حکومتِ وقت کی اطاعت اور خیر خواہی (قسط چہارم)
گذشتہ اقساط میں ہم نے مختلف علماء اور مشائخ کی تحریرات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا کہ وہ سب بھی حکومت برطانیہ کی تعریف کرنے میں پیش پیش رہے۔ اس سب کے باوجود اِنہیں علماء کی آل اولاد اور مقلدین نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ پر ’’خود کاشتہ پودے‘‘ کا الزام لگا کر درحقیقت عوام الناس کو جماعت احمدیہ سے متعلق بدظن کرنے کی کوشش کی ہے۔
درحقیقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے دعویٰ کے بعد ہر طرف مخالفت کا بازار گرم ہوگیا تھا۔ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم /آریہ اور عیسائی احباب ،ان سب نےکسی نہ کسی مقصد کے تحت آپؑ کی دشمنی اور مخالفت میں از بس کوششیں شروع کردی تھیں۔ ان مخالفتوں میں سب سے زیادہ خود مسلمان علماء ہی آپؑ کے درپے تھے۔ ایک طرف تو یہی علماء آپؑ کے دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر گواہیاں اور دلیلیں دیتے نہ ٹھہرتے تھے اور آپ کی علمی خدمات کو خوب سراہتے تھے ، مگر پھر دعویٰ کے بعد اچانک ان علماء نے پینترا بدل لیا۔
براہین احمدیہ کی اشاعت کے بعد ہندوستان کے اکثر علماء نے آپؑ کو اسلام کی حقیقی خدمت کرنے والا قرار دیا۔ چنانچہ اخبار منشور محمدی نے ایک تفصیلی مضمون (قسط وار) اس بابت شائع کیا جومنشور محمدی جلد 12نمبر21صفحہ 212-218 اور منشور محمدی جلد 13نمبر 17صفحہ 195-198پر شائع ہوا۔ چنانچہ اس تصنیف پر ایک موقع پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’سبحان اللہ کیا تصنیف منیف ہے کہ جس سے دین حق کا لفظ لفظ سے ثبوت ہورہا ہے۔ہر ہر لفظ سے حقیقت قرآن ونبوت ظاہر ہورہی ہے‘‘
پھر بٹالہ کے مشہور ومعروف عالم مولوی محمد حسین بٹالوی کی ایک تحریر پیش ہے جہاں مولوی صاحب نے حضرت اقدسؑ کی تصنیف براہین احمدیہ پر ایک تفصیلی ریویو لکھتے ہوئے کہا کہ
’’ہماری نظر میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظرسے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی …اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی ولسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے ۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ و برہم سماج سے اس زور شورسے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی وجانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھالیا ہو۔‘‘
(رسالہ اشاعۃ السنہ جلد 7نمبر6صفحہ169)
محمد حسین بٹالوی کے ان ریویو پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک مرتبہ فرمایا:
’’ہمیں اس کی حالت پر تعجب ہے کہ جس وقت ایک درخت کا ابھی تخم ہی زمین میں ڈالا گیا ہے اور کسی طرح کا نشوونما نہ پتہ نکلا ہے نہ پھل لگا ہے نہ کو ئی پھول تو اس معدومی کی حالت میں تو اس کی تعریف کی جا تی ہے کہ اس کی نظیر ۱۳ سا ل میں کہیں نہیں ملتی اور اب جب وہ درخت پھلا اور پھو لا اور نشوونما پائی تواس کے وجود سے انکار کیا جا تا ہے ابتدا میں ہمارے دعویٰ کی مثال رات کی تھی اس وقت تو شبیر کی طرح اسے قبول اور پسند کیا اور اب جب دن چڑھا اور سورج کی طرح وہ چمکا تو آنکھ بند کر لی۔
جن ایام میں شناخت کے آثار نہ تھے اور اس وقت یہ امر مستور تھاتوریویو لکھے اور را ئے ظاہر کی اب یہ وقت آیا تھا کہ وہ اپنے ریویو پر فخر کرتا کہ دیکھو جو با تیں مَیں نے اول کہی تھیں وہ آج پوری ہو رہی ہیں اور میری اس فراست کے شواہد پیدا ہو گئے ہیں مگر افسوس کہ اب وہ اپنی فراست کے خود ہی دشمن ہو گئے ہم نے کو نسی با ت نئی کی ہے جس حکم کے وہ لوگ منتظر ہیں بھلا ہم پوچھتے ہیں کہ کیا اس نے آکر ہر ایک رطب ویابس کو قبول کر لینا ہے اور وہ وحی کی پیروی کر ے گا یاکہ ان مختلف مولویوں کی ؟ اس نے آکر انہی کی ساری با تیں قبول کر لینی ہیں تو پھر اس کا وجود بیہودہ ہے ۔
