یہ ہے میرا پاکستان
آج کا دن بھی انگلستان کے بہت سے سرد دنوں کی طرح معمول کے مطابق گزر رہا تھا۔ میں گذشتہ شام لندن سے ڈرائیو کرکے نوٹنگھم(Nottingham) آیا تھا۔اس بین الاقوامی دوا ساز کمپنی کا آڈٹ کرنے جو ایک نہایت وسیع و عریض رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کمپنی کا نام بھی بڑا تھا اور درشن بھی۔ سب سے اہم بات جومیں اپنے ہر آڈٹ کے دوران مشاہدہ کرتا ہوں یہ ہوتی ہے کہ یہاں کے لوگ کیسے ہیں؟ ان کا اپنے کام اوراپنی زندگیوں کے بارے میں کیا رویہ ہے؟ یہاں کے لوگ بھی بہت ملنسار، مہمان نواز اور اپنے کام یعنی دوا سازی کے ماہر پائے گئے۔
آج صبح اس کمپنی کی ہائرمینجمنٹ کے سامنے میں نے آڈٹ کے آغاز کےلیے تعارفی میٹنگ کی۔انگریزوں کے اس دیس میں جیسا دیس ویسا بھیس کا مصداق بننے کےلیے ہم اچھےسوٹ بوٹ تو پہن ہی لیتے ہیں۔ گذشتہ 20سال کے تجربہ کی بنیاد پر گفتگو سے بھی مرعوب کر ہی لیتے ہیں۔ لیکن ہماری گندمی رنگت ہمیں ہمیشہ محفل میں موجود لوگوں میں ممتاز کر رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں میرا طریقہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ میں اپنے نام ، کوالیفیکیشن، آج تک دنیا کے 17سے زائد ممالک میں کیے گئے 800سے زائد آڈِٹس کے ذکر کے علاوہ یہ بھی بتاتا جاتا ہوں کہ میں پاکستانی ہوں۔ الحمد للہ۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی جب میں نے برملا اپنے پاکستانی ہونے کا اعتراف کیا تو چند چہرے جو میری کوالیفیکیشن اور تجربہ سے متاثر ہوتے نظر آ رہے تھے ایک دم بدلتے نظر آئے۔ آڈٹ trainings میں ہر طرح کے حالات کا سامنا کر نا سکھایا جاتا ہے۔اور یہ تأثرات تو گذشتہ 6 برس میں مختلف ممالک میں کئی آڈٹس کے دوران دیکھ چکا ہوں۔ اس طرح نہ صرف انگلستان بلکہ دنیا کے 17؍ممالک میں کئی بار اپنے دیس پاکستان کو متعارف کروانے کا موقع مل چکا ہے۔ آج کا دن بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔
میٹنگ کا اختتام ہوا تو وہیں بیٹھے بیٹھے چائے کا دَور شروع ہوا اور غیر رسمی گفتگو شروع ہوئی۔ کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر جون ٹرنر کہنے لگے نومبر کا مہینہ ہمیشہ بہت سرد اور ہوریبل (Horrible)ہوتا ہے۔میں نے اس بات میں سر ہلاتے ہوئے کہا، جی ہاں لیکن ہر موسم ہی اچھا ہوتا ہے اگر آپ کے اندر کا موسم اچھا ہو۔ اگر آپ اچھا محسوس کر رہے ہیں تو سب اچھا ہے۔ جین پیچرجو کہ کوالٹی مینیجر تھیں اور میرے پاکستانی ہونے کے اعتراف پر قدرِ مسکرائی تھیں کہنے لگیں تو آپ کا تعلق پاکستان سے ہے؟
میں نے کہا جی ہاں میں پاکستان سے ہوں لیکن اس پاکستان سے نہیں جو میڈیا پر دکھایا جاتا ہے۔ کہنے لگیں کیا مطلب؟ ان کے ساتھ ساتھ محفل میں موجود دیگر 15-20 افراد بھی پوری توجہ سے ہماری گفتگو سننے لگے۔ ماحول بھی موافق ہو گیا تھا، موقع بھی تھا اور دستور بھی کہ اپنے سامعین اور حاضرین کے سامنے اپنے محبوب وطن پاکستان کی وہ تصویر پیش کروں جو حقیقت میں میرا پاکستان ہے۔
میٹنگ کے دوران میرا کمپیوٹر اس خوبصورت کانفرنس روم کے ملٹی میڈیا پروجیکٹر سے جوڑا گیا تھا جو اب تک پروجیکٹر کی سکرین پر میرے کمپیوٹر کو منعکس کر رہا تھا۔ میں نے اپنی اس دسترس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کمپیوٹر پر پاکستان، اسلام آباد کی تصاویر کو گوگل کیا اور سامنے دیوار پر رنگ ہی رنگ بکھر گئے… میری جنم بھومی اسلام آباد کے خوبصورت مناظر ہر ایک تصویر میں جھلک اٹھے اور میں یوں گویا ہوا۔
