے؟ ہر انسان کا دماغ الگ الگ باتیں نکالتا ہے۔اس لئے خدا پر ہی اعتماد رکھنا چاہئے کہ وہ ہی ہماری مدد کرے گا اور ہم کامیاب ہوں گے اور ادھر دشمن کو حقیر نہ سمجھا جائے۔ جب یہ دو باتیں ایک وقت میں انسان اپنے اندر پیدا کر لے تو وہ کبھی زک نہیں اٹھا سکتا۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ جب ایک دو دفعہ کامیاب ہوجاتے ہیں اور اچھا بولنے لگتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں۔ کون ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ دشمن کو کبھی حقیر نہ سمجھنا چاہئے بلکہ بہت بڑا سمجھنا چاہئے ہاں ساتھ ہی یہ بھی اعتقاد ہونا چاہئے کہ اگر دشمن قوی ہے تو میرا مددگار بھی بہت قوی ہے۔ اس لئے دشمن میرے مقابلہ میں کچھ نہیں کرسکے گا۔ جب یہ دو باتیں انسان میں پیدا ہو جائیں۔ تو اول تو خدا اس کے دشمن کی زبان پر کوئی اعتراض ہی جاری نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو اس کا جواب بھی سمجھا دے گا۔ ایک دفعہ یہاں ایک انگریز پادری آیا۔ والٹر اس کانام تھا۔ احمدیت کے متعلق ایک کتاب بھی اس نے لکھی ہے۔ اب مرگیا ہے ۔اس نے مجھ سے پوچھا کہ قرآن انجیل اور توریت کی تصدیق کرتا ہے مگر ان میں آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے اگرچہ میں قرآن کی تصدیق کرنے کے اور معنے کیا کرتا ہوں اور میرے نزدیک جب ایسے موقع پر لام صلہ آئے تو اس کا اَور ہی مطلب ہوتا ہے۔ مگر اس وقت میرے دل میں یہی ڈالا گیا کہ کہو ہاں تصدیق کرتا ہے اور بتایا گیا کہ وہ کوئی اختلاف پیش ہی نہیں کر سکے گا۔ اس نے کہا کہ ان میں تو اختلاف ہے پھر تصدیق کے کیا معنی؟ میں نے کہا کوئی اختلاف پیش تو کرو۔ اس پر وہ خوب قہقہہ مار کر ہنسا اور کہا ایک اختلاف؟ اختلاف تو بیسیوں ہیں۔ میں نے کہا ایک ہی پیش کرو۔ یہ باتیں میرے منہ سے خدا ہی کہلوا رہا تھا۔ ورنہ اختلاف تو فی الواقع موجود ہیں۔ گو اس قسم کے اختلاف نہیں ہیں جس قسم کی اس کی مراد تھی۔ وہ پادری تھا اور انجیل کا ماہر۔ اگر کوئی اختلاف پیش کردیتا تو بات لمبی جاپڑتی۔ مگر چونکہ میرے دل میں ڈالا گیا تھا کہ وہ کوئی اختلاف پیش نہیں کر سکے گا۔ اس لئے میں نے زور دے کر کہا کہ کوئی اختلاف تو پیش کرو۔ اس نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا۔ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ مسیحؑ پرندہ پیدا کیا کرتا تھا انجیل میں اس طرح نہیں لکھا۔ میں نے کہا۔ پادری صاحب آپ تو سمجھدار آدمی ہیں اور تاریخ نویسی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آپ بتائیں کیا اگر ایک مؤرخ کچھ واقعات کو اپنی کتاب میں درج کردے اور دوسرا ان کو درج نہ کرے۔ تو یہ کہا جائے گاکہ ان کتابوں کا آپس میں اختلاف ہے۔ یہ سن کر اس کے ساتھ جو دو انگریز تھے ان کی بے اختیار ہنسی نکل گئی اور انہوں نے کہا فی الواقع یہ تو کوئی اختلاف نہیں اس پر وہ بالکل خاموش ہوگیا۔ پس جب انسان خدا تعالیٰ پر بھروسا کرلیتا ہے تو خدا خود اس کی مدد کرتا ہے اور اسے دشمن پر خواہ اس کا دشمن کتنا ہی قوی ہو کامیاب کر دیتا ہے۔

بارہویں ہدایت

بارہویں بات جس کا میں نے بارہا تجربہ کیا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے اسے استعمال کیا ہو ۔ یہ ہے کہ جب انسان تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہو تو ذہن میں جتنے علوم اور جتنی باتیں ہوں ان کو نکال دے اور یہ دعا کر کے کھڑا ہو کہ اے خدا! جو کچھ تیری طرف سے مجھے سمجھایا جائے گا میں وہی بیان کروں گا۔ جب انسان اس طرح کرے تو اس کے دل سے ایسا علوم کا چشمہ پھوٹتا ہے جو بہتا ہی چلا جاتا ہے اور کبھی بند نہیں ہوتا۔ اس کی زبان پر ایسی باتیں جاری ہوتی ہیں کہ وہ خود نہیں جانتا۔

اس گُر کا میں نے بڑا تجربہ کیا ہے بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ میں پانچ پانچ منٹ تقریر کرتا چلا گیا ہوں مگر مجھے پتہ نہیں لگا کہ کیا کہہ رہا ہوں۔ خود بخود زبان پر الفاظ جاری ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کے بعد جا کر معلوم ہوتا ہے کہ کس امر پر تقریر کر رہا ہوں۔ پچھلے ہی دنوں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے خطبہ نکاح کے وقت ایسا ہی ہوا۔ جب میں کھڑا ہوا تو پتہ نہیں تھا کہ کیا کہنے لگا ہوں مگر کچھ منٹ بول چکا تو پھر بات سمجھ آئی کہ اس مضمون کو بیان کر رہا ہوں۔

