خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ فرانس 2019ء کے موقع پر اختتامی اجلاس سے حضور انور کا بصیرت افروز خطاب

’’ كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ۔

یعنی خدا تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب رہیں گے۔‘‘

’’تیرے ہی ہاتھ سے اور تیرے ہی زمانہ میں دین اسلام کی فوقیت دوسرے دینوں پر ثابت ہو گی‘‘

’’سچے دل سے توبہ کرنے والوں کے گھر رحمت سے بھر جاتے ہیں۔‘‘

خلیفة المسیح کے خطبات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔

آج اگر اسلام کی تعلیم کسی کے پاس ہے تو وہ خلیفة المسیح کے پاس ہے۔

جس طرح آپ اپنے خطبات اور خطابات کے ذریعہ مسلمانوں کی تربیت اور رہ نمائی کر رہے ہیں

یوں لگتا ہے کہ ہمارے دلوں کے تمام راز آپ کے پاس ہیں

اللہ تعالیٰ کے فضل کو مانگنے کے لیے شرطیں نہیں لگانی چاہئیں۔

پہلے اللہ تعالیٰ کی بات مانو پھر اللہ تعالیٰ فضل بھی فرماتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے تکمیلِ اشاعتِ دین کے سلسلے میں

مشرق و مغرب سے سعید روحوں کے احمدیت میں داخل ہونے کا تذکرہ

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ فرانس 2019ء کے موقع پر اختتامی اجلاس سے حضور انور کا بصیرت افروز خطاب (06؍ اکتوبر 2019ء بروز اتوار)، تغی شاتو (بیت العطاء) فرانس

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ۔ (المجادلۃ:22)

اللہ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرا رسول غالب آئیں گے۔

اللہ یقیناًً طاقتور اور غالب ہے۔ اللہ تعالیٰ جب انبیاء کو مبعوث فرماتا ہے تو فوری طور پر ساتھ ہی انہیں کامیابیاں ملنی شروع نہیں ہو جاتیں بلکہ مخالفین کی طرف سے مخالفت کی آندھیاں چلتی ہیں یوں لگتا ہے کہ بس اب ختم ہوا کہ اب۔ تمام انبیاء کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مخالفین اپنی انتہا تک زور لگا لیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر پھر انہیں ہی ختم کرتی ہے اور انبیاء کامیاب ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اور اس کا رسول ہی غالب آئیں گے اور دشمن ناکام و نامراد ہوں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کو بھی بدترین مخالفت میں سے گزرنا پڑا اور مخالفین کا خیال تھا کہ ان چند نہتے اور غریب لوگوں کو ہم بڑی آسانی سے اپنے پاؤں تلے کچل دیں گے، ان کو ختم کر دیں گے لیکن ہوا کیا! وہ لوگ خود ہی کچلے گئے اور پھر اس زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق نے جب مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بھیجا، کوئی خود ساختہ دعویٰ نہیں تھا آپؑ کا تو پھر اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بھی جہاں بہت سی خوشخبریوں سے نوازا، جماعت کی ترقی کی خبر دی، آپؑ کی مدد اور تائید کی خبر دی، تکمیل اشاعتِ ہدایت کے وعدہ کے پورا ہونے کی خبر دی، آپ کو فتح اور غلبے کی خبر دی، مخالفین کی ناکامیوں کی بھی خبر دی۔ چنانچہ

كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ

کا الہام 1883ء سے لے کر 1906ء تک مختلف اوقات میں متعدد بار آپؑ کو ہوا۔اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ اس مخالفت کے باوجود، مخالفین کے تمام حیلوں کے باوجود، حکومتوں کے آپؑ کے خلاف ہونے کے باوجود، ہر مذہب اور مسلمانوں کے تمام فرقوں کے آپؑ کے خلاف تمام تر کوششوں کے باوجود اللہ تعالیٰ آپؑ کو کامیابیاں عطا فرمائے گا اور آپؑ کی جماعت ترقی کرتی چلی جائے گی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متعدد جگہ اس بات کو مختلف موقعوں اور مختلف پیرایوں میں بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ ایک مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’لفظ كَتَبَ سنت اللہ پر دلالت کرتا ہے یعنی یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ اپنے رسولوں کو ضرور ہی غلبہ دیا کرتا ہے۔ درمیانی دشواریاں کچھ شئے نہیں ہوتیں‘‘ مشکلات آتی ہیں درمیان میں لیکن وہ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ’’اگرچہ وہ

ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ (التوبہ:118)

کا ہی مصداق کیوں نہ ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد 6صفحہ 344ایڈیشن 1984ء)

یعنی زمین ان پر تنگ ہو جاتی ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ اب کوئی بچنے کا راستہ نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا آخری فیصلہ اپنے فرستادوں کے حق میں ہی ہوتا ہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور اپنے دعویٰ کی سچائی اور کامیابی کے بارے میں بڑے پُرزور الفاظ میں فرماتے ہیں کہ’’ خدا نے ابتدا سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ پس چونکہ مَیں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے۔ بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پا کر اور اسی میں ہوکر اور اسی کا مظہر بن کر آیا ہوں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 380-381)

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب کشتی نوح میں فرماتے ہیں کہ’’کیا یہ لوگ اپنی روگردانی سے خدا کے سچے ارادہ کو روک دیں گے جو ابتداء سے تمام نبی اس پر گواہی دیتے آئے ہیں۔ نہیں۔ بلکہ خدا کی یہ پیشگوئی عنقریب سچی ہونے والی ہے کہ

كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 8)

پھر اپنی کتاب انجام آتھم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔

’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَکُوْنُوْنَ لِلّٰہِ فَیَکُوْنَ اللّٰہُ لَھُمْ۔ اَلَا اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ ھُمُ الْغَالِبُوْنَ فِی مَاٰلِ الْاَمْرِ عَلَی الْمُخَالِفِیْنَ۔ كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْزِیْ عِبَادَہُ الْمَاْمُوْرِیْنَ۔‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 265)

وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کا ہو جاتا ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء ہی آخر کار اپنے مخالفوں پر غالب ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے ابتدا سے ہی لکھ چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوتے رہیں گے فرمایا یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے مامور بندوں کو کبھی بھی بے مدد نہیں چھوڑتا۔

پھر ایک موقعے پر ایک مجلس میں آپؑ نے فرمایا کہ ’’یاد رکھو خدا کے بندوں کا انجام کبھی بد نہیں ہوا کرتا۔ اس کا وعدہ

كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ

بالکل سچا ہے اور یہ اسی وقت پورا ہوتا ہے جب لوگ اس کے رسولوں کی مخالفت کریں۔‘‘

(ملفوظات جلد 6صفحہ 412ایڈیشن 1984ء)

پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے

كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ

اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی ان کے ہاتھ سے کر دیتا ہے، اس کا بیج بویا جاتا ہے۔ ان کے ہاتھ سے یہی غلبہ ہوتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ایک دفعہ جاری ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حمایت کی ہوائیں چلنی شروع ہو جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرت کی ہوائیں چلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ رسالہ الوصیت میں آپؑ نے فرمایا اور پھر وضاحت بھی فرمائی کہ تخم ریزی تو ان کے ہاتھ سے کر دیتا ہے جو اپنے انبیاء بھیجتا ہے لیکن تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ان کی وفات کے بعد جب مخالفین ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر دوسری قدرت کا ہاتھ دکھا کر ان مقاصد کی تکمیل کرتا چلا جاتا ہے۔

(ماخوذ از رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304)

آپؑ نے فرمایا کہ دوسری قدرت خلافت ہے ۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ آپؑ کے بعد اللہ تعالیٰ کس طرح خلافت کے ذریعہ آپؑ کی جماعت کی ترقی اور وسعت کے سامان پیدا فرماتا چلا جا رہا ہے اور خود لوگوں کے دلوں میں ڈال کر آپؑ کی جماعت میں شامل ہونے کی تحریک فرماتا چلا جا رہا ہے اور آج ایک چھوٹے سے گاؤں سے جو کیا ہوا دعویٰ تھا وہ دنیا کے کونے کونے میں گونج رہا ہے۔

