نصیحت ضرور مگر…
حضرت مسیح موعود علیہ السلام شرائط بیعت کی شرط نمبر9 میں بیعت کنندہ کے لیے یہ لازم فرماتے ہیں کہ’’ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چلتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔‘‘
ان خداداد طاقتوں اور نعمتوں کا تو احاطہ ہی نہیں کیا جاسکتا جو خداتعالیٰ نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہیں۔ جن کے ذریعے اس کی مخلوق کو فائدہ دیا جا سکتا ہے۔ ذیل کے مضمون میں ان میں سے صرف ایک کا ذکر کیا جائے گا اوروہ ہے ’’نصیحت‘‘۔ اس قدر وسیع موضوع کے چند پہلو جو ہماری روز مرہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
نبی کریمﷺ کو جوامع الکلم عطا ہوئے تھے یعنی آپؐ کے الفاظ مختصر لیکن علم و حکمت کے کثیر موتی ان میں موجود ہوتے تھے۔ ایک حدیث جو بلا شبہ اس کی عکاسی کرتی ہے پیش خدمت ہے:آپؐ نے فرمایا’’اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ‘‘ یعنی دین نصیحت (خیر خواہی) ہے۔ عمومی طور پر دین و دنیا کے معاملات میں خیر و بھلائی کی باتوں کو اپنے اردگرد پھیلانا نصیحت کہلاتا ہے۔
قرآن کریم سارے کا سارا وعظ و نصیحت ہے تمام انبیاءکرامؑ اور مسیح آخرالزمانؑ کی بعثت کا مقصد ہی اللہ کی مخلوق کی ایسی رہ نمائی کرنا تھا جو دنیاوی اور اُخروی زندگی کی فلاح کا باعث بن سکے۔ دنیا میں سب سے باکمال اور عظیم ناصح نبی کریمﷺ کی ذات اقدس ہے۔ روز مرہ زندگی میں نصیحت کرنے کے بہت سے طریقے ہیں مثلا ًزبانی وعظ و تلقین، تقاریر و بیان، خطوط، مضامین، مقالے، شاعری وغیرہ۔ ہم اکثر و بیشتر دیکھتے ہیں کہ لوگوں کو صحیح راستہ بتانے والوں کو عام طور پر اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ان کی خدمت اور جذبے کی قدر نہیں کی جاتی۔ اردو شاعری میں بھی ناصح کو عام طور پر اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس پر تنقید اور نکتہ چینی کی جاتی ہے۔ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
(غالب)
ناصح تجھے آتے نہیں آداب نصیحت
ہر لفظ ترا دل میں چبھن چھوڑ رہا ہے
شکایت مجھ کو دونوں سے ہے ناصح ہو کہ واعظ ہو
نہ سمجھا ہوں نہ سمجھوں، سر پِھرالے جس کا جی چاہیے
(آغا اکبر آبادی)
محبت کو سمجھنا ہے تو ناصح خود محبت کر
کنارے سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا
(خمار بارہ بنکوی)
لیکن یہاں غور کریں تو ان اشعار میں ناصح کی توجہ زیادہ تر صرف وعظ ونصیحت کیے جانے پر ہی مرکوزہے، دوسرے کے حالات و واقعات اور طبیعت کا خیال کیےبغیر، اصل معاملے تک پہنچےبغیر، بس سمجھانا ہی چاہتا ہے۔ یا ایسے موقع اور ایسے موڑ پر نصیحت کے لیے کمر بستہ ہے کہ جو مرضی کرے نصیحت اثر کرکے نہیں دے رہی۔
نصیحت کرنا ہمارے بڑے، بزرگان، عہدے داران، والدین، اساتذہ ا ور ہم سب کا دینی اور اخلاقی فرض ہے۔ اَصَلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُم اورامر بالمعروفاورنہی عن المنکر کے لیے ضروری ہےکہ ہم جن سے محبت کرتےہیں ان کی خیر خواہی کے لیے انہیں سمجھاتے، بتاتے اور تلقین کرتے رہیں۔
لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ نصیحت کرنے والوں کو دیکھتے ہی، اپنی اپنی راہ لیتے ہیں، کنی کترا جاتے ہیں، سنی اَن سنی کر جاتے، اکتاہٹ یا بد تمیزی کا اظہار بھی کر جاتے ہیں اور ناصحین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ بات نے خاطر خواہ اثر ہی نہیں کیا فوری عمل نہیں ہوا یا کان پر جوں تک نہیں رینگتی، نِرا چکنا گھڑا ہے وغیرہ…کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
کئی طرح کے لوگ نظر آتے ہیں ایک تو وہ جو خیر سے نصیحت کرتے ہی نہیں ’’ہمیں کیا‘‘والا رویہ اپنائےرکھتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ نصیحت کرنا،کسی کی بھلائی چاہنا بھی ایک احسان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَ اَحۡسِنُوۡا ۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ
اور احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ:196)اس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے نصیحت کرنا بھی ضروری ہے۔ شیخ سعدی کا یہ شعر ’’ گلستان‘‘ کے پہلے باب کی تیسری حکایت میں مذکور ہے۔
تا مرد سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
یعنی انسان جب تک کوئی گفتگو نہ کرے عیب و ہنر پوشیدہ رہتا ہے۔
قرآن کریم کی حکومت کو بکلی اپنے سروں پر قبول کرتے ہوئے، اسے مکمل ضابطۂ حیات اور ہر شعبہ اور موقع کے لیے ہرطرح کی خیر کے لیے رہ نما سمجھنے اور اس کو اپنی زندگیوں میں لاگو کرنے کے لیے اتباع رسولؐ ضروری ہے۔ نصیحت کرتے ہوئے اور تربیت کرتے ہوئے اصل میں ان تمام باتوں کا لحاظ رکھنا اورانہیں مدّ نظر رکھنا ضروری ہے۔
آنحضرتﷺ کی سیرت پر بدرجہ کمال عمل کرنے والے آپؐ کے سچےعاشق حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو انداز تربیت اختیار فرمایا وہی ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :
’’نصیحت کرنے والا حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے نصیحت کے رنگ سیکھے تو اس کے تعلقات میں رحمت غالب ہوگی اور رحمت کے نتیجے میں وہ شخص جس کو نصیحت کی جاتی ہے اس کی توجہ رحمت کی طرف رہتی ہے اور وہ نصیحت کا بُرا نہیں مناتا…۔
اپنے خطابات میں عمومی نصائح میں آپؐ ایسی نصائح فرمادیتے کہ جس کے دل میں کمزوری تھی وہ بھانپ لیتا تھا کہ میرے متعلق بات ہورہی ہے۔ لیکن یہ بھی جان لیتاتھا کہ مجھ پر ستاری کا پردہ ڈالا گیا ہے۔ اور اس طرح وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجاتا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍جون 1992ء)
نصیحت کرنے کے لیے سب سے ضروری چیز اصلاح نفس اور تقویٰ یعنی خوفِ خدا ہے۔ وہی بات کہنی چاہیے جو خود آپ میں موجود ہو یا آپ اس کے لیے کوشش کرتے رہتے ہوں۔ ’’خود راں فضیحت ودیگراں نصیحت‘‘والا حال نہ ہو۔ خود احتسابی ضروری ہے۔ نہ یہ کہ اپنی غلطی کی یا تو خوبصورتی سے پردہ پوشی کرتے ہوئے توجیح اور مجبوری بیان کردی جائے اور دوسروں کو نصیحت کی جائے۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ نصیحت کرنے سے پہلے، دوران اور بعد میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا ضروری ہے تاکہ نیت اور عمل میں برکت رہے اور نصیحت ثمر آور ثابت ہو۔ نصیحت کرتے ہوئے چاہے وہ زبانی ہو، تحریری، اجتماعی یا انفرادی ہو وہاں آداب معاشرت، گفتگو اور محفل کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
یارو خودی سے باز بھی آؤ گے یا نہیں
خو اپنی پاک صاف بناؤ گے یا نہیں
نصیحت کا مقصد و مطلوب اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور اس کی مخلوق کی بھلائی ہونا چاہیے نہ کہ خود نمائی اور خود ستائی۔ اس کے لیے احساس، خلوص جذبۂ خیر خواہی اور وفاداری شرط ہے۔ نصیحت کرتے ہوئے، اگلے کو سمجھاتے ہوئے، کہیں اصل میں آپ اپنی کچھ زیادہ پڑھی ہوئی کتابوں، زبان دانی، علمی و ادبی مہارت یا اپنے خیال میں کچھ زیادہ کی ہوئی عبادت کا رعب تو نہیں ڈال رہے؟ نصیحت کے لیے حسب ِحال اور حسبِ ضرورت مثال دینا تو اچھا ہے لیکن گھوم پھر کر سارا زور خود کو رول ماڈل ثابت کرنے پر نہ ہو کہ ہم ایسے تھے ہم نے یہ کیا، ہمارے زمانے میں یہ ہوتا تھا۔ نبی کریمؐ کی ذات مبارکہ آپؐ کے صحابہؓ، حضرت مسیح موعودؑ کی ذات اقدس اور آپؑ کے صحابہؓ و خلفا ئےکرام نیز ایسی کئی مثالیں ہیں جو سب کے لیے یکساں قابل قدر اور قابل تقلید ہوتی ہیں۔
