قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید (قسط ہفتم۔ آخری)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
بعض اوقات لوگ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض ہوتا دیکھ کر اُس کو اُلٹنے لگ جاتے ہیں یا بعض اوقات غصے میں آ جاتے ہیں یہ طریقہ صحیح نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جب بھی کوئی آدمی آ کر کوئی سوال کرتا تو آپ اُس کا صحیح جواب دیتے اور کوئی ایچ پیچ نہ کرتے خواہ دشمنوں کو اس سے ہنسی کا موقع مل جاتا۔ میرے پاس بھی ایک دفعہ دو مولوی دیوبند کے آئے۔ اُن کو پتہ تھا کہ میں کسی مدرسہ میں نہیں پڑھا ہوا۔ میں اُس وقت لاہور میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک آدمی نے آتے ہی سوال کیا آپ نے کیا پڑھا ہوا ہے؟ میں نے کہا مَیں نے آپ کی تعریف علم کے مطابق کچھ نہیں پڑھا۔ وہ کہنے لگے آخر کسی مدرسے میں کچھ تو پڑھا ہوگا۔ میں نے کہا میں نے کسی مدرسے میں کچھ نہیں پڑھا۔ تو وہ کہنے لگے آپ نے کسی عربی کے مدرسے میں علومِ اسلامی حاصل نہیں کئے؟ میں نے کہا نہیں بالکل نہیں۔ وہ کہنے لگے تو اِس کا یہ مطلب ہے کہ آپ علومِ اسلامی سے کورے ہیں میں نے مسکرا کر کہا بالکل نہیں۔ اُس وقت اُس کے ساتھ جو دوسرا مولوی آیا تھا وہ بھی پہلے تو اعتراض میں شریک تھا لیکن اُس نے جب میرے چہرے پر نظر ڈالی تو مجھے مسکراتا دیکھ کر چپ نہ رہ سکا اور اپنے ساتھی سے کہنے لگا۔ ان کا مطلب اِس سے کچھ اَور ہے۔ اُس کے ساتھی نے کہا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے واضح بات ہے۔ اِس پر دوسرے مولوی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ آخر اسلام کے مبلّغ ہیں آپ کو اسلام کی کچھ تو واقفیت ہوگی۔ میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جس مکتبہ سے علم حاصل کیا تھا اُسی سے میں نے کیا ہے اور وہی کتاب میں نے پڑھی ہے۔ میں دیوبند میں نہیں پڑھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مدرسہ میں پڑھا ہوں۔ بے شک میں آپ کے علم کے لحاظ سے بڑا جاہل ہوں جس طرح آپ جاہل ہیں میرے علم کے لحاظ سے۔ میرے اِس جواب سے اُن پر ایسی اوس پڑی کہ پھر نہیں بول سکے۔ تو جب کوئی آپ پر اعتراض کرے یا کوئی سوال پوچھے تو اس کا صحیح جواب دینا چاہئے اُس کو موڑنا توڑنا نہیں چاہئے۔ ہماری جماعت کے بعض دوست بعض اوقات دشمن کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ غلط طریقہ ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو علم میں نے سیکھا ہے اس کا معتدبہ حصہ مجھے اسی طرح آیا ہے کہ جب کبھی بھی کوئی دشمن قرآن شریف پر کوئی اعتراض کرتا ہے میں اس کے آگے اعتراض کو اور زیادہ مضبوط کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید وہ اس کو بیان نہ کر سکا ہو کیونکہ بعض اوقات کچھ باتیں بیان کرتے ہوئے نظر انداز ہو جایا کرتی ہیں اس لئے شاید کچھ حصہ نظر انداز ہو گیا ہو تو میں اعتراض کو مضبوط کر کے پھر اس پر غور کرتا ہوں اور جب خدا تعالیٰ مجھے اس کا جواب سمجھاتا ہے تو وہ مکمل جواب ہوتا ہے۔ اور جب میں کسی اعتراض کا جواب دیتا ہوں تو وہ اُس کی تسلی سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور اُس میں اُس کے اعتراض سے بھی زیادہ مواد موجود ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم ہنسیں اور تمسخر میں اُس کے اعتراض کو اُڑانے کی کوشش کریں تو ظاہر ہے کہ ہمارا جواب دشمن کے اعتراض کے بعض پہلوؤں پر روشنی نہیں ڈالے گا اور یقینا ًخود کمزور ہوگا اور ساری حقیقت پر مشتمل نہیں ہوگا اِس وجہ سے اعتراض کرنے والے کے دل میں بھی شکوک باقی رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف پر جتنے اعتراضات میں نے اپنے ذہن میں کئے ہیں شاید اتنے اعتراضات سارے مخالفِ اسلام مصنفین نے بھی نہ کئے ہونگے۔ چونکہ میں نے قرآن شریف کے مضامین کو حل کرنے کیلئے بے دردی سے اعتراضات کئے اس لئے اس کی حقیقت بھی مجھ پر زیادہ کھلی اور جیسے ڈاکٹر جب پیٹ کی کسی بیماری کی وجہ سے اپنے بچہ کا آپریشن کرتا ہے اور اُس کا پیٹ پھاڑ دیتا ہے تو وہ اُس کا دشمن نہیں کہلاتا کیونکہ وہ خدمت کر رہا ہوتا ہے اور خارجی مواد کو نکال کر صحت کو درست کر دیتا ہے۔ اِسی طرح جب کبھی کوئی شخص قرآن شریف پر کوئی اعتراض اس لئے کرتا ہے کہ ہے تو یہ خدا تعالیٰ کی کتاب، غلطی اِس میں نہ نکلے گی میری عقل میں نکلے گی میں تو اِس کے پوشیدہ معارف سمجھنا چاہتا ہوں، میں اِس میں جتنا بھی گہرا جاؤں گا اُتنی ہی اچھی چیز ملے گی اور میں مایوس واپس نہیں آؤں گا تو وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جب آپ قرآن شریف پر اعتراض کریں تو اللہ تعالیٰ پر توکّل ہو اور یہ خیال ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ساتھ ہی یہ دعا بھی مانگیں کہ یا اللہ! یہ اعتراض ہمارے لئے ٹھوکر کا موجب نہ ہو جائے۔ اِس کے ماتحت جب کبھی بھی میں نے غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے نئی باتیں سمجھائیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور علمِ غیب پر مشتمل ہے۔ پس اعتراض کے وقت آپ کو ڈرنا نہیں چاہئے کہ قرآن شریف پر اعتراض ہوگا تو کیا بنے گا۔ اگر آپ ڈریں گے تو یہ ایسی ہی جہالت ہوگی جیسی بچے بعض دفعہ کر بیٹھتے ہیں۔ مجھے بھی اپنے بچپن کی ایک جہالت یاد ہے۔ جب میں چھوٹا بچہ تھا تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میںبعض دشمن آتے اور آپ پر اعتراض کرتے تو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہایت سادگی سے بات کرتے تھے بعض دفعہ مجھے یہ وہم ہوتا تھا شاید آپ اُس شخص کی چالاکی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے مگر جب دشمن مخالفت میں بڑھتا جاتا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی آسمانی طاقت نے آپ پر قبضہ کر لیا ہے اور آپ اِس شان سے جواب دیتے کہ مجلس پر سناٹا چھا جاتا تھا۔ ایسی ہی بے وقوفی ان لوگوں کی ہے جو اس وقت کہ جب کوئی شخص قرآن شریف پر اعتراض کرے تو کہتے ہیں چپ ہو جاؤ ورنہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا حالانکہ یہ فضول بات ہے۔ چاہئے تو یہ کہ قرآن شریف پر جو اعتراض ہوں ان کے جوابات ایسے دیئے جاویں کہ دشمن بھی ان کی صداقت کو مان جائے نہ یہ کہ اعتراض کرنے والے کو اعتراض کرنے سے منع کر دیا جائے اور شکوک کو اُس کے دل میں ہی رہنے دیا جائے۔
مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک بات خوب یاد ہے میں نے کئی دفعہ اپنے کانوں سے وہ بات آپ کے منہ سے سنی ہے۔ آپ فرمایا کرتے کہ اگر دنیا میں سارے ابوبکرؓ جیسے لوگ ہوتے تو اِتنے بڑے قرآن شریف کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف بِسْمِ اللّٰہِکی ’’ب‘‘کافی تھی۔ قرآن کریم کا اتنا پُرمعارف کلام جو نازل ہوا ہے یہ ابوجہل کی وجہ سے ہے۔ اگر ابوجہل جیسے انسان نہ ہوتے تو اِتنے مفصّل قرآن شریف کی ضرورت نہ تھی۔ غرض قرآن کریم تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس پر جتنے اعتراضات ہوں گے اتنی ہی اس کلام کی خوبیاں ظاہر ہوں گی۔ پس یہ ڈر کہ اعتراض مضبوط ہوگا تو اس کا جواب کس طرح دیا جائے گا ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ کیا خدا کے کلام نے ہمارے ایمان کی حفاظت کرنی ہے یا ہم نے خدا کے کلام کی حفاظت کرنی ہے؟ وہ کلام جس کو اپنے بچاؤ کے لئے انسان کی ضرورت ہے وہ جھوٹا کلام ہے اور چھوڑ دینے کے لائق، ہمارے کام کا نہیں۔ ہمارے کام کا وہی قرآن شریف ہے جس کی حفاظت کیلئے کسی انسان کی ضرورت نہ ہو بلکہ اس کا محافظ خدا ہو اور اس پر جو اعتراض ہو وہ خود اُس کو دور کرے اور اپنی عظمت آپ ظاہر کرے ہمارا قرآن کریم ایسا ہی ہے۔ ہاں ہمیں یہ ضرور چاہئے کہ نہ اعتراض کو اس کی حقیقت سے چھوٹا کریں اور نہ ہی حقیقت سے باہر لے جا کر بڑا بنا دیں بلکہ ہمیں چاہئے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو موازنہ کی طاقت دی ہے اس سے کام لیں۔ اگر موازنہ میں غلطی کروگے اور اعتراض کو اُس کی عقلی حدود سے بڑھا دو گے تو ضرور تمہارے دل پر زنگ لگ جائے گا اور اگر اعتراض کو بِلاوجہ کم کر دو گے تو تمہارے دماغ کو زنگ لگ جائے گا۔اور اگر بے دلیل اعتراض بناؤ گے تو تمہاری روحانیت کو زنگ لگ جائے گا۔ درمیان میں جو پُل صراط کا راستہ ہے اُس پر چل کر ہی تم کامیابی کا منہ دیکھ سکتے ہو اور قرآنی علوم کو حاصل کر سکتے ہو۔ آپ کو چاہئے کہ اِس نکتہ کو یاد رکھیں اور اِس پر عمل کر کے قرآن کریم کی تفسیر سیکھیں اور اس کے علوم حاصل کریں اور اس علم کو بڑھائیں۔ اگر آپ وہی باتیں بیان کریں گے جو آپ نے اپنے استاد سے سنی ہیں تو آپ کی مثال اُس زمین کی سی ہوگی جو پانی پی کر پانی اُگل دیتی ہے۔ لیکن اگر آپ اُن باتوں کو جو آپ نے اپنے اُستاد سے سنی ہیں ضرورت کے مطابق ایک نئی شکل دینے میں کامیاب ہوں گے تو آپ کی مثال اُس زمین کی سی ہوگی جو پانی پیتی ہے اور اس کے بعد سبزیاں نکالتی ہے۔
پس میں اِس نصیحت کے ساتھ اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی اور دوسرے لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں اُن پر بھی اپنے فضل نازل کرے قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور یہ بھی توفیق عطا فرمائے کہ آپ اِس کو سمجھ کر ہر نئے اعتراض کے وقت ایک نئے علم کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ نادان کہتے ہیں کہ کسی نئی بات کی کیا ضرورت ہے اگر اِس کی ضرورت تھی تو کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس کا علم نہیں تھا کیا وہ اسے بیان نہیں کر سکتے تھے؟ نادان نہیں جانتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا کے کلام کا پانی لے کر آئے اور جس طرح زمین پانی پیتی ہے اور سبزیاں بنا کر اُسے اُگل دیتی ہے اِسی طرح خدا تعالیٰ کے کلام کے مفہوم کو نیک انسان ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق ایک نئی شکل میں پیش کرتے رہیں گے ہاں اس تعلیم کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا۔ جس طرح پانی زمین میں جذب ہوتا ہے اور جذب ہو کر زمین میں سے سبزیاں نکالتا ہے اوراس سے پانی ہی کی عظمت ثابت ہوتی ہے اسی طرح قرآن کریم کے محل الفاظ کا انسانی دماغ میں داخل ہو کر اس میں نئے علوم کا پیدا ہونا قرآن کریم ہی کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ لوگوںکو پڑھنے اور پڑھانے کی توفیق عطا فرماوے اور جماعت کے دوسرے دوستوں کو بھی توفیق عطا فرماوے کہ وہ قرآن شریف کے علوم حاصل کریں۔ اور ہماری جماعت میں قرآن شریف کو اس طرح قائم کر دیں کہ اِس کی جڑوں کو کوئی اُکھیڑ نہ سکے اور ہمارے بعد ہماری اولادوں کو بھی توفیق عطا فرماوے کہ قرآنی علوم حاصل کریں اور دنیا میں پھیلائیں اور اِس سلسلہ کو اِس قدر وسیع کرتے چلے جائیں جس طرح پُرانے زمانے میں فقیہ بیٹھتے تھے۔ جیسے حضرت امام مالکؒ کے تو پانچ پانچ ہزار آدمی درس میں موجود ہوتے تھے اِسی طرح ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ قرآن شریف پڑھنے اور پڑھانے والوں کے دلوں میں یہ جذبہ پیدا کر دے کہ معلّمین قرآن کا پڑھانا اور متعلّمین درسوں میں جانا ایک مصیبت اور چٹی نہ سمجھیں بلکہ پروانوں کی طرح وہاں جمع ہوں۔ اور اِسی طرح ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ ہم اور ہماری اولادیں اور اُن کی اولادوں کی اولادیں ایک زمانہ دراز تک خدا تعالیٰ کی حکومت کے ماتحت اُس کے کلام کو سیکھتے اور سکھاتے ہوئے اِس طرح ہنستے ہوئے اور خوشی کے ساتھ اُچھلتے ہوئے چلتے چلے جائیں گویا ہماری زندگی کی لذت اِسی میں محصور ہے۔
(الفضل 3تا 6؍ اکتوبر 1945ء)
٭…٭…٭