اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
(مئی2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب)
ایک عمررسیدہ احمدی خاتون توہین رسالت کے جھوٹے مقدمہ میں زیر حراست
120آربی چیلیکی ضلع ننکانہ،30؍اپریل 2020ء
رمضان بی بی کے خلاف ایک جھوٹا کیس توہین رسالت کی دفعہ کے تحت درج کیا گیا جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کر کے سنٹرل جیل شیخوپورہ اور پھر وہاں سے کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا۔ ان کی عمر55 سال ہے۔
اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ رانا منیر احمد کی والدہ نے جو کہ ایک بزرگ احمدی خاتون ہیں کچھ رقم اپنے گاؤں کی غیراحمدیوں کی مسجد میں بھجوائی لیکن غیر احمدیوں نے اسے لینے سے انکار کر دیا۔ چند روز بعد منیر احمد کی اہلیہ محترمہ رمضان بی بی نے غیراحمدی رشتہ دار امجد عباس سے رقم نہ لینے اور واپس بھجوادینے پر گلہ کیا۔ چنانچہ اس پر غیر احمدی رشتہ دار نے گالم گلوچ شروع کر دی۔ وہاں پر رمضان بی بی کے دیگر رشتہ دار بھی موجود تھے جنہوں نے اس غیر احمدی رشتہ دار کو سخت زبانی سے منع کیا لیکن صورت حال خراب ہو گئی اور نوبت لڑائی جھگڑے تک جا پہنچی اور اس جھگڑے میں رمضان بی بی زخمی ہو گئیں۔ علاقہ کے ملاؤں کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ڈی پی او کو کال کر کے فیملی کی لڑائی کو مذہبی رنگ دے دیا اور رمضان بی بی پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے توہین رسالت کی ہے۔ ڈی پی او نے علاقےکے ملاؤں کے دباؤ پر گاؤں کے بعض لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی اور بعض علاقہ مکینوں نے رمضان بی بی کے خلاف گواہی دینے کے لیے ایک شخص کو تیار کر لیا۔
رانا منیر احمد نے اپنی زخمی بیوی رمضان بی بی کا طبی معائنہ کروایا اور مقدمہ درج کروانے کے لیےپولیس اسٹیشن چلے گئے لیکن پولیس نے انہیں ادھر ہی گرفتار کر لیا۔
امجد عباس نے جو درخواست ایس ایچ او کو دی اس میں اس نے الزام لگا یا کہ رمضان بی بی نے حضرت محمدﷺ کو گالیاں دی ہیں(نعوذ باللہ)اور یہ کہا ہے کہ ہمارا نبی تمہارے نبی سے ہزار درجہ بہتر ہے (نعوذ باللہ)لہٰذا اس نے صرف جرم ہی نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ سے پوری امت مسلمہ کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اس کے خلاف سخت کارروائی اور پولیس مقدمہ کا اندراج کیا جائے۔
امجد کی اس درخواست پر رمضان بی بی کے خلاف سانگلہ ہل صدر پولیس اسٹیشن میں توہین رسالت کی دفعہ 295C(تعزیراتِ پاکستان) کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا اور وہ اب سنٹرل جیل شیخوپورہ میں زیر حراست ہیں۔
PPC 295.Cمیں کسی احمدی خاتون کی گرفتاری کا یہ پہلا واقعہ ہے اور اس کیس میں ان کے خلاف جو الزامات لگائے گئےہیں یقیناً وہ دروغ گوئی پر مبنی ہیں اور جماعت کے بنیادی عقائد کے خلاف ہیں۔ حضرت رسول کریمﷺ کی دل و جان سے عزت اور احترام کرنا ہر احمدی کے ایمان کا لازمی جزو ہے۔
بلاشبہ حکام کی جانب سے اس واقعہ میں مخالفین احمدیت کا پوری طرح ساتھ دیا گیا ہے جبکہ پاکستان کی عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دینا ایک عام سی بات ہے اور اس امر سے پولیس اور عدلیہ بخوبی آگاہ ہیں۔
پاکستان سائبر کرائم کا جماعت احمدیہ کے ایک مربی کے گھر پر چھاپہ
