یادِ رفتگاں

ماسٹر چودھری محمد اسماعیل صاحب اثر پوری

(پروفیسر مبارک احمد طاہرؔ۔ لندن)

آبائی سکونت

میرے دادا جان کا نام چودھری اللہ بخش صاحب (جاگیردار) تھا۔ آپ بمقام اثر پور تحصیل روپڑ ضلع انبالہ کے رہنے والے تھے۔ آپ اپنے والد مسمی سیہاں (بمعنی شیر) کے اکلوتے بیٹے تھے۔

خاندان میں احمدیت کا نفوذ

ہمارے خاندان میں احمدیت کا نفوذ میرے دادا جان چودھری اللہ بخش صاحب کے ذریعہ ہی ہوا۔ اگرچہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ پایا لیکن بیعت کی توفیق حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ (سبز پگڑی والے) صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہوئی۔ حضرت مولوی صاحبؓ بغرض تبلیغ ہمارے گاؤں بھی آیا کرتے تھے۔ خاکسار کے دادا جان کی بیعت بھی ان بابرکت دورہ جات کا ہی مقدس نتیجہ تھا۔

محترم والد صاحب کی پیدائش

حالات کچھ اس طرح وقوع پذیر ہوئے کہ محترم دادا جان کو دو شادیاں کرنا پڑیں۔ پہلی شادی سے تین بیٹے۔ ۱۔مکرم مولوی رحمت اللہ صاحب۔ ۲۔ مکرم چودھری قدرت اللہ صاحب۔ ۳۔ مکرم محمد اسماعیل صاحب۔ مکرم محمد اسماعیل صاحب تین سال کی عمر کے تھے کہ گاؤں کے ایک پاگل دیو ہیکل جوان نے اُن کو ہمارے ہی گھر کی دہلیز پر سر کے بل پٹخ پٹخ کر مار دیا۔ اس المناک حادثے کے دو منفی اثرت ہوئے۔ میری دادی جان کچھ عرصہ بعد غم سے نڈھال ہو کر وفات پاگئیں اور اُن دونوں کے غم میں میرے دادا جان کی بینائی ضائع ہو گئی۔ گھر کی گاڑی چلانے کے لیے دادا جان کو دوسری شادی کرنا پڑی۔ دوسری شادی سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔ دادا جان نے اس بیٹے کا نام مرحوم بیٹے کے نام پر ہی رکھا۔ اور یہی میرے والدِ گرامی چودھری محمد اسماعیل صاحب ہیں۔ آپ 1920ء میں پیدا ہوئے۔ ابا جان بچپن سے ہی مطیع و فرمانبردار، دوسروں کا احساس کرنے والے اور صلہ رحمی اُن کا خاص وصف تھا۔ رشتوں کو نبھانا خوب جانتے تھے ابھی کم سن ہی تھے کہ آپ کی والدہ صاحبہ انتقال کر گئیں۔ اُس وقت ہماری اکلوتی پھوپھی جان محترمہ فاطمہ صاحبہ تین سال کی عمر کی تھیں۔ ابا جان بتایا کرتے تھے کہ جب دادی جان کو لحد میں اُتارنے لگے تو میں اپنی بہن کو قبرستان سے دور لے گیا تا کہ وہ یہ منظر دیکھ نہ سکے اور پھر روز یہاں آنے کی ضد نہ کرےنیز یہ نظارہ آئندہ آنے والی زندگی میں کسی بھاری صدمے کا موجب نہ بن جائے۔

محترمہ دادی جان کی وفات کے بعد ابا جان کے دونوں بھائیوں کی ایک ہی گھر کی دو بہنوں سے شادیاں ہوئیں۔ میری پھوپھی جی اور ابا جان کا آپس میں بہت ہی پیار کا سلوک تھا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ہماری پھوپھی ابھی چھوٹی ہی تھیں کہ بیمار ہو گئیں۔ والد صاحب جو خود بھی چھوٹی عمر میں تھےقریبی گاؤں میں پھوپھی جان کو ایک حکیم صاحب کےپاس لے گئے اور دوائی لے کر دی۔

گاؤں میں ہمارا اکیلا احمدی گھرانہ تھا۔ اور کچھ بھابیوں کے آنے سے ماحول بدل چکا تھا۔ لہٰذا پرائمری پاس کرنے کے بعد والد صاحب نے مزید تعلیم کی خاطر قادیان جانے کا فیصلہ کر لیا اور اپنی اکلوتی بہن کو بھی ساتھ ہی قادیان لے گئے۔ پھوپھی جان کو حضرت چھوٹی آپا حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے گھرکے بابرکت سایہ میں رہائش مل گئی اور ابا جان حضرت ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحبؓ کے گھر کا حصہ بن گئے۔ ان کے بیٹے مکرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب (سرگودہا والے) اباجان کے ہم عمر تھے۔ دونوں میں ماشاءاللہ بہت اچھی مناسبت ثابت ہوئی۔ ابا جان نے کلاس ششم سے لے کر مولوی فاضل پاس ہونے تک اسی گھر میں رہائش رکھی۔

