حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ پایا وہ آنحضرتﷺ کی پیروی کی وجہ سے ہے
دسویں شرط بیعت(حصہ چہارم)
………………………………………………
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’مَیں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر مَیں اپنے سید ومولیٰ ، فخرالانبیاء اورخیرالوریٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا ۔سومَیں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اورمَیں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتاہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبیﷺ کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصہ پا سکتاہے۔ اورمَیں اس جگہ یہ بھی بتلاتاہوں کہ وہ کیاچیزہے جو سچی اور کامل پیروی آنحضرت ﷺکے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ سو یاد رہے کہ و ہ قلب سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اوردل ایک ابدی اور لازوال لذت کا طالب ہوجاتاہے پھر بعد اس کے ایک مصفّٰی اورکامل محبت الٰہی بباعث اس قلب سلیم کے حاصل ہوتی ہے اوریہ سب نعمتیں آنحضرتﷺکی پیروی سے بطوروراثت ملتی ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتاہے
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران: آیت 32)
یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہوتوآئو میری پیروی کرو تا خدابھی تم سے محبت کرے۔ بلکہ یکطرفہ محبت کا دعویٰ بالکل ایک جھوٹ اور لاف وگزاف ہے۔جب انسان سچے طورپر خدا تعالیٰ سے محبت کرتاہے تو خدا بھی اس سے محبت کرتاہے تب زمین پر اس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اس کی ڈال دی جاتی ہے اور ایک قوت جذب اس کوعنایت ہوتی ہے اورایک نُور اس کو دیا جاتاہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتاہے ۔جب ایک انسان سچے دل سے خداسے محبت کرتاہے اور تمام دنیا پر اس کو اختیار کر لیتاہے اور غیراللہ کی عظمت اور وجاہت اس کے دل میں باقی نہیں رہتی بلکہ سب کو ایک مرے ہوئے کیڑے سے بھی بدتر سمجھتاہے تب خدا جو اس کے دل کو دیکھتا ہے ایک بھاری تجلّی کے ساتھ اُس پر نازل ہوتاہے اور جس طرح ایک صاف آئینہ میں جو آفتاب کے مقابل پر رکھا گیاہے آفتاب کا عکس ایسے پورے طورپر پڑتاہے کہ مجاز اور استعارہ کے رنگ میں کہہ سکتے ہیں کہ وہی آفتاب جو آسمان پر ہے اس آئینہ میں بھی موجود ہے ایسا ہی خدا ایسے دل پر اترتاہے اور اس کے دل کواپنا عرش بنا لیتاہے۔یہی وہ امر ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔‘‘
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن،جلد نمبر22۔صفحہ64-65)
پس اس محبت وعشق کی وجہ سے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرتﷺ سے تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاک دل کو بھی اپنا عرش بنایا۔ (حفظ مراتب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ آئندہ بھی دلوں پر اترتا رہے گا۔لیکن اب آنحضرتﷺ کی محبت کا دعویٰ ، آپ ؐ کی کامل اطاعت کا دعویٰ تبھی سچ ثابت ہوگا جب آپ کے روحانی فرزند کے ساتھ محبت اور اطاعت کا رشتہ قائم ہوگا۔ اسی لئے تو آپ فرما رہے ہیںکہ سب رشتوں سے بڑھ کر میرے سے محبت و اطاعت کا رشتہ قائم کرو توتم اب اسی ذریعہ سے آنحضرت ﷺکی اتباع کروگے اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کروگے ۔آپ یہ بات یونہی نہیں فرما رہے بلکہ رسول خدا ﷺ خود ہمیں یہ بات فرما چکے ہیں جیسے کہ فرمایا کہ اگر مسیح اورمہدی کا زمانہ دیکھو تواگرگھٹنوں کے بل تمہیں جانا پڑے تو جاکرمیرا سلام کہنا۔ اتنی تاکید سے ، اتنی تکلیف میں ڈال کر یہ پیغام پہنچانے میں کیا بھید ہے ، کیا رازہے ۔ یہی کہ وہ میرا پیاراہے اور مَیں اس کا پیاراہوں ۔اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ پیاروں تک پہنچ پیاروں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے ۔ اس لئے اگر تم میری اتباع کرنے والے بنناچاہتے ہو تو مسیح موعود کی اتباع کرو، اس کو امام تسلیم کرو، اس کی جماعت میں شامل ہو۔ اسی لئے حدیث میں آتاہے۔ روایت ہے کہ ’’خبردار رہو کہ عیسیٰ بن مریم (مسیح موعود) اور میرے درمیان کوئی نبی یا رسول نہیں ہوگا۔ خوب سن لو کہ وہ میرے بعد امت میں میرا خلیفہ ہوگا۔ وہ ضرور دجال کو قتل کرے گا۔ صلیب کو پاش پاش کرے گا یعنی صلیبی عقیدے کو پاش پاش کردے گا اور جزیہ ختم کردے گا‘‘۔ (اس زمانہ میں جو آپ ہی کا زمانہ ہے اس کا رواج اٹھ جائے گا کیونکہ اس وقت مذہبی جنگیں نہیں ہوں گی۔جزیہ کا رواج اُٹھ جائے گا۔)‘‘ یاد رکھو جسے بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو وہ انہیں میرا سلام ضرور پہنچائے‘‘۔