پھر آپؑ نے فرمایا: ’’خدا تعالیٰ اپنے بندوں کا حامی ہو جاتا ہے۔ دشمن چاہتے ہیں کہ ان کو نیست و نابود کریں مگر وہ روز بروز ترقی پاتے ہیں اور اپنے دشمنوں پر غالب آتے جاتے ہیں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے

كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ۔

یعنی خدا تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب رہیں گے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 302ایڈیشن 1984ء)

پس جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کے بندے روز بروز ترقی پاتے ہیں۔ جو اس کے بھیجے ہوئے فرستادے ہیں ان کی ترقی کے قدم روز بروز آگے بڑھتے ہیں، ان کی جماعتیں آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں اس کے نظارے ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔ اس کے بعض واقعات اس وقت میں آپ کے سامنے رکھوں گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ غیر معمولی طریق پر یہ ترقیات دیتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کس طرح آپ کے مشن کی تکمیل کے یہ کام کر رہا ہے ۔

کیمرون سے ہمارے معلم ہیں ابوبکر صاحب وہ کہتے ہیں کہ شہر بانیو سے ایک شخص احمدو صاحب نے مجھے فون کیا کہ مجھے جماعت احمدیہ کے متعلق بالکل علم نہیں تھا لیکن چند دن قبل میرے بیٹے کو ایک پمفلٹ ملا جس کا ٹائٹل تھا ‘جاء المسیح’۔ میں اسی پمفلٹ کے حوالے سے آپ سے رابطہ کر رہا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ میں نمازوں میں بہت سست تھا۔ ایک دن خواب میں ایک شخص جن کی سفید داڑھی ہے تشریف لائے اور فرمایا کہ اٹھو اور نماز پڑھو۔ پھر مجھے نصیحت کی کہ نماز باقاعدگی کے ساتھ پڑھا کرو چنانچہ اس خواب کے بعد سے میں نمازوں میں باقاعدگی کی کوشش کر رہا ہوں ۔ ایک دن کیبل پر چینل تلاش کر رہا تھا کہ میری نظر ایم ٹی اے افریقہ چینل پر پڑی اور دیکھا کہ وہی سفید داڑھی والے کوئی لیکچر دے رہے ہیں۔ اس طرح مجھے ایم ٹی اے اور جماعت کے متعلق کچھ معلومات تو ملیں لیکن یہ پتہ نہ چلا کہ کیمرون میں بھی جماعت ہے کہ نہیں۔ اب پمفلٹ کے ذریعہ رابطہ ہوا ہے۔ چنانچہ معلم صاحب نے انہیں تبلیغ کی۔ انہیں میرا تعارف کروایا کہ یہ ہمارے خلیفۂ وقت ہیں اور اس پر کہنے لگے جو شخص مجھے خواب میں نماز کی باقاعدگی کی نصیحت کر رہا ہے وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا یقیناً وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کام کے لیے مامور ہے۔ خلافت کی طرف اس نے اشارہ کیا۔ معلم صاحب نے انہیں بتایا کہ آپ کے شہر بانیو میں ہماری جماعت ہے اور آدمو صاحب وہاں ایک ہمارے دوست ہیں، وہ ہمارے صدر جماعت ہیں۔ آپ ان سے رابطہ کریں۔ اس پر موصوف نے صدر جماعت سے رابطہ کیا اور بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے موصوف باقاعدگی سے نمازیں پڑھنے والے بھی ہیں، ایم ٹی اے بھی دیکھتے ہیں، اپنے علم اور ایمان میں اضافہ بھی کر رہے ہیں۔

پھر تیونس سے ایک ہماری بہن ریم صاحبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میری عمر دس سال تھی تو مجھے شوگر ہوگئی۔ اس کے پندرہ سال بعد گردوں کی تکلیف شروع ہو گئی۔ دین کا مجھے کچھ پتہ نہیں تھا صرف یہ پتہ تھا کہ میں مسلمان ہوں۔ کہتی ہیں اس وقت میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا کہ مجھے نماز پڑھا رہا ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ یہی درست طریق ہے اور خشوع اور استغفار سے نماز پڑھنی شروع کر دی۔ کہتی ہیں مختلف مذہبی چینلز دیکھتی تھی جن میں سلفی عالم شیخ حسان کی علامات الساعة کے بارے میں لیکچر سنتی تھی۔ کہتی ہیں کہ اور پھر میں سوچتی تھی کہ کیا واقعی میں ایسا ہوگا جو یہ بیان کرتے ہیں؟ کیا واقعی مسیح اترے گا؟ اور اگر اترے گا تو کب ایسا ہو گا؟ حتیٰ کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ہسپتال میں ہوں اور وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ میں نے نرس سے کہا کہ ذرا توجہ کرو میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ گھر جا کر واپس آؤں۔ اس نے کہا تو پھر ہسپتال میں ہی سو جاؤ۔ میں نے کہا کہ میں یہاں نہیں رہنا چاہتی۔ پھر میں نے ایک شخص کی آواز سنی کہ ڈرو نہیں میں تمہیں گھر لے جاؤں گا ۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو ان صاحب کی گھنی داڑھی تھی اور سر پر پگڑی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں محمد ہوں (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ اس پر میں جاگ گئی اور ایسے لگا جیسے یہ خواب نہ تھا بلکہ حقیقت میں مَیں نے یہ سارا منظر دیکھا۔ میں نے خواب اپنی بہن کو بتائی تو اس نے کہا کہ شیطان خواب میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمثل اختیار نہیں کر سکتا۔ بہرحال وہ شکل جو تھی وہ میرے دل میں رہی۔ چار دن بعد معمول کے مطابق ٹیلی ویژن دیکھ رہی تھی اور ایک پروگرام ختم ہونے پر دیگر چینلز کے لیے ایک بٹن دبایا تو ایم ٹی اے العربیہ مل گیا جس پر انہوں نے میری تصویر دیکھی۔کہتی ہیں پھر چند سیکنڈ کے بعد اس میں آپ نے شاید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوئی اقتباس پڑھا اور اس کے ساتھ ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر بھی ٹی وی سکرین پر آگئی تو میں نے دل میں کہا یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں کہ یہ تو وہی شخص ہے جسے میں نے خواب میں دیکھا تھا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب دیکھا۔ پھر یہ چینل مَیں دیکھتی رہی یہاں تک کہ یہ سب کچھ مجھے سمجھ آ گیا اور اس کے چند ماہ بعد میں نے بیعت کر لی۔

پھر تنزانیہ کے معلم سلسلہ شعبان صاحب ہیں وہ یہ واقعہ لکھتے ہیں کس طرح اللہ تعالیٰ تکمیل ہدایت کر رہا ہے۔ کہتے ہیں مارا ریجن میں سنے جانے والے مختلف ریڈیو چینلز پر جماعت کو بھی اپنے پروگرام نشر کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ ان ریڈیو پروگرام کو سننے کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے ٹیلی فون کالز موصول ہوئیں۔ لوگوں نے بتایا کہ انہیں اسلام کی امن پسند تعلیمات کے بارے میں کچھ بھی علم نہ تھا بلکہ وہ اسلام کو ایک شدت پسند مذہب خیال کرتے تھے لیکن اب ہمیں علم ہوا ہے کہ اسلام نہ صرف انسانی حقوق پر بہت زیادہ زور دیتا ہے بلکہ اس کی تعلیمات امن پر مبنی ہیں۔ ان ریڈیو پروگرامز کے ذریعہ سے وہاں 19؍ افراد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔

