خطبہ کسوف امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
یوکے اور یورپ کے بعض ممالک میں سورج گرہن کے موقع پر 20؍مارچ 2015ء کوسیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کامسجد فضل لندن میں نماز کسوف کے بعد خطبہ کسوف شمس
گرہن ایک مومن کے لئے دعا و استغفار کی طرف توجہ کرنے کا ذریعہ بنتا ہے
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے سورج گرہن کے موقع پرسنّت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا تذکرہ اور احباب کو صدقہ و خیرات، اور دعاؤں اور استغفار کی طرف توجہ دینے کی اہم نصائح
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ
نماز کسوف میں دو رکعت پڑھنے کے بعد سنت کے مطابق ایک خطبہ بھی دیا جاتا ہے۔ سو اس کے مطابق گرہن کے حوالے سے بعض احادیث پیش کرتا ہوں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق اوراس کی اہمیت اور آپ نے جو نصائح فرمائیں وہ ہمارے سامنے آتی ہیں۔ اس زمانے میں کسوف و خسوف کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی تعلق ہے اس لئے آپ کے بھی اقتباس پیش کروں گا۔
ایک حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورج کو گرہن لگ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے وہاں سے اٹھے اور مسجد میں داخل ہو گئے۔ ہم بھی مسجد میں داخل ہو گئے۔ آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی یہاں تک کہ سورج صاف اور روشن ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نہیں گہناتے لیکن یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے نشانات ہیں۔ وہ اپنے بندوں کو دکھاتا ہے۔ پس جب تم یہ دیکھو تو خوفزدہ ہو کر نماز کی طرف توجہ کرو۔
(صحیح البخاری کتاب الکسوف باب الصلوٰۃ فی کسوف الشمس حدیث 1040دارالکتاب العربی بیروت 2004ء)
(صحیح مسلم کتاب صلاۃ الکسوف باب ذکر النداء بصلوٰۃ الکسوف الصلوٰ ۃ جامعۃ حدیث 2001دارالفکر بیروت 2004ء)
پھر ایک روایت میں ہے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مضطرب ہو کر اٹھے۔ (بڑے بے چین ہو کر اٹھے۔) آپ ڈرے کہ کہیں یہ وہ گھڑی نہ ہو۔ (یعنی آخری گھڑی نہ ہو۔) آپ مسجد میں آئے اور اتنے لمبے قیام اور رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز پڑھی کہ میں نے کبھی آپ کو نماز میں ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ نشان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے جو کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نہیں ظاہر ہوتے لیکن وہ ان کے ساتھ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ پس جب تم کوئی ایسی چیز دیکھو تو اللہ کے ذکر اور دعا اور اس سے بخشش طلب کرنے کے لئے لپکو۔
(صحیح مسلم کتاب صلاۃ الکسوف باب ذکر النداء بصلوٰۃ الکسوف الصلوٰ ۃ جامعۃحدیث 2001دارالفکر بیروت 2004ء)
پھر ایک نسبتاً لمبی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ آپ نماز میں قیام کے لئے کھڑے ہوئے تو بہت لمبا قیام فرمایا۔ پھر رکوع کیا تو بہت دیر تک رکوع میں رہے۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور دوبارہ لمبا قیام فرمایا۔ آپ کا یہ قیام پہلی دفعہ کے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے رکوع کیا اور دیر تک رکوع کرتے رہے لیکن یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے سجدہ کیا اور دیر تک سجدے میں رہے۔ پھر دوسری رکعت میں بھی آپ نے ایسا ہی کیا جیسا پہلی میں کیا تھا۔ پھر جب آپ فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے مخاطب ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے دو نشان ہیں۔ یہ کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نہیں گہنائے جاتے۔ پس جب تم گرہن دیکھو تو اللہ سے دعا کرو اور اس کی عظمت بیان کرو اور نماز پڑھو اور صدقہ دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے امت محمد! خدا کی قسم!! کسی بھی شخص کو اپنے غلام یا لونڈی کی بدکاری سے جتنی غیرت آتی ہے اللہ تم میں سے ایسے شخص کی نسبت کہیں بڑھ کر اس بات کی غیرت رکھتا ہے۔( یعنی اللہ تعالیٰ کو اس بات کی بڑی غیرت ہے کہ مومن کسی بھی طرح غلط کاموں میں ملوث ہوں۔ ) اے امت محمد! خدا کی قسم!! جو میں جانتا ہوں اگر تم بھی وہ جان لو تو تم ہنسو کم اور روؤ زیادہ۔
(صحیح البخاری کتاب الکسوف باب الصدقۃ فی الکسوف حدیث1044دارالکتاب العربی بیروت 2004ء)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں پھونکا کہ یہ کسوف اور خسوف جو رمضان میں ہوا‘‘۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کی ایک نشانی چاند اور سورج گرہن بھی تھا جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لمبی حدیث ہے اور یہ ایک ایسا نشان تھا جو پہلے کسی دعویٰ کرنے والے کے دعوے کی تائید میں ظاہر نہیں ہوا۔ تو آپ فرماتے ہیں ’’یہ خسوف اور کسوف جو رمضان میں ہوا ہے یہ دو خوفناک نشان ہیں جو ان کے ڈرانے کے لئے ظاہر ہوئے ہیں جو شیطان کی پیروی کرتے ہیں، جنہوں نے ظلم اور بے اعتدالی کو اختیار کر لیا۔ سو خدا تعالیٰ ان دونوں نشانوں کے ساتھ ان کو ڈراتا ہے اور ہر یک ایسے شخص کو ڈراتا ہے جو حرص و ہوا کا پیَرو ہوا اور سچ کو چھوڑا اور جھوٹ بولا اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ پس خدا تعالیٰ پکارتا ہے کہ اگر وہ گناہ کی معافی چاہیں تو ان کے گناہ بخشے جائیں گے اور فضل اور احسان کو دیکھیں گے اور اگر نافرمانی کی تو عذاب کا وقت تو آ گیا اور اس میں ان لوگوں کو ڈرانا بھی مقصود ہے جو بغیر حق کے جھگڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے اور ایسے شخص کے لئے تہدید ہے جو نافرمانی اور تکبر اختیار کرتا ہے اور سرکشی کو نہیں چھوڑتا۔ سو خدا سے ڈرو اور زمین پر فساد کرتے مت پھرو۔ اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اس سے ڈرتے نہیں حالانکہ ڈرانے کے نشان ظاہر ہو گئے اور صحیح مسلم اور بخاری سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کے سمجھانے کے لئے فرمایا کہ شمس اور قمر دو نشان خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ہیں اور کسی کے مرنے یا جینے کے لئے ان کو گرہن نہیں لگتا بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے دو نشان ہیں۔ خدا تعالیٰ ان دونوں کے ساتھ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ پس جب تم ان کو دیکھو تو جلدی سے نماز میں مشغول ہو جاؤ۔ پس دیکھ کہ کیونکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خسوف کسوف سے ڈرایا۔ اور حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دونوں نشان گنہگاروں کے ڈرانے کے لئے ہیں اور اس وقت ظاہر ہوتے ہیں کہ جب دنیا میں گناہ بہت ہو اور خلقت میں بدکاریاں پھیل جائیں اور پلید بہت ہو جائیں اور اسی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن کے وقت میں فرمایا کہ بہت نیکیاں کریں اور نیک کاموں کی طرف جلدی کریں جیسی خالص نیت کے ساتھ نماز اور روزہ اور دعا کرنا اور رونا اور اللہ تعالیٰ کی تعریف اور ذکر اور تضرّع اور قیام اور رکوع اور سجدہ اور توبہ اور انابت اور استغفار اور خشوع اور ابتہال اور انکسار اور ایسا ہی حسب طاقت احسان اور غلام آزاد کرنا اور کسی کو سبکدوش کرنا اور یتیموں کی غمخواری اور جناب الٰہی میں تذلل۔ پس گویا کہ ان اعمال کی بجا آوری میں جو نماز اور خشوع اور ابتہال ہے یہی بھید ہے کہ چاند اور سورج کا اسی حالت میں گرہن ہوتا ہے کہ جب کوئی آفت نازل ہونے والی ہو اور کسی مصیبت کا زمانہ قریب ہو اور آسمان پر ایسے اسباب شر کے جمع ہو گئے ہوں جو لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں اور صرف ان کو خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کی پُرلطف حکمت تقاضا کرتی ہے جو کسی کسوف کے وقت لوگوں کو وہ طریقے سکھلاوے جو کسوف کے موجبات کو دور کردیں۔‘‘ (یعنی سورج گرہن کے جو بد اثرات ہیں ان کو دور کر دیں اور ان کی بدیوں کو ہٹا دیں)۔’’ پس اس نے اپنے نبی کی زبان پر یہ تمام طریقے سکھلا دئیے‘‘۔ فرمایا ’’اور کچھ شک نہیں کہ بدیاں نیکیوں سے دور ہوتی ہیں اور گناہ کی معافی چاہنے والوں کے آنسو آگ کو بجھا دیتے ہیں اور جس وقت کوئی بندہ کوئی نیک عمل کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اس سے راضی کر دیتا ہے۔ پس وہ نیک عمل اس کی بدی کا مقابلہ کرتا ہے جس کے اسباب مہیا ہو گئے ہیں۔
پس خدا تعالیٰ اس عامل کو اس بدی سے بچا لیتا ہے (یعنی اس عمل کرنے والے کو) اور یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ دعا کے ساتھ بلا کو ردّ کرتا ہے اور دعا اور بلا کبھی دونوں جمع نہیں ہوتیں مگر دعا باذن الٰہی بلا پر غالب آتی ہے جب ایسے لبوں سے نکلتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے ہوں۔ سو دعا کرنے والوں کو خوشخبری ہو۔ اور جبکہ ایک گرہن ہی اس قدر آفتوں پر دلالت کرتا ہے تو اس زمانے کا کیا حال جس میں دونوں گرہن جمع ہو گئے ہوں۔ سو خداتعالیٰ سے ڈرو اور غافل مت ہو‘‘۔
(نور الحق حصہ 2۔روحانی خزائن جلد8صفحہ230-227)
پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’ یہ کہنا بے جا ہے کہ سورج گرہن اور چاند گرہن ان اسباب سے ہوتا ہے جو کتابوں میں درج ہیں‘‘۔ (سائنس کی باتیں کرتے ہیں)۔ فرمایا کہ ’’پس ان کو ان آفات سے کیا تعلق ہے جو انسان پر گناہوں کی شامت سے آتی ہیں کیونکہ عارفوں کے نزدیک یہ بات مسلّم ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ اس کو محبوبوں میں یا مردودوں میں داخل کرے اور اللہ تعالیٰ نے تمام تغیر عالم کے انسان کی خیر اور شر اور نفع اور ضرر پر دلالت کرنے والے پیدا کئے ہیں۔ (دنیا میں جو تبدیلیاں آتی ہیں۔ یہ انسان کی خیر اور شر اور نفع اور نقصان کے لئے ہیں) اور اس کے لئے تمام عالم کو مبشر اور منذر کی طرح بنا دیا ہے اور ہر یک وہ عذاب جو خدا تعالیٰ نے انسانوں کی سزا دہی کے لئے مقرر کیا ہے وہ قبل اس کے جو انسان گناہ کرے اور گناہ پر اصرار کرے اور حد سے گزر جائے نازل نہیں ہوتا۔ اور خداتعالیٰ نے عالم میں ہر یک شئے کے لئے ایک سبب بنایا ہے اور ہر یک ڈرانے والا نشان بدبختوں اور زیادتی کرنے والوں کے لئے مقرر کیا ہے۔ اور وہ نشان ان کے لئے مبشر ہے جو وفا کے آستانے پر اتر آئے اور صفا اور اصطفاء میں منقطع ہو کر نازل ہوئے۔( آپ نے فرمایا۔) اور یہ ایک سنت قدیمہ ہے جس کے آثار تُو پہلے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے پائے گا اور اسی طرح پہلی کتابوں میں آیا ہے کہ… خدا سے ڈر اور مجرموں کی راہ کی پیروی مت کر اور حاصل کلام یہ کہ خسوف اور کسوف دو ڈرانے والے نشان ہیں۔ اور جب یہ دونوں جمع ہو جائیں تو وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک سخت طور کا ڈرانا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ظالموں کے لئے بہت نزدیک عذاب قرار پا چکا ہے۔ اور باوجود اس کے ان کے خواص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب وہ دونوں مل کر کسی زمانے میں ظاہر ہوں اور کسی ملک پر ان کا ظہور ہو سو اس ملک میں جو لوگ مظلوم ہیں ان کی خدا تعالیٰ مدد کرتا ہے اور ضعیفوں اور مغلوبوں کو قوت بخشتا ہے اور اس قوم پر رحم کرتا ہے جو دکھ دئیے گئے اور کافر ٹھہرائے گئے اور ناحق لعنت کئے گئے۔ سو ان کی تائید کے لئے آسمان سے نشان اترتے ہیں اور حمایت الٰہی نازل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ منکروں اور دشمنوں کو رسوا کرتا ہے۔ سچا فیصلہ کر دیتا ہے اور وہ احکم الحاکمین ہے۔‘‘
(نور الحق حصہ 2۔روحانی خزائن جلد8صفحہ232-230)
پھر ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں ہی 1907ء میں سورج گرہن لگا تھا۔ اس وقت حضرت خلیفۃالمسیح اوّل نے نماز پڑھائی تھی اور جو خطبہ تھا وہ بڑا پُرمعارف تھا اس لئے اس کا کچھ حصہ خلاصہ میں پیش کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ
’’دو کارخانے ہیں جسمانی اور روحانی۔ پہلے اپنی حالت کو دیکھو کہ دل سے بات اٹھتی ہے تو ہاتھ اس پر عمل کرتے ہیں جس سے روح اور جسم کا تعلق معلوم ہوتا ہے۔ (آپ ایک جسمانی حالت کا بتا رہے ہیں کہ خیال جو دل میں پیدا ہوتا ہے تو پھر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اس سے جسم اور روح کا تعلق ظاہر ہوتا ہے۔ فرمایا) غمی و خوشی ایک روحانی کیفیت کا نام ہے مگر اس کا اثر چہرہ پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ کسی سے محبت ہو تو حرکات و سکنات سے اس کا اثر معلوم ہو جاتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام نے بھی اس نکتہ کو کئی پیرایوں میں بیان کیا ہے۔ مثلاً حدیبیہ کے مقام پر جب سُہیل آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
سَھَّلَ الْاَمْرُ
(صحیح البخاری کتاب الشروط فی الجہاد و المصالحۃ)
اب یہ معاملہ آسانی سے فیصل ہو جائے گا۔ (سہیل ایک شخص کا نام ہے یعنی جب وہ آئے تو اس سے یہ شگون لیا کہ اب امر سہل ہو جائے گا، آسانی سے معاملہ طے ہو جائے گا۔ آپ یہ مثال دے رہے ہیں۔ فرمایا) دیکھو بات جسمانی تھی نتیجہ روحانی نکالا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی طرف خیال کرو کہ پاخانے جاتے وقت ایک دعا سکھلائی۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ
(صحیح البخاری کتاب الدعوات۔باب الدعاء عند الخلاء)
یعنی جیسے پلیدی ظاہری نکالی اسی طرح باطنی نجاست کو بھی نکالنے کی توفیق دے۔ پھر جب مومن فارغ ہو جائے تو پڑھے غُفْرَانَکَ۔ اس میں بھی یہ اشارہ تھا کہ گناہ کی خباثت سے جب انسان بچتا ہے تو اسی طرح کا روحانی چین پاتا ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، سب ارکان اسلام میں جسمانیت کے ساتھ ساتھ روحانیت کا خیال رکھا ہے اور نادان اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ مثلاً وضو ظاہری اعضاء کے دھونے کا نام ہے مگر ساتھ ہی دعا سکھلائی ہے کہ
