خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍جولائی2020ء
اس سلسلہ کے قیام کی اصل غرض یہی ہے کہ لوگ دنیا کے گند سے نکلیں اور اصل طہارت حاصل کریں اور فرشتوں کی سی زندگی بسر کریں
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ پہلا اجماع تھا جو دنیا میں ہوا اور اس میںحضرت مسیح کی وفات کا بھی کلّی فیصلہ ہو چکا تھا‘‘
’’میرے آنےکے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت پر قائم ہوجائیں اور دوسرا مقصد یہ کہ عیسائیوں کے لیے کسرِ صلیب ہو اور اُن کا مصنوعی خدا نظر نہ آوے۔‘‘
(حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
احمدی توخاتم ا لنبیّین کے مقام کا سب سے زیادہ ادراک رکھتے ہیں اور یہ ادراک ہمیں حضرت مسیح موعودؑنے ہی دیا ہے
مَیں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں اور میری جماعت مسلمان ہے۔ مَیں ایک ذرّہ بھی اسلام سے باہر قدم رکھنا ہلاکت کا موجب یقین کرتا ہوں اور میرا یہی مذہب ہے کہ جس قدر فیوض اور برکات اور تقرب الیٰ اللہ کوئی شخص پاسکتا ہے وہ صرف آنحضرتﷺ کی سچی اطاعت اور کامل محبت سے پاسکتا ہے ورنہ نہیں
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں حضورؑ کی بعثت کے مقاصد کا بیان
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍جولائی2020ء بمطابق 31؍ وفا 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج صبح ہم نے عید بھی پڑھی ہے اور آج جمعہ بھی ہے۔ جب عید اور جمعہ ایک دن جمع ہو جائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ملتا ہے کہ جو لوگ چاہیں جمعے کے بجائے ظہر کی نماز ادا کر لیں۔ اس کی اجازت ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی ہے ایک ایسے ہی موقعے پر آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم تو جمعہ پڑھیں گے۔ اور آپؐ نے جمعہ پڑھا تھا۔
(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوات باب ما جاء فیما اذا اجتمع العیدان فی یوم حدیث 1310، 1311، 1312)
اِس لیے مَیں نے امیر صاحب کو اس کی روشنی میں یہی کہا تھا کہ جو ظہر کی نماز پڑھنا چاہیں بےشک ظہر کی نماز باجماعت پڑھ لیں اور جمعہ نہ پڑھیں۔ ویسے بھی آج کل کے حالات میں مسجد میں زیادہ لوگ جمع تو ہو نہیں سکتے ۔گھروں میں ہیں اور گھروں میں ا گر فارغ ہیں تو پھر جمعہ جس طرح پہلے پڑھتے تھے اسی طرح اب بھی پڑھ سکتے ہیں پڑھ لیں اور جن کی مصروفیت ہے وہ ظہر کی نماز بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن ہم یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی پیروی میں آج جمعہ پڑھ رہے ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں بھی اسی طرح ایک دفعہ عید الاضحی آئی اور جمعہ بھی۔ تو مختلف لوگوں نے اپنی دلیلیں پیش کیں کہ ظہر کی نمازپڑھنی چاہیے جمعہ نہیں ہونا چاہیے۔ تو جو لوگ ظہر کی نماز پڑھنے پر زور دے رہے تھے ان کو آپؓ نے اس کا بڑا اچھا جواب دیا۔ فرماتے ہیں کہ ہمارا رب کیسا سخی ہے کہ اس نے ہمیں دو دو عیدیں دی ہیں۔ اب جس کو دو دو چپڑی ہوئی چپاتیاں ملیں، گھی لگی ہوئی دو دو روٹیاں ملیں وہ ایک کو کیوں ردّ کرے گا۔ وہ تو دونوں لے لے گا۔ سوائے اس کے کہ اسے کوئی خاص مجبوری پیش آ جائے۔ اور اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے کہ اگر کوئی مجبور ہو کر ظہر کی نماز پڑھ لے جمعہ نہ پڑھے تو دوسرے کو نہیں چاہیے کہ اس پر طعن کرے اور بعض لوگ ایسے ہیں جنہیں دونوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق ہو (یعنی نماز عید بھی اور نماز جمعہ بھی) تو دوسرے کو نہیں چاہیے کہ ان پر اعتراض کرے اور کہے کہ انہوں نے رخصت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ تو بہرحال رخصت تو ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ہم تو جمعہ پڑھیں گے۔
