احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت مسیح موعودؑ کی پاکیزہ اور مقدس ومطہرجوانی
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی سوانح اور سیرت کے متعلق جتنا بھی دیکھیں ایک چیز جو سب سے نمایاں ہو کر نظر آتی ہے وہ آپؑ کاخلوت میں عبادت کے لیے مصروف رہناہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام کو شروع سے ہی نماز اور قرآن کریم کے ساتھ گہرا تعلق اور ایک فطری لگاؤ تھا جو عمر کے آخر تک گویا آپؑ کے دل و دماغ کو معطر کرتا رہا۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانینے آپؑ کے ابتدائی سوانح میں یہ عجیب واقعہ درج کیاہے:
’’سخت فروگزاشت ہو گی اگر میں آپؑ کے بچپن کے ایک خاص واقعہ کا ذکر نہ کروں۔ اس سے معلوم ہو گا کہ آپ کی خواہش اس عمر میں جب کہ کھیل کود کے ولولے اور امنگیں ہوتی ہیں کیا تھی۔ یہ واقعہ کیا عجب! بہت سے بچوں اور جوانوں کے لئے ہدایت کا موجب ہو۔ اور بہت سے بوڑھوں کے لئے تلافی مافات کے لئے استغفار اور توبہ کی طرف لے جاوے۔
بچپن میں ہی نماز کی خواہش تھی اور دعاؤں پر فطرتی ایمان تھا!
تیرہویں صدی کی خصوصیتوں اور ملک کی رسمیت کے مؤثرات نے مسلمانوں میں دینی حرارت اور مذہبی بُدھی کو بہت ہی کم کر دیا تھا۔ نماز روزہ کے پابند اکسیر کا حکم رکھتے تھے حضرت مسیح موعودؑ کا خاندان بھی ان اثرات سے خالی نہ تھا۔ ان کے گھر میں بھی بہت سی بدعات نے جگہ لے رکھی تھی۔ مگر آپ کی فطرت اور افتاد طبیعت ایسی واقع ہوئی تھی کہ بہت چھوٹی عمر میں آپ کو نماز کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ والدہ صاحبہ مرزا سلطان احمد صاحب جو ابھی بچہ ہی تھیں۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم ہی کے گھر رہا کرتی تھیں۔ کیونکہ ان کے والد مرزا جمعیت بیگ صاحب بھی یہاں ہی رہتے تھے وہ بھی حضرت مرزاغلام احمد صاحب کو کبھی کبھی استاد کے پاس پڑھنے کے لئے چھوڑنے جایا کرتی تھیں یہ مکتب کہیں باہر نہ تھا۔ بلکہ گھر ہی کے ایک حصہ میں تھا۔ یعنی دیوان خانہ کے ایک حصہ میں اس وقت نہ تو ان کے بچوں کی عمر شادی کے قابل تھی اور نہ گھر بھر میں کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ آئندہ یہ دونوں بچے نکاح کے سلک میں منسلک ہوں گے۔ ان ایام میں حضرت مرزا صاحب ان کو کہا کرتے کہ … دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے !اس فقرہ میں کوئی خاص اثراور قبولیت تھی کہ پورا ہو گیا۔ بچوں کو کھیل کود کا شوق ہوتا ہے۔ ان کی خواہشات اور آرزوئیں بہت سطحی ہوتی ہیں۔ مگر اس بچہ کو دیکھو کہ اس کو جو خواہش پیدا ہوتی ہے وہ بہت ہی کم بوڑھوں اور جوانوں کو بھی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ نماز کے لئے کیسا جوش اور تڑپ رکھتے تھے۔ اور یہ بھی کہ آپ دعاؤں کی قبولیت پر اسی وقت سے ایک ایمان رکھتے تھے۔‘‘
(حیات احمدؑ جلداول صفحہ244، 245)