(البدر جلد 2 نمبر 16 صفحہ 123مورخہ 8؍مئی 1903ء)
البتہ حضور علیہ السلام کے دعویٰ کے بعد بٹالوی صاحب نے مختلف حیلے بہانے سے آپؑ کی مخالفت میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ چنانچہ اکتوبر 1898ء میں حضورؑ کی بابت حکومت انگلشیہ کو بدگمان کرنے اور مقدمہ کرنے کی نیت سے مولوی صاحب نے ایک اشتہار بھی شائع کروایا جس کا مقصد انگریز حکومت کو حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے متعلق بدگمان کرنا اور آپؑ کی عزت کو پامال کرنا تھا۔اس میں انہوں نے ایک طرف تو انگریز حکومت سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اپنے لکھے گئے تمام ایسے مضامین جو حکومت برطانیہ کے حق میں تھے، ان کی ایک فہرست بھی شامل کی۔ جبکہ دوسری طرف حضرت مسیح موعودؑ کو غدار اور حکومت کےلیے خطرے کے روپ میں پیش کیا۔چنانچہ ان مضامین کی وجہ سے حضورؑ کو ایک سنگین مقدمہ میں گورداسپور طلب بھی کیا گیا۔ حضورؑ نے اس کے جواب میں کتاب ’’کشف الغطاء‘‘ تحریر فرمائی جس کا انگریزی ترجمہ بھی بعد ازاں شائع کیا گیا جو ایک مقدمہ کے موقع پر عدالت میں بھی پیش کیا گیا۔اس ترجمہ کی بابت حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ اپنی تحریر لائف آف احمد میں لکھتے ہیں کہ
“Ahmad A.S came to know of this case between December 10th, and 15th. He wrote and published a booklet entitled Kashful Ghita on December 27th, 1898, in which he addressed the Government in order to acquaint them with the peaceful principles and work of his movement. In this he also drew the attention of the authorities to the abuse and vituperation to which he was being subjected by Maulawi Muhammad Husain and his friends…A printed copy of the English Translation of this booklet was later put on the court file”
(Life of Ahmad by A.R Dard page: 607 Footnote/Published in 2008)
اسی طرح خونی مہدی کی بابت عام مسلمانوں میں پائے جانے والے نظریات کو حضور ؑکی طرف منسوب کر کے حکومت کو بدگمان بھی کیا جاتا رہا اور یہ گمان دیا جاتا رہا کہ مسیح کا کام تو تلوار اور جہاد کے زور پر غیر مسلموں کو تلف کرنا ہے۔ اور اب مسیحیت کے دعویٰ کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا بھی اسی طرز پر اسلام کی تبلیغ کا ارادہ ہے۔
(ماخوذ ازمجلس سوال وجواب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ29؍مئی1987ء)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خونی مہدی کے اس نظریے کو غلط قرار دیا اور بارہا اس کی حقیقت بیان فرمائی۔چنانچہ ایک موقع پر فرمایا کہ
’’بیرونی طور پر مسیح کا کام کیاہے؟ جو اس کا یہ نام رکھا۔مسیح ابن مریم کا کام دفع شر ہو گا اور مہدی کا کام کسب خیر؛چنانچہ غور کرو مسیح کا کام
یَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَاور یَکْسُرُالصَّلِیْبَ
بتایا ہے۔یہی دفع شر ہے،لیکن ہمارا مذہب ہرگز نہیں ہے کہ وہ دفع شر کے لیے تیغ وسنان لے کر جنگ کے واسطے نکلے گا۔
علماء جو یہ کہتے ہیں کہ وہ جنگ کرے گا یہ صحیح نہیں بلکہ بالکل غلط ہے۔یہ کیا اصلاح ہوئی کہ ابھی آپ آئے اور آتے ہی تلوار پکڑ کر لڑائی کے واسطے میدان میں نکل آئے۔یہ نہیں ہو سکتا،صحیح اور سچی بات وہی ہے جو خداتعالیٰ نے ہم پر کھولی،جو احادیث کے منشاء کے موافق ہے کہ مسیح کوئی خونی جنگ نہ کرے گا اور نہ تلوارپکڑ کر لڑنا اس کا منصب ہے۔بلکہ وہ تو اصلاح کے لیے آئے گا۔ہاں یہ ہم مانتے ہیں کہ اس کا کام دفع شر ہے اور وہ حُجَجاور براہین سے کرے گا ۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 299)
