خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 24؍ جولائی 2020ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حضرت سعدؓ نے رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوۂ بدرسمیت تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ آپؓ بہترین تیر انداز تھے۔
مکرمہ بشریٰ اکرم صاحبہ اہلیہ محمد اکرم باجوہ صاحب ناظر تعلیم القرآن ووقفِ عارضی، مکرم اقبال احمد ناصر صاحب پیرکوٹی، مکرمہ غلام فاطمہ فہمیدہ صاحبہ اہلیہ محمد ابراہیم صاحب آف مولیاں جٹاں ضلع کوٹلی آزاد کشمیر،مکرم محمد احمد انور صاحب حیدرآبادی اورمکرم سلیم حسن الجابی صاحب آف سیریا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍ جولائی 2020ء بمطابق 24؍ وفا 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےمورخہ 24؍ جولائی 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم سفیر احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت سعدؓ نے رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں شرکت فرمائی۔ آپؓ بہترین تیر انداز تھے۔ربیع الاوّل سن دو ہجری کے شروع میں قریشِ مکّہ کے حملوں کی پیش بند ی کے لیےآنحضرتﷺ نے ساٹھ شترسوار مہاجرین کا ایک د ستہ روانہ فرمایا۔ ثنیة المرہ مقام پر اس دستے کا سامنا عکرمہ بن ابو جہل کی کمان میں ڈیرہ ڈالے ہوئے دو سومسلح نوجوانوں سے ہوا۔ دونوں فریقین کے درمیان کچھ تیراندازی بھی ہوئی او ر پھر مشرکین کے لشکر میں سے دو اشخاص بھاگ کرمسلمانوں سے آملے۔
جمادی الاولیٰ دوہجری میں رسول اللہﷺنے سعد بن ابی وقاصؓ کی امارت میں آٹھ مہاجرین کا ایک دستہ خبررسانی کے لیے خرار مقام کی طرف روانہ فرمایا۔
جمادی الآخر دو ہجری میں آنحضورﷺ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی سربراہی میں قریش کی حرکات و سکنات کا جائزہ لینے کے لیے آٹھ مہاجرین پر مشتمل ایک پارٹی روانہ فرمائی۔ آنحضرتﷺ نےحضرت عبداللہ بن جحشؓ کوایک سربمہر خط دیا اور ہدایت فرمائی کہ مدینے سے دو دن کا سفر طے کرنے کے بعد اس خط کو کھولنا۔ خط میں مکّہ اور طائف کے درمیان وادیٔ نخلہ میں قریش کے حالات کی خبر حاصل کرنے کے متعلق ہدایت کی گئی تھی۔راستے میں حضرت سعدؓ اور عتبہ بن غزوانؓ کا اونٹ کہیں کھوگیا اور اسے تلاش کرتے ہوئے یہ دونوں اصحاب اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے۔
اس موقعے پرمستشرق مسٹر مارگولیس نے اعتراض کیا ہے کہ ان صحابہ نے جان بوجھ کر اپنا اونٹ چھوڑ دیا تھا تاکہ اس بہانے سے پیچھے رہا جاسکے۔ حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ فرماتے ہیں کہ ان جاں نثارانِ اسلام میں سے ایک بئرمعونہ کے موقعےپر شہید ہوا اور دوسرا کئی خطرناک معرکوں میں نمایاں حصّہ لےکر فاتح عراق بنا۔ ان شجاع اور فدائی مسلمانوں پر اعتراض کرنا مسٹر مارگولیس کا ہی حصّہ ہے۔
مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت نخلہ میں اپنے کام میں مصروف تھی کہ ان کا سامنا قریش کے ایک چھوٹے سے قافلے سے ہوگیا۔ حالات کچھ ایسے بنے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسلمانوں نے قافلےپر حملہ کردیا۔ حملے کے نتیجے میں کفار کا ایک آدمی مارا گیا جبکہ دو قید ہوئے لیکن بدقسمتی سے ایک شخص بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔ جب آنحضرتﷺ کو قافلے پر حملے کی خبر ملی تو آپؐ سخت ناراض ہوئے، فرمایا مَیں نے تمہیں شہرِ حرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی اور مالِ غنیمت لینے سے انکار کردیا۔ دوسری جانب قریش نے بھی بہت شو رمچایااور اپنے قیدی لینے مدینے پہنچ گئے۔ آنحضورﷺ نے حضرت سعدؓ وغیرہ کی بخیریت مدینہ آمد پر دونوں قیدی چھوڑ دیے جن میں سے ایک ازخود مسلمان ہوگیا۔