26؍مئی 2020ء کو ایف آئی اے کے ذیلی ادارہ پاکستان سائبر کرائم نے روحان احمد (مربی سلسلہ )کے گھر واپڈا ٹاؤن لاہور میں چھاپہ مارا جہاں وہ عید الفطر منانے کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔
روحان احمد کی عمر30؍سال ہے اور وہ اس وقت کیمپ جیل لاہور میں اسیر ہیں۔ ان کے خلاف ایف آئی آر نمبر29/2020کےتحتPPC295-B,298-C, 120B, 109, 34R/W2016-PECA-11کی دفعات کا اندراج کیا گیا ہے اور جرم ثابت ہونے پر انہیں خدانخواستہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس کیس کی تفصیل یوں ہے کہ محمد شکیل ولد محمد امین آف پریم گلی گوال منڈی،لاہور نے ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم لاہور کو ایک درخواست جمع کروائی جس میں اس نے الزام لگایاکہ اسے 30؍ستمبر 2019ء کو Whatsappکے ذریعہ خدام الاحمدیہ پاکستان کی طرف سے ایک جنرل نالج کے مقابلہ میں شمولیت کرنے کے لیے ایک پیغام موصول ہوا اور جس نمبر کے ذریعہ یہ پیغام بھجوایا گیا تھا یہ روحان احمد (مربی سلسلہ،ربوہ )کا تھا۔
اسی طرح محمد شکیل نے مزید الزام یہ لگا یا کہ اسے اگلے روز یعنی یکم اکتوبر 2019ءکو مذکورہ نمبر سےچار سے پانچ مزید پیغامات موصول ہوئے جن میں جماعت کی آفیشل ویب سائٹ کا لنک بھی تھا اور اس ویب سائٹ پر روحانی خزائن اور تفسیر صغیر جیسی کتابیں موجود ہیں اور دیگر توہین آمیز کتابیں بھی اسے دیکھنے کو ملیں(نعوذ باللہ)۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایف آئی آر میں محمد شکیل ایڈووکیٹ کا فون نمبر 03360639147درج ہے جو کہ ماضی میں ایک لمبے عرصہ سے ملا حسن معاویہ کے زیر استعمال رہا ہے جو کہ جماعت کا شدید مخالف ہے اور یہ پاکستان میں موجود احمدیوں کوجھوٹے مقدمات میں پھنسانے اور انہیں خطرناک سزائیں دلوانےمیں ہر وقت سر گرم عمل رہتا ہے۔ یہ ملا طاہر اشرفی چیئر مین علماء کونسل پاکستان کا چھوٹا بھائی ہے اور اپنے بھائی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حکومتی ذرائع کو احباب جماعت کے خلاف استعمال کرکے انہیں مقدمات میں پھنساتا رہتا ہے۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت کے ایک جج ہارون لطیف خان نے بھی اسی طرح کے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران اس امر کا مشاہدہ کیا تھا کہ حسن معاویہ احمدیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات تیار کر کے انہیں ہراساں کرتا ہے جس کے نتیجے میں انہیں مختلف سزاؤں یا پھر قید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اس دفعہ بھی روحان احمد کو جھوٹی اور دروغ گوئی پر مشتمل معلومات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کی گرفتاری کے لیے ایف آئی اے نے مجسٹریٹ سے اجازت حاصل کی اور پھر جن اہلکاروں نے ان کے گھر چھاپہ مارا وہ یونیفارم کی بجائےسادہ کپڑوں میں تھے، اور انہوں نے چہروں پر نقاب پہنے ہوئے تھے جس وجہ سے گھر والوں نے سمجھا کہ کوئی ڈاکو گھر میں گھس آئے ہیں۔ اس وجہ سے گھر کی عورتیں اور بچے ایک کمرہ میں چھپ گئے۔ ایف آئی اے اہلکاروں نے روحان احمد کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور تمام اہل خانہ کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ کے ساتھ ساتھ جماعتی کتب کو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا۔ یقیناًحکومتی کارندوں کی اس کارروائی سے تمام اہل خانہ شدید کرب میں مبتلا ہوئے۔ اس کارروائی کے بعد حکومتی کارندے روحان احمد کو اپنے ہیڈ آفس لے گئے بعد ازاں انہیں کیمپ جیل لاہور منتقل کر دیا گیا۔
