خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرمودہ 28؍ اگست 2020ء
حَکَم وعَدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریرات و ارشادات کی روشنی میں آلِ نبویﷺاور خلفائے راشدینؓ کی فضیلت کا بیان
اس دفعہ فتح حسینی صفات رکھنے والوں کی ہوگی۔پس ہمیں چاہیے کہ آج کل دعاؤں اور درود شریف پڑھنے پر زور دیں
یہی وہ امام ہیں جن کے ذریعے تمام جھگڑوں اور فسادوں نے امن و سلامتی میں بدلنا ہے۔ پس محرّم کو صرف افسوس کرنے یا اپنے بغضوں،کینوں اور غصّوں کو نکالنے کا مہینہ بنانے کی بجائے محبت اور پیار بانٹنے کا مہینہ بنانا چاہیے۔ جب ہم حَکَم و عدل رہ نما کے پیچھے چلیں گے تب ہی ہم حقیقی مسلمان کہلانے والے ہوں ۔
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ اگست 2020ء بمطابق 28؍ ظہور 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےمورخہ 28؍اگست 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم رانا عطاء الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق آنحضرتﷺکی غلامی میں مسیح موعودؑ کو حَکَم و عدل بنا کر بھیجا ہے۔وہ حَکَم و عدل جس نے تمام مسالک اور فرقوں کی غلط تشریحات اور فروعی اختلافات کو دُور کرکے مسلمانوں کو ایک وحدت عطا کرنی تھی۔ پس آج مسلمانوں کے ہر فرقے سے عِلْم ، عقل اور دعاؤں سے کام لینے والے لاکھوں افراد ہرسال جماعت احمدیہ میں شامل ہوتے چلے جارہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کسی فرقے یا مسلک کے فرق یا اختلافی نظریات اور تشریح و تفسیر پر قائم ہونے والی جماعت نہیں بلکہ یہ آپؐ کےوعدے کے مطابق قائم ہونے والی جماعت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو جو رُوئے زمین پر ہیں جمع کرو۔علیٰ دینٍ واحد۔پس یہ وہ کام ہے جس کے لیے حضرت مسیح موعودؑ مبعوث ہوئے ہیں اور جس کے لیے خلافت کے زیرِ سایہ جماعت احمدیہ مصروفِ عمل ہے۔ یقیناً ہم نے مخالفتوں،مقدموں،سختیوں اور گالم گلوچ کی پروا کیے بنا حق بات کہنے اور حق پھیلانے سے نہیں رکنا۔ سینکڑوں سال سے مسلمان اختلافات میں مبتلا ہوکر اپنی اکائی کو کم زور کرتے چلے آرہے ہیں۔ آج کل بھی ہم اسلامی سال کے پہلے مہینے محرّم سے گزر رہے ہیں اور بدقسمتی سے کئی مسلمان ممالک میں اس مہینے میں قتل و غارت گری اور فتنہ و فساد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ عامة المسلمین ،سنجیدہ طبع اور حق کے متلاشی لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ کس طرح ہم مسلمانوں کو امّتِ واحدہ بنا سکتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فیجِ اعوج کے زمانے کے بعد خلافت علیٰ منہاج نبوت کی خوش خبری بھی دی تھی۔ صاحبِ عقل لوگوں کو نام نہاد علما ءکی پیروی کی بجائے اُس امام کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے جسے خدا تعالیٰ نے اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے کھڑا کیا ہے۔ہم احمدی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کےسپرد اسلام کی نشأة ثانیہ کا کام کیا ہے؛ یہی وہ امام ہیں جن کے ذریعے تمام جھگڑوں اور فسادوں نے امن و سلامتی میں بدلنا ہے۔ پس محرّم کو صرف افسوس کرنے یا اپنے بغضوں،کینوں اور غصّوں کو نکالنے کا مہینہ بنانے کی بجائے محبت اور پیار بانٹنے کا مہینہ بنانا چاہیے۔ جب ہم حَکَم و عدل رہ نما کے پیچھے چلیں گے تب ہی ہم حقیقی مسلمان کہلانے والے ہوں گے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ میری حیثیت مولوی کی حیثیت نہیں بلکہ سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے۔ مجھے سماوی آدمی مانو پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزاعیں ایک دم میں طے ہوسکتی ہیں۔ جو خدا کی طرف سے حَکَم ہوکر آیا ہو جو معنی قرآن اور حدیث کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوں گے۔ ورنہ شیعہ سنّی کے جھگڑے دیکھو کب طے ہونے میں آتے ہیں۔ جب تک یہ اپنا طریق چھوڑ کرمجھ میں ہوکر نہیں دیکھتے یہ حق پر ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔ سبّ وشتم جب ایک شریف آدمی کے نزدیک پسندیدہ چیز نہیں تو پھر خدائے قدوس کے حضور عبادت کب ہوسکتی ہے۔ اسی لیے تو مَیں کہتا ہوں کہ میرے پاس آؤ میری سنو تاکہ تمہیں حق نظر آوے۔
خلفائے راشدین کے مرتبہ ومقام اوربزرگی کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں۔
مَیں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر،عمر،عثمان اور علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سار نگ پیدا نہ ہو۔ وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خداتعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔
پس حضرت مسیح موعودؑ کی نظر میں حقیقی مومن اور مسلمان بننے کے لیے ان چاروں خلفاء کو اپنے لیے اسوہ بنانا ہوگا۔جماعت احمدیہ کا تو یہ عقیدہ ہے کہ یہ سب خلفائے راشدین ہمارے لیے نمونہ ہیں۔اس وقت مَیں بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں تاکہ نئے آنے والوں اورنَوجوانوں کو سمجھ آجائے کہ ہمارا مسلک اور عقیدہ کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ابتدائی زمانۂ خلافت میں پیش آمدہ حالات کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اگر وہ یعنی حضرت ابوبکرؓ قوی دل نہ ہوتا تو بہت ہی مشکل پڑتی اور وہ گھبرا جاتا لیکن صدیق نبیؐ کا ہم سایہ تھا۔ آپؐ کے اخلاق کا اثر اُس پر پڑ ا ہواتھا اس لیے وہ شجاعت اور استقلال دکھایا کہ آنحضرتﷺ کے بعد اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ آنحضرتﷺ کے بعد اگر ابوبکر کا وجود نہ ہوتا تو اسلام بھی نہ ہوتا۔
حضرت عمرؓ کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعوؑ دفرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا درجہ صحابہ میں اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ بعض اوقات ان کی رائے کے موافق قرآن شریف نازل ہوجایا کرتا تھا۔
پھر خلفائے ثلاثہ کی نسبت فرمایا کہ میرے ربّ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ صدیق اور فاروق اور عثمان رضی اللہ عنہم نیکو کار اور مومن تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے چن لیا۔
اسی طرح حضرت علیؓ کے محاسن اور مقام کا ذکر کرتے ہوئےحضورؑ فرماتے ہیں کہ آپؓ تقویٰ شعار پاک باطن اور ان لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمٰن کے ہاں سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں…اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ حضرت علیؓ متلاشیان ِحق کی امیدگاہ اور سخیوں کا بےمثال نمونہ اور بندگانِ خدا کےلیے حجت اللہ تھے۔ آپؓ کا زمانہ امن و امان کا زمانہ نہ تھاعوام الناس آپ کی اور ابنِ ابی سفیان کی خلافت کے بارے میں اختلاف کرتے تھے لیکن سچ یہ ہے کہ حق علی مرتضیٰ کے ساتھ تھا اور جس نے آپؓ کے دَور میں آپ سے جنگ کی تو اس نے بغاوت اور سرکشی کی۔
خلفائے راشدین کی اسلام اور قرآن کی حفاظت کا حق ادا کرنے کےبارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ اگر یہ دین میں امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لیے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی من جانب اللہ بتاسکتے۔