غزوۂ بدر کے موقعے پر راستے میں کفارِمکّہ کےحالات سے واقفیت کےلیے آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ،حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو روانہ فرمایا۔ یہ اصحاب ایک حبشی غلام کو پکڑ لائے جس سے آنحضرتﷺ نے نہایت نرمی سےدریافت فرمایا کہ لشکر اس وقت کہاں ہے۔ اس نے بتایا کہ سامنے والے ٹیلے کے پیچھے۔ پھر آپؐ نے لشکر کی تعدادکے متعلق استفسار فرمایا جس کا اسے عِلْم نہ تھا۔ آپؐ نے پوچھا کہ اُن کے لیے ہر روز کتنے اونٹ ذبح ہوتے ہیں۔ اس نے کہا دس، تو آپؐ نے فرمایا کہ ایک ہزار آدمی معلوم ہوتے ہیں اورحقیقتاً وہ اتنے ہی تھے۔
غزوۂ بدر کے موقعے پر حضرت سعدؓ پیدل ہونے کے باوجود سواروں کی طرح بہادری سے لڑے اسی وجہ سے آپؓ کو فارس الاسلام یعنی اسلام کا شہ سوار کہا جاتا ہے۔ غزوۂ احد کے موقعے پر حضرت سعدؓ ان گنتی کے اصحاب میں سے تھے جو سخت افرا تفری کے باوجود آنحضرت ﷺ کے پاس ثابت قدم رہے۔آنحضورﷺ سعدؓ کو خود تیر پکڑاتے جاتے اور سعدؓ یہ تیر دشمن پر بےتحاشا چلاتے جاتے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا میرے ماں باپ قربان ہوں برابر تیر چلاؤ۔ سعدؓ اپنی آخری عمر تک ان الفاظ کو نہایت فخر سے بیان کیا کرتے۔ اسی موقعے پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کےبدبخت کافر بھائی عتبہ نےحملہ کرکے رسول اللہﷺ کے دندانِ مبارک شہید کردیےتھے۔ جب حضرت سعدؓ کو عتبہ کی بدبختی کا عِلْم ہوا تو آپؓ کاسینہ جوشِ انتقام سے کھول گیا اور آپؓ نے متواتر لشکرِ قریش میں گھس کر عتبہ کو تلاش کیا تاکہ اس کا صفایا کرسکیں یہاں تک کہ رسول اللہﷺ نے ازراہِ شفقت آپؓ کو روک لیا۔
جنگِ احد کے ان ہی نامساعد حالات میں حبان نامی ایک کافر نے حضرت امِّ ایمن جو زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں کی طرف تیر چلایا۔ یہ تیر امِّ ایمن کے دامن میں لگا، اس پر حبان ہنسنے لگا۔ آنحضرت ﷺ نے ایک تیر حضرت سعدؓکو عطا فرمایا جو سیدھا حبان کے حلق پر لگا۔ آنحضورﷺ اللہ تعالیٰ کے اس احسان پر مسکرادیے۔ روایت کے مطابق غزوۂ احد کے روز حضرت سعدؓ نے ایک ہزار تیر چلائے۔
صلح حدیبیہ کے موقعے پر جن صحابہ نے صلح نامے پربطور گواہ دستخط کیے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ان میں شامل تھے۔ اسی طرح فتح مکّہ کے موقعے پر مہاجرین کے تین جھنڈوں میں سے ایک حضرت سعدؓ کے پاس تھا۔
ایک موقعے پر سعدؓ شدید بیمار ہوئے تو رسول اللہﷺ آپؓ کی عیادت کے لیے تشریف لائے اور وصیت سے متعلق استفسار فرمایا۔ سعدؓ نے جواباً عرض کیا کہ میرا سارا مال اللہ کی راہ میں قربان ہے تو آنحضرتﷺ نے انہیں سارا مال صدقہ کرنے سے روکا اور زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال صدقہ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
آنحضرتﷺ گو خود شکار نہ کیا کرتے مگرشکار کروایا کرتے تھے چنانچہ ایک غزوے میں حضورﷺ نے سعد بن ابی وقاصؓ سےہرن کا شکار کروایا۔ جب سعدؓ تیر چلانے لگے تو آپؐ نے پیار سےاپنی ٹھوڑی سعدؓ کے کندھے پر رکھ دی اور دعا کی کہ اے اللہ! سعد کا نشانہ بے خطا کردے۔
عرب کے ماحول میں دو بڑی طاقتیں قیصر و کسریٰ کی تھیں۔ عراق کا بڑا حصّہ کسریٰ کے زیرِ نگیں تھا۔ مدائن، قادسیہ، نہاوند اور جلولہ کے مشہور معرکے حضرت سعدؓ کی زیرِ سیادت لڑے گئے۔