(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 2 صفحہ 208تا 210 خطبہ عید الاضحی بیان فرمودہ 11 فروری 1938ء)
بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم آج جمعہ پڑھ رہے ہیں لیکن خطبہ مختصر دوں گا۔ اس کے لیے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام کے کچھ اقتباسات لیے ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام نے اپنی بعثت کے مقصد کو بیان فرمایا ہے۔ اپنی جماعت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین ماننے اور حقیقت میں زندہ نبی ہونے کے بارے میں بھی بڑا پُرمعارف ارشاد فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور مرتبہ کو بھی بیان فرمایا ہے۔ ہمارے مخالفین ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام کو مان کر نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو کم کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہمارے مخالفین اسمبلیوں میں یہ قراردادیں پاس کروا کر بڑا فخر کر رہے ہیں کہ دیکھو ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے ساتھ، نام کے ساتھ خاتم النبیین کے لفظ کو لکھنا لازمی قرار دے کر آپؐ سے محبت کا اور آپؐ کے مقام کا کیسازبردست اظہار کیا ہے۔ اگر ان کے دل بھی حقیقت میں ان کی اس بات کی گواہی دے کر انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے والا بنا رہے ہیں تو یقینا ًبڑی اچھی بات ہے لیکن ان کے عمل نے تو انہیں اس سے کوسوں دُور کر دیا ہے جو تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں واپس جاکر اس تعلیم اور اس اسوے کو اپنائیں جو آپؐ نے دی اور جس پر عمل کیا تو مسلمان مسلمانوں کی گردن کاٹنے والا نہ ہو۔ پھر یہ لوگ زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادقؑ کی بیعت میں دوڑتے ہوئے آئیں۔
یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خاتم النبیین کے لفظ کو لکھنا لازمی قرار دے کر عظیم کارنامہ انجام دے دیا ہے اور احمدیوں کے راستے میں کوئی روک کھڑی کر دی ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ نہیں پتہ کہ احمدی تو سب سے زیادہ خاتم النبیینؐ کے مقام کا ادراک رکھتے ہیں اور یہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام کے الفاظ میں وہ طاقت ہے جس کے قریب بھی یہ لوگ نہیں پھٹک سکتے۔ آپؑ کے ہر ہر لمحہ اور عمل میں حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عشق و محبت کا اظہار ہے کہ ان لوگوں کی سوچیں بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بےشمار ارشادات ہیں، تحریرات ہیں، فرمودات ہیں۔ اس وقت میں دو تین نمونے کے طور پر پیش کروں گا۔ اپنی بعثت کے مقصد اور سلسلے کی ترقی کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے آپؑ مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت پر قائم ہو جائیں۔ وہ ایسے سچے مسلمان ہوں جو مسلمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے۔ کامل فرمانبرداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنا اور آپؑ نے فرمایا دوسرا مقصد کیا ہے؟ عیسائیوں کے لئے کسر صلیب ہو اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آوے۔ دنیا اس کو بالکل بھول جاوے اور خدائے واحد کی عبادت ہو۔فرمایا کہ میرے ان مقاصد کو دیکھ کر یہ لوگ میری مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جوکام نفاقِ طبعی اور دنیا کی گندی زندگی کے ساتھ ہوں گے وہ خود ہی اس زہر سے ہلاک ہو جائیں گے۔ اگر میرے دل میں کوئی منافقت ہے، گند ہے تو پھر ایسے کاموں میں برکت نہیں پڑتی بلکہ ان کے نتیجے فوراً ظاہر ہو جاتے ہیں۔ وہ تو (پھر) ہلاک ہو جائیں گے، ختم ہو جائیں گے۔ فرمایا کہ کیا کاذب کبھی کامیاب ہو سکتا ہے؟
اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ (المؤمنون:29)
کہ یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھا ہوا اور کذاب ہو، سخت جھوٹا ہو۔
اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ ۔
فرمایا کہ کذاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کذب ہی کافی ہے۔ جھوٹا بندہ ہے تو اس کا جھوٹ اس کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہے لیکن جوکام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسولؐ کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لیے ہوں اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو۔ اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں۔ بندوں کے کام نہیں ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کام کو شروع کیا ہے تو اس کے فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ کون ہے جو اس کو تلف کر سکے؟ چیلنج ہے یہ۔ جتنی مخالفت ہوتی ہےاتنی جماعت احمدیہ کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی ہوتی ہے۔ فرمایا کہ یاد رکھو میرا سلسلہ اگر نری دوکانداری ہے تو اس کا نام ونشان مٹ جائے گا لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقیناً اس کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔ فرماتے ہیں اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مدد نہ دے۔ تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہوگا۔
فرمایا کہ مخالفت کی میں پروا نہیں کرتا، وہ تو ہوتی ہے۔ میں اس کو بھی اپنے سلسلہ کی ترقی کے لیے لازمی سمجھتا ہوں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مامور اور خلیفہ دنیا میں آیا ہو اور لوگوں نے چپ چاپ اسے قبول کر لیا ہو۔ دنیا کی تو عجیب حالت ہے۔ انسان کیسا ہی صدیق فطرت رکھتا ہو مگر دوسرے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے وہ تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے سلسلہ کی ترقی فوق العادت ہو رہی ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ دو سو سے زائد ممالک میں مخلصین موجود ہیں، آپؑ کی بیعت میں آنے والے موجود ہیں۔ جب آپؑ نے بیان فرمایا اس وقت سینکڑوں میں ہوتے تھے اور آج تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سال کے سال لاکھوں میں بیعتیں ہوتی ہیں۔ فرمایا کہ اس سلسلہ کے قیام کی اصل غرض یہی ہے کہ لوگ دنیا کے گند سے نکلیں اور اصل طہارت حاصل کریں اور فرشتوں کی سی زندگی بسر کریں۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 8 صفحہ 148تا149)
پس آپ علیہ السلام کے اس ارشاد کے مطابق ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی حالتوں کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالیں اور یہی دشمن کا منہ بند کرنے کا اور دشمن پر فتح یاب ہونے کا اصل طریق ہے۔
پھر اپنے اور اپنی جماعت کے کامل ایمان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اطاعت کا اعلان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
