سیرت النبی ﷺمتفرق مضامین

صحف سابقہ میں آنحضورﷺ کی بابت پیشگوئیاں

(شہود آصف۔ استاذ جامعہ احمدیہ گھانا)

ہمارے پیارے آقا ومولیٰ رسول کریمﷺ سلسلہ انبیاء کے آخری مقصود اور موعود تھے۔ تمام انبیاء اپنی اقوام کو اس موعودہ نبی آخر الزمان کی آمد کی خبر دیتے رہے ہیں۔ آیت میثاق النبیین میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

وَإِذْ أَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَآ آتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتَابٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ… (آل عمران:82)

اور جب اللہ نے نبیوں کا میثاق لیا کہ جبکہ میں تمہیں کتاب اور حکمت دے چکا ہوں پھر اگر کوئی ایسا رسول تمہارے پاس آئے جو اس بات کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس پر ایمان لے آؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔

پس انبیاء کے اس عہد کے مطابق یہ لازم تھا کہ وہ اپنی اقوام کو اُس موعود کے متعلق کچھ علامتوں کے ساتھ خبر دیتے تاکہ وقت آمدہ پر اُس کی قوم اُس موعود کو پہچان لیتی اور اس کی مدد گار ہوتی۔

قرآن کریم کے بیان پر مہر تصدیق ثبت کرتےہوئے تاریخ مذاہب بھی اسی بات پر شاہد نظر آتی ہے۔ اسلام سے قبل کسی مذہب نے بھی اپنی تعلیم کو کامل اور ابدیت کا حامل قرار نہیں دیا بلکہ تمام مذاہب روحانیت میں ارتقا کے قائل نظر آتے ہیں۔ ہر مذہب اور نبی نے اپنے بعد روحانیت کی ترقی کے لیے ایک ایسےنقطہ ٔکمال کی خبر دی جس پر پہنچ کر انسان روحانیت کی بام عروج تک پہنچ جائے گااور بنی نوع انسان جمع ہو کر اپنے مقصد حیات کو پا لے گی۔ اسی لیے دنیا میں ظاہر ہونے والے تمام انبیاء، چاہے وہ کسی بھی قوم یا خطے سے تعلق رکھنے والے ہوںکسی بھی زمانے میں ظاہر ہوئے ہوں ایک تسلسل کے ساتھ ایک عظیم الشان اور باکمال نبی کی آمد کی خبر دیتے ہوئے اور اپنے متبعین کو اس پر ایمان لانے اور مدد کرنے کی تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

دنیا کےتمام بڑے مذاہب عیسائیت، یہودیت، ہندو مت، بدھ مت، زرتشت مت، چینی مذاہب وغیرہ میںوضاحت سے ایسی متعددپیشگوئیاں ملتی ہیں جو رسول اللہﷺ کی ذات بابرکات پر پوری اترتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور جن سے روشنی پا کر سعید روحوں نے سید المرسلینﷺ کو شناخت کر لیا۔ان سینکڑوں پیشگوئیوں میں سے چند ذیل میں بیان کی جارہی ہیں۔

حضرت ابراہیمؑ کی اولاد سےانبیاء کی پیشگوئی

قرآن کریم اور بائبل دونوں سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی اولاد کو برکت دینے، انبیاء پیدا کرنے اور بڑی قوم بنانے کے وعدے فرمائے۔ چنانچہ لکھا ہے:

’’اور خداوند کے فرشتے نے اس سے(یعنی ہاجرہ سے)کہامیں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا یہاں تک کہ کثرت کے سبب سے اس کا شمار نہ ہوسکے گا۔ اور خداوندکے فرشتے نےاس سے کہا کہ تو حاملہ ہےاور تیرے بیٹا ہو گا۔ اس کا نام اسماعیل رکھنا۔ اس لیے کہ خدا نے تیرا دکھ سن لیا۔ ‘‘

(پیدائش باب 16آیت 10تا11)

پھر17ویں باب میں دوبارہ حضرت اسماعیلؑ کی بابت خدافرماتاہے:

’’اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دعا سنی۔ دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گااور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گےاور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا۔ ‘‘

(پیدائش باب17آیت20تا21)

حضرت ابراہیمؑ کے دو بیٹے تھے۔ اسما عیلؑ بڑے بیٹے اور اسحاقؑ دوسرے بیٹے تھے۔ خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیمؑ سے عہد تھا کہ وہ ان دونوں بیٹوں کی نسل کو بڑھائے گا اور بابرکت کرے گا۔ دونوں بیٹوں کے لیے برکت دینے اوربڑی قوم بننے اور سردار پیدا ہونے کے الفاظ بائبل سےبھی ثابت ہیں۔ دونوں بیٹوں سے خدا تعالیٰ کے عہد کی علامت ’’یعنی ختنہ کرنا‘‘ بیان کی گئی ہے۔ (پیدائش باب17آیت 10-11)

اس پیشگوئی کے پہلے حصہ کو ہم حضرت اسحاقؑ کی زندگی میں بڑ ی شان سے پورا ہوتا دیکھتے ہیں۔ آپ کی اولاد میں سے بڑے بڑے انبیاء پیدا ہوئے جن میں حضرت یعقوبؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ وغیرہ شامل ہیں۔ پھر متعدد بڑے بڑے بادشاہ اور سردار پیدا ہوئے۔ فلسطین کی موعودہ سرزمین ایک طویل عرصہ تک ان کو ملی۔

پس اسی پیشگوئی کے مطابق یہ لازم تھا کہ حضرت ابراہیمؑ کے بڑے بیٹےحضرت اسماعیلؑ کی اولاد کے ساتھ بھی یہ وعدہ بڑی شان سے پورا ہوتا۔ کیونکہ اس پیشگوئی کی تمام ظاہری علامات بنی اسماعیل میں بھی موجود ہیں۔ بنی اسماعیل میں بھی خداکے عہد کی علامت ختنہ کرنے کا رواج موجود ہے۔ پس یہ لازم تھا کہ ایک عظیم الشان نبی اس نسل سے پیدا ہوتا۔ جس کے بعد بڑے بڑے سردار اور بادشاہ اس کی امت میں سے ظاہر ہوتے اور ارض مقدس بھی اسی نبی کی امت کو دی جاتی(جیساکہ مسلمانوں کو دی گئی)۔ حضرت اسماعیلؑ کی اولاد عرب میں آباد ہوئی۔اس اولاد میں سے صرف ایک ہی مدعی نبوت ہے جو ملک عرب میں پیدا ہوا اور مثیل موسیٰ کے طور پر ظاہر ہوا۔ یہ وجود باجود ہمارے پیارے نبی محمد مصطفیٰﷺ ہی تھے۔