پھر امیر صاحب تنزانیہ ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ لِنڈی (Lindi) شہر جہاں 1948ء میں مخالفین کی طرف سے مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب مبلغ کے ساتھ بہت ناروا سلوک کیا گیا تھا اور ان کو وہاں سے نکالا گیا تھا۔ اب اسی شہر کے دونوں مقامی ریڈیوز میں ہفتہ وار جماعتی پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ریڈیو احمدیہ کی چوبیس گھنٹے کی نشریات بھی سنی جاتی ہیں۔ ان پروگرامز کی وجہ سے لنڈی شہر کی بڑی مسجد کے امام کے بیٹے نے بیعت کی سعادت پائی۔ موصوف کئی مدارس سے تعلیم یافتہ اور بہت اچھی آواز میں تلاوت کرتے ہیں۔ ان کا جماعت سے بہت اچھا تعلق ہے۔ ان کے علاوہ ایک دوسری مسجد کے امام بھی حال ہی میں احمدی ہوئے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ان دونوں بااثر شخصیات کی وجہ سے پچاس مزید بیعتیں ہمیں ملیں۔ لنڈی شہر کا اب یہ حال ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ احمدی کافر ہیں تو اہل علاقہ خود ہی اس کا جواب دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں چاہے وہ احمدی ہوئے یا نہیں ہوئے۔ ایک جامع مسجد میں مولوی صاحب نے کہا کہ احمدیوں سے چھیڑ چھاڑ نہ کیا کرو ان کا علم ہم سے بہت زیادہ ہے۔ ہمارے بڑے بڑے علماء وہ باتیں نہیں جانتے جو ان کے عام مولوی جانتے ہیں۔

پھر نائیجیریا کا ایک واقعہ ہے اِجیبو (Ijebu) سرکٹ کی اومو (Omu) جماعت میں ایک داعی الی اللہ مبارک صاحب ہیں انہوں نے میرا خطبہ جمعہ جو تھا وہ لائیو دکھانا شروع کیا اور میرے خطبے کے بعد وہ مختصراً اپنا خطبہ دینے لگ گئے تو ایک غیر احمدی دوست تھے جامیو صاحب جو جمعہ پڑھنے ہماری مسجد آتے تھے انہوں نے اعتراض شروع کر دیے کہ یہ بدعت ہے، اسلامی طریق نہیں ہے۔ ہم تو جمعہ پڑھنے آتے ہیں۔ اب جماعت احمدیہ ٹی وی کے ذریعہ سے جمعہ پڑھنے لگی ہے۔ یہ اس طرح کے اعتراض۔ اس پر ان کو سمجھایا گیا کہ ہم جمعہ اس طرح نہیں پڑھ رہے۔ خطبہ سن رہے ہیں۔ آپ پہلے خطبات سن کر تو دیکھیں۔ اس پر انہوں نے خطبات میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔ اب چند ہفتے قبل وہ اپنی فیملی سمیت آئے اور بیعت کر لی۔ کہتے تھے کہ خلیفة المسیح کے خطبات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ آج اگر اسلام کی تعلیم کسی کے پاس ہے تو وہ خلیفة المسیح کے پاس ہے اور جس طرح آپ اپنے خطبات اور خطابات کے ذریعہ مسلمانوں کی تربیت اور رہنمائی کر رہے ہیں یوں لگتا ہے کہ ہمارے دلوں کے تمام راز آپ کے پاس ہیں۔ یہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی ہے اور میں اپنے بیوی بچوں سمیت جماعت احمدیہ میں داخل ہو کے اسلام کی حقیقی تعلیم کے زیر سایہ اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔

سہارن پور انڈیا سے ایک اختر صاحب ہیں اپنی قبولیت احمدیت کا واقعہ سناتے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے 2007ء میں خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا جس کا چہرہ بہت نورانی تھا جس نے ان کے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔ کہتے ہیں پھر 2009ء میں جب میں پاکستان گیا تو وہاں جماعت احمدیہ کی مخالفت کا تذکرہ سنا جس پر جستجو ہوئی کہ آخر یہ جماعت کون سی ہے۔ تحقیق کرنے پر مجھے جماعت احمدیہ کا ٹال فری نمبر ملا اور میں نے جماعت کے ساتھ رابطہ کیا۔ اسی دوران ایک اَور خواب آئی جس میں کہتے ہیں مَیں نے خلیفة المسیح الخامس کو دیکھا وہ ایک تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں اور بیعت لیتے ہیں۔ بہت سے لوگ آپ کے ہاتھ پر ہاتھ بڑھاتے ہیں اور بیعت میں شامل ہوتے ہیں مگر جب میں نے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا، کہتے ہیں مَیں بھی ہاتھ بڑھاتا ہوں تو پہنچ نہیں پاتا اور مجھے پیچھے سے آوازیں آتی ہیں کہ تو نہیں پہنچ سکتا۔ کہتے ہیں اس خواب کے بعد میری بے چینی مزید بڑھ گئی اور میں دعا کرتا رہا اور ٹال فری سے رابطہ کر کے اپنے شکوک و شبہات کو دور کرتا رہا۔ انہی دنوں ایک اور خواب آئی کہ ایک قافلہ ہے جو مسجد اقصیٰ کی طرف جارہا ہے اور کوئی آواز لگاتا ہے کہ تُو نہیں پہنچ سکتا مگر میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں اور اس قافلے میں شامل ہو جاتا ہوں اور بیعت کا وہی نظارہ جو میں نے پہلے دیکھا تھا دیکھتا ہوں لیکن جب بیعت کے لیے اپنا ہاتھ اٹھاتا ہوں تو خلیفة المسیح میری کلائی کو پکڑ کر اپنے ہاتھ میں رکھ دیتے ہیں۔ اس خواب کے بعد میں نے قادیان کی زیارت کی اور بہت اچھا تاثر حاصل کیا لیکن بعض ذاتی مسائل کی وجہ سے بیعت کرنے کی جرأت نہیں کر سکا اور پھر کچھ عرصے بعد رابطہ بھی قائم نہ رہا۔ یونہی وقت گزرتا گیا لیکن یہ خوابیں میں نے دیکھی تھیں اور احمدی احباب سے بعض مسائل پہ گفتگو ہوئی تھی اس سے دل میں ایک کسک اور بے چینی سی رہتی تھی۔ کہتے ہیں بالآخر ایک لمبے وقفے کے بعد اس سال میں سیر و تفریح کی غرض سے شملہ گیا تو وہاں کے بک فیئر میں جماعت احمدیہ کا ایک سٹال لگا ہوا دیکھا اور بک فیئر کے ذریعہ دوبارہ جماعت سے رابطہ ہو گیا اور اس دفعہ مکمل اطمینان اور خوابوں کی بنا پر میں نے بیعت کر لی اور جماعت میں شامل ہو گیا۔

کس کس طرح اور کہاں کہاں لوگوں کی ہدایت کے اللہ تعالیٰ سامان فرماتا ہے۔ آئیوری کوسٹ سے مبلغ باسط صاحب کہتے ہیں بسم ریجن کے ایک شہر اباسو (Aboisso) میں ایک لوکل ریڈیو کے ذریعہ جماعت ہر ہفتے دو پروگرام کرتی ہے اور لوگوں کو حقیقی اسلام سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگوں میں بڑے مقبول ہیں۔ اس شہر میں ایک جیل ہے جس کے قیدیوں نے ایک دن جماعتی پروگرام سنا جو ان کو بہت پسند آیا۔ اس کے بعد قیدیوں کی ایک بڑی تعداد بڑے اہتمام اور باقاعدگی سے اس پروگرام کو سننا شروع ہو گئی اور پھر ایک دن جیل کے امام صاحب نے ریڈیو والوں سے رابطہ کیا کہ اس ریڈیو پروگرام کے جو امام ہیں ان سے ہمارا رابطہ کروائیں۔ اس طرح انہوں نے فون نمبر حاصل کر کے لوکل معلم سمارو صاحب سے رابطہ کیا اور بتایا کہ جیل میں بہت سے مسلمان نوجوان تھے جو کہ تقریباً دہریہ ہو چکے تھے اور خدا کے متعلق عجیب و غریب سوالات کرتے تھے لیکن جب سے انہوں نے آپ کا ریڈیو پروگرام سننا شروع کیا ہے انہیں خدائے واحد پر کامل یقین ہونے لگ گیا ہے اور وہ حقیقی اسلام کی طرف لوٹ رہے ہیں اور انہوں نے باقاعدہ پنجگانہ نمازیں پڑھنی شروع کر دی ہیں چنانچہ اس ریڈیو پروگرام کے ذریعہ سے اس سال وہاں 98 قیدیوں نے احمدیت قبول کی اور دوبارہ خدا تعالیٰ کی طرف لوٹے۔

