الفضل ڈائجسٹ
آنحضورﷺ کے دشمنوں سے حسن سلوک اور سیرۃالنبیﷺ کے ایک پہلو ‘شکرگزاری‘ کے بارے میں منتخب مضامین کا خلاصہ
آنحضورﷺ کا دشمنوں سے حسن سلوک
مجلس انصاراللہ جرمنی کا سہ ماہی ‘‘الناصر’’ اکتوبر تا دسمبر 2012ء ‘‘سیرۃالنبیؐ نمبر’’ہے۔ اس میں آنحضور ﷺ کے دشمنوں سے حسن سلوک کے بارے میں مکرم مولانا محمد اشرف ضیاء صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لیے مجھے مبعوث کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان اخلاق کا ظہور دشمنوں کے مقابلے پر بھی خوب ہوا۔ مکّہ میں، طائف میں اور پھر مدینہ پہنچ کر بھی مشرکین اور یہودکے مظالم جاری رہے۔ عام مسلمانوں کو تو سرعام شدید ایذائیں دی ہی جاتیں اور گلیوں میں گھسیٹتے ہوئے مارا پیٹا جاتا حتّی کہ بعض کو مار مار کر اندھا کردیا گیا اور معصوم عورتوں کی شرمگاہ میں نیزہ مار کر شہید کردیا گیا۔ خود آپﷺ کے گلے میں کپڑا ڈال کر کھینچا گیا، اونٹ کی اوجڑی سرمبارک پر اُس وقت ڈالی گئی جب آپ سجدہ ریز تھے، طائف کے غنڈوں نے پتھر مار مار کر لہولہان کردیا۔کئی سال شعب ابی طالب میں محصور رکھا گیا، قتل کی کوششیں کی گئیں اور ہر وہ ظلم توڑا گیا جو ممکن تھا۔ لیکن وہ رحمۃ للعالمینؐ ایسا تھا جس نے کبھی کسی تکلیف کا بدلہ نہیں لیا، ہمیشہ شفقت و عفو کا سلوک فرمایا بلکہ مسلمانوں کو جنگ کے دوران بھی یہی نصیحت فرمائی کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں، راہبوں اور پادریوں پر حملہ نہ کیا جائے، درخت نہ کاٹے جائیں اور پانی کے ذخائر کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ جن کی دشمنی کی وجہ سے آپﷺ کو مکّہ سے ہجرت کرنا پڑی اُن کو بھی فتح مکہ کے روز معاف فرمادیا۔
ہبار ابن الاسود نے آنحضورﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ پر اُس وقت نیزے سے قاتلانہ حملہ کیا تھا جب وہ مکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے لیے اونٹ پر سوار تھیں۔ وہ حاملہ تھیں اور اونٹ پر سے پتھریلی زمین پر گرنے کی وجہ سے اُن کا حمل ضائع ہوگیا اور آخر اُن کی یہ بیماری وفات پر منتج ہوئی۔ اس جرم کی بِنا پر ہبار کے لیے قتل کی سزا کا فیصلہ آنحضورﷺ نے فرمایا۔ فتح مکّہ کے روز وہ بھاگ کر کہیں چلا گیا۔ جب آنحضورﷺ واپس مدینہ تشریف لائے تو وہاں حاضر ہوکر معافی کا خواستگار ہواکہ پہلے تو آپؐ کے ڈر سے فرار ہوگیا تھا مگر پھر آپؐ کے عفو و رحم کا خیال مجھے آپؐ کے پاس واپس لایا ہے۔ پھر اپنی زیادتیوں کا اقرار کرکے اسلام قبول کرلیا۔ آنحضورﷺ نے نہ صرف اُسے معاف فرمادیا بلکہ تسلّی دی کہ اسلام پہلے گناہوں کا ازالہ کردیتا ہے۔
ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے بھی ساری عمر اسلام کی عداوت میں گزاری تھی۔ مدینہ پر باربار حملے کیے۔ حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روکا اور پھر اس موقع پر جو معاہدہ کیا اسے توڑنے اور پامال کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ فتح مکّہ کے موقع پر امن کے اعلانِ عام کے باوجود ہتھیار نہ ڈالے بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خالد بن ولید کے دستے پر حملہ کرکے حرم میں خونریزی کا موجب بنا۔ پھر اپنے جرائم کی معافی کی کوئی صورت نہ دیکھ کر یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ اُس کی بیوی اُمّ حکیم مسلمان ہوگئی اور رسول کریم ﷺ کے دربار سے اپنے خاوند کی امان کی طالب ہوئی۔ پھر آنحضور ﷺ کا امان نامہ لے کر اپنے خاوند کی تلاش میں اُس کے پیچھے گئی اور جاکر کہا کہ مَیں اُس عظیم انسان کے پاس سے آئی ہوں جو بہت ہی صلہ رحمی کرنے والا اور حُسنِ سلوک کرنے والا ہے، تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ عکرمہ کو اپنے جرائم کے خیال سے معافی کا یقین تو نہ آتا تھا مگر اپنی بیوی پر اعتماد کرتے ہوئے واپس لَوٹ آیا اور جب رسول اللہ ﷺ کے دربار میں حاضر ہوا تو آپؐ نے کمال شفقت کا سلوک کیا اور دشمن قوم کے اس سردار کے اعزاز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ پھر اپنی چادر اُس کی طرف پھینک دی جو امان عطا کرنے کے علاوہ احسان کا اظہار بھی تھا۔ عکرمہ نے عرض کیا کہ میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے مجھے معاف فرمادیا ہے۔ آپؐ نے اثبات میں جواب دیا تو اُس کا سینہ کھل گیا اور آپؐ کی صلہ رحمی، حلیمی اور شانِ کریمی کا اظہار کرتے ہوئے کلمہ شہادت پڑھ لیا۔
ابوسفیان کی بیوی ہند نے اسلام کے خلاف جنگوں میں کفار کو اُکسانے اور بھڑکانے کا فریضہ خوب ادا کیا تھا۔ جنگ احد میں حضرت حمزہؓ کی نعش کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا اور اُن کے ناک، کان اور دیگر اعضاء کاٹ کر لاش کا حلیہ بگاڑا اور کلیجہ چباکر آتشِ انتقام کی آگ سرد کی۔ اس کے جرائم کی وجہ سے اسے بھی واجب القتل قرار دیا گیا تھا۔ فتح مکّہ کے روز ہند بھی نقاب اوڑھ کر آگئی اور بیعت میں شامل ہوگئی لیکن بیعت کے دوران ہی بعض شرائطِ بیعت کے بارے میں استفسار کیا تو نبی کریم ﷺ پہچان گئے کہ ایسی دیدہ دلیری ہند ہی کرسکتی ہے۔ پوچھا کیا تم ہند ہو؟ کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! اب تو مَیں دل سے مسلمان ہوچکی ہوں، جو کچھ پہلے گزر چکا آپؐ اس سے درگزر فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپؐ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک فرمائے گا۔
آنحضورﷺ کا حوصلہ دیکھیں کہ ہند کو بھی معاف فرمادیا۔ تب اُس کے دل کی کایا پلٹی۔ اُس نے گھر میں جاکر سارے بُت توڑ دیے۔ پھر دو بکرے ذبح کرواکے بھونے اور آنحضورﷺ کی خدمت میں اس پیغام کے ساتھ بھجوائے کہ آج کل جانور کم ہیں اس لیے یہ حقیر تحفہ پیش ہے۔ محسن اعظم جو کسی کے احسان کا بوجھ اپنے اوپر نہ رکھتے تھے، آپؐ نے ہند کے ریوڑ میں برکت کے لیے دعا کی۔ یہ دعا اس شان سے قبول ہوئی کہ ہند سے بکریاں سنبھالی نہ جاتی تھیں۔وہ خود کہا کرتی تھی کہ یا رسول اللہؐ! ایک وقت تھا جب آپؐ کا گھر میری نظر میں دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل اور حقیر تھا مگر اب روئے زمین پر تمام گھرانوں سے معزز اور عزیز مجھے آپؐ کا گھر ہے۔