اپنے خداسے عشق اورمحبت کا یہ بڑھاہوا جذبہ تھا کہ جو بچپن کی حدوں سے نکل کر آپ کی ایک ایک لمحہ کی بڑھتی ہوئی زندگی کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا اور یہ جذبہ زندگی کے کسی موڑ پر کسی مقام پر کم ہوانہ ماند۔ دراصل آپؑ کی زندگی آپؑ کے دوعشقوں سے عبارت تھی۔ ایک خدائے بزرگ و برتر سے عشق اور دوسرا اپنے آقا ومطاع حضرت محمدمصطفیٰﷺ سے عشق۔ نظم ہویا نثر، عربی ہویا فارسی یا اردو ساراکلام انہیں دوعشقوں کے نور سے منورہے۔اس پر انشاء اللہ سیرت کے ابواب میں تفصیل سے بات ہوگی۔ صرف ایک شعر اور ایک اقتباس تحریر کی ملاحت اوربرکت کی خاطر ذکرکیاجاتاہے۔
آپؑ اپنے محسن اورمنعم اور خالق اور مالک اور معبود اور مقصود اور مطلوب اورمحبوب خدا کو مخاطب کرکے یوں گویاہیں:
’’اے میرے قادر خدا! اےمیرےتوانا اور سب قوتوں کے مالک خداوند!…دیکھ! میری روح نہایت توکل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کررہی ہے جیساکہ پرندہ اپنےآشیانہ کی طرف آتاہے…میں تجھے پہچانتاہوں کہ توہی میراخداہے اس لئے میری روح تیرے نام سے ایسی اچھلتی ہے جیساکہ شیرخوار بچہ ماں کے دیکھنے سے‘‘۔
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 510، 511)
فارسی منظوم کلام میں اپنی محبت کا اظہار یوں فرماتے ہیں :
دلبرِ من تو ہستی اے جاناں
دل بتو بستہ ام زِ ہر دو جہاں
اے میرے محبوب مولیٰ ! میرادلبر تُو ہے، میں نے دونوں جہانوں میں تجھ سے ہی دل کو باندھ لیاہے۔
من زِمادر برائے تو زادم
ہست عشقت غرض زایجادم
مجھے تو میری ماں نے تمہارے لئے ہی جناہے۔ تیراعشق ہی میری پیدائش کی غرض ہے۔‘‘
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 533)
آپؑ کی سوانح کامطالعہ کیا جائے یہاں تک کہ مخالف سے مخالف مصنف اورمعترض کی کتابوں کوبھی اگر دیانتدارانہ اور غیرجانبدارانہ نظر سے دیکھاجائے تو ہرکوئی یہ کہنے پر مجبورہوگا کہ بچپن ہو یا جوانی آپؑ نے کسی قسم کی لغویات کو اختیار نہیں کیا۔ آپؑ کی عمرکا یہ دور بھی ایک پاکیزہ اور صاف ستھرا معصومانہ دور تھا۔ جس نے بھی آپ کودیکھا وہ آپ کی اس معصومانہ پاکیزگی کو اپنی یاد سے زندگی بھر محو نہیں کر پایا۔
آپؑ کی ا س پاکیزہ جوانی کے درجنوں چشمدید گواہ ہیں۔ چند ایک روایات درج کی جاتی ہیں۔
مہاپُرش ………خداکے بڑے بھگت
قادیان کی ہندوآبادی جو عقیدے کے اعتبار سے تو مخالف تھی ہی لیکن حضرت اقدسؑ کے دعویٰ کے بعد یہ مخالفت عداوت اور بغض کاروپ اختیارکر چکی تھی۔ اس عداوت اور مخالفت کے باوجود آپؑ کے بارہ میں وہ لوگ کیا خیال رکھتے ہیں۔ ایک روایت سیرت المہدی میں یوں ہے:
’’میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مستری محمد مکی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب کبھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیرکے واسطے تشریف لے جاتے اور بازار میں سے گذرتے تو بعض ہندو دکاندار اپنے طریق پر ہاتھ جوڑ کر حضورعلیہ السلام کو سلام کرتے اور بعض تو اپنی دکان پر اپنے رنگ میں سجدہ کرنے لگتے۔ مگر حضرت صاحب کو خبر نہ ہوتی۔ کیونکہ آپ آنکھیں نیچے ڈالے گذرتے چلے جاتے تھے۔ ایک دن مستری صاحب نے بعض عمر رسیدہ ہندو دکانداروں سے دریافت کیا۔ کہ تم مرزا صاحب کو کیا سمجھتے ہو جو سجدہ کرتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا۔ کہ یہ بھگوان ہیں، بڑے مہاپرش ہیں۔ ہم ان کو بچپن سے جانتے ہیں۔ یہ خدا کے بڑے بھگت ہیں۔ دُنیا بھر کو خدا نے ان کی طرف جھکا دیا ہے۔ جب خدا ان کی اتنی عزّت کرتا ہے تو ہم کیوں نہ ان کی عزّت کریں …مستری صاحب کا بیان ہے کہ مَیں نے متعدد مرتبہ قادیان کے ہندوؤں سے حضرت صاحب کے حالات دریافت کئے مگر کبھی کسی ہندو نے حضرت صاحب کا کوئی عیب بیان نہیں کیا۔ بلکہ ہر شخص آپ کی تعریف ہی کرتا تھا۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 815)
پاک صاف اورنیک
قادیان میں آپؑ کے ایک بچپن کے ساتھی کی گواہی جن کے ساتھ آپ نےاپنی عمرکا یہ زمانہ گزاراہواتھا ملاحظہ فرمائیے:
’’ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں سید محمد علی شاہ صاحب سے اس معیار کے پیش نظر کہ انبیاء علیہ السلام کی پہلی زندگی ہرقسم کے عیبوں سے پاک اور معصومانہ ہوتی ہے عام طور پر حضوؑ ر کی نسبت دریافت کرتا تھا۔ ان کی زبانی جو باتیں مجھے معلوم ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ سید محمد علی شاہ صاحب کہا کرتے تھے کہ مرزا صاحب بچپن سے پاک صاف اور نیک ہیں۔ ان کی زندگی کی نسبت کوئی کسی قسم کا شبہ نہیں کرسکتا اور ان کے والد صاحب ان کو اکثر ’’مسیتڑ‘‘ کہا کرتے تھے۔ اگر کوئی دریافت کرتا کہ مرزا غلام احمد صاحب کہاں ہیں ؟تو وہ کہاکرتے تھے کہ مسجد میں جاکردیکھ اگر وہاں نہ ملے تو ناامید نہ ہوجا نا۔ ملے گا بہر حال مسجد میں۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلددوم روایت نمبر1240)
’’ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک بابامیراں بخش ہوتا تھا جو سید محمد علی شاہ صاحب کا نائی تھا اور بوڑھا آدمی تھا۔ اس سے بھی میں حضرت صاحبؑ کی نسبت دریافت کیا کرتا تھا۔ اس نے ہمیشہ یہی ظاہر کیا کہ آپ بچپن سے نیک اور شریف تھے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ حضور(علیہ السلام) بچپن میں اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ ریوڑیاں آپ کو مرغوب تھیں جو آپ اپنے ہم جولیوں میں بانٹ کر کھایا کرتے تھے۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر8124)
موضع بہادر حسین ضلع گورداسپور کے ایک سربرآوردہ شخص کی گواہی ہے کہ ایک مرتبہ آپؑ اپنے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کے گاؤں آئے تھے۔ یہ گاؤں ان کی جاگیر تھا۔ مرزا غلام قادر صاحب ہمارے ساتھ کھیلتے اور جو جو کھیلیں ہم کرتے وہ بھی کرتے مگر مرزا غلام احمد صاحبؑ نہ لڑکوں کے ساتھ کھیلتے اور نہ شوخی وغیرہ کی باتیں کرتے بلکہ چپ چاپ بیٹھے رہتے۔
(باقی آئندہ)