حضرت موسیٰؑ کی زبانی مثیل موسیٰ کی پیشگوئی

حضرت موسیٰؑ کی زبانی اللہ تعالیٰ نے ایک جلیل مرتبت نبی کی آمد کی پیشگوئی بڑے واضح الفاظ میں بیان فرمائی اور اس کو مثیل موسیٰ قرار دیا۔ چنانچہ تورات میں مذکور ہے:

’’میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گااور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گااور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کوجن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ لیکن وہ نبی گستاخ بن کرکوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا، یا اور معبودوں کے نام سےکچھ کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے۔ ‘‘

(استثناء باب 18آیت 18تا20)

یہ پیشگوئی اتنی واضح اور روشن ہے کہ اس کی تمام علامات صرف اور صرف رسول اللہﷺ کی ذات با برکات پر پوری اترتی نظر آتی ہیں۔ تمام انبیاء میں صرف رسول اللہﷺ نے ہی مثیل موسی ٰہونے کا دعویٰ فرمایا(المزمل:16)۔خدا تعالیٰ نے آپؐ پر وحی نازل فرمائی اور بعینہٖ رسول اللہﷺ کو لوگوں کے سامنے پیش فرمایااور ایک نقطہ بھی اپنی طرف سےاضافہ نہیں فرمایا۔ جن لوگوں نے رسول اللہﷺ کا انکار کیا۔ اللہ نےان سے سخت انتقام لیا اور ان کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دیا۔ پھر ایک کامیاب و کامران زندگی گزانے کے بعد آپﷺ فوت ہوئے اور دشمن کی ہزار ہا کوششوں کے باوجود قتل نہ ہو سکے۔ پس یہ ساری علامات اس قدر وضاحت سے اور روشن طور پر رسول اللہﷺ پر پوری ہوتی ہیں کہ اس میں کوئی شبہ کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔

دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ ظاہر ہونے کا وعدہ

پھر تورات میں ہی حضرت موسیٰ کی زبانی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے وادی فاران میں ظاہر ہونے کی بھی خبر دی۔ چنانچہ لکھا ہے:

’’خداوند سینا سے آیااور شعیر سے ان پر آشکارا ہوا۔ وہ کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا۔ لاکھوں قدوسیوں میں سے آیا … اس کے داہنے ہاتھ میں ان کے لئے آتشی شریعت تھی۔

(استثناءباب33آیت3)

یہ پیشگوئی بھی صرف اور صرف رسول مقبولﷺ پر پوری اترتی ہے۔ آپ وادی فاران میں ظاہر ہوئے۔ بائبل کے عربی تراجم میں فاران کا لفظ عرب اور مکہ کی وادی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

(Muhammad in World scriptures vol 1 P.71)

پھراس پیشگوئی میں مذکور ہے کہ آپ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ ظاہر ہوئے۔ فتح مکہ کے وقت آپ کے ساتھ موجود صحابہؓ کی تعداد دس ہزار تھی۔ بغض و عناد کی وجہ سے بائبل میں موجود لفظ (می ربوت) جس کا ترجمہ ’’دسیوں ہزار‘‘ تھا اس کو تحریف کرنے کے بعد لاکھوں کر دیا گیا تاکہ پیشگوئی کا انکار کیا جا سکے۔ اس کے باوجود کئی پرانے ایڈیشنز میں خود بائبل میں ا س کا ترجمہ دس ہزار موجود ہے۔ اس کے ساتھ ایک اورعلامت جو اس میں مذکور ہے کہ وہ نبی آتشی شریعت والا ہو گا۔ یہ دعویٰ بھی صرف رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ آپ ایک شرعی نبی ہیں۔ پس یہ پیشگوئی بھی بڑی شان سے رسول اللہﷺ کی ذات میں پوری ہوئی۔

یسعیاہؑ نبی کی زبانی عربی نبی کی صفات

یسعیاہؑ بنی اسرائیل کے اہم انبیاء میں سے ایک ہیں۔ ان کی کتاب میں متعدد جگہوں پر عرب میں نبی کے ظاہر ہونے اور اس کی عظمت کاذکر موجود ہے۔ چند ایک حوالہ جات ذیل میں مذکور ہیں۔ حضرت یسعیاہؑ فرماتے ہیں :

’’اس لیے ہمارے لیے ایک لڑکا تولّد ہوا ا ور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کاندھے پر ہو گی اوراس کا نام عجیب۔ مشیر۔ خدائے قادر۔ ابدیت کا باپ۔ سلامتی کاشہزادہ ہو گا۔ اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی۔ وہ داؤد کے تخت پر اس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک حکمران رہے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا۔ ر ب الافواج کی غیوری یہ کرے گی۔ ‘‘

(یسعیاہ باب 9آیت6تا7)

اس جگہ حضرت یسعیاہؑ نے رسول اللہﷺ کی صفات بیان فرماتے ہوئے اس کو عجیب کا نام دیا۔ صدیوں بعد عربوں میں کسی نبی کا ظاہر ہونا عربوں کے لیے تعجب کی بات تھی (یونس:3)پھر نبوت کا بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہونا بنی اسرائیل کے لیے عجیب با ت تھی۔ قرآن کو بھی عجیب کتاب قرار دیا گیا ہے۔

(الجن:2)

