حضرت مصلح موعود ؓ

نیکیوں پر استقلال اوردوام کی عادت ڈالیں (قسط دوم)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(گزشتہ سے پیوستہ)میں سمجھتا ہوں یہ خیالات لوگوںمیں اِسی لئے پیدا ہوتے ہیں کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ نجات ہمارے اپنے اعمال سے وابستہ ہے یہی وجہ ہے کہ اگر وہ کوئی نیکی کا کام کرتے بھی ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایک احسان سمجھتے ہیں اور یہی ذہنیت ہے جو نیکیوں پر استقلال اور دوام کی عادت پیدا نہیں ہونے دیتی۔ لوگ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کر کے بھی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر بڑا احسان کر دیا ہے اور احسان خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، تھوڑا ہو یا زیادہ برابر ہوتا ہے۔ گویا وہ اللہ تعالیٰ کو رشوت دیتے ہیں۔ جس طرح کسی شخص کے پاس ٹکٹ نہ ہو اور وہ ریل گاڑی میںسفر کر رہا ہو اور ٹکٹ چیک کرنے والا آجائے تو وہ بجائے پورا کرایہ ادا کرنے کے کچھ رشوت دے کر ٹکٹ چیکر کو خاموش کر ادے۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے وہ اِس ایک نیکی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی آنکھیں نیچی کرنا چاہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ اگر ہم ساری عمر بھی نیکیاں کرتے چلے جائیں تو بھی ہماری ذمہ داری ادا نہیں ہوتی۔ وہ لوگ جو کچھ دیر کام کرنے کے بعد کچھ عرصہ قربانی کرنے کے بعد تھک کر بیٹھ جاتے ہیں اور اُن کے اندر سُستی اور غفلت پیدا ہو جاتی ہے اور اِس اَمر کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُن کوپھر بیدار کیا جائے اور اُن کو ذمہ داریوں کا اِحساس دلایا جائے ایسے لوگوں کو اپنے انجام کی فکر کرنی چاہئے۔ کیونکہ اگر ایک شخص ساری عمر بھی کھانا کھاتا ہے لیکن صرف دس دن کھانا نہ کھائے تو وہ یا تو مر جائے گا یا مرنے کے قریب پہنچ جائے گا۔