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھّرِیْنَ
(سنن الترمذی۔ ابواب الطہارۃ)
کہ جیسے میں نے ظاہری طہارت کی ہے مجھے باطنی طہارت بھی عطا کر۔ پھر قبلہ کی طرف منہ کرنے میں یہ تعلیم ہے کہ میں اللہ کے لئے سارے جہان کو پشت دیتا ہوں (یعنی اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور باقی دنیا کی طرف پیٹھ کرتا ہوں۔) یہی تعلیم رکوع و سجود میں ہے۔ وہ تعظیم جو دل میں اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جسمانی اعضاء سے ظاہر کی جا رہی ہے۔ زکوٰۃ روحانی بادشاہ کے حضور ایک نذر ہے اور جان و مال کو فدا کرنے کا ایک ثبوت ہے جیسا کہ ظاہری بادشاہ کے لئے کیا جاتا ہے۔ اور حج کے افعال کو سمجھنے کے لئے اس مثال کو پیش نظر رکھیے کہ جیسے کوئی مجازی عاشق سن لیتا ہے کہ میرے محبوب کو فلاں مقام پر کسی نے دیکھا تو وہ مجنونانہ وار اپنے لباس وغیرہ سے بے خبر اٹھ کر دوڑتا ہے۔ ایسا ہی یہ اس محبوب لَمْ یَزَلْ کے حضور حاضر ہونے کی ایک تعلیم ہے۔ غرض جسمانی سلسلہ کے مقابل ایک روحانی سلسلہ بھی ضرور ہے اور اس کو نہ جاننے کے لئے بعض نادانوں نے اس سوال پر بڑی بحث کی ہے کہ مرکزِ قُویٰ قلب ہے یا دماغ؟ (یعنی اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ انسان کا جو مرکز ہے جہاں سے سب orders جاتے ہیں دل ہے یا دماغ؟ تو آپ فرماتے ہیں کہ) اصل بات فیصلہ کُن یہ ہے کہ جسمانی رنگ میں مرکز دماغ ہے۔ (جہاں تک جسم کا تعلق ہے دماغ سے سب آرڈر جاتے ہیں) کیونکہ تمام حواس کا تعلق دماغ سے ہے اور روحانی رنگ میں مرکز قلب ہے (اور روحانیت میں جو انتشار ہوتا ہے اس کا پہلے جہاں اثر ہوتا ہے وہ دل ہے۔) انبیاء علیہم السلام چونکہ روحانیت کی طرف توجہ رکھتے ہیں اس لئے وہ ظاہری نظارہ سے روحانی نظارہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سراج منیر فرمایا ہے اور آپ
سِرَاجًا مُّنِیْرًا(الاحزاب: 29)
کیوں نہ ہوتے جبکہ آپ نے دعا فرمائی
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فَوْقِیْ نُوْرًا وَ شِمَالِی نُوْرًا وَاجْعَلْنِیْ نُوْرًا…
(صحیح البخاری۔کتاب الدعوات و ترمذی کتاب الدعوات)
(یہ بڑی لمبی دعا ہے) خیر، جب اس حقیقی سورج نے دیکھا کہ سورج کو گرہن لگ گیا (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا جو روحانیت کے سورج ہیں کہ ابھی حقیقت میں سورج کو گرہن لگ گیا) یعنی کچھ ایسے اسباب پیش آ گئے جن سے سورج کی روشنی سے اہل زمین مستفید نہیں ہو سکتے تو اس نظارہ سے آپ کا دل پھڑک اٹھا کہ کہیں میرا فیضان پہنچنے میں بھی کوئی ایسی ہی آسمانی روک نہ پیش آجائے۔ اس لئے آپ نے اس وقت تک صدقہ، دعا، استغفار، نماز کو نہ چھوڑا جب تک سورج کی روشنی باقاعدہ طور سے زمین پر پہنچنی شروع نہ ہو گئی۔
اب چونکہ ہر ایک مومن شخص بھی بقدراتّباع نبی کریم نور رکھتا ہے۔ (یہ بڑا اہم ہے، سننے والا ہے کہ ہر ایک مومن شخص بھی بقدر اتّباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نور رکھتا ہے) جیسے باپ بیٹے کا اثر۔ چنانچہ اسی لئے فرمایا