فرمایا: خدا کی قسم وہ ایسے لوگ ہیں کہ خیر الکائناتﷺ کی مدد کی خاطر موت کے میدانوں میں ڈٹ گئے اور اللہ کی خاطر انہوں نے اپنے باپوں اور بیٹوں کو چھوڑ دیا۔
پس یہ وہ ادراک ہے جو ان چاروں خلفاءکے مقام و مرتبے کا حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں دیا اور یہی وہ مقام ہے جو ہر مسلمان ان بزرگوں کو دے گا تو حقیقی مسلمان کہلائے گا۔ عموماً حضرت مسیح موعودؑ یا جماعت احمدیہ کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ آپؑ اورآپ کی جماعت نے خاندانِ نبوت کے مقام کو نہیں پہچانا۔اس وقت مَیں ایسے حوالے پیش کروں گاجن سے معلوم ہوگا کہ آپؑ کی نظر میں خاندانِ نبوت کا کیا مقام تھا حضورؑ فرماتے ہیں:
میری کشفاًعین عالَمِ بیداری میں حضرت علیؓ سے ملاقات ہوئی اور آپؓ نے خدائے علّام الغیوب کی کتاب کی تفسیر مجھے عطا کی اور فرمایا یہ میری تفسیر ہے اور اب آپ کو دی جاتی ہے۔ مَیں حلفاً کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے بڑی محبت و الفت سے ملے اور میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آپ مجھے اور میرے عقیدے کو جانتے ہیں…آپ کے ساتھ حسن اور حسین اور سیّد الرسل خاتم النبیینؐ بھی تھے اور ان کے ساتھ ایک نہایت خوب رُو، صالحہ،جلیلة القدر بابرکت پاک باز، لائقِ تعظیم، باوقار ظاہر و باہر نُورِ مجسّم جوان خاتون بھی تھیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپ حضرت فاطمة الزہراؓ ہیں۔مجھے بتایا گیا کہ دین کے تعلق میں حضرت فاطمہؓ کےنزدیک میری حیثیت بمنزلہ بیٹے کے ہے۔
ایک اَور مقام پر آپؑ نے فرمایا کہ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین یا حضرت عیسیٰ جیسے راست باز پر بدزبانی کرکے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔
حضرت مرزا بشیراحمد صاحب ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کو آپؐ کی آل اور اصحاب سے اس قدر محبت تھی کہ ایک دفعہ محرّم کے مہینے میں آپؑ نے حضرت صاحب زادی مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت صاحب زادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو شہادت امام حسینؑ کے واقعات بڑے دردناک انداز میں سنائے کہ آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین ؓکی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسین یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا ان کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ یہ سب کچھ سننے کے بعد کیسے کہا جاسکتا ہے کہ آپؑ کو آلِ محمدؐ سے محبت نہیں تھی۔ جس محبت کا ادراک آپؑ کو تھا وہ کسی اَور کو نہیں ہوسکتا۔ جہاں شیعہ غلو کی حد تک گئے اور جہاں سنّی غلط ہوئے وہاں آپؑ نے بطور حَکَم و عدلاسلام کی حقیقی تعلیم رائج کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے باوجود دونوں فرقے احمدیوں کو برا بھلا کہتے اور ظلموں کا نشانہ بناتے ہیں لیکن ہم نے صبرواستقامت کے ساتھ حقیقی اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہے۔ ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اس دفعہ فتح حسینی صفات رکھنے والوں کی ہوگی۔ پس ہمیں چاہیے کہ آج کل دعاؤں اور درود شریف پڑھنے پر زور دیں اوراللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے کی کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ محرم کے ایام میں سب مسلمانوں کو بھی محفوظ رکھے۔ آمین
٭…٭…٭