اگر ایک شخص ہزار سال میں نو سَو ننانوے سال اور تین سَو پچاس دن تک کھانا کھاتا رہے لیکن صرف دس پندرہ دن نہ کھائے تو اُس کا پچھلا کھایا ہوا آئندہ نہ کھانے والے دنوں میں کام نہیں آئے گا۔ یہی حال انسان کی روحانی زندگی کا ہے اگر اس کو روحانی غذا نہ ملے تو ایسے شخص کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ہے اور وہ یا تو مر جاتا ہے یا مرنے کے قریب پہنچ جاتا ہے لیکن اگر وہ اپنی حالت کی طرف توجہ کرے اور توبہ و استغفار کرے تو اسے اللہ تعالیٰ موت کے گڑھے سے نکال لیتا ہے اور اگر توجہ نہ کرے اور اپنی اصلاح کے لئے نیکی کی طرف قدم نہ اُٹھائے تو اُس پر موت وارد ہو جاتی ہے۔ پس تھوڑا سا کام کر کے یہ سمجھ لینا کہ ہم نے اپنی آخرت کے لئے بہت کچھ کر لیا ہے یہ محض نفس کا دھوکا ہے۔ یہ ایسی ذہنیت ہے جو عملی حالت کو خراب کر رہی ہے اور اگر ہماری جماعت بھی اِس رَو میں بہ جائے تو یہ قابلِ افسوس بات ہوگی۔ میں دیکھتا ہوں کہ نمازوں میں پھر سُستی پیدا ہو رہی ہے۔ آج اِس مسجد میں پہلے سے آدھی قطاریں نماز پڑھنے والوں کی ہیں میرے بیمار ہونے سے اللہ تعالیٰ تو بیمار نہیں ہوگیا۔ وہ تو دیکھتا ہے کہ کون مسجد میں آیا ہے اور کون نہیں آیا۔ دوست آج محلوں میں جا کر لوگوں سے پوچھیں کہ کیا میرے بیمار ہونے سے اللہ تعالیٰ بھی بیمار ہو گیا ہے کہ لوگ نماز پڑھنے کے لئے نہیں آتے۔ کیا اب اللہ تعالیٰ ان کو دیکھ نہیں رہا جیسے پہلے دیکھتا تھا کہ کون مسجد میں آیا ہے اور کون نہیں آیا۔ یا ان کو ضرورت نہیں رہی کہ وہ اس مسجد میں آ کر نماز ادا کریں۔ میرے نزدیک نہ آنے والے لوگوں کی حالت بالکل ویسی ہی ہے جیسے سکول کے بچوں کی ہوتی ہے۔ اگر استاد کی توجہ کسی دوسری طرف ہو جائے یا استاد کلاس میں نہ رہے تو بچے تختیاں رکھ کر آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے کام کو بھول جاتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں نے یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ میں تو مسجد میں آتا نہیں اس لئے انہیں مسجد میں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ بچے تو نادان ہوتے ہیں اس لئے وہ دوسری طرف مشغول ہو جاتے یا آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں لیکن مومن تو بہت عقلمند اور بیدار مغز ہوتا ہے اس کا مقصد ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہنا چاہئے۔ بیشک استاد کی غیر حاضری میں بچے جو کچھ کرتے ہیں اسے ان باتوں کا علم نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے اُسے انسان کی ہر حالت کا علم ہوتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ کون کون مسجد میں آیا ہے اور کون کون نہیں آیا۔ لیکن اگر بفرضِ محال اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرلے کہ میں آج مسجد میں جھانکوں گا تو گو اللہ تعالیٰ تو قادرِ مطلق ہے اُس کے لئے تو یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی وقت نہ دیکھے لیکن اگر محال کے طور پر فرض بھی کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کو روک دے اور مسجد میں نہ دیکھے تو بھی نقصان اُسی شخص کا ہوا جو نماز کے لئے نہیں آیا کیونکہ وہ نماز کے ثواب سے محروم ہو گیا۔ اور میرے نزدیک تو مسجد میں نہ آنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالے یا اپنے کانوں کو بند کر دے یا اپنی زبان کاٹ ڈالے یا اپنے دانت توڑ دے یا اپنی ناک کاٹ لے۔ جو شخص اپنے ان اعضاء کو کاٹتا ہے وہی دُکھ اُٹھاتا ہے۔ اسی طرح نمازیں بھی انسان کے روحانی اعضاء ہیں۔ نمازوں میں سُستی کرنا اپنے روحانی اعضاء کو کاٹنے کے مترادف ہے اور اگر کسی ایسے شخص کو جو نہ آنکھیں رکھتا ہو، نہ کان رکھتا ہو، نہ ناک رکھتا ہو، نہ زبان رکھتا ہو، نہ ہاتھ رکھتا ہو جنت میں بھی داخل کر دیا جائے تو وہ اس سے کیا فائدہ اُٹھائے گا۔ جیسے کسی لُولے لنگڑے اور اندھے شخص کو شالامار باغ میں بٹھا دیا جائے تو وہ اُس سے کیا لطف حاصل کرسکے گا۔ اسی طرح جس شخص کے روحانی اعضا ء کام نہیں کرتے تو اُسے اگر جنت میں بھی داخل کر دیا جائے تو وہ جنت سے کیا لطف اُٹھائے گا۔ گو ایسے آدمی کا جس کے روحانی اعضاء کام نہ کرتے ہوں جنت میں جانا ناممکن ہے لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ کوئی شخص فرشتوں کو دھوکا دے کر جنت میں چلا بھی جائے تو وہ اندھا، لُنجا اور لنگڑا شخص جنت میں جا کر کیا کرے گا۔ اس کی آنکھیں نہیں کہ جنت کے نظاروں کو دیکھ سکے، اُس کے کان نہیں کہ جنت کی عمدہ آوازوں کو سن سکے، اُس کی زبان نہیں کہ جنت کے ثمرات کو چکھ سکے، اُس کے ہاتھ نہیں کہ کسی کو چھو کر اُس کی لطافت کو محسوس کر سکے جنت سے تو وہی لطف اُٹھا سکتا ہے جس کی نمازیں باقاعدہ ہوں، جس کے چندے باقاعدہ ہوں، اور وہ تقویٰ کی تمام راہوں پر گامزن ہو کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو انسان کے روحانی اعضاء ہیں۔ جس نے ان میں سُستی اختیار کی گویا اُس نے اپنے روحانی اعضاء کاٹ ڈالے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا (بنی اسرائیل :73)

کہ جو شخص اس دنیا میں روحانی طور پر اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہوگا۔