سینٹرل افریقن ریپبلک کے نیشنل صدر یحیٰ صاحب کہتے ہیں ایم ٹی اے کے ذریعہ کس طرح ہمیں پیغام پہنچتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم ایک شہر بُوار میں تبلیغ کرنے کے لیے پہنچے اور وہاں کے امام سے رابطہ کیا تو اس نے ہماری کوئی بات نہیں سنی اور ملنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ ہم وہاں سے واپس اپنی جو قیام گاہ تھی، رہائش جہاں تھی وہاں آ گئے۔ یہاں ہمیں ایک پرانی پہچان والے استاد ملے جن سے ذاتی واقفیت تھی۔ ان کو ہم نے تبلیغ کی اور انہوں نے احمدیت قبول کر لی۔ ہم نے ان کے سامنے ایک مشکل بیان کی کہ اس علاقے کا امام ہماری بات سننے کو تیار نہیں ہے اور ہم یہاں اجنبی ہیں اور تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اس پر اس نوجوان نے ہمیں علاقے کے نائب میئر کا پتہ دیا کہ وہ نیک دل انسان ہے اور مسلمان ہے وہ میئر آپ کی مدد کر سکتا ہے اس کے پاس جائیں۔ جب ہمارا وفد اس سے ملاقات کے لیے گیا تو اس نے ہمارے لیف لٹس کھولے جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور میری تصویر بھی لگی ہوئی تھی، پرنٹ تھی جس پر اس نے حیرت سے پوچھا کہ یہ ان لوگوں کی جماعت ہے جس کی تم باتیں کر رہے ہو؟ میں تو ان کو ٹی وی پر دیکھتا ہوں اور ان کے خطبات سنتا ہوں۔ ہم نے ان کو بتایا کہ یہ ہمارے موجودہ خلیفہ ہیں اور اس طرح ہم نے اس کو جماعت میں نظامِ خلافت کے بارے میں بتایا تو وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ اس بات نے اس کے دل میں جماعت کی عزت اور بھی بڑھا دی ہے اور وہ ضرور اس علاقے میں جماعت کی تبلیغ کے لیے جماعت کی مدد کرے گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے پہلے ہی وہاں جماعت کی نیک نامی کا انتظام کر دیا تھا اور باقاعدہ خطبات سنا کرتے تھے۔

پھر ثابت قدمی ہے، مخالفت کا ان کو سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ نہیں کہ احمدی ہو گئے تو مخالفت کا سامنا نہیں ہے۔ مالی کے کچالا ریجن کے مبلغ کہتے ہیں ایک نوجوان آدم کُناتے صاحب نے خود مشن ہاؤس آ کر بیعت کی جس کے بعد ان کے گھر والے ان کے شدید مخالف ہو گئے اور انہوں نے بہت کوشش کی کہ وہ کسی طرح جماعت احمدیہ کو چھوڑ دیں۔ ان کے والد نے ان کو کئی مرتبہ مارا اور گھر سے نکال دیا لیکن اس کے باوجود اس خادم کے ایمان اور اخلاص میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ باقاعدگی سے جماعتی پروگرام میں شامل ہوتے، چندہ بھی ادا کرتے تھے۔ چونکہ ان کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں تھے کسی جلسہ سالانہ اور اجتماع سے پہلے اس کے لیے پیسے جمع کرنا شروع کر دیتے تھے۔ اخلاص اور وفا میں بڑھتے چلے گئے۔ یہ ہے نئے آنے والوں کا اخلاص و وفا۔ کہتے ہیں ایک رات وہ بہت پریشانی کی حالت میں مشن ہاؤس آئے اور کہنے لگے کہ والد نے انہیں گھر سے نکال دیا ہے اس پر انہوں نے بہت دعا کی اللہ تعالیٰ ان کے والد کے دل میں رحم ڈالے چنانچہ اگلے ہی روز ان کے والد کو اپنے اس فعل پر بڑی شرمندگی ہوئی اور اس کو نہ صرف گھر واپس لے گئے بلکہ کہا کہ تم بے شک احمدیت پر قائم رہو کوئی فرق نہیں پڑتا اور میں تمہاری کوئی مخالفت نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بڑے مخلص ہیں اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر چندوں میں شامل ہوتے ہیں اور باقاعدگی سے جماعتی پروگرامز میں شامل ہوتے ہیں۔

پھر آئیوری کوسٹ کے ریجن ’’ماں‘‘ (Man) کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک علاقہ ’’توبا‘‘ (Touba) ہے وہاں بت پرست افراد کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے، بتوں کو پوجنے والے ہیں خدا کو نہیں مانتے یا خدا تک پہنچنے کے لیے بتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ وہاں اہلِ حدیث کا ایک گروہ تبلیغ کے لیے آیا اور بت پرستی اور توہمات کے خلاف بڑے سخت اور جارحانہ انداز میں تبلیغ کی جس کو اہلِ علاقہ نے اپنی بے عزتی اور توہین خیال کیا اور مقامی لوگوں اور اہلِ حدیث میں سخت کشیدگی اور لڑائی کی فضا پیدا ہو گئی۔ مقامی نائب گورنر جو مذہباً مسلمان ہیں جماعت کے بہت اچھے دوست بھی ہیں انہوں نے جماعت احمدیہ کے لوکل معلم کو بلایا کہ ان گروپوں کے مابین صلح کرا دو۔ ہمارے معلم نے بڑے اچھے طریقے سے اسلام کی حقیقی تعلیم یعنی امن اور اخوت اور بھائی چارے کے بارے میں بتایا اور لوگوں کو سمجھایا کہ قرآن کریم تو ہمیں یہاں تک دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کے لیے تلقین کرتا ہے کہ بت پرستوں کے بتوں کو بھی گالیاں نہ دو کہیں وہ اس کی وجہ سے تمہارے خدا کو گالیاں دینے لگ جائیں اور اہل حدیث مسلمانوں کو بھی سمجھایا کہ اسلام امن کا مذہب ہے اس لیے اسلام کا پیغام پیار اور محبت سے پھیلائیں جس طرح جماعت احمدیہ پوری دنیا میں پھیلا رہی ہے۔ کہتے ہیں الحمدللہ اس کے بعد دونوں گروپس کی آپس میں کشیدگی ختم ہو گئی بلکہ صرف وہی نہیں ختم ہوئی بلکہ ان بت پرستوں کے سامنے اسلام کی پُرامن تعلیم جب آئی تو کچھ لوگوں نے اسی وقت جماعت احمدیہ میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ خدائے واحد کی عبادت کرنے کا اعلان کر دیا۔

