خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍ اکتوبر 2020ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابیحضرت معوذ بن حارث اورحضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حضرت معوذؓ کو اپنے دونوں بھائیوں معاذؓ اور عوفؓ کے ساتھ غزوۂ بدر میں شمولیت کی توفیق ملی۔حضرت معوذ ؓ غزوۂ بدر میں ہی لڑتے لڑتے شہید ہوئے حضرت ابی غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شریک رہے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍ اکتوبر 2020ء بمطابق 16؍ اخاء 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 16؍ اکتوبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم سفیر احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج مَیں جن صحابی کا پہلے ذکر کروں گا وہ ہیں حضرت معوذ بن حارث۔آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلے خزرج سے تھا اور آپؓ ستّر انصار کے ہم راہ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل تھے۔ آپؓ کی شادی امِّ یزید بنتِ قیس سے ہوئی تھی اور اس شادی سے آپؓ کی دو بیٹیاں تھیں۔حضرت معوذؓکو اپنے دونوں بھائیوں معاذؓ اور عوفؓ کے ساتھ غزوۂ بدر میں شمولیت کی توفیق ملی،ان تینوں کو بنو عفراء بھی کہا جاتا تھا۔
جنگِ بدر کے روز رسولِ خداﷺ نے ابوجہل کا حال معلوم کرنے کا ارشاد فرمایا تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ گئے اور انہوں نے دیکھا کہ ابوجہل کوعفراء کے دو بیٹوں نے تلواروں سے اس قدر زخمی کردیا ہے کہ وہ بےحس وحرکت پڑا مرنےکے قریب ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ابوجہل نے عبداللہ بن مسعودؓ سے کہا کہ مجھے اَور توکوئی افسوس نہیں صرف یہ ہے کہ مجھے مدینے کے سبزیاں اگانے والے اور کھیتی باڑی کرنے والے بچوں نے ماردیا۔ پھر اُس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میری گردن ذرا لمبی کرکے کاٹ دوجس پر عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ تیری یہ خواہش بھی پوری نہیں ہونے دوں گا اور اس کی گردن کو تھوڑی کے پاس سے سختی سے کاٹ دیا۔کفّارِ مکّہ مدینے والوں کو بڑا ذلیل خیال کرتے تھے پس ابوجہل کو ایسی حسرت دیکھنی نصیب ہوئی کہ اُس کی آخری خواہش بھی پوری نہ ہوسکی۔ حضرت معوذ غزوۂ بدر میں ہی لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔
اگلے صحابی حضرت ابی بن کعبؓ کا ذکر ہے جو قبیلہ خزرج کی شاخ بنو معاویہ سےتعلق رکھتے تھے۔متوسط قامت ابی بن کعبؓ کوبیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل ہونے نیز لکھنا پڑھنا جاننے کے سبب وحی لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔آپؓ کی مؤاخات حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ یاحضرت سعیدؓ بن زید کے ساتھ قائم ہوئی۔حضرت ابی بن کعبؓ کو قرآن کا بہت عِلْم تھاچنانچہ ذکر ملتا ہے کہ خداتعالیٰ نے رسول اللہﷺ کوفرمایا کہ آپؐ ابی کو قرآن پڑھ کر سنائیں اور آنحضورﷺنے فرمایا کہ میری امّت کے سب سے بڑےقاری ابیؓ ہیں۔حضرت مصلح موعودؓ نےحضرت ابی کو عبداللہ بن مسعودؓ،سالمؓ مولیٰ ابی حذیفہ اور معاذ بن جبلؓ کے ساتھ چار قرّائے امّت اور پندرہ مستند ترین کاتبینِ وحی میں شمار فرمایا ہے۔