ایف آئی اے کے مطابق روحان احمد نے مان لیا ہے کہ انہوں نے مقابلہ کا لنک Google Drive کے ذریعہ شیئر کیا تھا لیکن یہ صرف احمدی خدام کے لیے تھا۔ یاد رہے کہ مذکورہ مواد ستمبر اکتوبر میں شیئر کیا گیا تھا جبکہ اس پر اب مقدمہ آٹھ مہینوں بعد درج کیا گیا ہے۔
اس کیس کی ایف آئی آر کئی جھوٹے الزامات پر مشتمل ہے۔ مثلاً اس میں ذکر ہے کہ جو مواد گوگل ڈرائیو کے ذریعہ شیئر کیا گیا اسے مکرم ناظر صاحب اعلیٰ ،مکرم ناظر صاحب تعلیم اور مکرم ناظر صاحب اشاعت نے تیار کیا تھا۔ اس طرح یہ الزام بھی جھوٹ پر مبنی ہے کہ شیئر کی گئی جماعتی کتب توہین آمیز مواد پر مشتمل ہیں۔ یقیناً یہ سب الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں۔
اس کیس کی ایف آئی آر میں روحان احمد مربی سلسلہ کے ساتھ ساتھ ربوہ کے مہتمم مقامی، ایڈیشنل ناظم تعلیم نیز صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
بلاشبہ اس کیس کے درپردہ بھی حسن معاویہ ہے جس نے وکلاء کا ایک ایسا فورم بنایا ہوا ہےجو جماعت کے خلاف نفرت پھیلاتا ہے اسی طرح یہ گروہ احباب جماعت کے خلاف جھوٹے کیس بنانے میں بھی مشہور ہے۔ اس مقدمہ کا مدعی محمد شکیل ایڈووکیٹ بھی اس فورم کا ممبر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ادارے ان غنڈوں کا آلہ کار بن کر محب وطن اور پر امن احمدیوں کو بغض کا نشانہ بنانے سے گریز کریں اور ملک میں مذہبی آزادی،برداشت اور جمہوری روایات کو پروان چڑھائیں۔
حکام کی جانب سے کیبل پر ایم ٹی اےکی بندش
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) نے ایم ٹی اے چینلز کی نشریات پر پابندی عائد کردی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
پیمرا کی جانب سے یہ اقدام مرزا فاروق حید ر چیئر مین4th Pillar Media USAآف نیو جرسی کی درخواست پر کیا گیا ہے۔
مرزا فاروق حیدر کا اپنی درخواست میں کہنا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمدﷺ آخری نبی ہیں اور جو ایسا نہیں سمجھتا وہ کافر اور مرتد ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق قادیانی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی اپنے عقیدہ کی تبلیغ کر سکتے ہیں جبکہ قادیانی پرائم لوکیشن یعنی Asia SATپر اپنے چینلز کی نشریات کر رہے ہیں۔ اسی لوکیشن پر مسلمانوں اور بچوں کے دیگر معلوماتی چینلز کی نشریات جاری ہیں جس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ بچے قادیانی چینلز کو دیکھ کر کہیں گمراہ نہ ہو جائیں لہٰذا قادیانی چینلز کی نشریات کو بند کیا جائے اس طرح ان گھرانوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے ایم ٹی اے کے لیے ڈش انٹینا نصب کیا ہوا ہے۔ چنانچہ اس درخواست پر پیمرا نے فوری ایکشن لیتے ہوئے کیبل آپریٹر زکو ایم ٹی اے چینلز کی بندش کا نوٹس جاری کر دیا۔
ایم ٹی اے کے آٹھ چینلز کی نشریات مختلف زبانوں میں دنیا بھرمیں جاری ہیں اور پاکستان کے علاوہ کسی ملک میں بھی اس پر پابندی نہیں ہے۔ بلاشبہ ایم ٹی اے کے پروگرامز اخلاقی اور روحانی اقدار کا پرچار کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بعض ملکوں میں یہ نشریات لوکل ٹی وی چینلز کے ذریعہ نشر ہوتی ہیں۔ جماعت احمدیہ اپنی پر امن تعلیمات کی بدولت دنیا بھر میں مشہور ہے لہٰذا پیمرا کو انتہاء پسندانہ سوچ کاآلہ کار بننے سے گریز کی ضرورت ہے۔