آپ نے 1940ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان سے مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کی۔ یہ وہ سال تھا جب حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثالثؒ)پرنسپل مقرر ہوئے اور حضرت سید مولوی سرور شاہ صاحبؓ رخصت ہو رہے تھے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑا سا عرصہ تدریس کا کام کیا پھر انگریز فوج کے شعبہ EME میں بھرتی ہو گئے۔ یہ جنگ عظیم دوم کا زمانہ تھا۔ برما کے محاذ پر جانا پڑا۔ وہاں قیام کے دوران کا ایک ایمان افروزواقعہ یوں بیان کیا کرتے تھے کہ اُس دوران عید کی تقریب آ گئی۔ میں نے بطور احمدی مسلمان باقی مسلمانوں سے الگ اکیلے نماز عید ادا کی درختوں اور پہاڑوں کو مخاطب کر کے خطبہ دیا۔ گویا ملازمت فوج کے دوران بھی دوسرے مسلمانوں کی نسبت منفرد شخصیت کے حامل رہے۔ چنانچہ ایک بار افسر مجاز نے پوچھ بھی لیا کہ دوسرے مسلمان تو ایسا نہیں کرتے ہیں۔ مثلاً داڑھی رکھنا، باقاعدہ نماز پڑھنا، قرآن پاک کی تلاوت کرنا وغیرہ۔ والد صاحب نے جواب دیا اُن کی اپنی مرضی ہے۔ اگر وہ عمل نہیں کرتے تو اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے سگریٹ کا کوٹا ملتا تھا۔ ابا جان نے کبھی سگریٹ نوشی نہیں کی بلکہ اپنے حصے کا کوٹا دیگر رفقائے کار میں بانٹ دیتے تھے۔

اس محاذ کے دوران سب کو ایک نہر میں نہانہ پڑتا تھا۔ ابا جان سب سے الگ ہو کر نہاتے آپ سے کہا گیا کہ اکیلے نہ نہایا کریں کہیں ڈوب جاؤ گے۔ آپ کا جواب تھا کہ مجھے سب کے سامنے نہاتے ہوئے شرم ا ٓتی ہے۔

والد صاحب کی شادی

محترم والد صاحب کا جب رشتہ طے ہوا اُس میں بھی تقویٰ اور اطاعت کے کئی پہلو ہیں۔ میرے نانا جان کا نام چودھری عطاء محمد صاحب تھا جو پیشہ کے لحاظ سے پٹواری تھے۔ آپ علی پور ضلع لدھیانہ میں مقیم تھے۔ میرے ننھیال کی طرف سے رشتہ کی بات چلائی گئی۔ ابا جان کی دونوں بھابیوں نے دادا جان کو تجویز دی کہ اجازت دیں ہم لڑکی کو دیکھ آئیں۔ دادا جان جواب دیتے ہیں کہ تم چودھری عطاء محمد صاحب پٹواری کے گھر لڑکی دیکھنے جاؤ گے تمہیں شرم نہیں محسوس ہو گی۔ گویا کہ احمدی ہونا، توکل اور تقویٰ شعاری کی گارنٹی ہے۔ نیز مذکورہ خاندان کا ظاہر و باطن ایک ہے۔ چنانچہ بزرگوں نے رشتہ طے کر لیا۔ کسی نے لڑکی دیکھی تک نہیں۔ یہ واقعہ ابا جان کی اطاعت شعاری کا بہترین نمونہ ہے۔ ظاہراً تعلیم کا فرق تو تھا ہی ابا جان مولوی فاضل اور والدہ صاحبہ کچھ بھی نہ پڑھی تھیں صرف قرآن مجید پڑھنا آتا تھا۔ میرے لیے یہ دونوں بزرگ قابلِ صد احترام ہیں۔

لیکن میں یہاں ایک نکتہ پیش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ میرے والدین میں بظاہر کوئی کفو نہ تھا۔ ابا جان تعلیم یافتہ۔ رنگ گورا۔ قد مناسب۔ آمد معقول۔ والدہ صاحبہ کمیٔ تعلیم۔ قد چھوٹا۔ شکل و صورت عام سی لیکن دونوں توکل علی اللہ کرنے والوں نے عائلی زندگی بہترین نبھائی۔ ہم نے والدصاحب کو کبھی ڈانٹ ڈپٹ کرتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ مکمل نرمی اور برداشت کا سلوک دیکھا۔ گھریلو کام میں والدہ صاحبہ کا ہاتھ بھی بٹاتے۔ گھر کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے۔ اس کے لیے خواہ معمول سے زیادہ محنت کرنی پڑے۔ والدہ صاحبہ بھی فرشتہ سیرت۔ نماز، روزہ کی پابند۔ دعا گو۔ صبر شکر اور توکل علی اللہ کا بہترین نمونہ۔ دنیاوی حرص و طمع سے بےنیاز۔ مکمل درویش صفت انسان۔ اللہ تعالیٰ نے بہترین اولاد سے نوازا۔ جن میں تین بیٹے اور ایک بیٹی۔ اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ۔ سب ماں باپ کے فرمانبردار۔ خاکسار نے ایک بار پیار کے انداز میں اُمی جان سے پوچھ ہی لیاکہ آپ دونوں کا جوڑا بظاہر برابری کا نظر نہیں آ رہا پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو گھر کی تمام نعمتوں سے نوازا ہے خصوصاً اولاد کی تربیت بڑی شاندار کی ہے۔ اس پر والدہ محترمہ نے بتایا کہ شادی سے پہلے ماں باپ کے گھر میں مجھے اپنی دادای جان کی خدمت کا بہت موقع ملا تھا۔ وہ نابینا تھیں اور میں اُن کی سب سے زیادہ خدمت کرتی تھی۔ اور دادی جان مجھے ہمیشہ یہی دعا دیتی تھیں کہ بیٹی اللہ تمہیں گھر کے بھاگ (برکتیں ) لگائے، یہ دادی جان کی دعاؤں کی برکت کا نتیجہ ہے۔ ورنہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ والدہ صاحبہ کا اپنی دونوں جٹھانیوں سے بھی برداشت کا سلوک تھا۔ وہ دونوں نسبتاً تیز طبیعت والیاں تھیں۔ اُمی جان نے بتایا کہ اگر کوئی تلخی پیدا کر بھی لے تو میرا ایک ہی ردِّ عمل ہوتا تھا کہ خاموشی۔ سو باتوں کا یہی ایک مؤثر جواب ہے۔ ہمارے بزرگ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہائش پذیر رہے ہیں۔ چنانچہ اباجان اپنے بچوں کے علاوہ دونوں بھائیوں اور اُن کے بچوں ، بہن اور برادرِ نسبتی سب کا برابرکا خیال رکھتے تھے۔

