چین میں احمدیت
صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ احمدیت کا نفوذ اور مختصر تاریخ
قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل میںایک مضمون ’’چین میں اسلام ‘‘کے عنوان سے شائع کیا گیا تھا۔ اسی تسلسل میں ایک اور مضمون ’’چین میں احمدیت ‘‘کے عنوان سے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش تربیت سے فیضیاب صحابہ نے چین میں اسلام کے جو درخشاں نقوش چھوڑے اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی اشاعتِ اسلام کے واسطے دُور دراز ممالک میں جایا کرتے تھے ۔یہ جو چین کے ملک میں کروڑوں مسلمان ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی صحابہ میں سے کوئی شخص پہنچا ہوگا‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 682،ایڈیشن1988ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دَور میں ہی چین میں احمدیت کا بیج حضرت قاری غلام مجتبیٰ صاحب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ لگا۔ آپ کے ہانگ کانگ میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرمادیے کہ آپ تک امام الزماں علیہ السلام کی کتب پہنچنا شروع ہوگئیں۔چنانچہ آپؓ لکھتے ہیں:
’’ میں نے سنا تو بچپن میں تھا کہ ایک شخص نے مہدویت کا دعویٰ کیا ہے مگر جب میں ملازم ہو کر ہانگ کانگ گیا تو وہاں مجھے 1899ءمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام ملی، میں نے اسے پڑھا میرے ساتھ ایک اور شخص بھی شریک تھا ہم دونوں پڑھتے اور غور کرتے او ر یہ کہتے تھے کہ اس شخص نے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے پھر 1901ء میں مجھے درثمین کا ایڈیشن ملااس میں اردو اور فارسی نظمیں ملی جلی تھیں ۔‘‘
(الحکم21تا 28؍دسمبر1934ء صفحہ9تا10)
بیعت کی تقریب اور امام الزماںؑ کا چین کے حالات سننا
آپ چین (ہانگ کانگ) سے واپس تشریف لائے تو اس دوران آپ کے دو بھائی حضرت قاری غلام یٰسین صاحب اور حضرت قاری غلام حٰم صاحب رضی اللہ عنہما بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہوچکے تھے ۔ اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں :
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس وقت تشریف لاکر حجرہ میں داخل ہوئے چونکہ سب لوگ کھڑے ہوگئے تھے میں اس وقت دیکھ نہ سکا لیکن جب سب لوگ بیٹھ گئے تو میں نے اس کمرہ میں جس میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے نور کو دیکھا پھر لوگ حجرہ کے اندر چلے گئے اور عرض کی کہ حضور بیعت کرنی ہے ۔ حضور نے میرے بھائی قاری غلام حٰم کو پہچان لیا اور اس وقت میری بھی بیعت لی ، بیعت کے بعد مجھے فرمایا کہ چین کے حالات سناؤ میں نے حالات سنائے جو مجھے یاد نہیں رہے کہ کیا سنائے تھے ۔
بیعت کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور میں تھا مگر وہ نور اپنی اس حالت میں دکھائی دیا جس حالت میں مَیں نے کشف یا خواب میں دیکھا تھا ، تین دن تک ہمارا قیام رہا ۔ اس کے بعد میں نے اجازت چاہی حضور مسجد میں تشریف لے آئے تقریبا ًپندرہ منٹ تشریف فرما رہے ہوں گے ۔اس عرصہ میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ بھی آکر ایک کونے میں بیٹھ گئے ۔
حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت چاہی اگر اجازت ہو تو میں بھی ان سے چین کے متعلق چند باتیں دریافت کروں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر تشریف لے گئے حضرت خلیفہ اولؓ نے مجھ سے پوچھا کہ چینی زبان میں خدا کو کیا کہتے ہیں ؟ آسمان کو کیا کہتے ہیں ؟ پانی کو کیا کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ اس کے بعد ہم اجازت لے کر چلے آئے ۔ مکان پہنچ کر معا ًمیں نے ایک خط لکھا جو میری قلبی کیفیت کا اظہار کر تا تھا کہ حضور مجھے معلوم نہیں میں کیوں یہاں آگیا ہوں ۔ حضور کو دیکھنے کی تڑپ ہمیشہ دل میں موجزن رہتی ہے۔‘‘(الحکم21؍تا28؍دسمبر1934ءصفحہ9تا10)
آپؓ نے چین کے علاقہ ہانگ کانگ میں تبلیغی مہمات میں حصہ لیا ،آپ کے بچوں نے چینی زبان سیکھی اور آپ انجمن احمدیہ ہانگ کانگ کے پہلے سیکرٹری مقرر ہوئے ۔ آپ قاری غلام مجتبیٰ چینی کے نام سے معروف تھے اور چینی علاقوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچانے والے اولین وجودوں میں سے تھے۔
تحریک جدید کی سکیم کے نتیجہ میں جب دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کی باقاعدہ مہم شروع ہوئی توحضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے ذریعہ ہی اکناف عالم میں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کا تصور پیش فرمایا۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں :
’’پس ہمارا کم سے کم فرض یہ ہے کہ ہم ہر ملک میں احمدیہ جماعت ایسے وقت میں قائم کر دیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ زندہ ہیں تاوہ یہ کہہ سکیں گو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں دیکھا مگر ان کے دیکھنے والوں کو تو دیکھ لیا ۔‘‘( تحریک جدید ایک الٰہی تحریک ۔ جلد اول صفحہ 173)
اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے خلافتِ اولیٰ کے مبارک دَور میں ہی چین میں احمدیت کے پہنچنے کی خوشخبری عطا فرمادی۔ حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ہماری جماعت چار لاکھ سے زیادہ ہے اور بلاد افریقہ،یورپ و امریکہ و چین و آسٹریلیا میں ابھی پہنچے ہیں‘‘۔
(تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 611)
خلافت ثانیہ کے اوائل میں چین میں احمدیت کا چرچا
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے1924ء کے ایک خطبہ جمعہ میں چین میں احمدیت کے حوالے سے ایک عجیب واقعہ کا ذکر فرمایا ۔ آپؓ فرماتے ہیں :
’’اسی سال یعنی گزشتہ بارہ مہینوں میں کئی نئی باتیں احمدیت کے متعلق معلوم ہوئی ہیں ۔ چنانچہ معلوم ہوا ہے کہ چین میں احمدیہ جماعت موجود ہے ۔وہاں کون گیا ۔وہ لوگ کس طرح احمدی ہوئے ۔ ہمیں اس کا بھی علم نہیں اور نہ اس جماعت کے متعلق کوئی علم تھا کہ ترکی پارلیمنٹ کا ایک ممبر چین میں گیا اس نے اپنا سفر نامہ لکھا جس میں وہ لکھتا ہے کہ میں نے چین کے شہر کانٹن میں یہ جھگڑا فساد سنا کہ احمدی جامع مسجد کے متعلق کہتے تھے یہ ہماری ہے اور دوسرے مسلمان کہتے تھے کہ ہماری ہے ۔‘‘
پھر آپؓ فرماتے ہیں :
’’کچھ عرصہ ہوا ایک ترک ایک عجیب بات چین میں احمدیت کے متعلق اپنی تصنیف میں لکھتا ہے کہ ایک شہر میں میں گیا ۔ تومجھے معلوم ہوا کہ ایک مسجد کے متعلق جھگڑا ہے اور کچھ لوگوں کو اس میں نماز پڑھنے سے روکا جاتا ہے ۔ میں نے دریافت کیا تو بتایا گیا کہ یہ احمدی لوگ ہیں جو ہندوستان کے ایک شخص کو مسیح موعود مانتے ہیں ۔ ان کو ہم مسجد میں نماز نہیں پڑھنے دیتے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ چین میں بھی احمدی ہیں۔حالانکہ آج تک وہاں کوئی احمدی مبلغ نہیں گیا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍فروری 1924ء خطبات محمود جلد 8صفحہ 312، 313)