ایم ٹی اے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور جماعت کے مابین رابطہ کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یقیناً پیمرا کی جانب سے یہ بندش بنیادی انسانی حقو ق کی خلاف ورزی ہے۔
پنجاب اسمبلی اور ختم نبوت ریزولیوشن
اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کی زیر صدارت متفقہ طور پر ایک ریزولیوشن پاس کی گئی جس میں وفاقی کابینہ کے احمدیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل نہ کرنے کے فیصلےکی تعریف کی گئی اور اس کے ساتھ یہ ذکر کیا گیا کہ قادیانی نہ ہی آئین پاکستان کو مانتے ہیں اور نہ ہی اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرتے ہیں۔
ریزولیشن میں ذکر کیا گیا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لیکن یہاں ہر دوسرے دن ناموس رسالت یا تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے یا کتابوں سے لفظ خاتم النبییننکال دیا جاتا ہے جس پر ہم شرمندہ ہیں۔ ایسا کرنے والے سازشی عناصر کے خلا ف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے نیز اگر قادیانیوں کے سربراہ لکھ کر دے دیں کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرتے ہیں تو پھر ان کوا قلیتی کمیشن میں شامل کرنے پر کسی کو بھی اعتراض نہ ہو گا،جب تک قادیانی اپنے آپ کو اقلیت تسلیم نہیں کرتے اس وقت تک انہیں اقلیت بھی نہیں سمجھا جائے گا۔
سلیم الدین (ترجمان جماعت احمد یہ پاکستان) نے وائس آف امریکہ کو اس حوالے سے دیے گئے ایک انٹر ویو میں کہا کہ اگر گورنمنٹ کے اعلیٰ فورمز میں اس طرح کے معاملات اٹھائے جائیں گے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کے عام عوام میں ان کا ردعمل کیسا ہو سکتا ہے نیز یہ کہ اقلیتی کمیشن میں شامل ہونے کے لیے ہماری طرف سے کوئی درخواست نہ کی گئی تھی،احمدیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کا فیصلہ خود حکومت کا تھا جس پر بعد میں حکومت کی طرف سے یو ٹرن لے لیا گیا۔
حکام اور ملاؤں کی جانب سے ایک احمدی کی قبرکی بے حرمتی
شوکت آباد کالونی،ضلع ننکانہ26؍مئی2020ء:
پچاس کے قریب پولیس اہلکاروں،ضلعی انتظامیہ اور ملاؤں نے شوکت آباد کالونی ضلع ننکانہ میں آکر ایک احمدی مرحوم نفیر احمد ولد محمد شریف کی قبر کے کتبے کو توڑ دیا کیونکہ اس پر کلمہ طیبہ اور یا حی یا قیوم کے الفاظ لکھے ہو ئے تھے۔ یاد رہے کہ یہ قبر ان کے بھائی ڈاکٹر شمعون احمد کی زمین میں تھی۔
ایک ڈی ایس پی احمدیہ مساجد کے خلاف سرگرم
بہاول نگر،مئی2020ء:
بہاول نگر کی تحصیل چشتیاں میں حال ہی میں ایک نیا ڈی ایس پی تعینات ہوا ہے۔ اس سے تحفظ ختم نبوت کی جماعت مخالف تنظیم نے رابطہ کیا اور احمدیہ مساجد کے منارے گرانے کا کہا۔ اس کو بنیاد بناتے ہوئے ڈی ایس پی نے علاقہ میں موجود احمدی جماعتوں کو اپنی مساجد کے منارے گرانے کا کہا جس پر احباب جماعت نے ڈی پی او اور انسداد دہشت گردی کے محکمہ سے رابطہ کیا۔ مذکورہ اداروں نے ڈی ایس پی کو احمدیہ مساجد کے خلاف فوری ایکشن لینے سے روک دیا تاہم کچھ دیر کے بعد ڈی ایس پی نے احمدیوں کو دوبارہ پیغام بھجوا دیا جس میں انہیں ا پنی مسجدوں کے منارے گرانے کا دوبارہ کہا۔ چنانچہ اس کے جواب میں احمدیوں نے کہا ہے کہ کہ وہ خود کسی صورت بھی اپنی مساجد کے منارے نہ گرائیں گے۔