(المعجم الاوسط للطّبرانی۔ مَن اسمہٗ عیسیٰ۔ المعجم الصغیر للطّبرانی۔ مَن اسْمُہٗ عیسیٰ)
اس حدیث پر غور کرنے کی بجائے اور جنہوں نے غورکیاہے اور اس کی تہ تک پہنچے ہیں ان کی بات سمجھنے کے بجائے آج کل کے علماء اس کے ظاہری معنوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو اس طرح غلط راستے پر ڈال دیا ہواہے اور وہ طوفان بدتمیزی پیدا کیاہواہے کہ خدا کی پناہ۔ہم تو اللہ تعالیٰ کی پناہ ہی ڈھونڈتے ہیں، وہ ان سے نمٹ بھی رہاہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی نمٹے گا ۔اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح موعود منصف مزاج حاکم ہوگا جس نے انصاف کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرنی اورایسا امام ہے جس نے عدل کو دنیا میں قائم کرناہے اس لئے اس سے تعلق جوڑنا، اس کے حکموں پرچلنا ، اس کی تعلیم پرعمل کرنا کیونکہ اس نے انصاف اورعدل ہی کی تعلیم دینی ہے اوروہ سوائے قرآنی تعلیم کے اورکوئی ہے ہی نہیں ۔آج کل کے یہ لوگ اس طرح صلیب کو توڑنے کے پیچھے چل پڑے ہیں کہ ہتھوڑے لے کر مسیح آئے گا اور صلیب توڑے گا۔یہ سب فضول باتیں ہیں ۔صاف ظاہر ہے کہ وہ آنے والا مسیح اپنے آقا اورمطاع کی پیروی میں دلائل سے قائل کرے گا اور دلائل سے ہی صلیبی عقیدے کا قلع قمع کرے گا،اس کی قلعی کھولے گا۔ دجال کو قتل کرنے سے یہی مراد ہے کہ دجالی فتنوں سے امت کو بچائے گا ۔پھرچونکہ مذہبی جنگوں کا رواج ہی نہیں رہے گا اس لئے ظاہرہے کہ جزیہ کا بھی رواج اٹھ جائے گا ۔ اور پھر اس حدیث میں سلام پہنچانے کا بھی حکم ہے ۔ ا ور مسلمان سلام پہنچانے کی بجائے آنے والے مسیح کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں ۔ اللہ ہی انہیں عقل دے۔
پھر ایک اور حدیث ہے جس سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مقام کا پتہ چلتاہے کہ کیوں ہمیں آپ سے اطاعت کا تعلق رکھنا ضروری ہے ۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے فرمایا: جب تک عیسیٰ بن مریم جو منصف مزاج حاکم اور امام عادل ہوں گے مبعوث ہوکر نہیں آتے قیامت نہیں آئے گی۔ (جب وہ مبعوث ہوں گے تو) وہ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ کے دستور کو ختم کریں گے اور ایسا مال تقسیم کریں گے جسے لوگ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوںگے۔(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الفتن باب فتنہ الدجال و خروج عیسیٰ بن مریم و خروج یاجوج و ماجوج)
تو اس حدیث میں بھی چونکہ سمجھنے کی ضرورت تھی، موٹی عقل کے لوگوں کو سمجھ نہیں آئی اور وہ ظاہری معنوں کے پیچھے چل پڑے ۔ عجیب مضحکہ خیز قسم کی تشریح کرتے ہیں ۔صاف ظاہر ہے کہ خنزیر کو قتل کرنے سے مراد خنزیر صفت لوگوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ سؤروں کی برائیاں ، باقی جانوروں کی نسبت تو اب ثابت شدہ ہیں ۔ تووہی برائیاں جب انسانوں میں پیدا ہوجائیں تو ظاہر ہے کہ ان کی صفائی انتہائی ضروری ہے۔ پھریہ ہے کہ وہ مال دیں گے ، مال تقسیم کریں گے ۔اس کو بھی یہ لوگ نہیں سمجھتے۔ ابھی چند دن پہلے پاکستان میں علماء نے جلسہ کیااور حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے خلاف، جماعت کے خلاف انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے ایک یہ بھی سوال اٹھایاکہ مسیح نے آ کرتو مال تقسیم کرناتھا نہ کہ لوگوں سے مانگناتھا۔دیکھو احمدی (وہ تو قادیانی کہتے ہیں) چندہ وصول کرتے ہیں۔اس سے ثابت ہوا کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ اب ان عقل کے ا ندھوں کوکوئی عقلمند آدمی سمجھا نہیں سکتا کہ مسیح جو روحانی خزائن بانٹ رہاہے تم اس کو لینے سے بھی انکاری ہوچکے ہو۔اصل میں بات یہی ہے کہ ان کی دنیا کی ایک آنکھ ہی ہے ۔ اوراس سے آگے یہ لوگ بڑھ بھی نہیں سکتے۔ ان کا یہ کام ہے ، ان کو کرنے دیں، پاکستانی احمدیوں کو زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ ان کے گند اور لغویات سن کر صبر دکھاتے ہوئے ، حوصلہ دکھاتے ہوئے، منہ پھیرکر گزر جایاکریں۔ ان کے گند کے مقابلے میں ہم تسلیم کرتے ہیں کہ واقعی ہم اپنی ہار مانتے ہیں۔ہم ان کے گند کا مقابلہ کرہی نہیں سکتے ۔ لیکن ایک بات واضح کردوں کہ جب بندہ نہیں بولتا تو خدا بولتاہے اورجب خدا بولتاہے تومخالفین کے ٹکڑے ہوامیںبکھرتے ہوئے ہم نے دیکھے ہیں اور آئندہ بھی دیکھیں گے ان شاءاللہ۔
(باقی آئندہ)