تحریک جدید کے تحت مبلغین کا پہلا قافلہ
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نےتحریک جدید کے منصوبہ کا اعلان فرمایا تو اس منصوبہ کے تحت مبلغین کا پہلا وفد جن ممالک کو روانہ فرمایا ان میں چین بھی شامل تھا۔چین میں احمدیہ مشن کے باقاعدہ قیام کے حوالے سے تاریخ احمدیت میں درج ہے کہ
’’چین میں پہلا احمدیہ مشن صوفی عبد الغفور صاحب بھیروی نے قائم کیا جو 27؍مئی 1935ء کو ہانگ کانگ پہنچے اور متعدد سال تک فریضہ تبلیغ بجالانے کے بعد واپس قادیان تشریف لے آئے …آپ کے زمانہ میں جماعت احمدیہ چین کی داغ بیل پڑی ۔ سب سے پہلے چینی احمدی (جس کی اطلاع مرکز پہنچی)لی اونگ کنگ فنگ Leung King Fungتھے۔جو قصبہKawai ShowضلعSantaxصوبہ Kawanteengکے باشندہ تھے ۔
صوفی صاحب موصوف نے دوران قیام میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا چینی ترجمہ کرایا جس سے اشاعت احمدیت میں پہلے سےزیادہ آسانی پیدا ہوگئی۔
صوفی صاحب کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ کے حکم سے 16؍جنوری 1936ء کو شیخ عبد الواحد صاحب فاضل چین روانہ ہوئے ۔ شیخ صاحب نے اسلامی اصول کی فلاسفی کے چینی ترجمہ کی اشاعت کے علاوہ بعض تبلیغی پمفلٹ بکثرت شائع کیے ۔ آپ کے ذریعہ بھی کئی سعید روحیں حلقہ بگوش احمدیت ہوئیں۔آپ 6؍مارچ 1939ءکو واپس مرکز پہنچے۔
شیخ صاحب ابھی چین میں ہی اشاعت احمدیت کا فرض ادا کررہے تھے کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓنے چوہدری محمد اسحاق سیالکوٹی صاحب کو 27؍ستمبر 1937ء کو چین روانہ فرمایا اور اپنے قلم سے مندرجہ ذیل نصائح لکھ کر دیں۔
اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ۔نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھو الناصر
اللہ تعالیٰ کی محبت سب اصول سے بڑا اصل ہے ۔ اسی میں سب برکت اور سب خیر جمع ہے۔ جو سچی محبت اللہ تعالیٰ کی پیدا کرے وہ کبھی ناکام نہیں رہتا اور کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا۔ نمازوں کو دل لگا کر پڑھنا اور باقاعدگی سے پڑھنا۔ ذکرِ الٰہی ۔ روزہ مُراقبہ یعنی اپنے نفس کی حالت کا مطالعہ کرتے رہنا سونا کم۔ کھانا کم ۔دین کے معاملات میں ہنسی نہ کرنا نہ سُننا۔ مخلوقِ خدا کی خدمت۔ نظام کا ادب و احترام اور اس سے ایسی وابستگی کہ جان جائے اس میں کمی نہ آئے۔ اسلام کے اعلیٰ اُصُول ہیں۔
قرآن کریم کا غور سے مطالعہ علم کو بڑھاتا ہے اور دل کو پاک کرتا ہے اور دماغ کو نور بخشتا ہے ۔
سلسلہ کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ ضروری ہے۔ خدا کے رسولؐ اور مسیح موعود ؑاس کے خادم کی محبت خدا تعالیٰ کی محبت کا ہی جزو ہے۔ نہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسا کوئی نبی گزرا ہے۔ نہ مسیح موعود ؑجیسا نائب صلی اللہ علیہما وسلم۔
تقوی اللہ ایک اہم شَے ہے۔ مگر بہت لوگ اس کے مضمون کو نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیںنہ اس پر عمل کرتے ہیں۔
سلسلہ کے مفاد کو ہر دم سامنے رکھنا۔ بلند نظر رکھنا۔ مغلوبیت سے انکار اور غلبہ ٔاسلام اور احمدیت کے لئے کوشش ہماری زندگی کا نصب العین ہونے چاہئیں۔