1947ء: ہجرت کے دلگداز واقعات

اعلان آزادی ہندو پاکستان کے بعد میرے ددھیال اور ننھیال دونوں نے فیصلہ کیا کہ پاکستان ہجرت کرنے کے لیے اپنے اپنے گاؤں سے نکل کر مشترکہ قریبی مقام سرہندشریف مزار والے کیمپ میں جمع ہو کر آگے چلیں گے۔ چنانچہ ہمارے دونوں خاندان وہاں اکٹھے ہو گئے۔ میرے نانا جان اور دادا جان دونوں بزرگ تھے۔ اُن دونوں اور خاکسار کی بڑی بہن طاہرہ بعمر تین سال تینوں کو قیام کیمپ کے دوران پیچش لگ گئی۔ بعد میں اس کی وجہ معلوم ہوئی کہ وہاں جو آٹا فراہم کیا گیا تھا اُس میں پسے ہوئے شیشے کی آمیزش تھی جسے کمزور لوگ برداشت نہ کر سکے۔ اسی دوران سکھوں نے کیمپ کا اچانک محاصرہ کر لیا۔ چنانچہ سب کو جانیں بچا کر بھاگنا پڑا۔ سواری میسر نہ تھی سب پیدل تھے۔ نانا جان۔ دادا جان اور بہن طاہرہ کمزوریٔ پیچش کے باعث چل بھی نہ سکے اور وہیں شہید کر دیے گئے۔ گویا پاکستانی قوم کے قلعہ آزادی کی عمارت میں میرے گھر کی تین خون آلود اینٹیں بھی شامل ہیں۔

اس قافلے کی خالی ہاتھ جان بچا کر بھاگنے کی ترتیب کچھ یوں تھی۔ آگے آگے گائیڈ مرد، پھر مستورات اور بچے، پھر خالی ہاتھ مرد اور سب سے آخر میں چوتھا گروپ نوجوانوں کا ڈنڈے سونٹے اور معمولی ہتھیار والے۔ سفر کی تمام مشکلات عبور کرتے ہوئے بالآخر یہ قافلہ قصور پاکستان پہنچ گیا۔ بعد میں انٹر نیٹ سے معلوم ہوا ہے کہ موضع علی پور سے قصور تک میری والدہ صاحبہ نے 270کلو میٹر کا سفر پیدل طے کیا تھا۔ خاکسارکی پیدائش مورخہ23؍مارچ 1948ء کی ہے۔ اُمی جان بتایا کرتی تھیں کہ جب میں ہجرت کر کے قصور کیمپ پہنچی تو میرے دونوں پاؤں میں ورم نمایاں تھی۔ اُدھر قادیان سے ہجرت کر کے میرے والد صاحب بھی پہلے قصور کیمپ ہی پہنچے اور اپنی فیملی کو تلاش کر لیا۔ میرے تایا جان نے ننکانہ صاحب کے قریب ایک گاؤں میں رہائش تلاش کر لی۔ بعد میں اباجان، میری والدہ صاحبہ کو سائیکل پر بٹھا کر قصور سے مذکورہ گاؤں لے آئے۔ بعد میں اسی جگہ ہمارے خاندان کو کلیم میں زرعی زمین الاٹ ہوئی۔

پاکستان میں آمد

چنانچہ میرے والدین 1947ء میں بعد از ہجرت ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ کے قریب ایک گاؤں چک نمبر 579 چوہڑ شاہ واقع مانگٹاں والا روڈ میں آباد ہو گئے۔ زرعی زمین الاٹ ہونے کا سلسلہ لمبا تھا۔ کام کاج کوئی نہیں تھا۔ اُس دَور میں بھی ابا جان نے بہت محنت کی۔ لاہور جا کر نیا سائیکل خریدا۔ اُس پر دو کنستر رکھنے والا فریم بنوایا۔ ہفتہ میں پانچ دن مختلف گاؤں میں چکر لگا کر دیسی گھی اکٹھا کرتے اور دو دن لاہور اکبری منڈی جا کر فروخت کرتے۔ اس طرح ہمارے خاندان کا نئے ملک پاکستان میں گزر اوقات کا آغاز ہوا۔

اس گاؤں میں ہمارا گھر اکیلا احمدی تھالیکن زمانہ اچھا تھا۔ ہمارے والد گرامئی قدر کا شوقِ تبلیغ ملاحظہ فرمائیں۔

والد صاحب کا شوق تبلیغ

خاکسار کی پیدائش اِسی گاؤں کی ہے۔ تین سال کی عمر میں قاعدہ یسرنا القرآن سے بھی پہلے مجھے سورۃ الفاتحہ، سورۃ البقرہ کا پہلا رکوع اور چاروں قُل زبانی یاد کروا دیں۔