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔(الاحزاب:41)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمانی بیٹا نہیں تو روحانی بیٹے بیشمار ہیں۔ اس لئے ہر مومن بھی ایسے نظارہ پر گھبراتا ہے اور گھبرانا چاہئے کہ کہیں ایسے اسباب پیش نہ آ جائیں جن سے ہمارا نور دوسروں تک پہنچنے میںر وک ہو جائے۔ اس لئے وہ ان ذرائع سے کام لیتا ہے جو مصیبت کے انکشاف کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ یعنی صدقہ خیرات کرتا ہے، استغفار پڑھتا ہے اور نماز میں کھڑا ہو جاتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی مشکل کے وقت نماز میں کھڑے ہو جاتے۔ آخر اللہ تعالیٰ کا دریائے رحمت جوش میں آتا ہے اور جیسے وہاں حرکت و دَور سے وہ اسباب ہٹ جاتے ہیں جن سے سورج کی روشنی باقاعدہ زمین پر پہنچنی شروع ہو جاتی ہے اسی طرح دعا و استغفار سے مومن کے فیضان پہنچنے میں جو روکیں پیش آ جاتی ہیں دُور ہو جاتی ہیں۔ شیشے پر سیاہی لگا کر یا برہنہ آنکھ سے اپنی آنکھوں کو نقصان پہنچانے کے لئے تماشے کے طور پر اس نظارہ کو دیکھنا مومن کی شان سے بعید ہے۔ تم سراج ِمنیر کے بیٹے ہو۔ پس اپنے انوار کو دوسروں تک پہنچانے میں تمام مناسب ذرائع استعمال کرو‘‘۔
(خطبات نور صفحہ244-243)
پرانے زمانہ میں خاص عینکوں کا انتظام نہیں ہوتا تھا۔ گرہن لگتا تھا تو شیشے پر سیاہی لگا کر دیکھا جاتا تھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو تماشے ہیں۔ مومن کی یہ شان نہیں ہے۔ آجکل یہاں بھی اس کی بڑی خبر تھی کیونکہ سب سے زیادہ گرہن سکاٹ لینڈ کے علاقے میں ہو گا اس لئے یہ نظارہ دیکھنے کے لئے بے تحاشا لوگ سکاٹ لینڈ گئے ہیں اور ان کے تمام ہوٹل بُک ہو چکے ہیں۔ ان دنیادار لوگوں کے لئے تو یہ ایک تماشا ہے لیکن ایک مومن کے لئے یہ گرہن دعا و استغفار کی طرف توجہ کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ پس اس طرف ہمیشہ ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے۔
آخر میں کچھ حدیثوں کی دعائیں ہیں وہ مَیں پڑھتا ہوں جو بعض ایسے حالات کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائیں۔
اے اللہ! میں تیری رضا کے ذریعے تیرے غضب سے، اور تیری معافی کے ذریعے تیرے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ میں تیری تعریفوں کا شمار نہیں کر سکتا، تُو ویسا ہی ہے جیسی تُو نے اپنی تعریف کی۔
(ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ باب ما جاء فی القنوت فی الوترحدیث 1179مطبع المعارف الریاض 2008ء۔سنن الترمذی۔ کتاب الصلوٰۃ)
پھر فرمایا
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَاءۃِ نِقْمَتِکَ وَ جَمِیْعِ سَخَطِکَ
(مسلم کتاب الرقاق باب اکثر اھل الجنۃ الفقراء حدیث 6838دارالفکر بیروت 2004ء)
اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں تیری نعمت چھن جانے سے اور تیری دی ہوئی عافیت کے ختم ہو جانے سے اور تیرے اچانک انتقام سے اور تیری ہر طرح کی ناراضگی سے۔
پھر ایک دعا ہے
اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَالِکَ
(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب ما یقول اذا سمع الرعد حدیث 3450دارالمعرفہ بیروت 2002ء)
کہ اے اللہ! ہمیں اپنے غضب اور عذاب سے ہلاک نہ کر دینا بلکہ اس سے پہلے ہی ہمیں معاف کر دینا۔
پھر دعا ہے۔ مَیں پناہ مانگتا ہوں بلند و بالا اللہ کی ذات کے چہرہ کے ساتھ جس ذات سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ اور پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کامل کلمات کے ساتھ جن سے کوئی نیک و بد تجاوز نہیں کر سکتا۔
