میاں بیوی میں سچی محبت
حقیقی محبت کا فلسفہ
آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں حقیقی محبت کا بہت خوبصورت فلسفہ بیان کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
بہترین عمل نماز، روزہ ، زکوٰۃ یا جہاد نہیں بلکہ بہترین عمل یہ ہے کہ اگر تم کسی سے محبت کرو تو اللہ کی خاطر محبت کرو اور اگر کسی کو ناپسند کرو تو خدا کی خاطر کرو۔ (سنن ابی داؤد کتاب السنہ) یعنی ایک مومن کے لیے تمام تعلقات کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کی محبت میں ہوکر وہ کسی سے محبت کر سکتا ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایمان کا مزہ ہی چکھ نہیں سکتا جب تک اللہ اور اس کے رسول کی محبت تمام دیگر محبتوں پر غالب نہ ہو اور جب تک تم کسی انسان سے محض خداکی خاطر محبت نہ کرو۔
(صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب حلاوۃ الایمان)
پس جب ایک مومن کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو اس کی محبت خدا کی خاطر ہوتی ہے اور اگر یہ محبت درحقیقت خدا کی خاطر ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی انسان کی محبت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی محبت پر غالب آجائے۔ دوسرے محبت فی اللہ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے انسان سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تعلیمات اور ہدایات کی روشنی میں محبت کرے گا اور ان تعلیمات کے دائرے سے باہر نہیں جائے گا اور اگر وہ باہر نکلتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ اور اس کا رسول اسے سب سے زیادہ محبوب نہیں۔
میاں بیوی کے رشتہ کی بنیاد- مودّت ورحمت
محبت کے بنیادی فلسفہ کو سمجھ لینے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہمارے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں ماں پاب کی بچوں سے محبت ہے اور بچوں کی والدین سے محبت ہے۔ پھر دوستوں، رشتہ داروں، خاندانوں، قبیلوں اور ہم وطنوں کی باہم محبت ہے۔ لیکن ایک محبت میاں بیوی کی آپس میں محبت ہے جو انسانی تعلقات میں ازبس اہمیت کی حامل ہے۔ اس تعلق کی بنیاد ہی محبت اور رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے مرد وعورت کے درمیان کر دی ہے اور اسی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے سکینت حاصل کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے:
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕاِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ (الروم:22)
ترجمہ: اور اس کے نشانات مىں سے (ىہ بھى) ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہارى ہى جنس مىں سے جوڑے بنائے تاکہ تم اُن کى طرف تسکىن (حاصل کرنے) کے لیے جاؤ اور اس نے تمہارے درمىان محبت اور رحمت پىدا کر دى۔ ىقىناً اس مىں اىسى قوم کے لیے جو غوروفکر کرتے ہىں بہت سے نشانات ہىں۔
آنحضرت ﷺ کی اپنی ازواج سے محبت
آنحضرت ﷺ کی ذات ہمارے لیے ہر شعبہ حیات میں اسوۂ حسنہ ہے۔ میاں بیوی کے مابین محبت کیسی ہونی چاہیے اور اس کی کیا حدود ہونی چاہئیں اس کے لیے بھی آنحضرتﷺ کے اسوۂ حسنہ سے ہی ہمیں بہترین رہنمائی مل سکتی ہے۔
آپ اللہ تعالیٰ کے حکم
عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ
کے تحت اپنی ازواجِ مطہرات سے مثالی حسن ِسلوک کرتے تھے اور ان سے غیر معمولی محبت کرتے تھے، لیکن یہ محبت کبھی اللہ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہیں آئی بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہی آپ اپنی ازواج سے اتنی محبت کرتے تھے کہ شاید ہی کوئی کسی سے کرتا ہو۔ آپ ان کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ ان کے جذبات کو بھی ٹھیس نہ پہنچے۔ اسی لیے آپ نے عورتوں کو آبگینے قرار دیا اور فرمایا کہ
ارْفُقْ بِالْقَوَارِيرِ۔
(مسند أحمد، كتاب باقي مسند المكثرين) آبگینوں کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔
کبھی آپ اپنی بیوی حضرت عائشہ ؓسے دوڑ لگاتے تو ان کی دلداری کی خاطر ان سے ہار بھی جاتے۔ (سنن ابو داؤد، كتاب الجہاد) اور کبھی ایک ہی برتن سے نہاتے ہوئے آپس میں مذاق بھی کرتے جاتے اور پانی لینے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے اور ایک دوسرے کو کہتے کہ میرے لیے بھی کچھ پانی چھوڑ دو۔ (سنن نسائی کتاب الطہارۃ، باب الرخصۃ فی ذلک) کبھی بیوی کو تماشا دکھاتے۔(سنن الترمذی کتاب المناقب عن الرسولؐ)کبھی اپنی بیوی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتے۔ (صحیح بخاری کتاب الحیض) کبھی نفل پڑھ رہے ہوتے تو بیوی سامنے لیٹی ہوتی اور سجدہ میں جاتے ہوئے بیوی کی ٹانگیں پیچھے کرتے۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ) اسی طرح دن کے وقت بھی اپنے گھر کے کام کاج کرتے، بیویوں کا ہاتھ بٹاتے اور جب نماز کا وقت ہوجاتا تو کام چھوڑ کرنماز کے لیے نکل جاتے۔(صحیح بخاری کتاب الاذان)کبھی سختی سے پیش نہ آتے بلکہ بعض دفعہ کوئی بیوی غصے سے بول دیتی تو آپ برداشت کرتے تھے۔ بلکہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ اونچی آواز سے بات کررہی تھیں کہ ان کے والد حضرت ابو بکر ؓآگئے۔ یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیااور اپنی بیٹی کی سرزنش کے لیے آگے بڑھے کہ رسول اللہ ؐکے سامنے بولتی ہے تو یہ دیکھتے ہی آنحضرت ﷺ فورًا درمیان میں آگئے اور بیوی کو بچایا۔ جب حضرت ابوبکرؓ چلے گئے تو آنحضرت ﷺ نے مذاق کر کے ماحول کو خوشگوار بنایا کہ دیکھا آج کیسے میں نے تمھیں تمہارے باپ سے بچایا۔ پھر ایک دن حضرت ابو بکرؓ آئے تو آپؐ حضرت عائشہؓ سے ہنسی خوشی باتیں کر رہے تھے۔ حضرت ابو بکر ؓنے فرمایا کہ میں تمہاری لڑائی میں شامل ہوگیا تھااب خوشی میں بھی شامل کر لو۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب باب ماجاء فی المزاح)یہ سب محبت کے انداز تھے۔ ایک انداز یہ بھی تھا کہ بیوی ایک برتن سےجہاں ہونٹ لگا کر پیتی آنحضرت ﷺ بھی اسی جگہ سے منہ لگا کر پیا کرتے تھے۔(سنن ابو داؤد کتاب الطہارۃ) یا ہڈی والی بوٹی میں جہاں سے بیوی کھاتی اسی جگہ منہ لگا کر آپؐ بھی کھاتے۔ (مسلم کتاب الحیض) کبھی پیار سے بیوی کو اصل نام کی بجائے کسی اور اچھے سے نام سے پکارتے۔ جیسے حضرت عائشہؓ کو ’’حمیرہ‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ کےبارہ میں فرمایاکہ مجھے اس کی محبت عطا کی گئی ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب فضائل الصحابہ) ایک دفعہ حضرت صفیہ ؓرو پڑیں تو آپؐ نے اپنے ہاتھ سے ان کے آنسو صاف کیے اور ان کی دلداری فرمائی۔
ازواجِ مطہرات کا سلوک
ادھر ازواج مطہرات بھی آنحضرت ﷺ سے بے پناہ محبت کرتی تھیں۔ آپ کی پسند ناپسند کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ آپ کو خوشبو لگاتیں۔ (بخاری، کتاب الحج، باب الطیب للمحرم) آپ کے سر کو کنگھی کرتیں۔ (بخاری کتاب الحیض)کبھی سر کو دھو بھی دیتیں۔ (بخاری کتاب الحیض ) آپ کے کھانے اور آرام کا خیال رکھتیں۔ آپ کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتیں۔ گھر میں کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا تھا لیکن صبر کے ساتھ ہرتنگی اور تکلیف میں گزارہ کرتی تھیں۔ کبھی شکوہ نہیں کرتی تھیں۔ (سنن الترمذي، كتاب الزهد عن رسول الله۔صحيح مسلم، كتاب الزهد والرقائق) بعد میں ایک دفعہ جب حضرت عائشہؓ کے سامنے گندم کی نرم روٹی لائی گئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئےکہ ایسی روٹی کبھی آنحضرت ﷺ نے نہیں کھائی۔ اس سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی ازواج مطہرات آپ سے کس قدر محبت کرتی تھیں وہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان ازواج مطہرات نے کیسے آپؐ کے ساتھ تنگی میں گزارہ کیا اور دنیا کی مال ودولت کی خواہش نہیں کی۔ یہی وجہ تھی کہ جب اللہ کے حکم سے نبی کریم ﷺ نے اپنی ازواج کو فرمایا کہ
اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَ اُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا۔ وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡکُنَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا(الاحزاب:29-30)
’’اگر تم دنىا کى زندگى اور اس کى زىنت چاہتى ہو تو آؤ مىں تمہىں مالى فائدہ پہنچاؤں اور عمدگى کے ساتھ تمہىں رخصت کروں اور اگر تم اللہ کو چاہتى ہو اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو تو ىقىناً اللہ نے تم مىں سے حُسنِ عمل کرنے والىوں کے لئے بہت بڑا اجر تىار کىا ہے۔‘‘ اس پر ازواج مطہرات نے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کیا اور دنیا اور اس کی زیب وزینت کو ٹھکرا دیا۔
یقیناً آنحضرت ﷺکی اپنی ازواج کے لیے اور ازواج کی آنحضرت ﷺ کے لیے محبت مثالی محبت تھی جس سے ہم بہترین نمونہ حاصل کرسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں ایک جامع دعا سکھائی ہے جو ہر میاں بیوی کو کرتے رہنا چاہیے تاکہ اس محبت کو قائم رکھنے کے لیے جہاں ہم عملی کوشش کریں وہاں اللہ تعالیٰ سے مدد بھی مانگتے رہیں کہ وہ ہمیں ایک دوسرے کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔وہ دعا یہ ہے:
رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا (الفرقان:75)
اے ہمارے ربّ! ہمىں اپنے جىون ساتھىوں اور اپنى اولاد سے آنکھوں کى ٹھنڈک عطا کر اور ہمىں متقىوں کا امام بنا دے۔(آمین)
٭…٭…٭