گرمیوں کے دن تھے۔ ہماری رہائش سے ملحقہ ایک بہت بڑا درخت تھا۔ اس کے مشرق میں مرد اور غربی سائیڈ میں عورتوں کا بوقت دوپہر اکٹھ ہوتا تھا بغرض آرام و قصہ گوئی۔ ایک دن مجھے میرے والد صاحب اُس پَریا (جگہ ) میں لے گئے اور کہا کہ پہلے میرا بیٹا مبارک احمد تلاوت کرے گا پھر تم لوگ اپنے قصے کہانیاں سناتے رہنا (ہیر رانجھا وغیرہ)۔ چنانچہ خاکسار نے پہلے مردوں کی طرف اور پھر عورتوں کی طرف تلاوت کی۔ لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے کہ اتنا چھوٹا بچہ کیسے بول رہا ہے۔ اور ایک شخص نے تو پیار سے میرے بازو پر چٹکی کاٹ دی کہ آیا یہ کوئی انسان ہے یا بولنے والی مشین۔ ایک تو میری محفل میں کی جانے والی تلاوت اور دوسرے ابا جان قادیان سے ہی مکرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب کی دکان کے ٹرینڈ کمپونڈر ہونے کے باعث گاؤں کے مریضوں کو مفت دوائی دیا کرتے تھے۔ چنانچہ ہمارے خاندان کی ان دو خوبیوں کے باعث ہمارے گھر کا نام عزت وقار سے لیا جاتا تھا۔ بعد میں 1989ء تک خاکسار اس گاؤں میں جاتا رہا ہے۔ ابا جان کی مہارت طب کے باعث ہر بار چھوٹی موٹی بیماریوں کے لیے مجھے بھی نسخہ جات لکھنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔

1952ء میں ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب نے ابا جان کو اپنے پاس بلا لیا۔ چنانچہ ابا جان مع فیملی سرگودہا شفٹ ہو گئے۔ وہاں ہمیں رہائش حافظ صاحب کے مطب کے اوپر والی منزل میں مل گئی۔ 1956ء تک حافظ صاحب کے کلینک میں ابا جان نے ڈسپنسر کی ڈیوٹی ادا کی۔ زیادہ تر آپ اکیلے کارکن تھے۔ بعد میں مریضوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ مزیدکارکن ہو گئے۔ اس دوران خاکسار کی زندگی کا ایک اہم واقعہ یہ رونما ہوا کہ میری پھوپھی جان نے مجھے Adoptکر لیا۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں میری ایک ہی پھوپھی ہیں اور میرے ابا جان کے ساتھ اُن کی بہت اچھی عقیدت تھی۔ پھوپھی جان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ لہٰذا دونوں بہن بھائیوں نے مکمل مفاہمت سے کام لیتے ہوئے مجھے پھوپھی جان کی گود میں ڈال دیا۔ اور یوں مجھے صرف چار سال کی عمر میں 1952ء میں حضرت چھوٹی آپا یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے بابرکت قدموں میں جگہ مل گئی بلکہ چھوٹی عمر میں ہی زندگی کا عروج نصیب ہو گیا۔ اور خاکسار 1961ء تک قصرِ خلافت میں حضرت چھوٹی آپا کے گھر کے ایک حصہ میں موجود کوارٹر میں پھوپھی جان کے پاس رہائش پذیر رہا۔

سرگودہا میں مکرم حافظ صاحب کے کلینک کی پوزیشن یہ تھی کہ فرنٹ پر دکان تھی۔ فرنٹ کی دائیں طرف سے اوپر جانے کا چھوٹا راستہ تھا جہاں دو کمروں پر مشتمل ابا جان کی مع فیملی رہائش تھی۔ نیچے دائیں طرف مکرم ڈاکٹر جنود اللہ صاحب کے ڈینٹل کلینک کے عقب میں نماز سینٹر تھا۔ اورمکرم حافظ صاحب کی رہائش اُن کے اپنے کلینک کے پیچھے تھی۔ اس ملازمت کے دوران ابا جان نے اخلاص، محنت، دیانتداری اور جانفشانی کے ساتھ کام کیا۔ بہت اچھا وقت گزرا چنانچہ مکرم حافظ صاحب آپ کی بہت قدر کرتے تھے۔ اس ملازمت کے ساتھ ساتھ آپ کے سپرد الفضل تقسیم کرنے کی ڈیوٹی بھی تھی۔ یہاں قیام کے دوران کی کچھ باتیں میرے ذہن میں نمایاں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ محترم حافظ صاحب کی والدہ صاحبہ اُن کی بیگم صاحبہ اور اُن کی بہنوں کا میری اُمی جان کے ساتھ سلوک مکمل اپنائیت والا تھا۔ ہم بچوں سے بھی بہت پیار اور شفقت کا سلوک اُن سب نے روا رکھا۔ اور ان سب میں سب سے بڑھ کر اُن کے والد محترم حضرت بھائی ڈاکٹر محمود احمد صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی مجھے اپنے پوتوں کی طرح پیار دیا جیسے اُن سے فری، مذاق، کھیل کود ویسے ہی میرے ساتھ اُن کا پیار و محبت کا سلوک تھا۔

1953ء کے پُر آشوب واقعات کا کچھ حصہ خاکسار کو سرگودہا میں گزارنا پڑا اس دوران پولیس نے ہمارے اور مکرم حافظ صاحب دونوں کے گھروں کی تلاشی لی۔ مکرم حافظ صاحب کے گھر ایک ائیر گن تھی پولیس والے جاتے ہوئے اسے بھی ساتھ لے گئے۔