یہ بات بہت اعلیٰ درجہ کی ہے اور ہر ایک شخص کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ لیکن چونکہ یہاں ہر طبقہ کے آدمی ہیں اور دوسرے بھی جب اعلیٰ درجہ پر پہنچیں گے تو اس کو سمجھ لیں گے۔ اس لئے میں اسے بیان کرتا ہوں۔ جب انسان تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہو تو بالکل خالی الذہن ہو کر کھڑا ہو اور اسی بات پر اسے بھروسہ ہو کہ جو کچھ خدا بتائے گا وہی بیان کروں گا۔ یہ توکل کا ایک ایسا مقام ہے کہ انسان جو کچھ جانتا ہے اسے بھی بھول جاتا ہے۔ ان لوگوں کو بھول جاتا ہے جو اس کے سامنے ہوتے ہیں۔ حتّٰی کہ اپنا نام تک بھول جاتا ہے اور جو کچھ اس کی زبان پر جاری ہوتا ہے وہ نہیں جانتا کہ میں کیوں کہہ رہا ہوں اور اس کا کیا مطلب ہے؟ مثلاً وہ یہ کہتا ہے کہ خدا کی عبادت کرو ان الفاظ کو تو سمجھتا ہے اور ان کا مطلب بھی جانتا ہے مگر یہ اسے پتہ نہیں ہوتا کہ میں نے یہ کیوں کہا ہے اور کس مضمون کے بیان کرنے کے لئے میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہیں۔ جب وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے تو پھر یکدم اس پر کشف ہوتا ہے کہ یہ بات ہے جس کو تُو بیان کرنے لگا ہے۔ مگر یہ بات پیدا ہوتی ہے اپنے آپ کو گرا دینے سے جب کوئی انسان اپنے آپ کو بالکل گرا دیتا ہے۔ تو پھر خدا تعالیٰ اسے اُٹھاتا ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھے کہ میرے پاس علم ہے میں خوب لیکچر دے سکتا ہوں مجھے سب باتیں معلوم ہیں ان کے ذریعہ میں اپنا لیکچر بیان کروں گا تو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ کہا جاسکتا ہے کہ اگر لیکچر کے لئے کھڑے ہوتے وقت بالکل خالی الذہن ہوکر کھڑا ہونا چاہئے تو پھر لیکچر کے لئے نوٹ کیوں لکھے جاتے ہیں۔ اس کے متعلق یادرکھنا چاہئے کہ جس طرح لیکچر کے وقت میں نے بتایا ہے کہ بالکل خالی الذہن ہونا چاہئے اسی طرح جن لیکچروں کے لئے جوابوں کی کثرت یا مضمون کی طوالت یا اس کی مختلف شاخوں کے سبب سے نوٹ لکھنے ضروری ہوں ان کے نوٹ لکھتے وقت یہی کیفیت دماغ میں پیدا کرنی چاہئے اور پھر نوٹ لکھنے چاہئیں۔ میں ایسا ہی کرتا ہوں اور اس وقت جو کچھ خدا تعالیٰ لکھاتا جاتا ہے وہ لکھتا جاتا ہوں۔ پھر ان میں اور باتیں بڑھا لوں تو اَور بات ہے۔ اسی سالانہ جلسہ پر لیکچر کے وقت ایک اعتراض ہوا تھا کہ فرشتوں کا چشمہ تو خدا ہے جیسا کہ بتایا گیا ہے اور وہ اس چشمہ سے لے کر آگے پہنچاتے ہیں۔ مگر شیطان کا چشمہ کیا ہے اس اعتراض پر دس پندرہ منٹ کی تقریر میرے ذہن میں آئی تھی اور میں وہ بیان ہی کرنے لگا تھا کہ یک لخت خدا تعالیٰ نے یہ فقرہ میرے دل میں ڈال دیا کہ شیطان تو چھینتا ہےنہ کہ لوگوں کو کچھ دیتا ہے اور چھیننے والے کو کسی ذخیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ ایسا مختصر اور واضح جواب تھا کہ جسے ہر ایک شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا تھا۔ لیکن جو تقریر کرنے کا میں نے ارادہ کیا تھا۔ وہ ایک تو لمبی تھی اور دوسرے ممکن تھا کہ علمی لحاظ سے وہ ایسی مشکل ہوجاتی کہ ہمارے دیہاتی بھائی اسے نہ سمجھ سکتے۔ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ دل میں ڈالا جاتا ہے وہ بہت جامع اور نہایت زود فہم ہوتا ہے اور اس کا اثر جس قدر سننے والوں پر ہوتا ہے اتنا کسی لمبی تقریر کا بھی نہیں ہوتا۔ پس تم یہ حالت پیدا کرو کہ جب تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہو تو بالکل خالی الذہن ہو اور خدا تعالیٰ پر تمہارا سارا مدار ہو۔ اگرچہ یہ حالت پیدا کرلینا ہر ایک کا کام نہیں ہے اور بہت مشکل بات ہے۔ لیکن ہوتے ہوتے جب اس کی قابلیت پیدا ہوجائے تو بہت فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button