پھر کس کس طرح اللہ تعالیٰ ہدایت دینے کے ذریعے اور سامان پیدا کرتا ہے۔ جنوبی ہند کے ہمارے مربی ہیں ذوالفقار علی صاحب وہ کہتے ہیں کہ اس سال بنگلہ دیش سے آئی ہوئی ایک کشتی سمندر میں ڈوبنے کے قریب تھی کہ بھارت کی نیول فورس نے ان کو بچا کر پناہ دے دی۔ مقامی جماعت کو جب پتہ چلا تو انہوں نے احمدی گھروں سے کچھ رقم اور بعض اشیاء اکٹھی کر کے مقامی تھانے کے انچارج کے ذریعہ تقسیم کر دیں اور ساتھ ان لوگوں کو تبلیغ بھی کی جس کے نتیجے میں بارہ افراد نے اسی وقت احمدیت قبول کی اور ان کا بنگلہ دیش کی جماعت سے رابطہ بھی کروا دیا گیا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ اپنے پر ایمان پختہ کرنے کے ذریعہ کس طرح، کس کس ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے۔ بینن کی ایک خاتون سوزو (Sossou) صاحبہ ہیں ’’جاکو تومے‘‘ گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں انہوں نے دعا کی کہ اگر ان کو نوکری مل جائے تو وہ جماعت احمدیہ میں شامل ہو جائیں گی۔ اس دعا سے قبل وہ تین دفعہ مختلف جگہوں پر نوکری کے لیے اپلائی کر چکی تھیں مگر تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ہر بار ان کی درخواست ریجکٹ ہو جاتی تھی۔ دوران تبلیغ معلم صاحب نے ان کو توجہ دلائی کہ اس قسم کی شرائط رکھ کر بیعت کرنا مناسب نہیں ہے۔ تم اپنے دنیاوی کام کے لیے اپنے دین کو کیوں سامنے لاتی ہو، بیچ میں لاتی ہو۔ آپ بیعت کریں پہلے اور پھر دعا کریں۔ چنانچہ وہ خاتون راضی ہو گئیں اور بیعت فارم فل کر کے جماعت میں داخل ہو گئیں اور باقاعدگی سے، اخلاص سے تعلق بھی رکھا۔ پھر اس کے بعد ملازمت ملنے کے لیے دعا کی تو کہتے ہیں ابھی چند دن ہی نہیں گزرے تھے کہ وہی متعلقہ ادارہ جو تھا اس سے بلاوہ آ گیا جو پہلے ان کو انکار کر چکا تھا کہ باوجود آپ کے ناتجربہ کار ہونے کے ہم نے آپ کو ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح ان کو بیعت کے تھوڑے عرصے بعد ہی نوکری مل گئی۔ پس بعض لوگ احمدی بھی لکھتے ہیں کہ ہمارے فلاں عزیز نے فلاں نے یہ شرط لگائی ہے کہ میرا یہ کام ہو جائے، اولاد ہو جائے یا فلاں چیز ہو جائے یا فلاں چیز ہو جائے توپھر میں بیعت کر لوں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کو مانگنے کے لیے شرطیں نہیں لگانی چاہئیں۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی بات مانو پھر اللہ تعالیٰ فضل بھی فرماتا ہے۔

امیر صاحب کانگو کنشاسا لکھتے ہیں کہ ہمارے معلم صاحب ایک گاؤں لولونگو (Lulungo)میں تبلیغ کے دورے پر گئے۔ ایک شخص عمر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان سے احمدیت کا تعارف ہوا۔ وہ شخص سنّی مسلمان تھا۔ اس نے کہا کہ میں احمدیت کا بہت مخالف تھا اور کیکویت (Kikwit) میں رہتا تھا۔ جب آپ کے معلم ابراہیم کلوٹا صاحب شہید ہوئے تو میں بھی وہاں احمدیت کی مخالفت میں شامل تھا۔ ایک معلم کو شہید کیا گیا تھا۔ مگر اب میں آپ کی تبلیغ سے احمدیت کی سچائی جان چکا ہوں۔ چنانچہ اس نے اپنے مخالفانہ رویے کی معافی مانگی اور کہا کہ میں احمدیت قبول کرتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ مخالفین کے دل بھی پھیرتا ہے۔

پھر یہ بھی لوگوں کو احساس ہے کہ دلائل اگر کوئی ہیں تو مسیح موعودؑ کو ماننے والے لوگوں کے پاس ہی ہیں اگر کوئی انصاف سے سننا چاہے تو۔ کیکویت سے تقریباً 120 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ ہے اِجوفا (Idiofa) وہاں عیسائیوں کے ایک فرقہ افیسیا (Efesia) نے بین المذاہب کانفرنس منعقد کی۔ اس پر انہوں نے سنیوں کو بھی بلایا مگر انہوں نے آنے سے صاف انکار کر دیا بلکہ ناراض ہوئے کہ بھلا ہم ایک غیر مسلم سے کیسے مل سکتے ہیں اور ان کے ساتھ پروگرام کر سکتے ہیں (یہ تو جائز ہی نہیں ہے کہ غیر مسلم سے بات کی جائے۔ جب غیر مسلم سے بات نہیں کرنی تو پھر تبلیغ کس طرح کرو گے۔ ان کے ہاں تبلیغ تو ہے نہیں۔ صرف جہاد ہے اور تلوار سے بس قتل کرتے جاؤ۔) بہرحال جب وہ جماعت احمدیہ کے پاس آئے تو ہمارے معلم صاحب عبداللہ مانووَر صاحب نے بہت خوش اخلاقی سے ان کا استقبال کیا اور ان کی دعوت قبول کر لی کہ ٹھیک ہے۔ چنانچہ کانفرنس بہت اچھی رہی اور تقریباً آٹھ سو سے زائد افراد نے شرکت کی جس میں سے اکثریت عیسائیوں کی تھی اور وہ تمام لوگ حیران و پریشان تھے کہ یہ کس قسم کے مسلمان ہیں جو ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے بھی ہیں، باتیں کرتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ واقعی اصل مسلمان آپ لوگ ہیں کیونکہ آپ کی تعلیم اور عمل جو ہے ایک جیسے ہیں۔ آپ کا قول و فعل جو ہے وہ ایک ہے۔ اس کانفرنس کا یہ اثر ہوا کہ کچھ عرصے بعد معلم صاحب دوبارہ ان علاقوں میں تبلیغ کے لیے گئے تو تین گاؤں کے لوگوں نے فوراً احمدیت قبول کر لی اور کہا کہ ہاں ہم نے آپ کی باتیں سنی ہیں۔ آپ بالکل سچ بولتے ہیں اس لیے ہم آج سے احمدیت میں شامل ہوتے ہیں۔

کونگو کنشاسا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ مولویوں کے غلط پروپیگنڈے کے بعد جب غیر احمدی مسلمان جماعت احمدیہ کا رویہ دیکھتے ہیں ا ور تعلیم سنتے ہیں تو اس سے ان پر اثر ہوتا ہے اور پھر بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں کہ فروری 2019ء میں کیکویت شہر سے تقریباً 220 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں کہیلا میں ہمارے معلم کونگولو صاحب دورے پر گئے۔ جب معلم صاحب نے تبلیغ کی تو عبدل نامی ایک شخص نے کہا کہ احمدی شرک کرتے ہیں، الزام لگایا کہ تم تبلیغ کیا کر رہے ہو احمدی تو مشرک ہیں، شرک کرتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی کہا کہ ان کااپنا ایک الگ نبی ہے۔ ان کی عبادت کے طریقے مختلف ہیں۔ ان کا قرآن مجید مختلف ہے، (جو مولویوں نے ان کو پڑھایا ہوا تھا، جو زہر دلوں میں ڈالا ہوا تھا وہ سارا اس نے بتا دیا) اس لیے ہم احمدیت قبول نہیں کرتے اور نہ تمہاری باتیں سنیں گے۔ اس پر معلم صاحب نے تمام باتوں کی وضاحت کی۔ ان کے سامنے نمازیں بھی ادا کیں۔ اس شخص نے جب معلم صاحب کو نماز پڑھتے دیکھا تو کہنے لگا کہ واقعی ہم غلط ہیں۔ نیک فطرت تھا، سعید فطرت تھی، اس کے دل میں نیکی تھی مان گیا کہ مولوی ہمیں غلط کہتے ہیں اور بہت غلط معلومات ہمیں مولویوں نے فراہم کی ہیں اور جب اس کا یہ عمل دیکھا تو کہتے ہیں کہ ہم اسی بات پر کہ مولویوں نے یہ جھوٹ ہمارے سامنے بولا ہم احمدیت قبول کرتے ہیں اور اس طرح پھر اس گاؤں میں پچاس سے زائد افراد نے احمدیت قبول کی اور معلم نے پھر ان کو سارا جماعتی نظام کے بارے میں بتایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پوری تعلیم بتائی۔ چندے کے نظام کے بارے میں بتایا تو نومبائعین نے اسی وقت چندے میں بھی شامل ہونے کے لیے پیسے اکٹھے کیے اور رقم ادا کی۔