قبولیت دعا کا ایک واقعہ

ابا جان بتایا کرتے تھے کہ ہماری روٹین یہ تھی کہ ہم نماز عشاء سے قبل دکان بند کر دیا کرتے تھے۔ پہلے عقبی نماز سینٹر جا کر نماز پڑھتے۔ پھر میں اور حافظ صاحب باقی نمازیوں کو رخصت کر کے بیٹھ جاتے اور سارے دن میں آنے والے مریضوں کے لیے حسب ضرورت دعا کرتے۔ ایک روز دعا سے پہلے مکرم حافظ صاحب نے ابا جان سے پوچھا کہ آج فلاں گاؤں سے آنے والے مریض کو مولوی صاحب آپ نے کون سی دوا دی تھی۔ ابا جان نے بتایا کہ حافظ صاحب جو آپ نے لکھی تھی میں نے وہی دوابنائی تھی۔ حافظ صاحب نے کہا کہ لو مجھے اب خیال آیا کہ میں نے تو غلطی سے دوسری دوا لکھ دی تھی جو اتنی مؤثر نہیں اور اُس کا شدید منفی ردِّ عمل بھی ہو سکتا ہے اور اس مریض کی حالت تشویشناک حد تک خراب ہو سکتی ہے۔ حافظ صاحب نے فرمایا کہ اب ایک ہی حل ہے۔ اللہ تعالیٰ کوئی معجزہ دکھائے اور ایک دن کے لیے دی جانے والی اس دوائی میں خدا تعالیٰ اپنی طرف سے غیر معمولی برکت ڈال دے۔ اب معمول کی دعا نہیں ہو گی بلکہ حسب توفیق خصوصی سجدے ہوں گے۔ چنانچہ دونوں سجدہ میں گر گئے اور بڑی دیر تک اللہ تعالیٰ کے حضور آہ و زاری کرتے رہے۔ چونکہ ایک دن کے لیے دوائی دی تھی لہٰذا صبح سب سے پہلے اُسی مریض والے آئے اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے اور نصف بیماری دور ہو گئی ہے۔ یہ دعا کی قبولیت کا ایک نشان اور معجزہ ہے۔

اس ملازمت کے دوران اللہ تعالیٰ نے ابا جان کو تو فیق دی کہ دارالیمن شرقی ربوہ میں دس مرلے کا ایک پلاٹ خرید لیا اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکی ہدایت کے مطابق اس میں ایک کمرہ بھی تعمیر کر لیا۔ 1956ء تک یہ ملازمت جاری رہی۔

تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ملازمت

مکرم و محترم میاں محمد ابراہیم جمونی صاحب ابا جان کے قادیان سے واقف تھے۔ 1956ء میں جب وہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر بنے تو انہوں نے مکرم والد صاحب سے رابطہ کیا اور کہا کہ اس وقت سٹاف میں آپ کی تعلیم کے مطابق ایک آسامی خالی ہے۔ اگر آنا چاہیں تو موقع اچھا ہے۔ مرکز سے عقیدت کے باعث ابا جان سرگودہا کی تقریباً ڈبل تنخواہ والی ملازمت چھوڑ کر ربوہ شفٹ ہو گئے اور سترہ سال اس ادارے میں خدمت کی توفیق پائی۔

تعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ میں خدمت

تعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ میں بطور T O ٹیچر ابا جان کی خدمت دو ادوار پر مشتمل ہے۔ پہلا دَور 1956ء تا 1960ء اور پھر1963ء تا بوقت وفات یعنی اگست 1976ء تک۔ اگرچہ ابا جان مضمون اُردو میں بھی سند یافتہ تھے لیکن آپ کو زیادہ تر دو مضامین دینیات اور عربی پڑھانے کا فریضہ سپرد ہوا۔ کافی نرم مزاج تھے۔ پیار اور محبت سے پڑھاتے۔ سزا بہت کم دیتے۔ اگر مجبوراً سزا دینی پڑتی تو پھر انصاف کے تقاضے پورے کرتے۔ خاکسار 1958ء میں کلاس ششم میں آپ کا دینیات کا طالب علم تھا۔ کلاس کے آغاز میں پچھلا سبق ضرور سنتے تھے۔ ترجمۃ القرآن کا ایک لفظ سب سے پہلے مجھ سے پوچھا اس دن نہ معلوم کیا ہوا مجھے غلطی ہو گئی۔ اس مضمون میں فرسٹ پوزیشن عموماً خاکسار کی ہی آیا کرتی تھی۔ چنانچہ ساری کلاس میرے غلط ترجمے کے پیچھے لگ گئی۔ ابا جان نے سب طلباء کو سزا دینے کے لیے کھڑا کر لیا۔ باقیوں کو ایک ایک اور مجھے دو کی سزا ہوئی اور ساتھ کلاس میں وضاحت فرمائی کہ ایک تو اس کی وجہ سے سب کا ترجمہ غلط ہو گیا اور دوسرے کوئی یہ نہ سوچے کہ اپنے بیٹے کا لحاظ کیا ہے۔ سکول اسٹاف میں میرے اباجان کے قریبی دوستوں میں مکرم محمد ابراہیم صاحب بھامڑی۔ مکرم ماسٹر عبدالقدیر صاحب۔ مکرم ماسٹر بشارت احمد صاحب اور مکرم ماسٹر محمد اتالیق صاحب تھے۔ تمام اسٹاف کا یہ مشن تھا کہ تدریس کے ساتھ ساتھ اپنے طلباء کو اخلاقیات سکھا کر اُن کے کردار کی بھی تعمیر کرنی ہے۔ خاکسار نے ابا جان کے اکثر طلباء میں یہ احساس دیکھا ہے کہ ماسٹر صاحب کا سب سے زیادہ پیار مجھ سے ہی تھا۔ گویا ہر طالب علم سے آپ کا ایسا ذاتی تعلق تھا کہ وہ آپ کو اپنے گھر کا ایک فرد ہی خیال کرتا تھا۔ اتنی اپنائیت اور شفقت تھی ان تمام اساتذہ میں جیسے پدری شفقت۔

