برصغیر پاک و ہند میں موجود مقدس مقامات جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے برکت بخشی
٭ 1884ء سفر انبالہ چھاؤنی
1884ء سفر پٹیالہ( انبالہ سے ہی سنور اور پٹیالہ کا سفر بھی فرمایا اور واپس انبالہ تشریف آوری)
1884ء سفر سنور
1884ء میں حضرتؑ نے انبالہ چھاؤنی کا سفر اختیار فرمایا جہاں آپ کے خسرحضرت ناصر نواب صاحب مقیم تھے۔ سنور کے مخلصین کو معلوم ہوا توانہوں نے حضوؑر کی خدمت میں غلام قادر صاحب (ولد اللہ بخش) عبدالرحمٰن صاحب (ولد اللہ بخش) اور منشی عبداللہ صاحب سنوری پر مشتمل ایک وفد بھجوایاتا حضوؑرکو سنور تشریف لانے کی دعوت دیں۔چنانچہ منشی عبداللہ صاحب سنوری کی درخواست پر حضوؑرواپسی کے وقت سنور تشریف لے گئے۔ رستہ میں پٹیالہ میں بھی مختصر سا قیام فرمایا۔ آپؑ پٹیالہ سٹیشن پر پہنچے تو بے شمار لوگ آپؑ کی زیارت کے لئے موجود تھے۔ وزیر الدولہ مدیرالملک خلیفہ سید محمد حسن صاحب خان بہادر سی آئی ای وزیراعظم پٹیالہ نے جو آپ کے خاص ارادت مندوں میں سے تھے آپ کو شاہی بگھی میں بٹھایا اوراپنی کوٹھی پر لے گئے۔ حضرت اقدسؑ نے پٹیالہ کے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک مختصر تقریر بھی فرمائی اورکہا کہ یہ تمہارے وزیر شیعہ نہیں ہیں۔ اہل سنت والجماعت میں سے ہیں ان کے لئے تم بھی دعا کرو۔ میں بھی دعا کرتا ہو ں کہ اللہ تعالیٰ ان کا خاتمہ بالخیر کرے۔ اس کے بعد حضرت نے حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اور بگھی پر سوارہوکرسنور تشریف لے گئے۔ دوپہر کا کھانا تناول فرمانے کے بعد ظہروعصر کی نمازوں کے لئے مسجد شیخاناں گئے۔ خدام نے حضرت اقدس سے باربارعرض کیا کہ آپ نماز پڑھائیں مگر آپ نے یہی جواب دیا کہ اس مسجد کا امام جماعت کرائے۔ آخر کار حد درجہ اصرار ہوا تو پھر آپ ہی نے نماز پڑھائی۔ حضرت اقدسؑ نے منشی عبداللہ صاحب سنوری کے گھر کو بھی اپنے قدم مبارک سے برکت بخشی۔ اس وقت منشی صاحبؓ کے دادا محمد بخش صاحب بقید حیات تھے۔ انہیں حضرت اقدسؑ سے مصافحہ کاشرف بھی حاصل ہوا۔ بعد ازاں پٹیالہ سے ہوتے ہوئے واپس انبالہ چھاؤنی روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں منشی عبداللہ صاحب سنوریؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ239مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب)
٭سفر سنور اور سفر سرہند 1884ء
مولانا دردصاحب فرماتے ہیں :
’’My uncle, M.Abdulla Sanauri, says that Ahmadas visited Sanaur also in 1884 at his request (he went from Sirhind) and blessed his humble home with his presence. My uncle’s grandfather, Mohammad Bakhsh, was alive at that time and had the honour of shaking hands with him. How sweet of Ahmadas to deepen and consecrate the bond of companionship with his humble servants with such acts of grace and kindness!‘‘
(LIFE OF AHMAD FOUNDER OF THE AHMADIYYA MOVEMEN pg 131 BY A.R.DARD M.A. Ex Imam London Mosque )
’’میرے چچا میاں عبداللہ سنوریؓ صاحب کہتے ہیں کہ احمد علیہ السلام نے 1884ء میں ان کی درخواست پر سنور کا دورہ کیا(وہ سرہندگئے)اور ان کے غربت خانہ کو اپنی موجودگی سے برکت دی۔
میرے چچا کے دادا محمد بخش صاحب اس وقت باحیات تھے اورانہیں حضرت اقدس علیہ السلام سے مصافحہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ احمد علیہ السلام کی کتنی بڑی عنایت ہے کہ انہوں نے اپنے عاجز وفاداروں کے ساتھ اتنی بڑی مہربانی سے دوستی کے پیوند جوڑے اورانہیں متبرک کیا۔‘‘
٭…٭…٭