مَیں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ میں اور میری جماعت مسلمان ہے اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر اسی طرح ایمان لاتی ہے جس طرح پر ایک سچے مسلمان کو لانا چاہئے۔ میں ایک ذرّہ بھی اسلام سے باہر قدم رکھنا ہلاکت کا موجب یقین کرتا ہوں اور میرا یہی مذہب ہے کہ جس قدر فیوض اور برکات کوئی شخص حاصل کر سکتا ہے اور جس قدر تقرب الی اللہ پاسکتا ہے وہ صرف اورصرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اطاعت اور کامل محبت سے پاسکتا ہے ورنہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اب کوئی راہ نیکی کی نہیں۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ میں ہرگز یقین نہیں کرتا کہ مسیح علیہ السلام اسی جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر گئے ہوں اور اب تک زندہ قائم ہوں۔ اس لیے کہ اس مسئلہ کو مان کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت توہین اور بے حرمتی ہوتی ہے۔ مَیں ایک لحظہ کے لیے اس ہجو کو گوارا نہیں کر سکتا۔ سب کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی اور مدینہ طیبہ میں آپؐ کا روضہ موجود ہے۔ ہر سال وہاں ہزاروں لاکھوں حاجی بھی جاتے ہیں۔ اب اگر مسیح کی نسبت موت کا یقین کرنا یا موت کو ان کی طرف منسوب کرنا بے ادبی ہے تو پھر مَیں کہتا ہوں کہ آنحضرتؐ کی نسبت یہ گستاخی اور بے ادبی کیوں یقین کر لی جاتی ہے؟ آپؐ کے بارے میں کیوں کہا جاتا ہے کہ آپؐ فوت ہوئے اور مدفون ہیں۔ فرمایا: مگر تم بڑی خوشی سے کہہ دیتے ہو کہ آپؐ نے وفات پائی۔ مولود خواں بڑی خوش الحانی سے واقعاتِ وفات کا ذکر کرتے ہیں اور کفار کے مقابلہ میں بھی تم بڑی کشادہ پیشانی سے تسلیم کر لیتے ہو کہ آپؐ نے وفات پائی۔ فرمایا: پھر مَیں نہیں سمجھتا کہ حضرت عیسیٰ کی وفات پر کیا پتھر پڑتا ہے کہ نیلی پیلی آنکھیں کر لیتے ہو۔ (اب بھی یہی بعض لوگ بعض فرقے، بعض علماء شور مچاتے رہتے ہیں کہ یہ دیکھو جی انہوں نے کیا کر لیا۔ کچھ توعیسیٰ علیہ السلام کے انکاری ہو گئے کہ آنا ہی نہیں اور کچھ کہتے ہیں آئے گا لیکن یہ نہیں، ابھی جو زندہ موجود ہیں۔)
بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہمیں بھی رنج نہ ہوتا کہ اگر تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی وفات کا لفظ سن کر ایسے آنسو بہاتے مگر افسوس تو یہ ہے کہ خاتم النبیین اور سرور دو عالم کی نسبت تو تم بڑی خوشی سے موت تسلیم کر لو اور اس شخص کی نسبت جو اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتی کا تسمہ کھولنے کے بھی قابل نہیں بتاتا زندہ یقین کرتے ہو اور اس کی نسبت موت کا لفظ منہ سے نکالا اور تمہیں غضب آجاتا ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اب تک زندہ رہتے تو ہرج نہ تھا اس لیے کہ آپ وہ عظیم الشان ہدایت لے کر آئے تھے جس کی نظیر دنیا میں پائی نہیں جاتی اور آپؐ نے وہ عملی حالتیں دکھائیں کہ آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی اس کا نمونہ اور نظیر پیش نہیں کر سکتا۔ فرمایا: میں تم کو سچ سچ کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے وجود کی جس قدر ضرورت دنیا اور مسلمانوں کو تھی اس قدر ضرورت مسیح کے وجود کی نہیں تھی۔ پھر آپؐ کا وجود باجود وہ مبارک وجود ہے کہ جب آپؐ نے وفات پائی تو صحابہ کی یہ حالت تھی کہ وہ دیوانے ہو گئےیہانتک کہ حضرت عمرؓ نے تلوا رمیان سے نکال لی اور کہا کہ اگر کوئی آنحضرت ﷺکو مردہ کہے گا تو میں اس کا سر جدا کر دوں گا۔ اس جوش کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر کو ایک خاص نور اور فراست عطا کی۔ انہوں نے سب کو اکٹھا کیا اور خطبہ پڑھا۔ (اور وہاں یہ آیت بھی پڑھی کہ)
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران 145)