حضرت ابو بکرؓ کے دورِ خلافت میں عراق کی مہم کچھ تیزی کے بعد سرد پڑ گئی تھی۔ جب حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے تو آپؓ نے عراق کی جانب ازسرِ نَو توجہ فرمائی۔ اسی دور میں خسرو پرویز کے پوتے یزد جرد کی تخت نشینی عمل میں آئی جس نےایرانی سلطنت کی تمام طاقتوں کو مجتمع کیا۔ ان حالات میں حضرت عمرؓ نے تمام عرب میں جہاد کی تحریک کی اور اس مہم کی قیادت از خود کرنے کا ارادہ فرمایا۔حضرت علیؓ اور دیگر اکابر صحابہ کی رائے اس میں مانع ہوئی اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا نام تجویز فرمایا۔ حضرت سعدؓ کی نسبت حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ وہ ایک بہادر، نڈر اور زبردست تیرانداز ہے۔عراق پہنچ کر کمان سنبھالنے کے بعد جب حضرت سعدؓ نے اپنی فوج کا جائزہ لیا تو وہ کم و بیش تیس ہزار آدمیوں پر مشتمل تھی۔
جنگِ قادسیہ 16 ہجری میں کفار کی تعداد دو لاکھ اسّی ہزار کے لگ بھگ تھی اور ایرانی فوج کی کمان رستم کے ہاتھ میں تھی۔حضرت سعدؓ نے مخالف لشکر کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو بھجوایا جن کے ساتھ رستم نے بہت تحقیر آمیز رویّہ اختیار کیا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے سعد بن ابی وقاصؓ کو شاہِ ایران کے پاس وفد بھجوانے اور اسے دعوتِ اسلام دینے کی ہدایت فرمائی۔ سعدؓ نے ایک وفد یزد جرد کے پاس بھجوایا تو اس نے بڑےغُرور کے ساتھ اسلام کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور ایک مٹی کا بورا اسلامی وفد کے امیر کو دیتے ہوئے کہا کہ اس کے سوا تمہیں کچھ نہیں مل سکتا۔ اُن صحابی نے مٹی کا بورا اٹھایا اور دربار سے نکلتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آج شاہِ ایران نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ملک کی زمین ہمارے حوالے کردی۔ بادشاہ نے یہ نعرہ سنا تو اسے بدشگونی خیال کرتے ہوئےوفد کے پیچھے اپنے سپاہی روانہ کیے لیکن تب تک مسلمان گھوڑوں پر سوار بہت دور نکل چکے تھے۔
خطبے کے اختتام پر حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدرج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانےکا اعلان فرمایا۔
1۔مکرمہ بشریٰ اکرم صاحبہ اہلیہ محمد اکرم باجوہ صاحب ناظر تعلیم القرآن ووقفِ عارضی۔ آپ 25؍مارچ کو 66سال کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔
إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
2۔اقبال احمد ناصر صاحب پیرکوٹی۔ آپ 14؍جولائی کو بیاسی سال کی عمر میں وفات پاگئے۔
إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔
مرحوم کے ایک بیٹے مکرم اکبر احمد طاہر صاحب مبلغ سلسلہ برکینا فاسو ہیں۔
3۔ غلام فاطمہ فہمیدہ صاحبہ اہلیہ محمد ابراہیم صاحب آف مولیاں جٹاں ضلع کوٹلی آزاد کشمیر۔ آپ 18؍ جولائی کو 72سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔
إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔
مرحومہ کے تین بیٹے واقفِ زندگی ہیں اور محمد جاوید صاحب زیمبیا میں بطور مبلغ خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔
4۔مکرم محمد احمد انور صاحب حیدرآبادی۔ آپ 22؍ مئی کو 94سال کی عمر میں وفات پاگئے۔
إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔
5۔ مکرم سلیم حسن الجابی صاحب آف سیریا۔ آپ 30 جون کو 92سال کی عمر میں وفات پاگئے۔
إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔
حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیےدعا کی۔
٭…٭…٭