اپنی غلامی سے آزادی کے لالچ میں وحشی بن حرب نے غزوۂ احد میں سامنے سے مقابلہ کرنے کی بجائے، دھوکا دیتے ہوئے چھپ کر حضرت حمزہ ؓکو نیزے سے وار کرکے شہید کردیا۔ وہ بھی فتح مکّہ کے بعد طائف کی طرف بھاگ گیا۔ جب مختلف علاقوں سے سفارتی وفود نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے تو وحشی کو کسی نے مشورہ دیا کہ آنحضورﷺ سفارتی نمائندوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ طائف کے سفارتی وفد کے ساتھ دربار نبویؐ میں حاضر ہوا اور عفو کی بھیک مانگ لی۔ آنحضورﷺ نے اُس سے حضرت حمزہؓ کی شہادت کا واقعہ تفصیل سے سنا تو اپنے محبوب چچا کی شہادت کی یاد ایک بار پھر تازہ ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔شاید حضرت حمزہؓ کے وہ احسان بھی یاد آئے جو اسلام کی کمزوری کے زمانے میں ابوجہل کی ایذاؤں کے مقابل پر آپؐ کی سپر بن کر ظاہر ہوئے اور آخر دم تک نبی کریم ﷺ کے دست و بازو بنے رہے۔ دوسری طرف وحشی اسلام قبول کرکے عفو کا طالب ہوچکا تھا۔ آپؐ نے کمال حوصلے سے اُسے معاف کردیا۔
مشرکین کا سردار صفوان بن امیّہ بھی عمر بھر مسلمانوں سے نبردآزما رہا۔ فتح مکّہ کے روز بھی عکرمہ کے ساتھ مل کر خالدؓ بن ولیدکے دستے پر حملہ آور ہوا۔ اگرچہ آنحضورﷺ نے اُس کے لیے بطور خاص کسی سزا کا اعلان نہیں فرمایا لیکن وہ خود ہی نادم ہوکر یمن کی طرف بھاگ گیا۔ اُس کے چچا عمیر بن وہب نے آنحضورﷺ کے پاس آکر عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپؐ نے ہر اسودواحمر کو امان دے دی ہے، اپنے چچازاد کا بھی خیال کیجیے اور اُسے معاف فرمادیجیے۔ آنحضورﷺ نے معافی عطا فرمائی تو حضرت عمیرؓ نے عرض کیا کہ مجھے اپنی امان کا کوئی نشان بھی عطا فرمائیں۔ آنحضورﷺ نے اپنا وہ سیاہ عمامہ معافی کی علامت کے طور پر اتار کر دے دیا جو فتح مکّہ کے روز آپؐ نے پہنا ہوا تھا۔ عمیرؓ نے جاکر صفوان کو معافی کی خبر دی تو اُسے یقین نہیں آیا۔ عمیرؓ کے باربار یقین دلانے پر وہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ کیا آپؐ نے مجھے امان دی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ اُس نے دو ماہ کی مہلت مانگی کہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے مکّہ میں ٹھہرا رہوں۔ آپؐ نے چار ماہ کی مہلت عطا فرمائی۔ لیکن چند ہی دن گزرے کہ محاصرۂ طائف سے واپسی پر ایک وادی کے پاس سےگزرتے ہوئے وہ طمع بھری آنکھوں سے آنحضرتﷺ کے اُس ریوڑ کو دیکھنے لگا جو ایک وادی میں چر رہا تھا۔ آنحضورﷺ نے پوچھا: ‘‘اے صفوان! کیا تجھے یہ جانور بہت اچھے لگ رہے ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا:یہ سب جانور مَیں نے تمہیں بخش دیے۔ وہ بے اختیار بولا خداکی قسم! اتنی بڑی عطا سوائے نبی کے کوئی نہیں کرسکتا۔ یہ کہہ کر وہیں اسلام قبول کرلیا۔’’