ایک موقعے پر رسول اللہﷺ نے حضرت ابی ؓسے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ مَیں سورة البیّنة تمہیں پڑھ کر سناؤں۔ آپؓ نے پوچھا کہ کیا میرا نام لیا تھا،آپؐ نے فرمایا ہاں۔ اس پر حضرت ابیؓ رو پڑے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جسے قرآن کا ذوق ہو وہ ابیؓ کے پاس آئے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ چار اشخاص نے رسول اللہﷺ کے زمانے میں سارا قرآن حفظ کرلیا تھا اور یہ سب انصاری تھے۔حضرت ابی بن کعبؓ،حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابوزیدؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میری امّت پر سب سے زیادہ مہربان حضرت ابوبکر ؓہیں اور خداکےدین کی بابت سب سے زیادہ سخت حضرت عمرؓ ہیں۔ حیا میں سب سے کامل حضرت عثمانؓ، حلال و حرام کا سب سے زیادہ عِلْم رکھنے والے حضرت معاذ بن جبلؓ،فرائض کو سب سے بڑھ کر جاننے والے زید بن ثابتؓ اور قرأت کے سب سے زیادہ جاننے والے حضرت ابی بن کعبؓ ہیں۔ فرمایا ہر امّت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امّت کے امین حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح ہیں۔
کتاب یا قرآن کے آخر میں کاتب کا نام لکھنے کا دستور حضرت ابیؓ نے شروع کیا۔آپؓ نے قرآن کا ایک ایک حرف رسول اللہﷺ سے سُن کر یاد کیا تھا۔آپؓ بےجھجھک جو سوال کرنا چاہتے وہ پوچھتے اورآنحضورﷺ بھی آپؓ کے شوق کےپیشِ نظر ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ فرماتے۔ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نےنمازِ فجر پڑھائی تو ایک آیت پڑھنا بھول گئے۔ نماز کے بعد آپؐ نے لوگوں سےپوچھا کہ کسی نے میری قرأت پر خیال کیا تھا تو تمام لوگ خاموش رہے۔ پھر آپؐ نے ابی بن کعبؓ کے متعلق دریافت فرمایا تو ابیؓ نےعرض کیا کہ آپؐ نے فلاں آیت نہیں پڑھی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا مَیں جانتا تھا کہ تمہارے سوا کسی کو ادھر خیال نہیں ہوا ہوگا۔ حضرت ابی بن کعبؓ کو فنِ قرأت میں جو کمال حاصل تھا اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ خودآنحضرتﷺ ان سے قرآن کا دور کرواتے۔ جس برس حضورﷺ کی وفات ہوئی آپؐ نے فرمایا کہ جبرئیل نے کہا ہے کہ ابیؓ کو قرآن سنا دیجیے۔
ایک مرتبہ حضرت ابیؓ نے دو افراد کی قرأت کو اوپرا جانالیکن حضورﷺ نے ان کی قرأت کو درست قراردیا تو اس پر حضرت ابیؓ شرمندگی کے مارے پسینے سے شرابور ہوگئے۔ آپؓ ایک ایرانی شخص کو قرآن پڑھایا کرتے تھے جو ‘اثیم’ کا لفظ درست ادا نہ کر پاتا تھا۔ حضرت ابیؓ سخت پریشان تھے کہ وہاں سے رسول کریمﷺ کا گزر ہوا۔ آپؐ نے فرمایااس سے ‘تاظیم’ کہلواؤ۔ جب ابیؓ نے ‘تاظیم’ کہلوایا تو اس ایرانی نے درست لفظ ‘اثیم’ ادا کردیا۔ ایک مرتبہ خطبۂ جمعہ کے دوران رسول اللہﷺنے سورۂ برات کی تلاوت فرمائی تو حضرت ابودرداءؓ اور ابوذرؓنے اثنائے خطبہ حضرت ابیؓ سے پوچھا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی۔ آپؓ نے انہیں اشارے سے خاموش کروادیا۔ نماز کے بعد حضرت ابیؓ نے فرمایا آج ایک لغو حرکت کی وجہ سے تم دونوں کی نماز بےکار ہوگئی۔ اس پر وہ دونوں رسول خداﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے حضرت ابیؓ کی بات کو درست قرار دیا اور فرمایا کہ خطبے میں تمہیں بولنا نہیں چاہیے تھا۔
ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے ابیؓ سے دریافت فرمایا کہ کتاب اللہ میں سب سے عظیم آیت کون سی ہے۔ آپؓ نے عرض کیاکہ اللہ اور اس کا رسولؐ بہترجانتے ہیں۔ دوسری بار دریافت فرمانے پر آپؓ نے آیت الکرسی کے ابتدائی الفاظ بیان فرمائے۔ رسول اللہﷺ نے آپؓ کے جواب کو پسند کرتے ہوئے فرمایا عِلْم تمہیں مبارک ہو۔