رسو ل اللہﷺ کو قرآن کریم میں مشورہ کرنے کاحکم دیا گیا(المجادلة :13) صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے زیادہ کسی کو مشورہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ پھر قرآن کریم نے آپﷺ کے ہاتھ کو خدا کا ہاتھ قرار دیا۔ تمام انبیاءؑ میں سے صرف آپؐ ہی تمام انسانوں کی طرف بشیر اور نذیر بنا کر بھیجے گئے۔ آپ کی شریعت اور مذہب ابد تک قائم رہنے والا۔ آپﷺ ہی تمام بنی نوع انسان حتیٰ کہ دوسری مخلوقات کے لیے بھی رحمت اور سلامتی بن کر آئے۔ آپﷺ کو صادق اور امین کا لقب بھی دیا گیا۔

پھر ایک اہم علامت بتا ئی کہ وہ نبی داؤد کے تخت پر حکومت کرے گا۔ رسول اللہﷺ کے دوسرے خلیفہ کے دَور میں ہی مسلمانوں کو تخت داؤد یعنی فلسطین کی ارض مقدس عطا کر دی گئی، جو چودہ سو سال تک مسلمانوں کے پاس رہی۔ رسول اللہﷺ نے جو انصاف کا نمونہ دکھایا وہ بےمثال ہے۔ اپنے جانی دشمنوں تک کو لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَکہہ کر معاف فرما دیا۔ آخر پر حضرت یسعیاہؑ فرماتے ہیں کہ یہ سب کام خداتعالیٰ کی غیرت اور جاہ و جلال کرے گا یعنی یہ ایک ایسی تقدیر مبرم ہے جس کا ٹالا جانا نہیں۔

پھر حضرت یسعیاہؑ رسول اللہﷺ کی ہجرت اور فتح بدر کی پیشگوئی ان الفاظ میں کرتے ہیں :

’’عرب کی بابت الہامی کلام۔ اے دوانیوں کے قافلو!تم عرب کےجنگل میں رات کاٹو گے۔ وہ پیاسے کے پاس پانی لائے۔ تیما کی سرزمین کے باشندے !روٹی لے کر بھاگنے والےسے ملنے کو نکلو۔ کیونکہ وہ تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوارسےاور کھینچی ہوئی کمان سےاور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں۔ کیونکہ خدا وند نے مجھ سے یوں فرمایاکہ مزدور کے برسوں کے مطابق ایک برس کے اندر اندر قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیر اندازوں کی تعداد کا بقیہ یعنی قیدار کے بہادر تھوڑے سے ہوں گے۔ ‘‘

(یسعیاہ نبی کی کتاب باب 21آیت 13تا17)

اس جگہ بتایا گیا کہ وہ عربی نبی دشمن کی تکالیف اور مظالم اور جنگ کی سختیوں سے ڈر کر ہجرت کرے گا اور تیما کی سرزمین یعنی اہل مدینہ اس کے استقبال کے لیے نکلیں گے۔ قیدار حضرت اسماعیلؑ کے ایک بیٹے کا نام بھی ہے۔

ہجرت مدینہ کے ٹھیک ایک سال بعد قیدا ر یعنی اہل مکہ نے دوبارہ حملہ کیا اور بدر کے مقام پر شکست فاش ملی گویا ان کی ساری شوکت جاتی رہی۔ اسی جنگ نے کفار مکہ کی کمر توڑ دی۔ ستر سے زائد لوگ قتل ہوئے اور اتنے ہی قید ہوئے۔

حضرت سلیمانؑ کی زبانی محمدیم کی خبر

بائبل کی ایک کتاب غزل الغزلات میں حضرت سلیمانؑ نے رسول اللہﷺ کی صفات کا ذکر فرمایا اور آپ کو محمدیم کے نام سے یاد فرمایا۔ چنانچہ حضرت سلیمانؑ فرماتے ہیں :

’’میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ وہ دس ہزار میں ممتاز ہے …‘‘پھر اُس نبی کے جسمانی اور روحانی حلیہ کی خوبصورتی اور عظمت کا ذکر کرنے کے بعد کہا :

’’اس کا منہ ازبس شیریں ہے۔ ہاں وہ(محمدیم) سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو! یہ ہے میرا محبوب۔ یہ ہے میرا پیارا۔ ‘‘

(غزل الغزلات، باب 5آیت 10تا16)

حضرت سلیمانؑ نے آنے والے موعودہ نبی کو اس کی تقدیس کرتے ہوئے محمدیم نام دیا یعنی وہ ایسا وجود بابرکت ہےجس کو دیکھ کر اس سے محبت ہو جائے۔ عبرانی بائبل میں لفظ ’’محمدیم ‘‘ استعمال کیا گیا ہے یعنی رسول اللہﷺ کا اسم مبارک لکھا گیا ہے۔ مگر عیسائیوں اور یہودیوں نے بائبل کے اردوتراجم میں اس کو’’سراپا عشق انگیز ‘‘اور انگلش میں Altogether lovelyترجمہ کر دیا ہےتاکہ براہ ِراست رسول اللہﷺ کا نام ان کی کتب سے نہ مل سکے۔

پھر ایک یہ علامت دوبارہ بیان ہوئی کہ وہ دس ہزار صحابہ کے درمیان ممتاز ہو گا۔ یہ علامت بھی صرف رسول اللہﷺ کے بارے میں ہے۔ انبیاء کی تاریخ میں یہ منفرد واقعہ صرف رسول اللہﷺ کے ساتھ فتح مکہ کے دوران پیش آیا۔

حضرت مسیحؑ کے بعد خداوند کی آمد

اناجیل کے مطابق متعدد جگہوں پر حضرت مسیح ناصریؑ یہ مضمون بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ میرے بعد ایک اور وجود آئے گا۔ جو مجھ سے زیادہ عظیم مقام و مرتبہ کا حامل نبی ہو گا۔ اس کا آنا گویا خدا کا آنا ہو گا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :

’’ایک اور تمثیل سنو۔ ایک گھر کامالک تھا جس نے تاکستان لگایا اور اس کے چاروں طرف احاطہ گھیرا اور اُس میں حوض کھودا اور برج بنایا اور اسےباغبان کو ٹھیکے پر دے کر پردیس چلا گیا اور جب پھل کا موسم قریب آیا۔ اُس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں کے پاس اپنا پھل لینے کوبھیجا۔ اور باغبانوں نے اس کے نوکروں کو پکڑ کر کسی کو پیٹا اور کسی کو قتل کیا اورکسی کوسنگسار کیا۔ پھر اُس نے اور نوکروں کو بھیجا جو پہلوں سے زیادہ تھے۔ اُنہوں نے اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا۔ آخر اُس نے اپنے بیٹے کو ان کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وہ میرے بیٹے کا تو لحاظ کریں گے۔ جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں کہا کہ یہی وارث ہے آؤاِسے قتل کر کےاس کی میراث پر قبضہ کر لیں اوراُسے پکڑ کے تاکستان سے باہرنکالا اور قتل کر دیا۔ پس جب تاکستان کا مالک آئے گا توان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا؟ انہوں نے کہا ان بدکاروں کو بری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ دوسرے باغبانوں کو دے گاجو موسم پر پھل دیں …اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خد اکی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کا میوہ لاوے دی جائے گی۔ ‘‘

(متی باب 21آیت 33تا44)

اس جگہ حضرت مسیحؑ نے انبیاء کی تاریخ شروع سے لے کر آخر تک تمثیلاً دہر ادی ہے۔ تاکستان سے مراد دنیا ہے اور باغبانوں سے مراد بنی نوع انسان ہیں اورباغ کے پھل لانے سے مراد نیکی، تقویٰ اور خدا کی عبادت کرنا ہے۔ نوکروں سے مراد انبیائے سابقین ہیں۔ جب انبیاء نے آکر لوگوں سے خدا کو ماننے اور عبادت کی تلقین کی تو لوگوں نے ا ن کو نہیں مانا اور بعض کو قتل کیا۔ پھر مالک نے اپنے بیٹے یعنی مسیح ناصریؑ کو بھیجا اور لوگوں نے اپنے زعم میں اس کو بھی قتل کر دیا۔ پھر مسیح ناصریؑ فرماتے ہیں کہ میرے بعد تاکستان کا مالک آئے گایعنی ایک ایسا نبی آئے گا جس کا آنا خدا کا آنا ہو گا اور وہ خدا کی توحید کو پورے طور پر قائم کرے گااورساتھ ہی بنی اسرائیل سے نبوت بنی اسماعیل میں جانے کی طرف اشارہ فرمایا۔ پس اس جگہ مالک کے آنے سے مراد سیدنا محمد مصطفی ٰﷺ کا آنا ہے۔

پھر حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں :

’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارےلیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تومدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا۔ لیکن اگر جاؤں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آ کر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارہ میں قصور وار ٹھہرائے گا…مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہےمگر اب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی روحِ حق(فارقلیط) آئے گاتو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اِس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا۔ لیکن جو کچھ وہ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی۔ ‘‘

(یوحنا باب 16آیت7تا14)

اس جگہ حضرت مسیح ناصر یؑ نےاپنے پیغام کو نامکمل قرار دیتےہوئے کہا کہ میری تعلیم کو سننے کی تم ابھی طاقت نہیں رکھتے۔ لیکن میرے بعد جب روح حق (فارقلیط)آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ بتائے گا یعنی کامل اور ابد ی شریعت تم کو دے گا۔ پس حضرت مسیحؑ کے بعد رسول اللہﷺ ہی آئے جنہوں نے حضرت مسیح ناصریؑ کو لعنت کے الزام سے پاک قرار دیا اور دنیا کو قصور وار ٹھہرایا۔ آپ ہی نے ابدی شریعت پیش فرمائی۔ وہی تعلیم پیش فرمائی جو خدا نے حکم دیا۔ آپﷺ نے ہی خدا سے غیب کی خبریں پاکر بیان فرمائیں۔ محققین کے مطابق لفظ فارقلیط جس کا ترجمہ روح حق کیا گیا ہے دراصل’’احمد‘‘ہے جو رسول اللہﷺ کا ہی ایک صفاتی نام ہے۔

بائبل اور اناجیل میں ان پیشگوئیوں کےعلاوہ اوربھی بہت سی بشارات موجود ہیں۔ ان کے متعلق تفاصیل نیز مذکورہ بالا کی مزید وضاحت کے لیے قارئین حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب ’’دیباچہ تفسیر القرآن‘‘ انوار العلوم جلد20صفحہ 115تا174کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

زرتشت مت میں رسول اللہﷺ کی بشارت

زرتشت مت ایران کا قدیم مذہب ہے۔ زرتشت مت کے مقدس صحائف میں بھی رسول اکرمﷺ کی آمد کی پیشگوئیاں ملتی ہیں کہ جب زرتشت مت کے پیروکار اپنے دین کو چھوڑ دیں گے تب ایک عرب سے مرد خدا ظاہر ہو گا۔ اس کی سلطنت ایرانی علاقوں میں پھیل جائے گی۔ چنانچہ حضرت زرتشت کے دین کے پہلے مجدد ساسان اول نےاپنے ایک مکتوب میں اس کا ذکر کیا۔ اس مکتوب کے حوالے سے یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ دراصل حضرت زرتشتؑ کی ہی پیشگوئی تھی جس کو بعد ازاں ساسان اول نے اپنی طرف سے وضاحتی فقروں کے ساتھ پیش کیا۔ دساتیر میں یہ پیشگوئی پہلو ی زبان میں لکھی گئی بعد ازاں اس کا فارسی میں ترجمہ ہوا۔ دساتیر کا یہ نسخہ ملا فیروز نے شاہ ایران ناصر الدین قاچار کے عہد میں طبع کروایا۔ زرتشت ازم کے مقدس صحائف دساتیر کے مطابق ساسان اول نے فرمایا:

’’چوں چنیں کار ہا کنند از تازباں مردے پیدا شود کہ از پیروان اُو دیہیم و تخت و کشور و آئین ہمہ بر اُو فتدو شوند سر کشاں زیردستاں بیند بجائے پیکر گاہ و آتش کدہ خانہ آباد بے پیکر شدہ نماز بروں سو۔ خانہ کہ درتازیاں است درریگ ہا مادر آں ساختہ آباد است و درآں پیکر ہائے اختراں بود گوید شود آں خانہ نماز بروں سود بردارند از و پیکر ہا…وباز ستانند جائے آتش کدہ ہائے مدائن وگر دہائے آں و توس و بلخ و جا ہائے بزرگ و آئین گر ایشاں مردے باشد سخنور و سخنِ او درہم پیچیدہ۔ ‘‘