امیر صاحب مالی لکھتے ہیں کہ مالی کے ریجن کولی کورو کے ایک گاؤںمیں امسال جماعت کا نفوذ ہوا۔ اس سے قبل گاؤں والے لوگ لامذہب تھے، ان کا کوئی مذہب نہیں تھا لیکن اللہ کے فضل سے انہوں نے ہماری تبلیغ کے بعد احمدیت قبول کر لی۔ اس گاؤں میں مسجد نہیں تھی اب جماعت وہاں مسجد تعمیر کروا رہی ہے۔ مسجد کے سنگ بنیاد کے موقعے پر گاؤں کے چیف نے بتایا کہ ہم بہت عرصے سے امام مہدی کی جماعت کے منتظر تھے اور وہ کہنے لگے کہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی زندگی میں احمدیت قبول کرنے کی انہیں توفیق دی کیونکہ ان کے والد بھی اسی انتظار میں رہے کہ امام مہدی نے آنا ہے تو اس کو قبول کرنا ہے لیکن ان کی زندگی میں پیغام ان تک پہنچ نہیں سکا تھا۔ چیف مسلمان تھا اس کو پتہ تھا۔

کیمرون سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ یہ اشاعت کی تکمیل کر رہا ہے۔ کہتے ہیں کیمرون کے ویسٹرن ریجن کے شہر فُومبان میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی۔ یہ شہر پورے علاقے میں مسلمانوں کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ اس پوری ڈویژن میں ’’باموں‘‘ قبیلے کے لوگ رہتے ہیں۔ یہ اپنے چیف کو سلطان کہتے ہیں اور ’’سلطان بامو ں‘‘حکومت میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور یہاں سیاسی لحاظ سے بھی بہت اثر رکھتے ہیں۔ 2011ء میں اس علاقے میں احمدیت کا نفوذ ہوا تھا اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ڈویژن میں 35 دیہاتی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں۔ یہاں کے امام خدا تعالیٰ کے فضل سے پکے احمدی ہیں اور ہمارے داعی الی اللہ بھی ہیں۔ اس سال مسجد کا افتتاح ہوا۔ اس مسجد میں 180 نمازیوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے اور سلطان نے اس موقعے پر اپنا نمائندہ بھی بھجوایا۔ اس مسجد کے افتتاح کی خبر ریڈیو اور ٹیلیویژن پر بھی نشر ہوئی جس کے بعد جماعت کی بڑی تشہیر ہوئی۔ اس شہر میں کیبل سسٹم پر ایم ٹی اے افریقہ بھی چلتا ہے اور دو ریڈیو سٹیشنز پر جماعت کے ہفتہ وار پروگرام بھی ہوتے ہیں تو اس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچا رہا ہے۔

آئیوری کوسٹ کے ریجن ’’ماں‘‘ کے مبلغ لکھتے ہیں کہ کس طرح بعض معترضین کا، اعتراض کرنے والوں کا اللہ تعالیٰ بد انجام کرتا ہے۔ ’’دنانے‘‘ شہر میں چند سال قبل ایک وسیع قطع زمین مسجد اور مشن ہاؤس کے لیے خریدا گیا۔ اس قطعہ زمین پر جماعت نے مسجد بنانے کا فیصلہ کیا تو یہ ناجائز قبضہ کرنے والا ایک گروپ علاقے کے گورنر کے پاس گیا اور کہا کہ جماعت احمدیہ جس جگہ مسجد بنا رہی ہے وہ زمین تو ہماری ہے۔ (ناجائز قبضہ کرنے والے یہ تیسری دنیا میں ہر جگہ مل جاتے ہیں صرف پاکستان میں ہی نہیں)۔ تو بہرحال کہتے ہیں کہ یہ تو ہماری زمین ہے اور یہ ہمارے آباؤ اجداد کی ملکیت ہے یہاں تو ہم مسجد نہیں بننے دیں گے۔ گورنر نے فریقین کا مؤقف سنا، کاغذات کی جانچ پڑتال کی اور اس کے بعد فیصلہ کیا کہ مخالف گروپ جتنی جلدی ہو سکے اس جگہ کو خالی کر دے اور احمدیوں کی مسجد بننے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے، فیصلہ ہمارے حق میں کیا گیا۔ چنانچہ مسجد کے سنگ بنیاد والے دن گورنر خود بھی اس تقریب میں شامل ہوا۔ مخالف گروپ میں ایک عورت جادو ٹونے کرنے اور کروانے والی تھی، بڑی شہرت رکھتی تھی۔ یہ عورت کسی بڑے عامل کے پاس گئی۔ (وہاں ان افریقنوں کو بھی جادو ٹونے کا بڑا شوق ہے) اور مبلغ سلسلہ لوکل معلم اور کچھ ممبران کے لیے اس عامل سے جادو ٹونہ شروع کروا دیا کہ ان کی موت واقع ہو جائے۔ لوگوں میں بھی باتیں کرنے لگی کہ احمدی خود بخود اب یہ زمین چھوڑ کر چلے جائیں گے اور اس کو اس بات پر بڑا یقین تھا لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ یہ عورت خود ہی ایک سخت متعدی بیماری میں مبتلا ہو گئی اور چند ہی دنوں میں سوکھ کے کانٹا ہو گئی۔ یہاں تک نوبت آئی کہ اس کی بیماری کے ڈر سے لوگ اس کے پاس جانے سے ڈرنے لگے کہ کہیں ہمیں نہ لگ جائے اور اسے اکیلا چھوڑ دیا۔ ایسی حالت میں وہاں بھی پھر جماعت احمدیہ نے ہمدردی کا اظہار کیا اور ہمارے لوکل معلم سنوگو صاحب اس عورت کی عیادت کرنے کے لیے گئے۔ لوگوں نے معلم کو کہا کہ آپ نہ جائیں اس عورت کو ایسی بیماری ہے جو لگنے والی ہے یہ بیماری کہیں آپ کو نہ لگ جائے لیکن معلم صاحب نے کہا کہ نہیں یہ غلط ہے ہم تو مسلمان ہیں اور سنت نبوی پر عمل کرنے والے ہیں۔ اور اس عورت کے گھر گئے اور اس کی عیادت کی لیکن بہرحال کچھ عرصے بعد وہ عورت فوت ہو گئی اور اس وجہ سے اس علاقے کے بہت سے لوگ جو یہ سمجھتے تھے کہ اب ان لوگوں کی موت واقع ہو جانی ہے کیونکہ جادو ٹونہ ان پہ ہو رہا ہے ان لوگوں کے لیے ایک نشان بن گیا اور اس کو لوگ اب کھلے طور پہ کہنے لگ گئے کہ احمدیت کی سچائی کا یہ ایک نشان ہے۔