فتح مکّہ کے روز آنحضورﷺ کی امان قبول نہ کرتے ہوئے حضرت خالد بن ولید کے دستے پر حملہ کرنے والوں میں حارث بن ہشام اور زہیر بن امیّہ بھی شامل تھے۔ پھر وہ دونوں پشیمانی میں آنحضورﷺ کی چچازاد بہن اُمّ ہانی سے معافی کی سفارش کے لیے حاضر ہوئے۔ دونوں اُمّ ہانی کے سسرالی عزیز تھے۔ امّ ہانی نے انہیں اپنے گھر میں ٹھہرایا اور جاکر پہلے اپنے بھائی حضرت علیؓ سے اُن کی معافی کے لیے بات کی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ایسے معاندین کو مَیں اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا۔ تب اُمّ ہانی آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اب ایسی خاتون کی امان کیا حیثیت رکھتی ہے جو ابھی خود بھی مسلمان نہیں ہوئی۔ لیکن جب اُس نے آنحضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرا بھائی علیؓ کہتا ہے کہ وہ اُس شخص کو قتل کرے گا جسے مَیں نے اَمان دی ہے تو آنحضورﷺ نے فرمایا: اے اُمّ ہانی! جسے تم نے اَمان دی اُسے ہم نے اَمان دی۔ چنانچہ دونوں دشمنانِ اسلام کو معاف فرمادیا۔ ان میں سردارِ قریش حارث بن ہشام وہی ہیں جنہیں نبی کریمﷺ نے ایک موقع پر ایک سو اونٹوں کا تحفہ دیا۔ یہ وہی ہیں جو غزوۂ یرموک میں شامل ہوئے اورشدید زخمی ہوئے۔ پھر خود پانی پینے کی بجائے اپنے دو مسلمان بھائیوں عکرمہ اور سہیل کو پیاسا دیکھ کر اُنہیں پانی پلانے کا اشارہ کیا اور یوں ایثار کرتے ہوئے پیاس کی شدّت میں اپنی جان قربان کردی۔
یہود نے رسول اللہﷺ کو زہر دے کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور ایک سریع الاثر زہر بہت بڑی مقدار میں بکری کی ران کے گوشت میں پکاکر سلام بن مشکمکی بیوی زینب کے ذریعے تحفۃً خدمتِ رسالت میں پیش کیا۔ آپؐ نے پہلا نوالہ ہی لیا تھا کہ آپؐ کو زہر کا احساس ہوگیا۔ ایک صحابی حضرت بشیرؓ نے لقمہ نگل لیا اور کچھ عرصے بعد اس زہر کے مہلک اثرات سے شہید ہوگئے۔ آنحضورﷺ نے زینب اور دوسرے یہود کو بلاکر پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو وہ کہنے لگی کہ ہم نے سوچا کہ اگر آپؐ سچے نہیںتو آپ سے نجات مل جائے گی ورنہ زہر آپؐ پر اثر نہیں کرے گا۔ اب مجھ پر آپؐ کی سچائی کھل گئی ہے۔ اس عورت نے وہیں اسلام قبول کیا اور آنحضرتﷺ نے اُس کو بھی معاف فرمادیا۔
فتح مکّہ کے وقت طواف کے بعد آنحضورﷺ نے کلیدبردار عثمان بن طلحہ سے بیت اللہ کی چابیاں منگوائیں۔ جب حضورﷺ مکّہ میں تھے تو سوموار اور جمعرات کے دن خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا جاتا تھا اور لوگ اندر جاتے تھے۔ ایک بار آپؐ اندر جانے لگے تو اسی عثمان بن طلحہ نے روک دیا۔ اُس وقت آپؐ نے عثمان سے فرمایا کہ اس خانہ خدا کی چابیاں ایک دن میرے پاس آئیں گی اور پھر جسے مَیں چاہوں گا دوں گا۔ آج وہ دن آچکا تھا۔ عثمان بن طلحہ نے لرزتے ہاتھوں سے چابیاں پیش کیں۔ حضرت علیؓ عرض کرچکے تھے کہ کعبہ کی دربانی بنوہاشم کے سپرد کردی جائے۔ جب آنحضورﷺ کعبہ میں نماز پڑھ کر باہر تشریف لائے تو چابیاں عثمان بن طلحہ کے حوالے کرکے ایک عجیب تاریخ ساز انتقام لیا۔اور فرمایا:آج کا دن احسان اور وفا کا دن ہے۔ اے عثمان!مَیں یہ چابیاں ہمیشہ کے لیے تمہارے خاندان کے حوالے کرتا ہوں اور کوئی بھی تم سے یہ چابیاں واپس نہیں لے گا سوائے ظالم کے۔