متفرق شعراء
تجھ کو ازل سے ہی ملی دونوں جہاں میں برتری
تجھ کو ازل سے ہی ملی دونوں جہاں میں برتری
تیرا ظہور جاوداں تیرا غیاب حاضری
تیرا وجود ابتدا تیرا وجود انتہا
تیرا قدم تھا اولیں منزلِ شوقِ آخری
تجھ سے نمود اولیں تجھ سے بہار آخریں
تیرے شجر کی شاخ شاخ آج بھی ہے ہری بھری
تیری حکایتیں کوئی قصۂ مَا مَضیٰ نہیں
آج بھی تیرا دَور ہے آج بھی تیری داوری
تیری درایت آج بھی فکر و عمل کی روشنی
تیری روایت آج بھی عزم و یقیں کی رہبری
فقر و شہی کے مسئلے حل ہوئے تیرے نطق سے
گنگ یہاں سکندری چپ ہے یہاں قلندری
تیرے نقوش پا ہیں یا منزل شوق کے نشاں
سالکِ راہ کو بھی دیں گردِ رہِ پیمبری
شان شہی بلند ہے فقر بھی ارجمند ہے
رتبہ میں تو بلند تر ہے تیرے در کی چاکری
فکر و نظر کے شعبدے کیسا یہ گل کھلا گئے
ہے میری سجدہ گاہ میں سجدہ دلیلِ کافری
سنتِ ابراہیمؑ اور دینِ حنیف بھی وہی
بِکنے کو آگئے یہاں کیسے بتانِ آذری
(عبدالمنان ناہید)