اَعُوْذُ بِوَجْہِ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ الَّذِیْ لَیْسَ شَیْئٌ اَعْظَمَ مِنْہُ وَبِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ الَّتِیْ لَا یُجَاوِزُھُنَّ بِرٌّ وَّلَا فَاجِرٌ وَبِاَسْمَآئِ اللّٰہِ الْحُسْنٰی کُلِّھَا مَا عَلِمْتُ مِنْھَا وَمَا لَمْ اَعْلَمْ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَبَرَاَ وَذَرَاَ
کہ میں پناہ مانگتا ہوں بلند و بالا اللہ کی ذات کے چہرہ کے ساتھ جس ذات سے بڑی کوئی چیز نہیں اور پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کامل کلمات کے ساتھ جن سے کوئی نیک و بد تجاوز نہیں کر سکتااور پناہ مانگتا ہوں اللہ کے تمام اسماء حُسنیٰ کے ساتھ، خواہ مَیں انہیں جانتا ہوں یا نہیں جانتا، ہر اس شر کے ساتھ جسے اس نے پیدا کیا، بنایا اور پھیلا دیا۔
(کتاب المؤطا امام مالک، کتاب الشعر باب ما یؤمر بہ من التعوذ 1775دارالفکر بیروت2002ء)
پھر ایک دعا ہے۔ طاؤس روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد کے لئے کھڑے ہوتے تو یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! تعریف کے لائق تو ہی ہے۔ تُو ہی آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان کو قائم رکھنے والا ہے۔ تعریف کے لائق صرف تُو ہی ہے۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کی بادشاہی تیری ہے اور تعریف کا تُو ہی مستحق ہے۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کا نور تُو ہی ہے اور تعریف کے لائق تُو ہی ہے۔ تُو ہی آسمان و زمین کا مالک ہے اور تعریف کے لائق تُو ہی ہے۔ تُو برحق ہے اور تیرا وعدہ برحق ہے اور تیری ملاقات برحق ہے اور تیرا قول برحق ہے اور جنت برحق ہے اور دوزخ برحق ہے اور انبیاء برحق ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں اور قیامت کا ظہور پذیر ہونا برحق ہے۔ اے اللہ! میں تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اور تجھ پر ایمان لاتا ہوں اور تجھ پر توکّل کرتا ہوں اور تیری طرف جھکتا ہوں اور تیری مدد کے ساتھ مجادلہ کرتا ہوں اور تجھ سے ہی فیصلہ کا طالب ہوں۔ پس تُو مجھے میرے وہ گناہ بخش دے جو مجھ سے سرزد ہو چکے ہیں یا جو آئندہ سرزد ہوں گے اور وہ بھی جو میں نے پوشیدہ طور پر کئے ہیں اور جو اعلانیہ طور پر کئے۔ سب سے پہلے بھی تُو ہے اور سب سے آخر بھی تُو ہے۔ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
(صحیح البخاری کتاب الدعوات۔ باب الدعاء اذا انتبہ من اللیل حدیث 6317دارالکتاب العربی بیروت 2004ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور استغفار اور دعا کی طرف ہم ہمیشہ متوجہ رہنے والے ہوں اور ہر قسم کے بداثرات جن کا تعلق سورج گرہن کے ساتھ ہے اس سے ہم ہمیشہ محفوظ رہیں۔ اس خطبے کے بعد دعا وغیرہ نہیں ہوتی اور نماز کے بعد خطبہ ہی ہوتا ہے۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
(الفضل انٹرنیشنل 24؍ اپریل 2015ء صفحہ 1 تا 2)
٭…٭…٭
جزاکم اللہ خیراً
آج نماز کسوف کے بعد یہ خطبہ سب گھر والوں نے سنا۔
اسی میں سے دعائیں بطور خطبہ اقتباس کیں۔
الفضل کا شکریہ!!!
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سورج گرہن کے بد اثرات سے سب کو محفوظ اور امن میں رکھے۔آمین