یہ احسان دیکھ کر عثمان نے کلمہ شہادت پڑھ لیا۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی اپنی ذات کی خاطر اپنے اوپر ہونے والی کسی زیادتی کا انتقام نہیں لیا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ منافقین کے سردار عبداللہ بن اُبَینے ایک دفعہ مدینہ میں آنحضورﷺ کی سواری کی گرد اُڑنے پر آپؐ کو بُرا بھلا کہا اور دوسرے موقع پر آپؐ کو نعوذباللہ مدینہ کا ذلیل ترین کہا۔ ان گستاخیوں کے باوجود آپؐ نے اُس کا جنازہ پڑھایا اور نعش کے لیے کرتہ عطا فرمایا۔
آنحضورﷺ نے غزوہ ذات الرقاع میں تعاقب کرکے قتل کے ارادے سے آنے والے غورث بن حارث کو بھی معاف فرمادیا جس نے آنحضورﷺ کے سوتے ہوئے آپؐ کی تلوار پر قبضہ کیا لیکن آپؐ کے الٰہی رعب سے قتل پر قادر نہ ہوسکا۔ آپؐ نے اس جانی دشمن کو بھی معاف فرمادیا۔
مکّہ کے دَور میں جب آنحضورﷺ طائف گئے تھے تو وہاں کے باشندوں نے آپؐ کو لہولہان کردیا تھا۔ ایذارسانی میں طائف کا سردار عبدیالیل پیش پیش تھا۔ 8ہجری میں یہی شخص جھکی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ایک وفد ہمراہ لے کر دربار نبویؐ میں حاضر ہوا تو آپؐ نے اُسے مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور لطف و کرم کا برتاؤ کیا۔
نجران کے عیسائیوں کے وفد کو بھی آنحضورﷺ نے مسجد نبوی کا مکین بنالیا اور وہیں مشرق کی طرف منہ کرکے اپنی عبادات بجالانے کی بھی اجازت عطا فرمائی۔ان عیسائیوں سے ملنے کے لیے آنے اور گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرنے والے یہود پر بھی مسجد میں داخل ہونے کی پابندی کبھی نہیں لگائی۔
رحمۃللعالمین نے اہل مکّہ کے لیے امان کا اعلان فرمایا تو بعض بدبخت یہ منصوبہ بنانے لگے کہ اگر اس عظیم فاتح کو قتل کردیا جائے تو مسلمانوں کی فتح شکست میں بدلی جاسکتی ہے۔ طواف کے وقت ایک شخص فضالہ بن عمیر اسی نیت سے آپؐ کے قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے اُس کے ناپاک منصوبے کی اطلاع دی۔ آپؐ نے اُس کا نام لے کر بلایا تو وہ گھبراگیا۔ آپؐ نے پوچھا:کس ارادے سے آئے ہو؟ وہ جھوٹ بول گیا۔ آپؐ مسکرائے اور قریب کرکے پیار سے اپنا ہاتھ اُس کے سینے پر رکھ دیا۔ فضالہ بعد میں کہا کرتا تھا کہ اُسی وقت میری تمام نفرت دُور ہوگئی اور مجھے ایسے لگا کہ دنیا میں سب سے پیارے آنحضرتﷺ ہیں۔چنانچہ وہیں کلمہ پڑھ لیا۔
وہ لوگ جو اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیںکہ اس کی اشاعت تلوار کے زور سے ہوئی، سوچیں کہ وہ کونسی تلوار تھی جس نے دشمنانِ اسلام کے دلوں کو فتح کیا۔ بے شک یہ پیار و محبت اور عفو و درگزر کی تلوار تھی۔
………٭………٭………٭………
سیرۃالنبی ﷺ کا ایک پہلو۔ شکرگزاری
رسول اللہﷺ فرمایا کرتے تھے: جو شخص لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ رسالہ ‘‘انصارالدین’’لندن جولائی اگست 2012ءکی زینت ایک مضمون میں محترم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے آنحضرت ﷺ کی شکرگزاری پر روشنی ڈالی ہے۔
شکرگزاری کا براہ راست تعلق حسن خلق کے ساتھ بھی ہے۔ حضرت جابر ؓکا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارا اور اس دن میری مجلس میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ ہوگا جو تم میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق کا مالک ہو گا۔