آپ کے الفاظ دراصل وہ تحفہ ہوتے ہیں جو کسی کو زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ نصیحت کے لیے حسبِ حال ہرپُرحکمت انداز نہایت ضروری ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النمل:125)
ایک ہی بات کی طرف بار بار توجہ دلائی جاسکتی ہےلیکن خیال رہے کہ اگلا جھنجھلاہٹ یا اکتاہٹ کا شکار نہ ہو۔ حقیقی ناصح کے لیے استقامت، حوصلہ، صبروتحمل، استقلال اور برداشت نہایت ضروری ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَذَكِّرْ إِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى (الاعلىٰ :10)
وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ (الذاریات:56)
جو پتھر پہ پانی پڑے متصل
تو بے شبہ گھس جائے پتھر کی سل
نصیحت کرتے ہوئے اگلے کی عقل، سمجھ بوجھ، قابلیت، حالات، وقت اور موقع کی نزاکت کا بہرحال خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس کے مطابق ہی زبان و اقوال کا استعمال کریں۔ اندازِ تخاطب بہت اہم ہے کہ مخاطب آپ کو خیر خواہ اور رہ نما سمجھے نہ کہ حریف اور مالک …طرز تخاطب اور القاب ایسے ہوں کہ توجہ فوری آپ کی طرف مبذول ہو جائے۔ ذیل کی سطور پر غور کریں۔
اے دوستو جو پڑھتے ہو اُمّ الکتاب کو
(درثمین)
یارو خودی سے باز بھی آؤگے یا نہیں
(درثمین)
’’اے میرے عزیزو میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سر سبز شاخو ‘‘
(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 34)
نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے
(کلام محمود)
میں اپنے پیاروں کی نسبت ہر گز نہ کرو ںگا پسندکبھی
(کلام محمود)
کیا ہم میں سے اکثر کو یہ مصرعے اور جملے یاد نہیں؟ اے دوستو، یارو، عزیزو، پیارو درخت وجود کی سر سبز شاخو، نونہالان ِجماعت…اپنے پیاروں کے یہ جادوئی الفاظ کیوں اتنی جلدی ہمارے دھیان اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں، ہمیں یاد رہتےہیں۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہےکہ ہم بخوشی ہمہ تن گوش ہوگئے، ان میں موجود ذاتی تعلق، دلی محبت، خلوص، دردمندی، شفیق و دلنشیں انداز ایک دم سننے والے کو موم کی طرح پگھلا نہیں دیتا؟ بے شمار مثالیں ہیں لیکن اختصار ملحوظ ہے۔
چلتے پھرتے اکثر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا یہ شعر زبان پر آجاتا ہے۔
قوم احمد! جاگ تو بھی جاگ اس کے واسطے
اَن گنت راتیں جو تیرے درد میں سویا نہیں
ان کا اندازِ تخاطب فوری اپنی طرف توجہ مائل کر لیتاہے۔ ’’قوم احمد‘‘ کتنے بڑے نام اور مقام سے نواز کرپُردرد دعائیں کرنے کی تلقین کی گئی ہے کہ فوری طور پر نہ صرف حضرت مصلح موعودؓ بلکہ حضورپرنور ایدہ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ لہجے کی نرمی اسلوب کی شائستگی بے حد ضروری ہے، سختی اور کرخت لہجہ جائز بات سے بھی سننے والے کو دور لے جاتا ہے۔ غصہ بے چینی اور تنفر پیدا کرتا ہے۔
حدیث میں ہے إِنَّ اللّٰهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفقَ، وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِيْ عَلَى العُنْفِ، وَمَا لَا يُعْطِيْ عَلَى مَا سِوَاهُ۔ (صحيح مسلم)
یعنی اللہ تعالیٰ رفیق یعنی نرم رہنے والا ہے اور وہ نرمی کرنے سے محبت کرتا ہے اور نرمی کی بنا پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو سخت مزاجی کی بنا پر عطا نہیں فرماتا ، وہ اس کے علاوہ کسی بھی اور بات پر اتنا عطا نہیں فرماتا جتنا وہ نرمی پر عطا کرتا ہے۔