یعنی آنحضرتﷺ ایک رسول ہیں اور آپؐ سے پیشتر جس قدر رسول آئے وہ سب وفات پا چکے ہیں۔ فرمایا کہ اب آپ غور کریں اور سوچ کر بتائیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آنحضرت ﷺکی وفات پر یہ آیت کیوں پڑھی تھی اور اس سے آپ کا کیا مقصد اور منشا تھا؟ اور پھر ایسی حالت میں کہ کُل صحابہ موجود تھے۔ میں یقینا ًکہتا ہوں اور آپ انکار نہیں کر سکتے کہ آنحضرت ﷺکی وفات کی وجہ سے صحابہ کے دل پر سخت صدمہ تھا او ر اس کو بے وقت اور قبل از وقت سمجھتے تھے۔ وہ پسند نہیں کر سکے کہ آنحضرت ﷺکی وفات کی خبر سنیں۔ ایسی حالت اور صورت میں کہ حضرت عمرؓ جیسا جلیل القدر صحابی اس جوش کی حالت میں ہو ان کا غصہ فرو نہیں ہو سکتا تھا بجز اس کے کہ یہ آیت ان کی تسلی کا موجب ہوتی۔ اگر انہیں یہ معلوم ہوتا یا یہ یقین ہوتا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں تو وہ تو زندہ ہی مر جاتے۔ وہ تو آنحضرتؐ کے عشاق تھے اور آپؐ کی حیات کے سوا کسی اَور کی حیات کو گوارا ہی نہ کر سکتے تھے پھر کیونکر اپنی آنکھوں کے سامنے آپؐ کو وفات یافتہ دیکھتے اور مسیح کو زندہ یقین کرتے یعنی جب حضرت ابو بکرؓ نے خطبہ پڑھا تو ان کا جوش فرو ہو گیا۔ اُس وقت صحابہ مدینہ کی گلیوں میں آیت پڑھتے پھرتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ گویا یہ آیت آج ہی اتری ہے۔ اُس وقت حسان بن ثابتؓ نے ایک مرثیہ لکھا جس میں انہوں نے کہا۔
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِی عَلَیْکَ النَّاظِرٗ
مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ
چونکہ مذکورہ بالا آیت نے بتادیا تھا کہ سب مر گئے۔ اس لیے حسانؓ نے بھی کہہ دیا کہ اب کسی کی موت کی پروا نہیں۔ یقینا ًسمجھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی کی زندگی صحابہ پر سخت شاق تھی اور وہ اس کو گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ اس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ پہلا اجماع تھا جو دنیا میں ہوا اور اس میںحضرت مسیح کی وفات کا بھی کلّی فیصلہ ہو چکا تھا۔
(ماخوذ از لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 260 تا 262) (ملفوظات جلد 8 صفحہ 224-227)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام فرماتے ہیں:
’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا۔‘‘ کوئی پہلو باہر نہیں رہا۔ علمی بھی اور عملی بھی اور سچائی کے معیاروں کا بھی اور ثابت قدمی کا بھی اور علم اور عرفان کا بھی وہ نمونہ تھا تو انسان کامل کہلایا۔ پھر فرمایا کہ ’’…… وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا۔‘‘ یعنی کہ روحانی زندگی ان کو مل گئی۔ حضرت خاتم الانبیاء وہ مبارک نبی کہ ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا۔ ’’وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتدائےدنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملاکی اور یحییٰ اور ذکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقرب اور وجیہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اس نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن وَ اٰخِرُدَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔‘‘
(اتمام الحجۃ ، روحانی خزائن جلد 8صفحہ308)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کا حقیقی ادراک عطا کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پہلے سے بڑھ کر ہم جھکنے والے ہوں۔ اور یہی طریق ہے، ہم اپنے عمل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ثابت کریں گے اور اپنے دلوں میں اسے بٹھائیں گے تو ہم مخالفین کی مخالفت کا جواب دے سکیں گے یعنی ہماری عملی حالتیں ان مخالفین کی مخالفت کا جواب دیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
(الفضل انٹرنیشنل 21؍اگست 2020ءصفحہ05تا07)