رسول اکرم ﷺ کے حسن خلق کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپؐ بہت قدردان تھے اور طبیعت میں بہت زیادہ شکر کا جذبہ تھا۔ خدا کے لئے بھی اور خدا کے بندوں کے لئے بھی۔ حضرت عائشہؓ نے رسول اکرمؐ سےعرض کیا کہ جب آپؐ کو قرب الٰہی حاصل ہے تو پھر آپؐ اس طرح عبادت کیوں کرتے ہیں؟فرمایا کہ کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
آنحضورﷺ چھوٹی چھوٹی بات کی بھی قدر کرتے تھے۔ ممنونیت محسوس کرتے تھے اور اس کا اظہار فرماتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ نے ایک دفعہ رسول اللہؐ کے لئے وضو کا پانی رکھا تو شکرگزاری کا اظہار اس دعا کے ساتھ کیا کہ اے خدا! اس کو دین کی سمجھ عطا کر اور اسے تفسیر قرآن کا علم بخش۔
ابو زید عمرو بن احطب ؓسے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہؐ نے پینے کو پانی مانگا۔ اس پر میں رسول اللہ ﷺ کے لئے ایک برتن میں پانی لایا۔ پیش کرنے لگا تو نظر پڑی کہ اس میں ایک بال ہے۔ میں نے جھٹ سے بال نکال دیا اور صاف پانی رسول اللہؐ کو پیش کیا۔ رسول اللہؐ نے (محبت سے) میری طرف دیکھا اور مجھے اس خدمت کا یہ صلہ دیا کہ میرے لئے دعا کی کہ اے اللہ اس کو خوبصورت بنا دے اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہؐ نے آپ کے چہرے پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور آپ ؓکو حسن و جمال کی دعا دی۔
اظہارممنونیت، قدردانی اور شکر گزاری میں غیروں اور اپنوں میں کوئی تمیز نہیں تھی۔ مطعم بن عدی وہ شخص تھا جس نے رسول اللہؐ کے طائف سے مکہ واپس آنے پر آپؐ کوپناہ دی تھی اور اپنی پناہ میں آپؐ کو مکہ میں واپس لایا تھا۔ رسول اللہؐ نے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارہ میں فرمایا: ‘‘اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھ سے وہ ان گندے لوگوں کے بارہ میں سفارش کرتا تو میں اس کی خاطر سے ان کو چھوڑ دیتا۔’’
عمران بن حصین کہتے ہیں کہ ہم تبوک سے واپسی کے سفر میں رسول اکرمﷺ کے ساتھ تھے ۔ آپؐ نے مجھے اس ٹولی میں شامل کیا تھا جو اصل قافلے سے آگے چل رہی تھی اور ہم سب ہی بہت زیادہ پیاسے تھے۔ ہمیں (اونٹ پر سوار)ایک عورت ملی جو پانی کے دو مشکیزوں پر پیر لٹکائے بیٹھی تھی۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے؟ کہنے لگی یہاں تو کہیں پانی نہیں ہے۔ ہم نے پوچھا کہ تمہارے ڈیرے سے پانی کتنے فاصلہ پر ہے؟ کہنے لگی اتنے فاصلہ پر پانی ہے کہ ایک پورا دن اور پوری رات چل کر وہاں تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اس پر ہم نے اس سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ رسول اللہؐ کے پاس چلو۔ اس نے جواب دیا کہ کیسا رسول، میں تو کسی رسول کو نہیں جانتی۔ وہ ہمارے ساتھ جانے کو تیار نہیں تھی لیکن ہم نے اس کو اپنی مرضی نہ کرنے دی۔ اس کو مجبور کرکے رسول اللہؐ کے پاس لے چلے۔ ہم اس کو لے کر نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے ماجرا دریافت کیا۔ اس پر اُس عورت نے ساری بات عرض کی اور رسول اللہؐ کو مزید بتایا کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے۔ رسول اللہؐ نے اس کی بات سننے کے بعد فرمایا کہ اس کے مشکیزے اتار کر لائو اور پھر رسول اللہؐ نے اس کے نچلے دھانوں پر اپنے ہاتھ سے مسح کیا۔ عمران کہتے ہیں اس کے بعد ہم چالیس پیاسے تھے جنہوں نے ان مشکیزوں سے پانی پیا اورخوب سیر ہو کر پیا۔ پھر ہم نے اونٹوں کو تو پانی نہیں پلایا البتہ قافلے میں جتنے مشکیزے اور برتن تھے وہ ہم نے اس عورت کے مشکیزوں سے پانی لے کر بھر لئے۔ جب آخری برتن بھرا گیا تو بھی عورت کے مشکیزوںکا یہ حال تھا کہ وہ لبالب بھرے ہوئے تھے۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو رسول اللہؐ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ کھانے کا جو سامان تمہارے پاس ہے لائو۔ پھر اس عورت کے لئے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں جمع کردی گئیں۔ وہ یہ سامان اور اپنا پانی لے کر واپس ہوئی۔ اپنے عزیزوں کے پاس پہنچی تو کہنے لگی کہ میں آج ایک ایسے انسان سے مل کر آئی ہوں جو یا تو بہت بڑا جادوگر ہے یا وہ جیسا کہ لوگ کہتے ہیں نبی ہے۔ اس عورت کے ذریعہ سے خدا نے اس کے قبیلے کو ہدایت دی وہ خود اور اس کا قبیلہ بھی مسلمان ہو گیا۔
کیا ہی عجیب انداز ہے شکرگزاری اور احسان مندی کا۔ اگرچہ اس عورت کا پانی تو جوں کا توں رہا تھا لیکن پھر بھی آپؐ اس کے ممنون تھے کہ وہ آپؐ کے کام آئی۔
ربیع بنت معوذ بن عفراء بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم ؐ کو تَریں بہت پسند تھیں۔ معوذ نے میرے ہاتھ رسول اکرمؐ کو ایک صاع تازہ کھجوروں کا اور ایک صاع چھوٹی تر کا بطور تحفہ بھیجا۔ نیچے کھجوروں والا برتن تھا اوپر تریں تھیں۔ ربیع کہتی ہیں کہ ان دنوں رسول اکرمؐ کے پاس بحرین سے زیورات آئے ہوئے تھے۔ میںنے جب یہ تحفہ پیش کیا تو رسول اکرم ؐ نے اپنی مٹھی ان زیورات سے بھری اور مجھے دے دیے۔ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اکرم ؐ نے مجھے اتنا زیور دیا جو میری مٹھی میں آ جاتا اور پھر فرمایا کہ اسے پہنو۔
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے آپؐ سے نیکی کی ہو اور آپؐ نے اس کا بدلہ نہ دیا ہو خواہ دعا ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو۔ عبداللہ بن ابی ربیعہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺنے مجھ سے چالیس ہزار (کی رقم) قرض لی۔ پھر جب رسول اللہؐ کے پاس مال آیا تو رسول اللہؐ نے میرا قرض واپس کر دیا اور ساتھ ہی مجھے دعا دی کہ خدا تیری اولاد اور تیرے مال میں برکت ڈالے اور فرمایا کہ قرض کا بدلہ تو یہی ہے کہ قرض دہندہ کا شکریہ ادا کیا جائے اور اس کے حق میں دعا کی جائے اور اس کا قرض واپس کیا جائے۔
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تحفہ قبول کیا کرتے تھے اور پھر اپنی طرف سے تحفہ دے کر اس تحفہ کو لَوٹاتے بھی تھے۔