ترجمہ: جب ایسے کام ایرانی کریں گے۔ (یعنی شریعت پر عمل چھوڑ دیں گے۔ اور ان میں ہر قسم کی بدیاں پھیل جائیں گی) تو عربوں میں ایک مرد خدا پیدا ہو گا۔ جس کے ماننے والوں کے ہاتھوں سے ایران کا تاج و تخت سلطنت اور قانون سب کا سب درہم برہم ہو جائےگا۔ (اور جن کے سامنے) سرکش اور جابر لوگ مغلوب ہو جائیں گے۔ اور وہ بت کدہ یا آتش کدہ کی بجائے خانۂ آباد یعنی حضرت ابراہیم کے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کر کے اس کی طرف نماز پڑھیں گے اور اس کو اپنا قبلہ بنائیں گے۔ یعنی ریگ زارِ عرب میں حضرت ابراہیم کا تعمیر کردہ جو عبادت خانہ ہے جس میں ستاروں کے بت رکھ دیے گئے۔ اس کی طرف منہ کر کے وہ نماز پڑھیں گے۔ اور اس سے بت اٹھا دیں گے…اور وہ (نبی عربی کے پیرو) آتش کدوں کی جگہیں لے لیں گے۔ یعنی ایران پر قابض ہو جائیں گے۔ مدائن اور اس کے نواحی علاقے و توس و بلخ اور مقامات مقدسہ پر قبضہ کر لیں گے اور ان کا شارع (نبی ) کلام والا ہو گا اور اس کا کلام بلیغ ہو گا۔ ‘‘

(دساتیر، صفحہ188۔ بحوالہ الفضل7؍جنوری 1942ء)

زرتشت از م کی یہ پیشگوئی بڑی وضاحت سے رسول اللہﷺ کی آمد پر دلالت کرتی ہے۔ آپ ہی وہ عربی نبی ہیں جنہوں نے خانہ کعبہ کو اس کا اصل مقام دلایا اور بتوں سےاس کو پاک ٹھہرایا۔ آپ کے خلفاء کے دَور میں ایران فتح ہوا اور مدائن، توس اور بلخ اسلامی حکومت میں شامل ہوئے۔ آپ ایک صاحب شریعت اور بلیغ کلام کے حامل نبی تھے۔

بعض مخالفین کے مطابق یہ پیشگوئی حقیقی نہیں بلکہ مسلمانوں نے خود بنا کر دساتیر میں شامل کی۔ یہ بات اس طرح غلط ثابت ہو جاتی ہےکہ اسی پیشگوئی میں آگے چل کر اسلام کے زوال پذیر ہونے اور آخری زمانے میں ایک موعود کے ظاہرہونے کی بھی خبر موجود ہے۔ اگر کسی مسلمان نے یہ پیشگوئی خود بنائی ہو تو اسے آخری زمانے میں مسیح موعو دؑ کی خبر قبل از وقت کیسےمعلوم ہو گئی۔ پس اگر دوسرا حصہ درست ہے تو پہلابھی درست ہوگا۔

بدھ مت میں میتیا بدھا کی آمد کی خبر

حضرت گوتم بدھؑ نے بدھ ازم کے زوال کے بعد ایک مبارک اور روشن استاد کی آمد کی خبر دی جس کو میتیا بدھا کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ میتیا بدھا کی جو علامات گوتم بدھ نے بیان فرمائیں ان میں سے بہت ساری رسول اللہﷺ کی آمد سے پوری ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ چنانچہ گوتم بدھ فرماتے ہیں :

And in that time of the people with an eighty thousand year life-span, there will arise in the world a Blessed Lord, an Arahant fully-enlightened Buddha named Metteyya, endowed with wisdom and conduct, a Well-Farer, Knower of the worlds, incomparable Trainer of men to be tamed, Teacher of gods and humans, enlightened and blessed, just as I am now. He will thoroughly know by his own super-knowledge, and proclaim, this universe with its Devas and Maras and Brahmas, its ascetics and Brahmins, and this generation with its princes and people, just as I do now. He will teach the Dhamma, lovely in its beginning, lovely in its middle, lovely in its ending, in the spirit and in the letter, and proclaim, just as I do now, the holy life in its fullness and purity. He will be attended by a company of thousands of monks, just as I am attended by a company of hundreds.

(Long course of the Buddha Digha Nikaya Chapter 26 Cakkavatti-Sihanada Sutta: The Lion‘s Roar on the Turning of the Wheel, P. 404)

ترجمہ:’’اس وقت جب لوگوں کی عمریں اسّی ہزار برس ہوں گی، اس وقت دنیا میں ایک برگزیدہ اور اعلیٰ ہستی جنم لے گی۔ ایک ارہت(عارف باللہ)، کامل معرفت والابدھا ہو گاجس کا نام میتیا ہو گا۔ پُر حکمت، اقبال مند اور دنیا کو جانچنے والا اور سمجھنے والا ہو گا۔ ہدایت کے متمنی لوگوں کا ہادی، فرشتوں اور انسانوں کا استاد، پُرنور اور بابرکت ہو گا، جیسا کہ میں اس وقت ہوں۔

جو کچھ بھی وہ اپنے کامل علم کے ذریعہ پائے گا وہ سب دنیا پر ظاہر کر دے گا اور تمام کائنات مع اس کے جنّ اور شیاطین اور برہمنوں اور زاہدوں اور راہبوں کو اور اس نسل کے بادشاہوں اور عوام الناس، سب کواپنے روحانی تجربات آشکار کر دے گا جیسا کہ میں کرتا ہوں۔ وہ لوگوں کو ایسادھرم سکھائے گاجو اپنی بنیادوں کے لحاظ سے عالی شان اور مقاصد کے لحاظ سے بھی ظاہر و باطن دونوں طرح سے شاندار اور سودمند ہو گا۔ اس کلام کی روح اور الفاظ دونوں حسین ہیں۔ جیسا کہ میں اب لوگوں کو مقدس زندگی کی مکمل حقیقت اور پاکیزگی سکھاتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہزاروں راہب ہوں گےجیسا کہ اس وقت میرے ساتھ سینکڑوں ہیں۔ ‘‘