قرآن مجید کا یہ طریق ہے کہ وہ بات کو نہایت اختصار سے بیان کرتا ہے اور یہ بلاغت کا قاعدہ ہے کہ بات ایک جزو کے متعلق کرتے ہیں مگر تمام اجزاء مراد ہوتے ہیں۔ اِس آیت کی تفسیر اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ

لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ (الاعراف :180)

یعنی ان کے سینوں میں ظاہری طور پر دل تو موجود ہیں لیکن وہ ان سے کام نہیں لیتے اور ان کی آنکھوں میں ظاہری طور پر ڈیلے تو موجود ہیں لیکن وہ اُن سے دیکھتے نہیں اور ان کے ظاہری طور پر کان تو ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں۔ یہ کافر کی علامت ہوتی ہے کہ وہ روحانی لحاظ سے بالکل اندھا، بہرہ اور گونگا ہوتا ہے۔ وہ ظاہری آنکھیں رکھنے کے باوجود نہیں دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ کے کیا کیا نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی نصرت کر رہا ہے، وہ ظاہری کان رکھنے کے باوجود نہیں سنتا۔ ہر طرف سے صداقت اور سچائی کی آوازیں بلند ہوتی ہیں، چاروں طرف لوگ سچائی کا بآوازِ بلند اقرار کرتے ہیں لیکن اُس کے کانوں میں آواز نہیں پہنچتی، اُس کے پاس دل ہوتا ہے لیکن وہ صرف ایک گوشت کی بوٹی ہوتی ہے۔ جو کام دل کا ہوتا ہے کہ وہ کسی بات کے متعلق فیصلہ کرے اور اُس پر مضبوطی سے قائم ہو جائے یہ بات اس میں نہیں ہوتی۔ پھر کافر گونگا ہوتا ہے یعنی حق کے مقابلہ میں کوئی بات اُس کے منہ سے نہیں نکلتی وہ حق کے مقابلہ میں حیران و ششدر ہو جاتا ہے۔ پس

مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی

سے مراد صرف آنکھوں کا اندھا پن نہیں بلکہ دوسری آیات جو اسی مضمون کی ہیں وہ بھی اس کے ساتھ شامل ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس دنیا میں روحانی طور پر اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہوگا، جو شخص اس جہان میں روحانی طور پر اَصَمّ ہے وہ شخص اگلے جہان میں بھی اَصَمّ ہوگا، جو شخص اس جہان میں روحانی طور پر اَبْکَمُ ہے وہ اگلے جہان میں بھی اَبْکَمُہوگا۔نام ایک عضو کا لیااور مراد اِس سے تمام اعضاء ہیں۔ پس جس شخص کی نہ آنکھیں ہوں، نہ کان ہوں، نہ زبان ہو، نہ ناک ہو، نہ ہاتھ ہوں وہ جنت سے کیا فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے متعلق فرماتے ہیں جنت ایسی چیز ہے کہ

مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ(بخاری کتاب بدءالخلق باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ…الخ)

نہ آنکھوں نے اسے دیکھا نہ کانوں نے کبھی اس کی حقیقت کو سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا تصور آ سکتا ہے۔ یہی تینوں الفاظ ہیں جو قرآن مجید نے بیان فرمائے ہیں۔

لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّایَفْقَھُوْنَ بِھَاوَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّایُبْصِرُوْنَ بِھَا۔ وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا

کے مقابل پر

مَالَاعَیْنٌ رَأَتْ

فرمایا اور

وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّایَسْمَعُوْنَ بِھَا

کے مقابل پر

وَلَااُذُنٌ سَمِعَتْ

فرمایا۔ اور

لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّایَفْقَھُوْنَ بِھَا

کے بِالمقابل

وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ

فرمایا۔ یعنی وہ چیزیں ایسی ہیں کہ مومن ان چیزوں کو اِس جہان میں نہیں دیکھتا مگر اگلے جہان میں دیکھے گا۔ لیکن کافر اِس جہان میں بھی نہیں دیکھتا اور اگلے جہان میں بھی نہیں دیکھے گا۔ مومن کو ایسی آنکھیں دی جائیں گی جو جنت کی چیزوں کو دیکھیں گی، اُن سے لطف اندوز ہوں گی۔اور اگلے جہان میں مومن کو ایسے کان ملیں گے جو جنت کی عمدہ آوازوں کو سُن کر لذت اُٹھائیں گے۔ اور مومن کو اگلے جہان میں ایسا دل ملے گا جو جنت کی نعماء سے لذت اندوز ہوگا۔ کافر کے پاس یہ تینوں چیزیں نہیں ہوں گی کیونکہ وہ روحانیت کے لحاظ سے اِس دنیا میں بھی اندھا تھا اور اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا۔ وہ روحانیت کے لحاظ سے اس جہان میں بھی بہرہ تھا اور وہاں بھی بہرہ ہی ہوگا۔ اس کا دل اس جہان میں بھی روحانیت کی باتوں سے ناآشنا تھا اور اگلے جہان میں بھی جنت کی لذات سے ناآشنا ہوگا۔ جو حالت اس کی اس جہان میں ہے وہی حالت اگلے جہان میں ہوگی۔ میرے خیال میں یہ حدیث اِسی آیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں کچھ ایسے حواس دیئے جائیں گے جو اِن حواس کے مشابہ ہونگے جو اِس وقت ہم رکھتے ہیں تو وہ حواس بہت لطیف ہوں گے۔ اور جنت میں کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن کو دیکھ کر آنکھیں لذت اُٹھائیں گی، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن سے کان لذت اُٹھائیں گے، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن سے قلب محظوظ ہوگا، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن سے زبان لذت پائے گی۔ مثلاً جنت میں ثمرات وغیرہ کھانے کو ملیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ جنتی لوگوں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ کہیں گے

ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ (البقرۃ:26)

لیکن جس شخص کے حواس دنیا میں کام نہیں کرتے اور وہ روحانی نعمتوں سے محروم ہیں وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ

ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ

پس جو شخص سوچ سمجھ کر اعمال بجا لاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ وہ کسی نیکی سے محروم نہ رہے اُسے ہر نماز کے ذریعہ ایک نئی طاقت دی جاتی ہے۔ اگر وہ حج کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر زکوٰۃ دیتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے۔ اگر وہ کسی کو تعلیم دیتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ نیک بات کسی کو کہتا ہے تو اسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے،اگر وہ کسی کی تربیت کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ اچھے کلمے کی کسی کو تلقین کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ ظلم و تعدی کو دور کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے،اگر وہ کسی یتیم یا بیوہ کے بوجھ کاکفیل بنتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ کسی مصیبت زدہ کی مدد کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، ہر نیکی جو انسان کرتا ہے اس کے ذریعہ وہ اپنی ایک نئی حِس اور نئی طاقت کو زندہ کرتا ہے جو جنت میں اس کے کام آنے والی ہے۔ جتنی نعمتیں جنت میں ہیں اگر انسان چاہے کہ ان سب سے لطف اُٹھائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مقابل پر زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرے۔ جس طرح انسان دنیا میں اچھے نظارے دیکھ کر لطف اُٹھاتا ہے۔ ناک سے خوشبو سونگھ کر یا کانوں سے اچھی آوازوں کو سُن کر لطف اندوز ہوتا ہے یا زبان سے چکھ کر لذت اُٹھاتا ہے۔ اور ہر ایک چیز کی سینکڑوں بلکہ ہزاروں قسمیں ہوتی ہیں۔ نظارے دنیا میں ہزاروں قسم کے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اسی طرح خوشبوئیں بھی ہزاروں قسم کی ہوتی ہیں اور چیزوں کے ذائقے بھی ہزاروں قسم کے ہیں۔ ہر ایک آدمی کا ذوق مختلف ہوتا ہے بعض آدمی تُرش چیز کو پسند کرتے ہیں لیکن بعض آدمی تُرش چیز کو سخت ناپسند کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ذوق کے مطابق نہیں ہوتی اور جن کو تُرش چیز پسند ہے وہ بھی سارے کے سارے کسی ایک چیز کو پسند نہیں کرتے بلکہ مختلف طبائع مختلف چیزوں کو پسند کرتی ہیں کیونکہ تُرش چیزیں کوئی ایک دو قسم کی نہیں بلکہ ہزاروں قسم کی ہیں بعض مٹھاس کو پسند کرتے ہیں، آگے مٹھاس کی بھی ہزاروں قسمیں ہیں، بعض کو گڑ پسند ہوتا ہے، بعض آم کو پسند کرتے ہیں، بعض کو زردہ پسند ہوتا ہے، بعض کو فیرنی پسند ہوتی ہے۔یہ سب چیزیں میٹھی ہیں لیکن کسی کو کوئی میٹھی چیز پسندہوتی ہے اور کسی کو کوئی۔ اسی طرح جنت کی نعمتیں بھی لاکھوں کروڑوں قسم کی ہوں گی مگر ان کے مقابل پر انسان کو بھی کروڑوں کروڑ نیکیاں کرنی چاہئیں۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button