صحابہؓ جس طرح آپؐ سے محبت کرتے اور اس محبت کا اظہار کرتے تھے آپؐ اس کی بہت قدردانی فرماتے تھے۔ ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رات آئی تو سب لوگ اپنے اپنے دھیان میں چلے جا رہے تھے لیکن مَیں نے اپنی اونٹنی رسول اکرمﷺ کی سواری کے ساتھ رکھی ہوئی تھی اور میری نگاہ آپؐ پر تھی۔ جب نصف رات گزر گئی تو آپؐ سواری پر سو گئے اور سوتے سوتے اپنی کاٹھی سے کھسک گئے۔ مَیںنے آگے بڑھ کر رسول اللہؐ کو سہارا دیااور بڑی احتیاط سے آپؐ کو کاٹھی پر سیدھا کر دیا تاکہ کہیں آپؐ کی آنکھ نہ کھلے۔ کچھ رات گزری تو پھر ایسا ہی ہوا اور میں نے پھر بغیر رسول اللہؐ کو جگائے آپؐ کو سہارا دے کر سیدھا کرکے بٹھا دیا۔ پھرصبح کے قریب رسول اللہؐ کو نیند میں زیادہ زور سے جھٹکا لگا اور آپؐ گرنے لگے تب میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر آپؐ کو سہارا دیا۔ اس دفعہ آپؐ کی آنکھ کھل گئی۔ ابھی اندھیرا تھا مجھے پہچانا نہیں۔ فرمایا کون ہے؟ مَیںنے عرض کیا کہ ابوقتادہ۔ فرمایا کہ کب سے اس طرح میرے ساتھ چل رہے ہو؟ میںنے عرض کیا کہ سرِشام سے ہی جب سے سفر شروع کیا ہے رسول اللہؐ کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔ اس پر آپؐ نے مجھے دعا دی جس طرح تُو نے خدا کے نبی کی حفاظت کی اللہ تیری حفاظت کرے۔
جب دین کی کوئی خدمت کرتا تو اس پر اظہار محبت اور اظہار تشکر کا انداز اَور ہی ہوتا تھا۔ جنگ احزاب کے موقع پر حضرت حذیفہؓ کو دشمنوںکا حال معلوم کرنے کو بھیجا۔ سخت سردی تھی۔ کہتے ہیںجب میں واپس آیا تو مجھ پر شدید کپکپی طاری تھی جیسے میں ٹھنڈے حمام سے نکلا ہوں۔ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو آکر صورت حال بتائی۔ اس وقت آپؐ نے اپنی نماز کی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ آپؐ نے میری حالت دیکھی تو مجھے اپنے پاس لٹا کر میرے اوپر اپنی چادر کا ایک حصہ اوڑھا دیا۔میں وہیں آپؐ کے پاس چادر کی گرمی میں لیٹا لیٹا سو گیا ۔صبح رسول اللہ ﷺ نے مجھے جگایا اور فرمایا کہ اب تو بہت سولیے صبح ہو گئی ہے اٹھو۔
حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ میںنے رسول اللہؐ کو کسی کے لئے یہ کہتے نہیں سنا کہ میرے ماں باپ تیرے پر قربان ہوں سوائے سعد بن مالک کے۔ جنگ احد کا موقع تھا سعد مسلمانوں کی طرف سے تیر اندازی کر رہے تھے اور رسول اللہؐ ان کے پاس کھڑے کہتے جاتے تھے: سعد تیرے پر میرے ماں باپ قربان تُو اسی طرح تیر چلاتا جا۔ سعد تیرے پر میرے ماں باپ قربان تُو اسی طرح تیر چلاتا جا۔
………٭………٭………٭………
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کا نعتیہ کلام ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ اکتوبر 2012ء کی زینت ہے۔ اس کلام میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
محمدؐ مصطفیٰ ہے مجتبیٰ ہے
محمدؐ مہ لقا ہے دل رُبا ہے
محمدؐ جامع حسن و شمائل
محمدؐ محسن ارض و سما ہے
کمالاتِ نبوت کا خزانہ
اگر پوچھو تو ختم الانبیاء ہے
شریعت اس کی کامل اور مدلّل
غذا ہے اور دوا ہے اور شفا ہے
محمدؐ صاحبِ اخلاقِ کامل
جمالی اور جلالی ایک جا ہے