عبادات میں تکلیف برداشت کرنے کی حقیقت
قرآن شریف میں
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا(البقرۃ: 287)
آیا ہے اور رہبانیت اسلام میں نہیں ہے۔ جس میں پڑ کر انسان اپنا ہاتھ سکھا لے یا اپنی دوسری قوتوں کو بیکار چھوڑدے یا اور قسم قسم کی تکالیف شدیدہ میں اپنی جان کو ڈالے۔ عبادت کے لئے دُکھ اٹھانے سے ہمیشہ یہ مراد ہوتی ہے کہ انسان ان کاموں سے رُکے جو عبادت کی لذت کو دور کرنے والے ہیں۔ اور اُن سے رکنے میں اوّلاً ایسی ضرور تکلیف محسوس ہوگی۔ اور خدا تعالیٰ کی نارضامندیوں سے پرہیز کرے۔ مثلاً ایک چور ہے اس کو ضروری ہے کہ وہ چوری چھوڑے بدکار ہے تو بدکاری اور بدنظری چھوڑے۔ …اسی طرح نشوں کا عادی ہے تو ان سے پرہیز کرے۔ اب جب وہ اپنی محبوب اشیاء کو ترک کرے گا۔ تو ضرور ہے کہ اوّل اوّل سخت تکلیف اٹھاوے مگر رفتہ رفتہ اگر استقلال سے وہ اس پر قائم رہے گا تو دیکھ لے گا کہ ان بدیوں کے چھوڑنے میں جو تکلیف اس کو محسوس ہوتی ہے۔ وہ تکلیف اب ایک لذت کا رنگ اختیار کرتی جاتی ہے۔ کیونکہ ان بدیوں کے بالمقابل نیکیاں آتی جائیں گی اور ان کے نیک نتائج جو سکھ دینے والے ہیں وہ بھی ساتھ ہی آئیں گے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہر قول و فعل میں جب خدا تعالیٰ ہی کی رضا کو مقدم کرلے گا اور اس کی ہر حرکت اورسکون اﷲ ہی کے امر کے نیچے ہوگی تو صاف اور بیّن طور پر وہ دیکھے گا کہ پورے اطمینان اور سکینت کا مزا لے رہا ہے۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ
لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (یونس: 63)۔
اسی مقام پر اﷲ تعالیٰ کی ولایت میں آتا ہے اور ظلمات سے نکل کر نور کی طرف آجاتا ہے۔
یاد رکھو کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے اپنی محبوب چیزوں کو جو خد اکی نظر میں مکروہ اور اس کے منشاء کے مخالف ہوتی ہیں چھوڑ کر اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالتا ہے تو ایسی تکالیف اٹھانے والے جسم کا اثر روح پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی اس سے متأثر ہو کر ساتھ ہی ساتھ اپنی تبدیلی میں لگتی ہےیہاں تک کہ کامل نیاز مندی کے ساتھ آستانۂ اُلوہیت پر بے اختیار ہو کر گر پڑتی ہے یہ طریق ہے عبادت میں لذت حاصل کرنے کا۔
تم نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنی عبادت میں لذت کا یہ طریق سمجھتے ہیں کہ کچھ گیت گا لئے یا باجے بجا لئے اور یہی اس کی عبادت ہوگی۔ اس سے دھوکا مت کھائو۔ یہ باتیں نفس کی لذت کا باعث ہوں تو ہوں مگر روح کے لئے ان میں لذت کی کوئی چیز نہیں۔ ان سے روح میں فروتنی اور انکساری کے جو ہر پیدا نہیں ہوتے اور عبادت کا اصل منشاء گم ہو جاتا ہے۔ طوائف کی محفلوں میں بھی ایک آدمی ایسا مزا حاصل کرتا ہے تو کیا وہ عبادت کی لذت سمجھی جاتی ہے؟ یہ باریک بات ہے جس کو دوسری قومیں سمجھ ہی نہیں سکتی ہیں کیونکہ انہوں نے عبادت کی اصل غرض اور غایت کو سمجھا ہی نہیں۔