چوہدری محمد اسحق صاحب قریبا ًساڑھے تین سال تک چین میں احمدیت کا نور پھیلاتے رہے اور اپریل 1941ء کو قادیان آگئے ۔(تاریخ احمدیت جلد 7صفحہ 221تا222)
چین میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے جن بزرگان کو چین میں تبلیغ اسلام کا موقع ملا ان میں سے کچھ اسماء درج ذیل ہیں :
1۔ حضرت قاری غلام مجتبی صاحب رضی اللہ عنہ 2۔حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ 3۔حضرت قاری غلام یاسین صاحب رضی اللہ عنہ 4۔ حضرت ملک عطاء اللہ صاحب رضی اللہ عنہ 5۔ حضرت شیخ عبد الواحد صاحب رضی اللہ عنہ 6۔ حضرت صوفی عبد الغفور صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کا چین میں تقرر
اللہ نے اپنے خاص فضل سے خلافت ثانیہ ہی کے مبارک دَور میں یہ انتظام فرمادیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور احمدیت کے بطل جلیل حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ کے چین جاپان جانےکے سامان پیدا ہوگئے ۔
فروری 1942ء میں جب چین سے جنرل چیانگ کائی شیک دلی تشریف لائے تو اس وقت وائسرائے ہندسے ملاقات میں یہ فیصلہ ہوا کہ ہندوستان اور چین کے مابین براہ راست تعلقات قائم ہونے چاہئیں۔ لیکن ہندوستان چونکہ انگلستان کے ماتحت تھا اس لیے ہندوستانی نمائندہ جس کی حیثیت تو سفیر کی تھی مگراسے سفیر کی بجائے ایجنٹ جنرل کا ٹائٹل دیا گیا۔ گویا ایک لحاظ سے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب چین میں ہندوستان کے پہلے سفیر تھے۔
وائسرائے کی خواہش پر آپ کا تقرر عمل میں آیا۔ اس دوران آپ نے ہندوستانی مشن قائم کرنے کے ساتھ ساتھ چین کے مسلمانوں کے حالات سے بھی آگاہی حاصل کی، چینی مسلمان لیڈروں سے ملاقاتیں کرکے چین میں اسلام کے بارہ جانکاری حاصل کی ۔(بحوالہ تحدیث نعمت صفحہ 446تا 456)
وزیر اعظم چین مسٹر چو این لائی کی خدمت میں انگریزی ترجمة القرآن کا تحفہ
مکرم مولوی علی انور صاحب نے مکرم عبد القادر مہتہ کی طرف سے وزیر اعظم چین ہز ایکسی لنسی چوان لائی کی خدمت میں ڈھاکہ آمد پر قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔نیز جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے چینی وزیر اعظم اور وزیر اعظم پاکستان جناب سہروردی صاحب کے مابین ملاقات کے نتیجہ میں بننے والی پاک چین دوستی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 3؍جنوری 1957ء صفحہ 1)
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے ذریعہ چین امریکہ تعلقات کا قیام
1971ء کے وسط میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا دورہ چین صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی کاوشوں کا مرہون منت تھا ۔ اسی دورہ کے نتیجہ میں چین اور امریکہ کے مابین تعلقات کا آغاز ہوا ۔
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا دورۂ چین
مشرق بعید اور چینی النسل اقوام میں اسلام احمدیت کی تبلیغ کے لیے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے چین کا بھی دورہ فرمایا ۔آپ 15؍سے18؍جولائی 1963ء تک چین کے علاقہ ہانگ کانگ تشریف لے گئے ۔
چینی سفیر کی ربوہ آمد اور پرتپاک استقبال