اس پیشگوئی میں آنے والے موعود کی تمام مذکورہ صفات ہمارے پیارے نبیﷺ پر بڑے کمال سے پوری ہوتی نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ اس بدھ کے زمانے میں لوگوں کی عمریں اسّی ہزار برس تک ہوں گی۔ یعنی اس کے متبعین طویل روحانی عمرپانے والے ہوں گے۔ قرآن کریم کے بقول جن لوگوں نے آپ کو قبول کیا گویا آپﷺ نے ان کو نئی زندگی عطا فرمائی( الانفال:25)۔

آنے والے وجود کی ایک اور صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ کامل ارہت یعنی خدا تعالیٰ کی کامل معرفت رکھنے والا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کو جس واضح اور روشن طور سے رسول اکرمﷺ کی ذات نےدیکھا اور ہمیں دکھایا، اس کی نظیرنہیں ملتی۔ خدا تعالیٰ کا جو قرب اور ادراک آپﷺ کو حاصل ہوا وہ کسی اور نبی کو نہیں ملا(النجم)۔ پھر اس بدھ کو پُرنور وجود قرار دیا گیا۔ رسول اللہﷺ کو بھی قرآن کریم نے نور قرار دیا ہے(النساء :175)۔ پھر ایک اور صفت بیان کی گئی کہ آنے والا وجود پُرحکمت اور اقبال مند ہوگا۔ آپﷺ نے صرف تعلیم کتا ب ہی نہیں دی بلکہ لوگوں کو ان کی مخفی حکمتیں اور معارف بھی سکھائے(الجمعة :3)۔ نیز صرف دینی علوم کے ساتھ دنیاوی امور میں ترقی کرنے کی بھی رہ نمائی فرمائی۔ ایک اور علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ہادی کامل ہو گا نہ صرف انسانوں بلکہ فرشتوں کو بھی ہدایت دینے والا ہو گا یعنی عوام الناس کے لیے بھی اور خواص الناس کے لیے بھی استاد ہو گا۔ قرآن کریم نے آپﷺ کو یٰس یعنی اے سردار کہہ کر پکا را ہے۔ رسول اللہﷺ نے ہی کامل اور ابدی دین دنیا کے سامنے پیش فرمایا۔

پھر ایک اور علامت بتائی گئی کہ وہ دنیا کے تمام طبقات تک اپنا پیغام پہنچائے گا۔ عوام، خواص، بادشاہ، غریب امیر ہر شخص تک اپنا پیغام پہنچائے گا۔ یہ فضیلت صرف اور صرف رسول اکرمﷺ کو حاصل ہوئی ہے کہ آپ کو تمام جہانوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ فرمایاقُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّٰهِ إِلَيْكُمْ جَمِيْعًا۔ (الاعراف: 159)۔ پھر اس کی ایک اور علامت بیان کی گئی ہے کہ اس کے ساتھ ہزاروں نیک لوگ ہوں گے۔ یہ ظاہری علامت بھی رسول اکرمﷺ کی ذات بابرکات پر پوری اتری۔ رسول اللہﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ موجود تھے۔ غزوہ حنین کے موقع پر آپؐ کے ساتھ بارہ ہزار کا لشکر موجود تھا۔

وید میں رسول اللہﷺ کی پیشگوئی

ہندو مت برصغیر کا قدیم مذہب ہے۔ ان کے بقول دنیا کا آغاز ہندوستان سے ہوا اور ان کی مقدس کتاب وید دنیا کی پہلی الہامی کتاب ہے۔ ہندوؤں کے مقدس صحائف ویدوں کی تعداد چار ہے۔ ہندو ؤں کے اس دعویٰ سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ہم ان کی مقدس کتب کا مطالعہ کریں تو متعدد جگہوں پر ایک بہت تعریف کیے جانے والے رشی کی آمد کی خبر ملتی ہے جس کی سواری اونٹ ہوگی۔ چنانچہ تیسرے وید جس کا نا م اتھر ویدہےمیں مذکور ہے:

Oh people! Listen carefully!! Honourable man will arrive among people. I will accept him among 60090 enemies. His means of movement will be 20 Camels both male and female. His glory and superiority will reach there to heaven and will overcome it. He will be given 10 circles, 100 gold coins and 300 Arabian horses and 10000 Cows for Mama Muni.

(Atharva Veda-Kanda: 203 -127:70:1)

ترجمہ:’’اے وے لوگو!غور سے سنو۔ بہت معزز اور تعریف کیا گیا وجود لوگوں کے درمیان آنے کو ہے۔ میں اس کو ساٹھ ہزار نوے دشمنوں کے درمیان قبول کرو ں گا۔ اس کی سواری بیس اونٹ ہوں گے جن میں نراور مادہ دونوں شامل ہوں گے۔ اس کی عظمت، مقام اورجلال آسمان تک پہنچے گا اور آسمان پرغالب آ جائے گا۔ اس کو ماما رشی(بزرگ) کی طرف سے سونے کے 10ہار، سونے کے 100سکے ہوں گے اور 300عربی گھوڑے دیے جائیں گے۔ اوردس ہزار گائیں دی جائیں گی‘‘

اس جگہ وید میں ایک بہت تعریف کیے جانے والے رشی کی آمد کی خبر موجود ہے۔ وید میں اس کے لیےNarashansaکے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جس کا مطلب ہے بہت معزز یا بہت تعریف کیا گیا۔ گویا یہ رسول اللہﷺ کے اسم مبارک محمدﷺ کاہی ترجمہ ہے۔