قرآن شریف سے پہلے دو قومیں تھیں۔ ایک براہمہ کہلاتی تھی جو رہبانیت کو پسند کرتی تھی اور اپنی زندگی کا اصل منشاء یہی سمجھ بیٹھے ہوئے تھے۔ عیسائی قوم میں بھی ایسے لوگ تھے جو راہب ہونا پسند کرتے تھے اور ہوتے تھے رومن کیتھولک۔ عیسائیوں میں اب تک ایسے لوگ موجود ہیں اور یہ طریق ان میں جاری ہے کہ وہ راہبانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ مگر اب اُن کی رہبانیت اس حد تک ہی ہے کہ وہ شادی نہیں کرتے ورنہ ہر طرح عیش و عشرت اور آرام کے ساتھ کوٹھیوں میں رہتے اور مکلّف لباس پہنتے اور عمدہ کھانے کھاتے ہیں اورجس قسم کی زندگی وہ بسر کرتے ہیں۔ عام لوگ جانتے ہیں۔ مگر میری مراد رہبانیت سے اس وقت یہی ہے کہ وہ فرقہ جو اپنے آپ کو تعذیب بدن میں ڈالتا تھا اور دوسرا فرقہ ان کے مقابل وہ تھا جواباحت کی زندگی بسر کرتا تھا۔ اسلام جب آیاتو اس نے ان دونو کو ترک کیا اور صراط مستقیم کو اختیار کیا۔ اس نے بتایا کہ انسان نہ رہبانیت اختیار کرے جس سے وہ نفس کُش ہو جاوے اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں کو بالکل بیکار چھوڑ دے اور اس طرح پر ان اخلاق فاضلہ کے حصول سے محروم ہو جاوے۔ جو ان قوتوں کے اندر ودیعت کئے گئے ہیں کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ جس قدر قوتیں انسان کود ی گئی ہیں یہ سب کی سب دراصل اخلاقی قوتیں ہیں۔ غلط استعمال کی وجہ سے یہ اخلاق بداخلاقیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لئے اسلام نے رہبانیت سے منع کیا اور فرمایا کہ
لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ۔
اسلام چونکہ انسان کی کامل تربیت چاہتا ہے اور اس کی ساری قوتوں کا نشوونما اس کا مقصد ہے۔ اس لئے اس نے جائز نہیں رکھا کہ وہ طریق اختیار کیا جاوے جو انسان کی بے حرمتی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی توہین کرنے والاٹھہر جاوے اور پھر اسلام کا منشاء یہ ہے کہ وہ انسان کو افراط وتفریط کی راہوں سے اس اعتدال کی راہ پر چلاوے جو صراط مستقیم ہے۔ اس لئے اس نے اباحت کے مسئلہ کی بھی تردید کی جو دوسرا فرقہ تھا جو قرآن شریف سے پہلے موجود تھا۔ وہ سب کچھ جائز سمجھتا تھا اور آزادی اور بے قیدی میں اپنی زندگی بسر کرتا تھا۔ ساری راحتوں اور لذتوں کی معراج سمجھتا تھا۔ مگر اسلام نے اس کو رد کیا اور انسان کو بے قید بنانا نہ چاہا کہ وہ نہ نماز کی ضرورت سمجھے۔ نہ روزہ کی۔ غرض کسی پابندی کے نیچے ہی نہ رہے۔ اور ایک وحشی جانور کی طرح مارا مارا پھرے۔ اب تک بھی یہ لوگ موجود ہیں۔ وہ وجودی مذہب جو بدقسمتی سے پھیلا ہوا ہے دراصل ایک اباحتی فرقہ ہے اور نماز روزہ کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا اور ممنوعات اور محرمات سے پرہیز نہیں کرتا۔ اس لئے اسلام نے یہ بھی جائز نہ رکھا۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ423۔ 425۔ ایڈیشن 1984ء)