پاکستان میں چین کے سفیر چانگ تُنگ ،سفارت خانہ چین کے تھرڈ سیکرٹری مسٹر چَین سُونگ لُو کی معیت میں 17؍ اپریل 1972ء بروز پیر دوپہر اسلام آبا دسے بذریعہ ہوائی جہاز لائلپور تشریف لائے ۔ جہاں ہوائی مستقر پر محترم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ناظر امور عامہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان آپ کے استقبال اور مشایعت کے لیے پہلے سے موجود تھے ۔ لائلپور سے آپ محترم باجوہ صاحب کی معیت میں بذریعہ موٹر کار ربوہ تشریف لائے ۔
ربوہ میں آپ کے استقبال کی خصوصی تیاریاں کی گئی تھیں۔لائلپور سے سرگودھا جانے والی سڑک سے لے کر تحریک جدید کے گیسٹ ہاؤس تک جہاں آپ نے قیام کرنا تھا شارع مبارک ( وہ سڑک جس پر مسجد مبارک واقع ہے) کو پاکستان اور چین کے لاتعداد چھوٹے چھوٹے جھنڈوں سے آراستہ کیا گیا تھا ۔ اہل ربوہ مقررہ وقت سے قبل ہی شارع مبارک کے دونوں طرف اور اس کے ساتھ ساتھ پھیلے ہوئے گھاس کے قطعات میں جمع ہونا شروع ہوگئے تھے ۔تین بجے سہ پہر تک احباب ایک بہت ہی کثیر تعداد میں آجمع ہوئے۔ سکولوں کے بچوں نے ہاتھوں میں پاکستان اور چین کے چھوٹے چھوٹے خوشنما جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے ۔
ربوہ تشریف آوری پر حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے اکرام ضیف کی تعلیم کے مطابق سفیر محترم کا استقبال کیا۔ شام کو قصر خلافت میں سفیر صاحب کے اعزاز میں عصرانہ پیش کیا گیا جس میں ممبران اسمبلی ، بعض غیر از جماعت مہمانوں سمیت کثیر تعداد میں احباب شامل ہوئے ۔سفیر موصوف نے زیر تعمیر مسجد اقصیٰ کا دورہ کیا اور اس کی چھت سے ربوہ کا نظار ہ کیا ۔ رات کو ایوان محمود ربوہ میں سفیر صاحب کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا ۔
اگلے روز صبح موصوف نے جماعتی دفاتر کا معائنہ کیا ، وکالت تبشیر کے تحت بیرون ممالک میں اسلام احمدیت کی تبلیغی سرگرمیوں کے بارےمعلومات حاصل کیں،مدرسة الحفظ اور جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم غیر ملکی طلباء سے مل کرغیر معمولی جذبات کا اظہار کیا۔
صبح ساڑھے دس بجے کے قریب سفیر محترم نے حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ سے الوداعی ملاقات کی اور بذریعہ موٹر کار واپس لائل پور تشریف لے گئے ۔
( تاریخ احمدیت جلد 28صفحہ 78)
مکر م محمد عثمان چُو صاحب کی خدمات
جن سعید فطرت چینیوں نے اسلام احمدیت قبول کی ان میں نمایاں نام مکرم محمد عثمان چوچنگ شی صاحب کا ہے۔آپ 13؍دسمبر1925ء میں چین کے صوبہ آن خوئی میں پیدا ہوئے اور13؍اپریل 2018ء کو انگلستان میں وفات پاگئے۔آپ کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
’’عطاء المجیب راشد صاحب نے ان کا جو خلاصہ لکھا ہے وہ اچھا خلاصہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت بڑا خلا چھوڑا۔ بلند پایہ بزرگ تھے۔ کہتے ہیں مَیں چینی صاحب کی خصوصیات کے بارے میں سوچ رہا تھا تو مجھے ذہن میں آیا کہ بہت دعا گو اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ نمازوں کے بےحد پابند، بیماری اور کمزوری کے باوجود مسجد جانے والے، بہت نیک اور خدا ترس، بے ضرر انسان تھے۔ ہر ایک کی خیر خواہی کرنے والے اور نیک مشورہ دینے والے تھے۔ بہت سادہ مزاج اور بے تکلف انسان تھے۔ بہت مہمان نواز اور محبت بھرے اصرار سے مہمان نوازی کرنے والے تھے۔ بہت بلند ہمت اور کمزوری کے باوجود متحرک خدمت دین میں مصروف اپنی ذمہ داری کو بہت اخلاص محنت اور محبت سے ادا کرنے والے، خدمت دین کرتے چلے جانے کی ایک دُھن بہت نمایاں تھی۔ خلافت احمدیہ کے سچے، بے ریا اور باوفا خدمت گزار تھے۔ ہمیشہ بہت خندہ پیشانی اور مسکراہٹ سے ملتے تھے اور بیشمار ان کی خصوصیات ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے جو انہوں نے بیان کی۔‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍اپریل 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18؍مئی2018ءصفحہ9)