خاکسار کا بھی کالج میں تدریس کا تقریباً چالیس سال کا تجربہ ہے۔ میرے اپنے مضمون کی ایک کلاس چالیس۔ پچاس طلباء سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ ابا جان کی ایک کلاس کی عام تعداد ایک سو اور بعض اوقات ایک سو پچاس بھی ہو جاتی تھی۔ لیکن اس طرح کا ہر شاگرد سے ذاتی تعلق رکھنا اور مکمل توجہ کے ساتھ ہر پہلو سے اسے نبھانا ان بزرگوں کا ہی کام تھا۔ اس خوبی کے باعث یہ تعلق گہرا بھی ہوتا تھا اور برکتوں ، فضلوں کی بارش دونوں کو ملتی تھی۔

گورنمنٹ ہائی اسکول گھڑیال کلاں ضلع شیخوپورہ میں عارضی ملازمت

1960ء میں ابا جان کی ربوہ ملازمت تخفیف بجٹ کا شکار ہو گئی۔ فوری ملازمت ضلع شیخوپورہ کے مذکورہ بالا گاؤں میں حاصل ہوئی۔ یہ اسکول دو تین سال پہلے کھلا تھا اور وسائل آمد و رفت بھی کم تھے۔ اس لیے یہاں فوری جگہ مل گئی۔ اس گاؤں میں ایک احمدی بزرگ مکرم چودھری نذیر احمد صاحب برادرِ اصغر مکرم چودھری علی اکبر صاحب (نائب ناظر تعلیم صدر انجمن احمدیہ ربوہ) مقیم تھے۔ آپ اسکول مذکورہ کے سینئر اسٹاف ممبر تھے۔ اُن کی وجہ سے گاؤں میں ابا جان کو کرایہ پر مکان مل گیا اور اسٹاف میں احمدی ممبران کی تعداد تین ہو گئی۔ تیسرے مکرم ماسٹر محمداقبال صاحب ابن حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ تھے۔ اس دوستانہ ماحول میں ابا جان کا اسکول میں دل لگ گیا۔ ایک سال بعد خاکسار بھی ربوہ میں مڈل پاس کر کے ابا جان کے پاس شفٹ ہو گیا۔ میرے اس سکول میں داخلے کے بعد یہاں اسمبلی میں تلاوت کا آغاز ہوا جس کی ڈیوٹی میرے سپرد ہو گئی۔ چنانچہ پورا ہفتہ خاکسار تلاوت بھی کرتا اور اس کا زبانی ترجمہ بھی سناتا۔ یہاں کلاس ششم سے دہم تک طلباء کی تعداد ایک سو پچاس کے قریب ہوتی تھی۔ میری یہاں تعلیم کے دوران مکرم میاں عنایت اللہ صاحب آف خانقاہ ڈوگراں ہیڈ ماسٹر رہے۔ محترم میاں صاحب علم دوست۔ شفیق افسر اور ادارے کو ترقی دینے والی شخصیت تھے۔ ابا جان کے ساتھ اچھا تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے قدر دان تھے۔ وہ اکثر ابا جان کو اپنی رہائش گاہ پر بلا لیتے جو ہمارے گھر کے قریب ہی تھی۔ ابا جان الفضل اخبار ساتھ لے جاتے مختلف عناوین پر تبادلہ خیال ہوتا۔ مکرم میاں صاحب ہماری جماعت سے اتنے متاثر ہوئے کہ بعد میں اپنی دو بیٹیاں جامعہ نصرت کالج برائے خواتین ربوہ میں داخل کروائیں۔ وہ ہوسٹل میں رہتی تھیں۔ میری بہن بھی اُن دِنوں کالج کی طالبہ تھی۔ اباجان کی زیرِ ہدایت میری بہن اِن دونوں بیٹیوں سے رابطے میں رہی اور اچھا تعلق جاری رہا۔ اُن دِنوں گھڑیال کلاں آنے جانے کا واحد ذریعہ ٹرین تھی۔ اس کا قریبی اسٹیشن مہتہ سُوجا تھا۔ جو لاہور نارووال ٹرین سیکشن پر واقع ہے۔ یہاں تین سال قیام کے دوران ابا جان ہر سال مع فیملی جلسہ سالانہ ربوہ ضرور جاتے۔ ہم بہن بھائیوں کو گاڑی کا وہ سفر جو مہتہ سُوجا سے شروع ہو کر لاہور سے ہوتے ہوئے ربوہ جا کر ختم ہوتا کبھی نہیں بھولتا۔ نارووال سے چلنے والی یہ اسپیشل ٹرین مختلف اسٹیشنوں پر بہت ہی روح پرور نظارے پیش کرتی جاتی تھی اور پھر ربوہ مرکز پہنچنے پر بارات کی طرح اس کا استقبال ہوتا۔ یہاں میری قدر افزائی کا عروج اسکول کی نمائندگی میں مختلف ضلعی، صوبائی، مقابلہ ہائے تلاوت میں حصہ لینا تھا۔ ان میں نمایاں شمولیت 1962ء میں منعقد ہونے والے کل مغربی پاکستان مقابلہ حُسن قرأت بمقام Y.M.C.A ہال لاہور کی ہے۔ جس کی سند امتیاز اس وقت بھی خاکسار کے پاس موجود ہے۔ اُن دنوں امتحانوں کا پروگرام بڑا مناسب اور بروقت ہوا کرتا تھا۔ 1963ء کے شروع میں خاکسار نے میٹرک کا امتحان مکمل کیا تو ابا جان نے میرے متعلق فیصلہ کر لیا کہ کالج کی تعلیم ربوہ میں ہو گی۔ اس کے متعلق ایک اچھا سبب یہ بن گیا کہ ابا جان کو سرگودہا میں مکرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب کے کلینک میں بہتر تنخواہ کے ساتھ دوبارہ ملازمت مل گئی۔ ابا جان نے فیملی کو اپنے ذاتی گھر واقع دارلیمن شرقی ربوہ شفٹ کر دیا اور خود سرگودہا ملازمت اختیار کر لی اور ہر ہفتے ربوہ گھر آجایا کرتے تھے۔ اس ملازمت کو ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی کا پھر پیغام ملاقات آ گیا اور اس طرح تعطیلات گرما 1963ء کے دوران ہی ابا جان نے دوبارہ تعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ میں ملازمت اختیار کر لی۔ بعد میں صدر انجمن نے درمیانی تین سال کا عرصہ رخصت بلا تنخواہ شمار کر کےپرانی سروس بحال کر دی۔ یہ ملازمت اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ رواں دواں تھی کہ ستمبر 1972ء میں ہمارا یہ ادارہ قومی تحویل میں لے لیا گیا اور یوں ابا جان عملاً گورنمنٹ ملازم بن گئے۔