پھر آپؑ نے مزید فرمایا کہ
’’جاننا چاہیے کہ قرآن شریف یونہی لڑائی کے لئے حکم نہیں فرماتا۔بلکہ صرف ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرماتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بندوں کو ایمان لانے سے روکیں۔ اور اس بات سے روکیں کہ وہ خدا کے حکموں پر کاربند ہوں۔اور اس کی عبادت کریں ۔اور ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرماتا ہے جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں۔اور مومنوں کو ان کے گھروں اور وطنوں سے نکالتے ہیں۔اور خلق اللہ کو جبراً اپنے دین میں داخل کرتے ہیں۔اور دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔اور لوگوں کو مسلمان ہونے سے روکتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے۔اور مومنوں پر واجب ہے جو ان سے لڑیں اگر وہ باز نہ آویں۔‘‘
(نورالحق حصہ اول ،روحانی خزائن ،جلد8،صفحہ62)
خونی مہدی کے عقائد کی تردید کرتے ہوئے آپؑ نے قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے کو ہی خلاصی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’موجود ہ زما نہ میں جو ان کو اپنے خونی مہدی اور مسیح کی آمد کی امید اور شوق ہے کہ وہ آتے ہی ان کو سلطنت لے دیگا اور کفا رتبا ہ ہو ں گے ۔یہ ان کے خا م خیال اور وسوسے ہیں ۔ ہما را اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتدا ء میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زما نہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا نہ تلوار سے۔ہرایک امر کے لیے کچھ آثا رہو تے ہیں اور اس سے پہلے تمہید یں ہو تی ہیں ہو نہا ربروا کے چکنے چکنے پا ت بھلا اگر ان کے خیا ل کے موافق یہ زما نہ ان کے دن پلٹنے کا ہی تھا اور مسیح نے آکے ان کو سلطنت دلا نی تھی تو چاہئیےتھا کہ ظاہر ی طاقت ان میں جمع ہو نے لگتی ۔ہتھیا ر ان کے پا س زیا دہ رہتے۔ فتوحا ت کا سلسلہ ان کے واسطے کھولا جا تا ۔مگر یہاں تو بالکل ہی برعکس نظر آتا ہے ہتھیا ر ان کے ایجا دنہیں ۔ملک ودولت ہے تو اورروں کے ہا تھ ہے ۔ہمت ومردانگی ہے تواوروں میں ۔یہ ہتھیا روں کے واسطے بھی دوسروں کے محتاج ۔دن بدن ذلت اور ادباران کے گرد ہے جہاں دیکھو جس میدان میں سنوانہیں کوشکست ہے۔بھلا کیا یہی آثا ر ہو اکرتے ہیں اقبال کے ؟ ہرگز نہیں یہ بھولے ہو ئے ہیں زمینی تلواراور ہتھیاروں سے ہرگز کا میاب نہیں ہو سکتے ۔ابھی تو ان کی خود اپنی حالت ایسی ہے اور بیدینی اور لا مذہبی کا رنگ ایسا آیاہے کہ قابل عذاب اور مورد قہر ہیں۔پھر ایسوں کو کبھی تلوار ملی ہے ؟ ہرگزنہیں۔ان کی ترقی کی وہی سچی راہ ہے کہ اپنے آپ کو قر آن کی تعلیم کے مطابق بناویں اور دعا میں لگ جاویں ان کو اب اگر مدد آ وے گی تو آسمانی تلوار سے اور آسمانی حربہ سے نہ اپنی کوششوں سے اور دعا ہی سے ان کی فتح ہے نہ قوت بازو سے یہ اس لیے ہے کہ جس طرح ابتدا تھی انتہا بھی اسی طرح ہو ۔آدم اول کو فتح دعاہی سے ہو ئی تھی۔
ربنا ظلمنا انفسنا۔الخ (الاعراف :24)
اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زما نہ میں شیطان سے آخری جنگ کرنا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہو گی ۔
( الحکم جلد 7 نمبر 12 صفحہ 7تا8مورخہ 31؍ مارچ 1903ء)
آپؑ نے اپنے اوپر لگائے گئے مختلف الزامات کی نہ صرف تردید کی بلکہ مسلمانوں میں رائج خونی مہدی کے عقائد کی حقیقت بھی بھرپور طور پر بیان کی۔ اسی طرح جہاد کے متعلق پائے جانے والے نظریات اور بدگمانیوں کے رفو کےلیے بھی کافی کچھ تحریر کیا۔ جس کی تفصیل انشاء اللہ آئندہ قسط میں بیان ہوگی۔
(جاری ہے)