منظوم کلام
گھر
کچھ آج بزمِ دوستاں میں ایک گھر کی بات ہو
چمن کے رنگ و بو،حسین بام و دَر کی بات ہو
یہ ایسی اک جگہ ہے جسے میں اپنا کہہ سکوں
جہاں میں سُکھ سے جی سکوں جہاں سکوں سے رَہ سکوں
جہاں کے رہنے والے ایک دوسرے پہ جان دیں
بھرم محبتوں کا اور عزتوں کا مَان دیں
وہ جن کے سینے چاہت و خلوص کا جہان ہوں
جبیں پہ جن کی ثبت پیار کے حسیں نشان ہوں
جہاں نہ بد لحاظ ہو کوئی نہ بد زبان ہو
جہاں نہ بد سرشت ہو کوئی نہ بد گمان ہو
( نظم’’ گھر ‘‘سے چند اشعار،کلام : صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ ’’ہے دراز دست دعا مرا ‘‘صفحہ :307تا310)