ایک سیاست دان کی احمدیہ مسجد کے خلاف کارروائی
بلدیہ ٹاؤن،کراچی18؍مئی2020ء:
بلدیہ ٹاؤن جماعت کے صدر کو حکام کی جانب سے پولیس اسٹیشن حاضر ہونے کا حکم نامہ موصول ہوا۔ چنانچہ پولیس اسٹیشن حاضری پر انہیں بتایا گیا کہ ممبر صوبائی اسمبلی مفتی قاسم فخری نے جماعت احمدیہ بلدیہ ٹاؤن کے خلاف حکومت سندھ اور ڈپٹی کمشنر کو درخواست جمع کروائی ہے کہ بلدیہ ٹاؤن کے احمدی اپنی مسجد کے پلاٹ پر ناجائز طور پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ مذکورہ پلاٹ ایک احمدی مبشر احمد اور ان کی تین بہنوں کا تھا جن سے جماعت احمدیہ بلدیہ ٹاؤن نے یہ پلاٹ 28لاکھ کے عوض خرید لیا ہے اور کل رقم میں سے 18لاکھ روپے کی ادائیگی بھی کر دی ہے اور ابھی اس حوالے سے بقیہ کارروائی جاری ہے۔ یہ تمام بات سرکاری کاغذات کے ثبوتوں کے ساتھ ڈپٹی کمشنر کو بتا دی گئی ہے جس پر اس کی طرف سے تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
یاد رہے کہ بلدیہ ٹاؤن کے علاقہ میں 2011ءاور2012ء میں جماعت مخالف لوگوں کو ملاؤں کی جانب سے اکسایا گیا تھا جس کی وجہ سے یہاں احمدیوں کی شہادتیں بھی ہوئی تھیں اور ان حالات میں بعض احمدی یہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔ واضح ہو کہ ممبر صوبائی اسمبلی قاسم فخری کا مذکورہ پلاٹ سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور مذکورہ احمدیہ مسجد یہاں گذشتہ چالیس سال سےہےلہٰذا یہ کارروائی محض جماعت مخالفت کا ہی ایک شاخسانہ ہے۔
ایک احمدی فیملی کو درپیش مسائل
رحیم نگر ضلع ننکانہ23؍مئی 2020ء:
گذشتہ ماہ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اس جماعت کے صدر عطاءالعزیز کو مخالفین جماعت کی طرف سے جہاں دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے وہاں ان کے خلاف جھوٹے اور من گھڑت مقدمات بنانے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ چنانچہ دوران ماہ ایک روز ان کے بھائی عطاء الحئ اپنی والدہ کے ساتھ کسی جگہ سے گھر واپس آرہے تھے تو ان کے مخالفین نے ان پر حملہ کر دیا اور نہایت گندی زبان استعمال کی۔ چنانچہ جب اس فیملی کی جانب سے پولیس اسٹیشن رابطہ کیا گیا اور تمام صورت حال کے متعلق بتایا گیاتو وہاں سے انہیں صرف یہ جواب ملا کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف درخواست جمع کروا دیں۔ جو واقعہ پیش آیا اس کے متعلق کوئی بھی کارروائی نہ کی گئی۔
ARYنیوز چینل کا جماعت احمدیہ پاکستان کے متعلق جھوٹا پروپیگنڈا
صابر شاکر اور چودھری غلام حسین نام نہاد صحافیوں نے ARYنیوز چینل پر جماعت کے خلاف پروگرام کیےجن میں ان دونوں کی جانب سے جماعت کے خلاف نہایت معاندانہ اور بازاری زبان استعمال کی گئی۔ ان دونوں کی جانب سے جماعت مخالف جو زبان استعمال کی گئی کسی بھی نیوز چینل پر ایسی گری ہوئی زبان کا اظہار کم ہی ہوتا ہے۔ یہ پروگرام 30؍اپریل،14؍مئی،اور18؍مئی 2020ءکو براہ راست نشر کیے گئےتھے۔ جماعت کی طرف سے قانون کے مطابق ان پروگراموں کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست پیمرا کو بھجوائی گئی لیکن پیمرا کی جانب سے جماعت کی درخواست پر کارروائی کرنے کے متعلق کم ہی توقع کی جاتی ہے۔ چنانچہ ان پروگراموں کے دس روز کے بعد پیمرا کی جانب سے ایم ٹی اے کی بندش کا حکم نامہ صادر کر دیا گیا۔
(مرتبہ: لقمان احمد)
٭…٭…٭