وفات

1975ء کے آخر میں ابا جان کو اپنڈکس کی تکلیف ہو گئی۔ چونکہ گورنمنٹ ملازم تھے لہٰذا سول ہسپتال فیصل آباد سے آپریشن کروانے کا مشورہ ہوا۔ بظاہر آپریشن کامیاب ہو گیا۔ دو تین دن ہسپتال قیام کرنا پڑا۔ ہسپتال قیام کا تجربہ ابا جان کی نفاست طبع کو پسند نہ آیا۔ اس آپریشن کے ٹھیک تین ماہ بعد اباجان کو یرقان ہو گیا۔ شروع میں بیماری کے آثار ہلکے تھے پھر آہستہ آہستہ پیچیدگی پیدا ہوتی گئی۔ زیادہ تر علاج مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب نے کیا تھا۔ اُن کی تشخیص یہ ہے کہ سول ہسپتال فیصل آباد سے یرقان لے کر آئے ہیں۔ اُن دِنوں یک استعمالی سرِنج تو نہیں ہوتی تھی قیاس ہے کہ یرقان کے کسی مریض پر استعمال شدہ سرِنج دوبارہ اُبالے بغیر ہمارے مریض کو لگا دی گئی۔ ایسا یرقان اکثرغلط سرِنج کے استعمال کی وجہ سے تین ماہ بعد ہی ہوتا ہے۔ بہرحال تعطیلات گرما کی چھٹیاں ابا جان نے بیماری کے باعث بستر پر ہی گزار یں۔ فضل عمر ہسپتال ربوہ سے علاج جاری رہا۔ مزید بہتر علاج کی خاطر کسی اور شہر جانے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ فرماتے کہ فیصل آباد کا تجربہ ہی کافی ہے۔ آخرِ کار آپ کے انجام بخیر کا وہ دِن آ گیا جس کے لیے آپ کی فیملی ذہنی طور پر تیار نہ تھی۔ یعنی 11؍اگست 1976ء کو آپ اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اُسی پہ اے دل تو جاں فِدا کر

مجھے ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ جب ہم آپ کی خدمت کے کچھ قابل ہوئے تو قدرت نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا۔

عمومی اوصاف

ابا جان اور ابا جان کےشاگردوں کا باہمی تعلق دو طرفہ ہمدردی، اخلاص و وفا اورادب پر مشتمل تھا۔ دارالیمن شرقی میں ہمارا گھر شہر کے مرکزی حصے سے فاصلہ پر تھا۔ اس کےباوجود سالانہ امتحان کے بعد پاس ہونے کی خوشی میں بغرض دعا و مبارکباد بہت سے طلباءابا جان کو ملنے آتے اور کچھ طلباء تو مٹھائی بھی لے آتے۔ اور بڑی عقیدت کا اظہار کرتے۔ چھٹی جماعت سے پاس ہونے ایک طالبعلم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ماسٹر صاحب اگر آپ کے گھر میں رہائش کا بندوبست ممکن ہوتا تو ہم چوبیس گھنٹے آپ کے قدموں میں ہی زندگی بسر کرتے۔ آپ عام ملنے جلنے کے دوران بھی اپنے شاگردوں کے جملہ مسائل پر پوری توجہ رکھتے۔ ایک طالب علم کے چہرے کی رنگت دیکھ کر کچھ فکرمند ہوئے۔ پوچھا کھانے میں زیادہ کیا لیتے ہو؟ اُس نے بتایا کہ چائے بہت پیتا ہوں اُسے سمجھایا، ہدایت کی کہ چائے سے پرہیز کرو اور دودھ پیا کرو۔ ایک غریب طالب علم کے سر کے بال بہت بڑھے ہوئے تھے۔ اس کو پیار سے ساتھ چلنے کا کہا اور دکان پر لے گئے اور خود بال کٹوانے کا بندوبست کیا۔ گاؤں سے آنے والے طلباء کو بڑوں سے بات چیت کرنے کا سلیقہ و ادب سکھانے کی پوری کوشش کرتے۔ ایسے پیار سے قائل کرتے کہ اُن کے دِل میں اپنے سلوک و کردار سے مزید جگہ بنا لیتے۔ کبھی کبھار گاؤں کے شاگرد ساگ، مکئی کا آٹا یا گاؤں کی کوئی اور سوغات لے آتے تو ابا جان اُن چیزوں کے اُن کو پیسے دیتے۔ دارالیمن میں ہمارا گھر چنیوٹ روڈ سے قریب تھا۔ کوٹ امیر شاہ کی طرف سے آنے والے بعض طلباء اپنی سائیکلیں محدود وقت کے لیے ہمارے گھر کھڑی کر جاتے۔ ہم تینوں بھائیوں میں سے کسی کو بھی اُن سائیکلوں کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی۔ ایک بار ایک بھائی نے سائیکل نزدیکی دکان تک لے جانے کی خواہش کی تو ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ یہ کسی کی امانت ہے لہٰذا آپ اسے مالک کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کر سکتے۔