چینی زبان میں ترجمة القرآن کی اشاعت
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد پر 1986ء میں مکرم محمد عثمان چُو صاحب نے چینی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کا کام شروع کیا اور اسی سال جون میں حضرت خلیفة المسیح الرابع نے آپ کو پاکستان سے برطانیہ بلا لیا ۔چار سال کی محنت کے بعد اور حضور ؒکی مسلسل نگرانی اور ارشادات کی روشنی میں یہ ترجمہ مکرم محمد عثمان چو چنگ شی نے تیار کیا ۔ اس کے لیے حضور ؒکی اجازت سے ترجمہ میں زیادہ تر تفسیر صغیر کے ترجمہ سے استفادہ کیا گیا ۔چینی ترجمہ کے ساتھ جو فٹ نوٹس دیے گئے ہیں وہ زیادہ تر حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کے انگریزی ترجمہ قرآن (Short Commentry)سے لیے گئے اور ان کا ترجمہ چین کے ایک پروفیسر Zhu Jin ANنے کیا ہے ۔
(روزنامہ الفضل 12؍مارچ 2012ء صفحہ3)
چینی زبان کے ترجمة القرآن کی طباعت 1990ء میں مکمل ہوئی اور اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے جملہ اخراجات حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنی طرف سے ادا کیے ۔
چینی ڈیسک کا قیام
چین میں اسلام احمدیت کی ترویج و اشاعت کے لیے انگلستان میں باقاعدہ چینی ڈیسک قائم ہے ۔ چینی ڈیسک کے توسط سے چین میں اسلام احمدیت کے پیغام کی اشاعت کے ساتھ ساتھ خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشادات اور منشاء کے مطابق چینی قوم کو اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داریاں ادا کی جارہی ہیں۔
چینی زبان میں اسلام احمدیت کی تبلیغ کے لیے ویب سائٹ
چین میں اسلام احمدیت کی اشاعت کےلیے چینی زبان میں ایک ویب سائٹ بھی موجود ہے ۔اس ویب سائٹ کا لنک درج ذیل ہے:
چینی زبان میں کتب و تراجم کی اشاعت
چین میں اسلام احمدیت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے قرآن کریم کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب، خطابات اور ارشادات کے چینی زبان میں تراجم شائع ہوچکے ہیں ۔ اس کے علاوہ چینیوں کو تبلیغ کے لیے مکرم عثمان چینی صاحب کی مصنفہ کتب بھی شائع ہوئی ہیں ۔ ان میں سے اکثر کتابیں جماعت احمدیہ کی چینی زبان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں ۔
چین کے حکومتی وفد اور جماعت احمدیہ کے مابین روابط
2012ءمیں چین کے ایک اعلیٰ سطحی حکومتی وفد نے دورہ اسرائیل کے دوران جماعت احمدیہ کے مرکز کبابیر کا بھی دورہ کیا ۔ اس حکومتی وفد میں چین کے نائب وزیر برائے اقلیتی امور اور دیگر اعلیٰ حکام شامل تھے ۔ اس دورہ کے بعد حکومت چین کی طرف سے وزیر برائے اقلیتی امور نے امیر جماعت احمدیہ فلسطین (کبابیر) مکرم محمد شریف عودہ صاحب کو چین کے دورہ کی دعوت دی۔ جماعت احمدیہ کے نمائندہ چین تشریف لے گئے اور اس دورہ کے ذریعہ چین کے اعلیٰ حکام کو اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔
اسی دورہ کے دوران مکرم محمد شریف عودہ صاحب امیر جماعت احمدیہ فلسلطین نے چین کےوزیر اعظم کے نام امام جماعت احمدیہ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا خط بھی پہنچایا ۔