پھر مذکور ہے کہ خدا اسے ساٹھ ہزار سے زائد دشمنوں میں سے قبول کرے گایعنی اس کو بچائے گا۔ ہزاروں کی تعداد میں دشمن اس کی جان کے درپے ہوں گے مگر خدا اس کو بچائے گا اور اس کی مقبولیت پھیلا دے گا۔ پھر آنے والے کے بلند مقام کی طرف اشارہ ہے جو آسمان تک بلند ہو گا او ر اس پر چھا جائے گا۔ یہ بھی رسول اللہﷺ کے عظیم الشان اور سیدالرسل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ اسی لیے بائبل میں بھی آپ کی آمد کو خدا کی آمد قرار دیا گیا ہے۔

پھر یہ بتایا گیا کہ اس کی سواری اونٹ ہو گی جس میں کچھ نر اور کچھ مادہ ہوں گے۔ ہندوستان میں عموماً اونٹ کو بطور سواری استعمال نہیں کیا جاتا۔ بلکہ منو سمرتی میں اونٹ استعمال کرنےسےمنع کیا گیاہے۔ قدیم زمانےسےہی اونٹ کی سواری عرب میں ہی مشہور اور معروف ہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی بکثرت اونٹ پر سواری فرمائی۔ پھر اس پیشگوئی کے مطابق رسول اللہﷺ کو سونے کے سکےّ دیے گے جن سے مراد آپﷺ کے صحابہؓ ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح تین سو عربی گھوڑے ملنے کا ذکر موجود ہے۔ جن سے مراد وہ صحابہ کرام ہیں جو گھوڑوں پر سوار ہوکر جہاد میں شامل ہوتے رہے۔ پھر سام وید میں رسول اللہﷺ کا صفاتی نام’’ احمد‘‘ بھی مذکور ہے۔

(Samveda Book 2 Hymn 6 verse8)

پھر ہندوؤں کی دیگر مقدس کتب بھوشیہ پران میں مہامد (محمد) نامی گرو کا نام بھی ملتا ہے۔ جو غیرقوم(عرب قوم) کے رہنے والوں میں سے ہوتا ہے۔

(Bhavisyath Purana 3:58)

حضرت کرشنؑ اور مصلحین کی آمد

حضرت کرشنؑ رسول اللہﷺ سے تقریباً دو ہزار سال قبل ہندوستان میں ظاہر ہوئے۔ ہندو مت میں حضرت کرشن کو بہت اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ ہندوؤں کےنزدیک حضرت کرشنؑ دراصل خدا کی مجسم انسانی صورت تھے۔ حضرت کرشنؑ نے اپنے اقوال میں ایک بیّن اصول بیان فرما دیا کہ جب بھی دنیا فساد اور ظلم سے بھر جائے گی تب میں دوبارہ نازل ہو کر دنیا کی اصلاح کروں گا۔ چنانچہ کرشنؑ نےفرمایا:

’’اے ارجن! جب بھی دھرم کا ناش (خاتمہ)اورادھرم(دہریت) کی زیادتی ہونے لگتی ہےتو میں نیکوں کی حفاظت اور گناہ گاروں کی سرکوبی اور دھرم کو قائم کرنے کے لیے یُگ یُگ(دنیا) میں پرکٹ (ظاہر)ہوتا ہوں۔ ‘‘

(بھاگوت گیتا ادھیائے 4 شلوک 7۔ 8)

یہ ایک ایسا رہ نما اصول ہے جو انبیاء علیہم السلام کو پہچاننے کے لیے کافی ثبوت ہے۔ ضرورت زمانہ نبی کی آمد کی دلیل ہے۔ رسول اللہﷺ کی آمد سےقبل تمام دنیا فساد، فتنہ اور ظلم سے بھر چکی تھی۔ تمام مذاہب اپنی اصل سے ہٹ چکے تھے۔ اس حقیقت کو تمام مذاہب تسلیم بھی کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے بھی

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ

سے اسی طرف اشارہ فرمایاہے۔ پس اسی پیشگوئی کے مطابق ضرورت زمانہ کے تحت رسول اللہﷺ کا بھی ظہور ہوا۔

آخری زمانہ میں جب گناہوں کی دوبارہ کثرت ہو جائے گی اس وقت کےبارےحضرت کرشنؑ نے ایک اور واضح پیشگوئی فرمائی ہے کہ کرشن خود کلکی اوتار کی صورت میں دوبارہ ظاہر ہو گا۔ چنانچہ حضرت کرشنؑ فرماتے ہیں :

’’سو ہے راجہ کلجگ کے اخیر میں بہت سے پاپ ہوتے رہیں گے تو نارائن جی خود دھرم کی رکھشا (حفاظت)کی خاطر سنبھل دیش میں کلنکی اوتار دھارن کریں گے۔ ‘‘

(شریمد بھگوت گیتا بارہواں اسکندصفحہ623)

اس پیشگوئی کے مطابق آخری ہزار سال میں حضرت مسیح موعودؑ مبعوث ہوئے اور آپ نے کرشن ثانی ہونے کا دعویٰ فرمایا۔ حضرت مسیح موعودؑ چونکہ رسول اللہﷺ کے بروز کے طور پر بھی ظاہر ہوئے ہیں اس لئے کلکی اوتار کی بہت ساری علامات ایسی بھی ہیں جو رسول اللہﷺ کی ذات بابرکات پر بھی پوری اترتی ہیں۔جن میں کلکی اوتار کا جزیرہ میں ظاہر ہونا، معزز قبیلہ میں پیدا ہونا، ایک غار میں تعلیم پانا، ایک برق رفتار سواری کا ہونا وغیرہ وغیرہ۔ پس رسول اللہﷺ کی آمد اور حضرت مسیح موعودؑ دونوں کی آمد سے یہ پیشگوئی پوری ہوتی ہے۔

چینی مذاہب میں عظیم الشان نجات دہندہ کی خبر

چینی مذاہب میں بھی آخری زمانہ میں ایک عظیم الشان نجات دہندہ کی آمد کی خبرملتی ہے۔ عصر حاضر میں چینی مذاہب کو زیادہ تر محقق فلسفہ خیال کرتے ہیں۔ اس لیے اس طرف کم توجہ دی جاتی ہے۔ چین کے معروف مذاہب میں کنفیوشس از م اور تاؤازم ہیں۔ تاؤ ازم کے بانی حضرت لاوتزےؑ ہیں۔ تاؤاز م کے لٹریچر میں آخری زمانے میں ایک بادشاہ کی آمد کا ذکر ملتا ہے جو تمام دنیا کا رہ نما ہو گا۔