گھانا کے northern ریجن کے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ’’نسوانہ ‘‘ ایک علاقہ ہے یہاں اہلِ سنت کافی زیادہ اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ وہاں نارتھ میں مسلمان کافی ہیں اور یہاں کے سنی عوام بڑے سخت مخالف ہیں۔ وہ مصر سے ایک عالم کو فروری 2019ء میں لے کر آئے تا کہ جہاں جہاں نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں وہاں اس کے ذریعہ اہل سنت کی مساجد قائم کی جائیں اور پانی کے نلکے لگائے جائیں تا کہ لوگ احمدیت چھوڑ کر ان کے ساتھ مل جائیں، کیونکہ جماعت احمدیہ پانی کے نلکے وہاں لگاتی ہے۔ نیز انہوں نے ایک امام بھی مقرر کر دیا جس کے لیے تین سو سیڈی (سیڈی وہاں کی کرنسی ہے) اس کی تنخواہ مقرر کی۔ مصری عالم نے اپنے لیے سات سو سیڈی پر ایک ترجمان بھی رکھا اور یہ لوگ تمام علاقے میں دورے کرنے لگ گئے۔ کہتے ہیں کہ رمضان المبارک کے آغاز میں ترجمان نے مصری عالم کے پیسے چوری کر لیے۔ مصری عالم پیسے بھی لے کے آیا تھا۔ وہاں انہوں نے امام مقرر کر دیا جس کو تنخواہ دیتے تھے۔ مصری عالم کے اپنے لیے جو ترجمان تھا اس کو اس امام سے بھی زیادہ تنخواہ ملتی تھی تو بہرحال کافی رقم تھی۔ اسلام احمدیت کے خلاف مختلف حکومتیں جو بعض مدد کرتی ہیں کوئی ان کی بھی کر رہی ہوں گی تو ان کا وہ ترجمان اس کی رقم چوری کر کے لے گیا ۔ اسے اس عالم نے بہت سمجھایا جو مصر سے آئے ہوئے تھے کہ میرے پیسے واپس کر دو جو تم نے چوری کیے ہیں۔ پتہ لگ گیا لیکن اس نے پیسے واپس نہیں کیے جس پر اس مصری عالم نے اس ترجمان سے قطع تعلق کر لیا اور اس کے گھر سے ایک دوسرے گھر میں شفٹ ہو گیا۔ ترجمان نے غصے میں آ کر اس پر چھری سے حملہ کر دیا جس کی وجہ سے وہ مصری عالم وہاں سے اپنے ملک واپس بھاگ گیا اور ان کے جو ہمارے خلاف ارادے تھے کہ یہاں سے ہم احمدیت کو ختم کر دیں گے احمدیت کو کیا ختم کرنا تھا خود ہی وہاں سے دوڑ گئے۔

لائبیریا کی بومی کاؤنٹی کے مبلغ لکھتے ہیں کہ کس طرح مخالفین کی ناکامی و نامرادی ہو رہی ہے۔ کہتے ہیں ہم ایک گاؤں بفینی میں تبلیغ کی غرض سے گئے۔ یہ گاؤں اپنے ارد گرد کے دیہاتوں سے قدرے بڑا ہے اور علاقے میں اس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ تبلیغ کے بعد ان کو مارچ 2019ء میں ہونے والے جلسہ سالانہ لائبیریا میں شمولیت کی دعوت دی گئی چنانچہ جلسہ سالانہ پر وہاں سے ایک پانچ رکنی وفد شامل ہوا جس میں ان کے امام اور پیرا ماؤنٹ چیف بھی شامل تھے۔ تبلیغ اور پھر جلسے کے ماحول سے متاثر ہو کر انہوں نے بیعت کرنے کا اعلان کر دیا۔ نومبائعین کی تربیت کے لیے جماعت کی طرف سے وہاں ایک لوکل معلم کو تعینات کر دیا گیا جس نے جاتے ہی وہاں تعلیم القرآن کی کلاسز شروع کر دیں اور بچوں کو نماز اور دوسری دینی باتیں سکھانی شروع کر دیں۔ اسی اثنا میں جب مخالفین کو معلوم ہوا کہ احمدیت کا اس علاقے میں نفوذ ہوا ہے تو انہوں نے ایک وفد کی صورت میں اس گاؤں میں جانے کا پروگرام بنایا جن میں پیش پیش بومی کاؤنٹی کے غیر احمدیوں کا چیف امام تھا۔ جب یہ لوگ پہنچے تو پیراماؤنٹ چیف سے مل کر اس کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ احمدی اچھے مسلمان نہیں ہیں۔ پہلے تو پیراماؤنٹ چیف نے ان سے کافی مرتبہ نرمی سے پوچھا کہ مجھے کوئی ایسی بات تو بتاؤ جس سے یہ ثابت ہو کہ احمدی اچھے مسلمان نہیں ہیں۔ اس پر مولوی نے کہا کہ یہ قرآن نہیں مانتے اور صرف آپ لوگوں کو یہ بیوقوف بنا رہے ہیں کہ ہم قرآن مانتے ہیں۔ اس پر چیف کو غصہ آ گیا اور اس نے ان کو مخاطب کر کے کہا کہ پچھلے بیس سال میں تم میں سے کوئی بھی ہمارے گاؤں نہیں آیا کہ ہمیں قرآن پڑھاؤ اب احمدی آئے ہیں تو انہوں نے ہمیں دین سکھانا شروع کیا ہے اور قرآن پڑھا رہے ہیں تو تم اب روکنے کے لیے پہنچ گئے ہو۔ لہٰذا احمدی ہمیں بیوقوف نہیں بنا رہے بلکہ تم بیوقوف بنانے آئے ہو اس لیے تم سب یہاں سے فوراً چلے جاؤ اور آئندہ ہرگز اس گاؤں میں قدم نہ رکھنا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جماعت احمدیہ کے ساتھ آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ چنانچہ مخالفین وہاں سے ناکام و نامراد لوٹے۔ اب اس گاؤں کے لوگ پہلے سے بھی زیادہ اخلاص اور وفا کا نمونہ دکھا رہے ہیں اور باقاعدگی سے چندے کے نظام میں بھی شامل ہیں۔

انڈیا سے مربی صاحب ضلع کامروپ میٹرو آسام لکھتے ہیں کہ اس سال گوہاٹی بک فیئر میں جماعت نے بک سٹال لگایا تو جمعیت العلماء آسام کی طر ف سے شدید مخالفت شروع ہو گئی اور ان کے لیڈر مولوی فضل الحق قاسمی نے بک فیئر کمیٹی اور سرکاری افسران کو تحریری رپورٹ دی کہ قادیانی لوگ کافر ہیں اور قرآن کا غلط ترجمہ پیش کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں لہٰذا فوری طور پر ان کا سٹال بند کر دیا جائے۔ جب بک فیئر کمیٹی نے جماعت کا سٹال بند کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے پریس بلوا کر مختلف اخباروں اور نیوز چینل میں یہ خبر نشر کروائی کہ قادیانی لوگ کافر ہیں اور پاکستان اور دنیا کے بڑے بڑے علماء نے ان کے کفر کا فتویٰ دیا ہوا ہے۔ ان کی طرف سے مخالفت کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام اخباروں اور نیوز چینل کا رخ جماعت احمدیہ کے سٹال کی طرف ہو گیا اور بک فیئر کا جتنا عرصہ تھا 19 اخبارات اور نیوز چینل نے جماعت کے بارے میں خبریں شائع کیں۔ نیوز چینل نے کئی کئی مرتبہ خبریں شائع کیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف پورے آسام میں جماعت کا پیغام پھیلا بلکہ بک فیئر ختم ہونے کے ایک ماہ بعد ایک آسامی اخبار نے بڑی ہیڈ لائن کے ساتھ لکھا کہ موجودہ دور میں آسام میں سب سے بڑا فتنہ مولوی محمد فضل الحق قاسمی ہے۔ پھر چار ماہ بعد الیکشن ہوئے تو اس میں مولوی کی پارٹی برے طریقے سے ہار گئی اور اب جماعت احمدیہ آسام میں کھل کر تبلیغ کر سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مکر ان کے اوپر الٹا دیے۔