یہ ہے میرا پاکستان … پاکستان اصل میں وہ نہیں جو آپ کو میڈیا میں دکھایا جاتا ہے۔ یہ تصویر جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ اسلام آباد ہے۔ پاکستان کا دارالحکومت۔ میری پیدائش اسی شہر میں ہوئی۔ اسلام آباد کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں ہوتا ہے۔یہ دنیا کے ان چند شہروں میں سے ہے جس کا نقشہ پہلے تیار کیا گیا اور پھر شہر آباد ہوا۔ میں یہ کہتا جاتا تھا اور ایک کے بعد ایک تصویر دیوار پر منعکس کرتا جاتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ کمرے میں موجود تمام حاضرین فرط اشتیاق اور حیرت زدہ آکھوں سے ان تمام تصاویر کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ میری گفتگو کو بھی بہت غور سے سن رہے تھے۔ میں کہتا چلا گیا ، پاکستان گو رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا ملک نہیں لیکن جغرافیائی لحاظ سےایک منفرد ملک ہے۔یہاں سال کے 12مہینوں میں آپ کو سال کا ہر موسم دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ یہاں بحیرہ عرب سے جڑے ساحلی علاقے بھی ہیں ، یہاں دنیا کی قدیم ترین تہذیب انڈس ویلی کے آثار بھی موجود ہیں اور اسلام آباد، کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہر بھی موجود ہیں۔ یہاں پانچ دریاؤں سے نکلنے والا نہری نظام موجود ہے۔ یہاں ایک طرف تھر اور چولستان جیسے گرم ترین صحرا اور دوسری طرف برف پوش پہاڑوں کی جنت نظیر وادیوں کا سلسلہ اور ’کے ٹو‘ دنیا کی دوسری بلند ترین پہاڑی چوٹی موجود ہیں جہاں آپ موسم گرما میں بھی برف دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کا مشکل ترین میدانِ جنگ کارگل اور مشکل ترین سیاچین گلیشیر بھی پاکستان کی ہی زینت ہے۔ میں یہ سب کہتا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ ایک ایک تصویر گوگل کرکے سامنے پردہ سکرین پر منعکس کرتا جا رہا تھا۔ ساتھ ہی میری نظریں تمام حاضرین کے چہروں پر لکھے تاثرات بھی پڑھتی جا رہی تھیں ۔
چائے کی چسکی لینے لگا تو جین کہنے لگیں، پاکستان کے کھانوں کے بارے میں کچھ بتاؤ۔ میں نے یو ٹیوب پر موجود ایک امریکی سیاح مارک وینز کی پاکستان کے کھانوں سے متعلق ویڈیو لگا دی۔ ایک مختصر ویڈیو میں اس نے پاکستان، پاکستانیوں اور پاکستانی کھانوں کی اتنی تعریف کردی کہ میرے لیے کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہ رہی۔ میں نے دیکھا کہ جین اور بہت سے دوسرے افراد مارک وینز کا نام اپنی ڈائری میں نوٹ کر رہے ہیں۔ جین کہنے لگی میں یہ تمام ویڈیوز دیکھوںگی اور پاکستان کےمتعلق مزید معلومات حاصل کروںگی۔ لیکن اب تک تم نے پاکستان سے متعلق جو کچھ بتایا اور دکھایا ہے اس نے مجھے اپنی آنے والی چھٹیاں پاکستان گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پھر کہنے لگی معید تمہیں تو ٹورازم میں ہوناچاہیے۔ اس مختصر وقت میں میرا تاثر پاکستان کے بارے میں بالکل بدل گیا ہے۔
میں نے کہا جین اگر آپ پاکستان چھٹیاں گزارنے جائیں تو بہت اچھا ہے۔ وہاں کی مہمان نوازی سے آپ اپنے آپ کو ایک وی آئی پی مہمان کی طرح محسوس کریںگی۔ لیکن آپ کے تمام دورہ کی پہلے سے منصوبہ بندی ہونی چاہیے اور پاکستان میں آپ کا کوئی میزبان ہونا چاہیے۔ یہ یاد رہے وہ خطرات جو دیگر ممالک میں ہوتے ہیں وہ پاکستان میں بھی ہیں۔
جین پھر کہنے لگیں ، لیکن یہ تو بتاؤ کہ پاکستان کو میڈیا پر اتنا غریب، پسماندہ اور جرائم زدہ کیوں دکھایا جاتا ہے؟
میں نے یہ سوال یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اس میں بہت سے جواب ایسے ہیں جو شاید آپ کو پسند نہ آئیں ۔ مختصرا ًیہ کہ پاکستان کی مثال اس حسینہ کی سی ہے جس کا حسن و جمال اس کی جان کےلیے خطرہ بن گیا ہو۔
اس پر محفل میں ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا اور پھر ایک دم خاموشی طاری ہو گئی۔ سب کے ساتھ میں بھی یہ سوچ رہا تھا کہ اس بات پر ہنسنا چاہیے بھی یا نہیں!
واپسی کے تمام سفر میں مَیں اپنے آپ کو پاکستان کی شاہراہوں پر سفر کرتا محسوس کر رہا تھا۔ وطن سے محبت اور اِس سے جدائی کا احساس پہلے سے کہیں زیادہ موجزن تھا۔ میری نظروں کے سامنے وہ تمام حالات و واقعات گھوم رہے تھے جن کی وجہ سے ہمارے پیارے وطن کی بدنامی ہوتی چلی آ رہی ہے۔ لیکن ایک تسکین ضرور تھی کہ آج اپنے پیارے وطن کے بارے میں چند لوگوں کی رائے میں مثبت تبدیلی لانے کا ایک بار پھر موقع ہاتھ آیا اور ایک بار پھر سے یہ کہنے کا موقع ملا کہ یہ ہے میرا پاکستان۔
٭…٭…٭