تاؤاز م کے مطابق یہ نجات دہندہ ایسے دَور میں جب دنیا کو ایک بہت بڑے طوفان اور ابتلا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ایک ایسا سیلاب ہو گا جو ہزاروں فٹ بلند ہو گا اور ہر قسم کی آفات آئیں گی۔ ایسی عظیم تباہی اور فساد میں Li Hong ظاہر ہو گا اور اپنے متبعین کو اس عظیم تباہی سے نجات دے گااور اپنے مخالفین کو نیست و نابود کر دے گا۔ وہ ایسے ختم ہو جائیں گے جیسے بھوسا ہوتا ہے۔ اس آخری جنگ میں لی ہانگ فتح یاب ہو گا۔ اس کے بعد ایک دائمی خوشی اور امن کا دَور آئے گا۔ دنیا کی دوبارہ تشکیل ہو گی۔ زمین سات خزانوں سے بھر جائے گی۔ ایک بوائی سے سات طرح کی فصلیں اُگیں گی۔ اور لوگوں کی عمریں تین ہزار سال تک لمبی ہو جائیں گی۔ تمام مرد اور عورتیں نیک ہو جائیں گی۔ برائی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔

(https://www.encyclopedia.com/environment/encyclopedias-almanacs-transcripts-and-maps / millenarianism-chinese-millenarian-movements,https://www.encyclopedia.com/philosophy-and-religion/eastern-religions/buddhism/taoism)

اسی طرح بعض روایات میں لاؤتزے کی آمد ثانی کا بھی ذکر ملتا ہے۔ تاؤ ازم کے لٹریچر کے مطابق لاؤتزے نے کہا کہ وہ ایک ہزار دن کے بعد دوبارہ آئے گا۔ رسول اللہﷺ لاؤتزے سے ٹھیک ایک ہزار سال بعدتشریف لائے۔

پھر دوسرے اہم چینی مذہب کنفیوشس ازم میں بھی اسی طرح کی روایت ملتی ہے۔ Analects of Confuciusکے مطابق ایک موقع پر کنفیوشس نے فرمایا:

If a Kingly Man were to arise, within a single generation Goodness would prevail.

(Analects of Confucius, 12.13)

ترجمہ: ایک رحمت سے پُر وجود ظاہر ہو گا اور لوگوں کی ایک ہی نسل میں تمام دنیا میں نیکی قائم ہو جائے گی۔

اس کی وضاحت میں کنفیوشس ازم کی ایک اور اہم کتا ب Doctrine of the Mean میں مذکور ہے کہ اس وجود کے ظاہر ہوتےہی بنی نوع اس کی تقدیس کریں گےاورایمان لے آئیں گے۔ وہ جو کام بھی کرے گا لوگ اس پر اطمینان کا اظہارکریں گے۔ اس کی عظمت زمین کے کونے کونے تک پھیل جائے گی۔ حتیٰ کہ غیر ترقی یافتہ ممالک تک بھی۔ یہاں تک کہ تمام کائنات اس کی عظمت سے بھر جائے گی۔ تمام ذی روح اس کی تقدیس کے قائل ہوں گے اورہم کہیں گے کہ وہ خدا کے برا بر ہے۔

اس کے زمانے سےقبل دنیا روحانی طور پر ایک فساد میں مبتلا ہو گی اور آفات کا شکار ہو گی۔ وہی مصلح آ کر اپنے ماننے والوں کو اس سے نجات دے گا۔ اس کے مخالفین اپنی بےانتہا طاقتوں کے باوجود بھوسے کی طرح پیس دیے جائیں گے۔ اس کے آنے سے دنیا میں امن اور سلامتی کا ایک نیا دور آئے گا اور لوگ روحانی طور پر طویل عمریں پانے والے ہو جائیں گے۔ لوگوں کو ایسے روحانی خزائن ملیں گے کہ لوگ مالا مال ہو جائیں گے۔

مغربی محققین اس قسم کی روایات کو بعد میں کیا جانے والا اضافہ خیال کرتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑ کے علم کلام کی روشنی میں جب ہم اس قسم کی روایات کا جائزہ لیتے ہیں اور انبیاء کی تاریخ دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض رطب ویابس ہی نہیں بلکہ ان میں معدوم روشنی موجود ہے۔ کیونکہ اسی قسم کی روایات دیگر مذاہب میں بھی ملتی ہیں کہ جب دنیا کلیةً روحانیت سے خالی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کا آخری اور کامل نبی ظاہر ہو گا جو تمام بنی نوع کی ہدایت کےسامان کرے گا۔

پس جب ہم اس تسلسل میں چینی مذاہب میں موجود روایات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی انبیاء کا کلام ہے اور یہ پیشگوئی بھی اپنےوقت پر عظیم الشان طور پر رسول اللہﷺ پر پوری ہوئی اور آپؐ کی اتباع میں آپؐ کے غلام صادق حضرت مسیح موعودؑ پر بھی پوری ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

پس یہ پیش خبریاں اور بشارتیں صرف رسول اکرمﷺ کی صداقت کی بیّن دلیل نہیں ہیں بلکہ یہ ببانگ دہل اس بات کا اعلان بھی کر رہی ہیں کہ یہ تمام مصلح اور پیارے بھی دراصل خدا تعالیٰ کے فرستادے تھے اور سچے نبی تھے، جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر اپنے ماننے والوں کو نبی آخر الزمان پر ایمان لانے کی تاکید کی۔ پس ان کا پیغا م بھی دراصل اپنی بنیاد کے لحاظ سے سچا اور حقیقی تھا اگرچہ امتداد زمانہ کے ساتھ اس میں بے شمار تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ پس یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان مذاہب کے ماننے والوں تک ان کے پیشواکا حقیقی پیغام پہنچائیں اور ان کو محمد رسول اللہﷺ کے جھنڈے تلے لے کر آئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button