مرکز میں رہتے ہوئے جماعت سے وابستگی کے تمام تقاضے پورے کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ چنانچہ آپ میں خلافت اور نظام جماعت سے وابستگی کا جذبہ بدرجۂ اتم موجود تھا۔ ربوہ قیام کے دوران آپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ کم از کم ایک نماز مسجد مبارک جا کر خلیفۂ وقت کی اقتدا میں ادا کی جائے۔ بعض اوقات گول بازار آتے جاتے ایک سے زیادہ نمازیں بھی ادا کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔ اِسی جذبہ کے تحت 1952ء میں تنگی ٔحالات کے باوجود ربوہ رہائش کی خاطر پلاٹ خریدا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد کی تعمیل میں ایک کمرہ بھی تعمیر کیا۔ حالانکہ وسائل محدود تھے۔ جماعتی لٹریچر خریدنے اور محفوظ رکھنے کا نمایاں شوق تھا۔ آپ کے وقت کی بہت سی کتابیں و رسائل ہمارے گھر میں موجود ہیں جن میں کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ تفسیر کبیر بہت شوق سے پڑھتے۔ کئی سالوں کے الفضل جلد بندی کروا کر محفوظ کیے ہوئے ہیں۔

خاکسار کے ابا جان اور اُمی جان دونوں بتایا کرتے تھے کہ اُن کی ذاتی زندگی کے اکثر مسائل حضورِ انور کو دعائیہ خطوط لکھنے، سورہ فاتحہ اور درود شریف کے وِرد سے حل ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ

یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْث

اور

رَبِّ کُلِّ شَیْ ءٍ خَادِمُکَ

اور دیگر قرآنی دعائیں زیر لب پڑھتے رہتے۔ میرے ابا جان کوتلاوت قرآن کریم کا خاص شوق تھا۔ تلاوت خود بھی کرتے اور اہل خانہ سے بھی کرواتے اور ہر ایک کی غلطی اعراب پر مکمل نظر رکھتے۔ نماز تہجد کا بھی اہتمام کرتے۔ اُن کے بڑوں کا ماحول بھی ایسا ہی تھا۔ بتایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے نماز تہجد کے لیے اپنے بڑے بھائی صاحب سے پہلے اُٹھنے کا ارادہ کیا لیکن جب میری آنکھ کھلی تو بھائی صاحب پہلے سے ہی نماز تہجد کے لیے اُٹھے ہوئے تھے۔ دارالیمن شرقی کی مسجدکے امام الصلوٰۃ بھی رہے۔ مسجد کی صفائی۔ زیب و آرائش۔ توسیع اور اُس کی جملہ ضروریات کی حفاظت کا آپ کو خاص خیال ہوتا تھا۔ آپ کی کوششوں سے محلہ دارلیمن شرقی کی بیت الصادق کا زمینی رقبہ دوگنا ہوا تھا۔

جلسہ سالانہ کے دوران آپ کے ذمہ تصدیق پرچی خوراک کی ڈیوٹی ہوا کرتی تھی۔ ایک بار بیٹی نے عرض کیا اباجی لنگر کی دال بہت مزے کی ہوتی ہے دل کر رہا ہے ہمیں بھی تھوڑی سی منگوا دیں تو کہنے لگے ہمارے گھر اس وقت جلسہ کا کوئی مہمان نہیں ہے لہٰذا میں اپنے گھر کے لیے پرچی جاری نہیں کر سکتا۔ آپ خود گھر میں دال پکاؤ۔ عرض کیا کہ اُس طرح کی نہیں بنتی تو فرمایا بنانے کی کوشش کرو۔

بہر حال میرے پیارے ابا جان اپنے بچوں کی دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت کے لیے ساری عمر کوشاں رہے۔ ہماری بہت محنت سے پرورش کی۔ اپنے خاندان کے لیے قربانیاں کرتے رہے۔ 1947ء کے دل دہلا دینے والے واقعات اور آزادی کے پہلے پانچ سال کے تنگ حالات نے میرے والد صاحب کی صحت کو عمومی اعصابی کمزوری کا شکار کر دیا۔ اور یوں صرف چھپن (56) سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔

میری پیاری اُمی جان بھی 2013ء میں اللہ کو پیاری ہو گئ تھیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میرے ماں باپ کو اپنی رحمتوں کے سائے تلے رکھے اور پنے پیاروں کے قرب میں جگہ دے۔ ابا جان بہشتی مقبرہ (دارالفضل) میں اور محترمہ والدہ صاحبہ بہشتی مقبرہ (طاہر آباد) میں مدفون ہیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور دونوں کے درجات بڑھاتا چلا جائے۔ نیز ہمیں اُن کے نیک نمونوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

رَبِّ ارْ حَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا۔

اےمیرے رب! ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی۔ آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button