حضرت خلیفة المسیح ایدہ اللہ کے چینی وزیر اعظم کے نام خطوط
سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیر نے امن عالم کے قیام کے لیے عالمی رہ نماؤں کو خطوط کے سلسلہ میں وزیر اعظم چین کو بھی مخاطب فرمایا ۔حضور انور نے چین کے وزیر اعظم کو اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری ادا فرماتے ہوئے اس خط میں تحریر فرمایا :
’’آپ کے اصولوں کی بنیاد محض اخلاقیات پر ہے مگر میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اُس خدا نے جس کا تصور اسلام نے پیش کیا ہے ، قرآن کریم کو تمام بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لئے نازل کیا ہے او رقرآن کریم وہ تمام اخلاق سکھاتا ہے جن پر آپ عمل پیرا ہیں ۔تا ہم قرآن کریم اس سے بھی بڑھ کر اخلاقی راہنمائی سے بھرا ہوا ہے ۔ یہ انسانیت کی بقا اور اعلیٰ انسانی اقدار کے قیام کی طرف حسین پیرائے میں راہنمائی فرماتا ہے۔‘‘
( بحوالہ عالمی بحران اور امن کی راہ صفحہ 200)
اسی طرح حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نےکورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے بعد دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہوں کو خطوط تحریر فرمائے جس میں ان کو توجہ دلائی کہ وہ موجودہ حالات کوانسانیت کے لیے تنبیہ سمجھیں اس میں وزیر اعظم چین کو بھی خط لکھا گیا۔
(الفضل انٹرنیشنل7؍اگست2020ءصفحہ1)
چینی قوم کے لیے دعا کی اپیل
مسجد مبارک اسلام آباد ( یوکے) کے افتتاح کے بعد اگلے جمعہ کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے چینی قوم کو اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانے کی خاطر دعائیہ تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
’’گذشتہ خطبے میں جو یہاں مسجد کا افتتاح کا خطبہ تھا، مَیں ایک ذکر کرنا بھول گیا تھا کہ اس مسجد کی جب بنیاد رکھی گئی تھی تو میں کینیڈا کے سفر پہ تھا شاید۔ شایدنہیں بلکہ تھا یا جا رہا تھا اور جب انہوں نے تاریخ مقرر کی ہے اور جو تاریخ تھی وہ میرے سفر پر جانے کے بعد کی تھی تو بہرحال سفر کی وجہ سے اینٹ پے دعا کرواکے انہوں نے مجھ سے لے لی تھی اور پھر اس مسجد کی بنیاد 10؍ اکتوبر 2016ء کو دعاؤں کے ساتھ مکرم عثمان چینی صاحب مرحوم نے رکھی تھی اور اس مسجد کی بنیاد کے ساتھ ہی اس سارے پراجیکٹ کی بھی تعمیر شروع ہوئی تھی۔ تو بنیاد اس مسجد کی مکرم عثمان چینی صاحب نے رکھی تھی اور اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چینی قوم کا بھی اس میں حصہ ہے اور اس لیے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ چین میں بھی اسلام کو جلد پھیلانے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ مکرم عثمان چینی صاحب کی بڑی خواہش تھی، ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ چین میں کسی طرح احمدیت اور اسلام کا حقیقی پیغام پہنچ جائے۔ ہمیں جہاں ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کرنی چاہیے وہاں چین میں بھی اور دنیا کے ہر ملک میں بھی احمدیت اور حقیقی اسلام کے پھیلنے کے لیے بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍مئی2019ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 10؍جون 2019ء صفحہ 9)
٭…٭…٭