آپؓ نے حضرت طفیل کو قرآن پڑھایا تو انہوں نے ایک کمان ہدیتاً پیش کی اسی طرح کسی شخص نے ایک کپڑا پیش کیا۔ رسول اللہﷺکوعِلْم ہوا توفرمایا واپس کردو اور آئندہ ایسے ہدیے سے پرہیز کرنا۔ آپؓ اس بات پر اتنے محتاط ہوئے کہ جب شام کے لوگ آپؓ سے قرآن پڑھتے اور کاتبوں سے لکھواتے تو کتابت کے معاوضے کے طور پر انہیں اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیتے لیکن حضرت ابیؓ ایک وقت بھی ان کی دعوت منظور نہ کرتے تھے۔
حضرت ابیؓ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شریک رہے۔ غزوۂ احد میں آپؓ کو تِیر لگا تو رسول اللہﷺنے علاج کےلیے ایک طبیب کو بھجوایا۔ 9؍ہجری میں جب زکوٰة فرض ہوئی تو آنحضرتﷺ نے تحصیلِ صدقات کےلیے عمّال روانہ فرمائے چنانچہ حضرت ابیؓ قبیلہ بنوبلی،بنواظہر اور بنو سعد کے عامِل مقرر ہوئے۔
حضرت ابو بکرؓ کے عہد میں آپؓ کو قرآن مجید کی ترتیب و تدوین کے کام کا نگران مقرر کیا گیا۔ آپؓ قرآن کے الفاظ بولتے اور باقی لوگ لکھتے جاتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں مجلسِ شوریٰ کا قیام ہوا جس میں انصار اور مہاجرین میں سے مقتدر صحابہ شامل تھے۔ قبیلہ خزرج کی طرف سے حضرت ابی بن کعبؓ بھی اس کے ممبر تھے۔ رمضان کی ایک رات حضرت عمرؓ نے لوگوں کو مسجد میں علیحدہ علیحدہ اور ٹولیوں کی شکل میں نماز پڑھتے دیکھا تو انہیں حضرت ابیؓ کی اقتدا میں اکٹھا کردیا۔حضرت ابیؓ نے آنحضرتﷺ سے احادیث کا بہت بڑا حصّہ سنا تھا چنانچہ حضرت عمرؓ سمیت بہت سے صحابہ عِلْمِ حدیث میں آپؓ سے استفادہ کرتےتھے۔
قرآنِ کریم سے استنباط اور فقہی مسائل کے حل میں بھی حضرت ابیؓ کو درک حاصل تھا۔حضورِانور نے متعدد ایسے واقعات بیان فرمائے جن سے معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ بھی ان معاملات میں آپؓ کی رائے کو اہمیت دیا کرتے۔
حضرت عثمانؓ نےجمعِ قرآن اور قرأتوں کا فرق مٹانے کےلیے بارہ اصحاب کو منتخب کیا اور حضرت ابی بن کعبؓ کواس مجلس کا رئیس مقرر فرمایا۔ آج قرآن مجید کے جس قدر نسخے موجود ہیں وہ حضرت ابی بن کعبؓ کی قرأت کے مطابق ہیں۔ آپؓ آٹھ راتوں میں قرآن کریم کا دَور مکمل کرلیاکرتے تھے۔
مسجدِ نبوی میں منبر کی تیاری سے پیشتر حضورﷺ کھجور کے تنے کے ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایاکرتے تھے۔ حضرت ابیؓ کی محبتِ رسولﷺکا یہ عالَم تھا کہ مسجد کی توسیع کے وقت جب وہ سُتون نکالا گیا تو آپؓ نے وہ سُتون لےلیااور اسے اپنے گھر لے گئے۔ رسول اللہﷺ کے اصحاب میں حضرت عمرؓ،حضرت علیؓ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ،حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت ابی بن کعبؓ چھ قاضی تھے۔
آپؓ کی وفات کے سال کےمتعلق مختلف روایات ملتی ہیں جن کے مطابق آپؓ کی وفات بائیس ہجری یا تیس ہجری میں ہوئی۔ حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ تیس ہجری والی روایت زیادہ درست ہے کیونکہ حضرت عثمانؓ نےجمعِ قرآن کا کام حضرت ابیؓ کےسپرد کیا تھا۔ خطبے کے آخر میں حضرت ابیؓ کا ذکر ختم کرتے ہوئےحضورِ انور نے آپؓ کے بچوں کی تفصیل پیش فرمائی۔ حضرت ابیؓ کے دوبیٹے طفیل اور محمد جبکہ ایک بیٹی امِّ عمرو تھی۔ آپؓ کی زوجہ کا نام امِّ طفیل بنت طفیل تھا جو قبیلہ دوس سے تعلق رکھتی تھیں۔
٭…٭…٭