پھر تنزانیہ کے معلم رمضان محمود صاحب لکھتے ہیں کہ گیتا ریجن کے ایک گاؤں میں تبلیغ کے وقت سنّی مولویوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہوا۔ انہوں نے سرتوڑ کوشش کر لی کہ کسی طرح احمدیہ جماعت اس گاؤں میں داخل نہ ہو سکے۔ جب ان کا یہ پلان کامیاب نہیں ہوا تو وہاں موجود چند احمدیوں میں انہوں نے جماعت کے خلاف جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلانا شروع کر دیں، جو نئے نئے احمدی ہوئے تھے ان کے اندر جھوٹی خبریں پھیلانے لگے لیکن وہ نومبائعین جو تھے اپنے ایمان میں مضبوط رہے ان پہ مولویوں کی ان جھوٹی خبروں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ مولویوں نے علاقے کے سرکاری عہدیدار کو طرح طرح کے لالچ دے کر جماعت کے خلاف بھڑکانا بھی شروع کیا تا کہ جماعت کو بڑھنے سے روکے لیکن اس نے بھی ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا کوئی بات نہیں مانی۔ اس نے بتایا کہ میں نے نیشنل ٹیلیویژن آئی ٹی وی پر خبروں میں دیکھا تھا کہ جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ پر تنزانیہ کے وزیراعظم مہمان خصوصی تھے اب میں ایک چھوٹے سے گاؤں کا عہدیدار ان کو کیسے روک سکتا ہوں جن کے پروگرام میں بڑے بڑے عہدیدار شامل ہوتے ہوں وزیراعظم شامل ہوتے ہوں۔ تو اس لحاظ سے اس نے کہا کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا چلے جاؤ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں

’’خدا تعالیٰ اپنے بندوں کا حامی ہو جاتا ہے۔ دشمن چاہتے ہیں کہ ان کو نیست و نابود کریں مگر وہ روز بروز ترقی پاتے ہیں اور اپنے دشمنوں پر غالب آتے جاتے ہیں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے

كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ۔

یعنی خدا تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب رہیں گے۔ اول اول جب انسان خدا تعالیٰ سے تعلق شروع کرتا ہے تو وہ سب کی نظروں میں حقیر اور ذلیل ہوتا ہے مگر جوں جوں وہ تعلقات الٰہی میں ترقی کرتا ہے توں توں اس کی شہرت زیادہ ہوتی ہے حتی ٰکہ وہ ایک بڑا بزرگ بن جاتا ہے۔ جیسے خدا تعالیٰ بڑا ہے اسی طرح جو کوئی اس کی طرف زیادہ قدم بڑھاتا ہے وہ بھی بڑا ہو جاتا ہے حتیٰ کہ آخر کار خدا تعالیٰ کا خلیفہ ہو جاتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اس توبہ کو کھیل نہ خیال کرو اور یہ نہ کرو کہ اسے یہیں چھوڑ جاؤ بلکہ اسے ایک امانت اللہ تعالیٰ کی خیال کرو۔ توبہ کرنے والا خدا تعالیٰ کی اس کشتی میں سوار ہوتا ہے۔‘‘ ہر شخص جو توبہ کرتا ہے وہ خدا کا خلیفہ بن جاتا ہے ’’جو کہ اس طوفان کے وقت اس کے حکم سے بنائی گئی ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اس نے مجھے فرمایا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

’’وَاصْنَعِ الْفُلْکَ

اور پھر یہ بھی فرمایا ہے

اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ۔‘‘

فرمایا کہ ’’جس طرح بادشاہ اپنی رعایامیں اپنے نائب کو بھیجتا ہے اور پھر جو اس کا مطیع ہوتا ہے اسے بادشاہ کا مطیع سمجھا جاتا ہے ایسا ہی اللہ تعالیٰ بھی اپنے نائب دنیا میں بھیجتا ہے۔ آجکل توبہ ایک بیج ہے جس کے ثمرات تمہارے تک ہی نہ ٹھہریں گے بلکہ اولاد تک بھی پہنچیں گے۔ سچے دل سے توبہ کرنے والوں کے گھر رحمت سے بھر جاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 302۔ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’میں خدا سے یقینی علم پا کر کہتا ہوں کہ اگر یہ تمام مولوی اور ان کے سجادہ نشین اور ان کے ملہم اکٹھے ہو کر الہامی امور میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تو خدا ان سب کے مقابل پر میری فتح کرے گا کیونکہ میں خدا کی طرف سے ہوں۔ پس ضرور ہے کہ بموجب آیۂ کریمہ

كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ۔

میری فتح ہو ۔‘‘

(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 341-342)

آپؑ فرماتے ہیں:’’تخمیناً عرصہ بیس برس کا گزرا ہے کہ مجھ کو اس قرآنی آیت کا الہام ہوا تھا اور وہ یہ ہے

هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۔

وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا وہ اپنے دین کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور مجھ کو اس الہام کے یہ معنی سمجھائے گئے تھے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تا میرے ہاتھ سے خدا تعالیٰ اسلام کوتمام دینوں پر غالب کرے اور اس جگہ یاد رہے کہ یہ قرآن شریف میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی نسبت علماء محققین کا اتفاق ہے کہ یہ مسیح موعود کے ہاتھ پر پوری ہو گی۔ سو جس قدر اولیاء اور ابدال مجھ سے پہلے گزر گئے ہیں کسی نے ان میں سے اپنے تئیں اس پیشگوئی کا مصداق نہیں ٹھہرایا اور نہ یہ دعویٰ کیا کہ اس آیت مذکورہ بالا کا مجھ کو اپنے حق میں الہام ہوا ہے لیکن جب میرا وقت آیا تو مجھ کو یہ الہام ہوا اور مجھ کو بتلایا گیا کہ اس آیت کا مصداق تُو ہے اور تیرے ہی ہاتھ سے اور تیرے ہی زمانہ میں دین اسلام کی فوقیت دوسرے دینوں پر ثابت ہو گی۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 231-232 مع حاشیہ)

پس یہ بات یقینی ہے کہ اب غلبۂ اسلام مسیح موعود کے ذریعہ سے ہی ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ غلبہ عطا فرمانا ہے اور جیسا کہ واقعات سے ظاہر ہے بعض چند ایک واقعات میں نے بیان کیے ہیں کہ عجیب عجیب طریقوں سے اللہ تعالیٰ لوگوں کی رہنمائی فرما رہا ہے اور لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں لیکن اگر ہم جو پرانے احمدی ہیں جن کو احمدیت میں ایک عرصہ گزر گیا ہے ان برکتوں کا حصہ بننا چاہتے ہیں جو اس سے وابستہ ہیں تو ہمیں بھی اس پیغام کے پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ اسی طرح جو نئے آنے والے ہیں ان کو بھی ان برکتوں سے فیض پانے کے لیے اپنے اس پیغام کو جو ان کی اصلاح کا باعث بنا جس نے ان کو حق کی طرف رہنمائی کی ان کو دوسروں کو پہنچانا چاہیے اور تبلیغ کے میدان میں پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کے مسیح کے مددگار بن کر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے اور جذب کرنے والے ہوں۔ دعا کر لیں۔

٭٭٭

یہ حاضری کی رپورٹ جو امیر صاحب کی طرف سے ہے اس کے مطابق جماعت فرانس کی حاضری 1,441 ہے، غیر از جماعت جو ہمارے شامل ہیں ان کی تعداد 130ہے۔ مردوں کی تعداد کل 1,638ہے، خواتین کی 1,095 ہے۔ اس طرح ٹوٹل حاضری 2,733 ہے۔ اور یہاں بھی ہمسایہ ممالک اور دوسرے 21 ممالک کے لوگوں نے شرکت کی ہے جن کی اس وقت نمائندگی ہے۔

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button