میرے ساتھ منسلک ہونے کے بعد اپنی تمام تر طاقتوں اور نعمتوں سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی نہ صرف ہمدردی کرو بلکہ ان کو فائدہ بھی پہنچاؤ
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جماعت میں خدمت خلق اور بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے جتنا زور دیا جاتاہے اور ہر امیر غریب اپنی بساط کے مطابق اس کوشش میں ہوتاہے کہ کب اسے موقع ملے اور وہ اللہ کی رضاکی خاطرخدمت خلق کے کام کو سرانجام دے۔ کیوں ہر احمدی کا دل خدمت خلق کے کاموں میں اتنا کھلاہے اس لئے کہ اسلام کی جس خوبصورت تعلیم کو ہم بھول چکے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت چاہتے ہوتو پھر اس کی مخلوق سے اچھا سلوک کرو، ان کی ضروریات کا خیال رکھو۔ یہ بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قرب سے نوازے گا۔ اس خوبصورت تعلیم کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی شرائط بیعت کی ایک بنیاد ی شرط قرار دیاہے کہ میرے ساتھ منسلک ہونے کے بعد اپنی تمام تر طاقتوں اور نعمتوں سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی نہ صرف ہمدردی کرو بلکہ ان کو فائدہ بھی پہنچاؤ۔ اس لئے اگر زلزلہ زدگان کی مدد کی ضرورت ہے تو احمدی آگے ہے۔ سیلاب زدگان کی مدد کی ضرورت ہے تو احمدی آگے ہے۔ بعض دفعہ تو ایسے مواقع بھی آئے کہ پانی کی تند و تیز دھاروں میں بہ کر احمدی نوجوانوں نے اپنی جانوں کو توقربان کردیا لیکن ڈوبتے ہوؤں کو کنارے پر پہنچا دیا۔ پھر خلیفہ ٔوقت نے جب یہ اعلان کیاکہ مجھے افریقہ کے غریب بچوں کی تعلیم اور بیماریوں کی وجہ سے دکھی مخلوق جنہیں علاج کی سہولت میسر نہیں، سکول اور ہسپتال کھولنے کے لئے اتنی رقم کی ضرورت ہے تو افراد جماعت اس جذبہ کے تحت جو ایک احمدی کے دل میں دکھی انسانیت کے لئے ہونا چاہئے یہ رقم مہیا کریں اور اس پیاری جماعت کے افراد نے خلیفہ ٔوقت کے اس مطالبہ پر لبیک کہتے ہوئے اس سے کئی گنازیادہ رقم خلیفہ ٔ وقت کے سامنے رکھ دی جس کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ اورپھر جب خلیفہ ٔوقت نے یہ کہا کہ یہ رقم تو مہیاہو گئی اب مجھے ان سکولوں اور ہسپتالوں کو چلانے کے لئے افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے تو ڈاکٹر ز اور ٹیچرز نے انتہائی خلوص کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کیا۔ اب تو افریقہ کے حالات نسبتاً بہترہیں۔ ستّر کی دہائی میں جب یہ نصرت جہاں سکیم شروع کی گئی تھی انتہائی نامساعد حالات تھے۔ اور ان نامساعد حالات میں ان لوگوں نے گزارا کیا۔ بعض ڈاکٹر ز اور ٹیچر ز اچھی ملازمتوں پرتھے لیکن وقف کے بعد دیہاتوں میں بھی جا کر رہے۔ اکثر ہسپتال اور سکول دیہاتوں میں تھے جہاں نہ بجلی کی سہولت نہ پانی کی سہولت لیکن دکھی انسانیت کی خدمت کے عہد بیعت کو نبھانا تھااس لئے کسی بھی روک اور سہولت کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کی۔ شروع میں ہسپتالوں کا یہ حال تھا کہ لکڑی کی میز لے کر اس پر مریض کو لٹایا، روشنی کی کمی چند لالٹینوں یا گیس لیمپ سے پوری کی اور جو بھی چاقو، چھریاں، قینچیاں، سامان آپریشن کا میسر تھا اس پر مریض کا آپریشن کردیا اور پھر دعا میں مشغول ہو گئے کہ اے خدا میرے پاس تو جو کچھ میسر تھا اس کا مَیں نے علاج کر دیاہے۔ میرے خلیفہ نے مجھے کہا تھاکہ دعا سے علاج کرو اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھ میں بہت شفا رکھے گا۔ توُ ہی شفا دے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان قربانی کرنے والے ڈاکٹروں کی قدرکی اور ایسے ایسے لاعلاج مریض شفا پاکر گئے کہ دنیا حیران ہوتی تھی۔ اورپھرمالی ضرورتیں بھی اس طرح خداتعالیٰ نے پوری کیں کہ بڑے بڑے امراء بھی شہروں کے بڑے ہسپتالوں کو چھوڑ کر ہمارے چھوٹے دیہاتی ہسپتالوں میں آ کر علاج کروانے کو ترجیح دیتے تھے۔ اسی طرح اساتذہ نے بھی بنی نوع انسان کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ ڈاکٹر وں اور اساتذہ کی خدمات کے سلسلے آج بھی جاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ سلسلے جار ی رکھے اور ان سب خدمت کرنے والوں کو اجرعظیم سے نوازتارہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍اکتوبر 2003ء)