نصیحت اسی زبان میں کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں نہ صرف آپ کو مہارت ہو بلکہ دوسرے کو بھی مکمل طور پر شناسائی ہو اور اس موضوع پر جس میں آپ کو واقعی علم ہو۔ یہ نہ ہو کہ بھاری بھر کم الفاظ، غیر ضروری معلومات، غیر ملکی اقوال مخاطب کو مرعوب تو کردیں لیکن مقصد جو نصیحت کا ہو وہ حاصل نہ ہو۔ یا کسی بات کا ٹھیک سے علم نہ ہو، غیر زبان میں پوری طرح مہارت نہ ہو تو مدعا سے ہٹ کر صرف مذاق کا نشانہ نہ بن جائیں۔ انسان کا ہر عمل خاص کر زبان کا کھو لنا انسان کی شخصیت، تربیت اور تعلیم سب کچھ دِکھا دیتا ہے اور یہ بات سننے والے پر کافی حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔
دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں مزید اصلاح کی طرف توجہ دلانا بھی حکمت ہے۔ جیسا کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐ کی مجلس میں حضرت عبداللہؓ کا ذکر آ گیا کہ وہ بڑی خوبیوں کے مالک ہیں، آپؐ نے فرمایا، ہاں بڑا اچھا ہے، بشرطیکہ تہجد بھی پڑھے۔
نصیحت کا موقع و محل کے مطابق ہونا نیز اس میں عام طور پر اختصار اور جامعیت دونوں کا ہونا از حد ضروری ہے۔ اس کے لیے بھی اگلے کی طبیعت،سمجھ اور مزاج کا اندازہ رکھنا ضروری۔ہےبعض اوقات ’’عاقلاں را اشارہ کافیست‘‘ (یعنی عقل مند کو اشارہ کافی ہے) اور بعض اوقات مثالوں اور واقعات کا سہارالیتے ہوئے بھی اصل مقصد تک لانا پڑتا ہے، کھٹاک سے نصیحت کر دینا بھی حکمت سے خالی ہے اور زیادہ طوالت بھی اصل مقصد سے دُور لے جاتی ہے۔ اسلوب میں شائستگی کے ساتھ شگفتگی اور ہلکا پھلکا مزاح بعض اوقات اسے اور بھی لطیف اور موثر بنا دیتا ہےلیکن خیال رہے کہ مزاح کسی کا مذاق اڑانے اور تضحیک کا باعث نہ بن جائے۔
وقت بہت قیمتی چیزہے۔ اجتماعی طور پر یا انفرادی رنگ میں نصیحت کرتے ہوئے اس کا لازماً لحاظ رکھنا چاہیے۔
اجتماعی نصیحت کرتے ہوئے کسی خاص کو اپنے نشانے پر نہیں رکھ لینا چاہیے، گو نام تو نہ لیا جائے لیکن سب سمجھ جائیں کہ بات اسی کی ہو رہی ہےاور اگلا خجالت اور شرمندگی کا شکار ہو جائے۔ نصیحت کا مقصد دروازے پر دستک دینا ہوتاہےنہ کہ دروازہ ہی توڑ دینا۔
سلیقہ چاہیے ہر ایک امر میں
عیب کرنے کو بھی ہنر چاہیے
اجتماعی نصیحت کرتے ہوئے آداب مجلس ومحفل کا خیال رکھتے ہوئے، انصاف، ایمان داری، اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہیے، مبالغہ، مقابلہ بازی اور جانبدارانہ رویے سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے۔ سمجھداری، دلائل عقلی و منطقی سے بات کریں تاکہ سننے والے کو شرح صدر رہے، کج بحثی سے بہرحال اجتناب کریں۔
نصیحت کیسے ہی اعلیٰ پائے کی ہو، آپ اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ خود کو اسے اگلے کے گوش گزارکرنے کا اہل بھی تصور کرتے ہوں، لیکن موقع محل، طبع شناسی اور حالات کا اندازہ لگانا بہت ضرروی۔ ممکن ہے اگلا پہلے ہی اپنی کسی غلطی پر چوٹ کھائے بیٹھا ہو، بیمار ہو، پریشان ہو، کسی مشکل یا کسی قسم کے ذہنی دباؤ کا شکار ہو، اسے ہمدرد اور غمگسار کی ضرورت ہو۔ اس کے درد کا درماں کر سکتے ہیں تو کریں، اس کی مالی یا ذاتی نوعیت کی پریشانی دور کر سکتے ہیں تو کریں، سمجھداری، کفایت شعاری، دور اندیشی، بچت، متوازن غذا، حفظ ما تقدم، حفظانِ صحت کے اصولوں اور قانون کے احترام جیسی سنہری اور خوبصورت نصائح کی ضرورت اس وقت نہیں۔ دل کی گہرائیوں سے نکلی نصیحت موقع محل کے لحاظ سے ہو تو ہی اثر کرتی ہے۔ یاد رکھیے!توبہ کا در ہر وقت کھلا، اور غلطیوں اور خطاؤں سے کوئی بھی پاک نہیں۔
کھری، سچی نصیحت کے نام پر بعض اوقات نہایت واشگاف انداز میں کھلم کھلا ایسے کہہ دیا جاتا ہے، گو کہ الفاظ بھی سخت نہیں ہوتے لیکن طرز ِتکلم، لہجہ اور انداز ایسا ہوتا ہےکہ اگلے کے تلووں کو تو لگتی پر بجھتی سر میں جا کےہےاور نام نہاد سچی بات کئی قسم کے معاشرتی اور عائلی جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہے، پھر کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے بس سچی بات ہی کی تھی، اور یہ بھول جاتا ہےکہ دنیا کا سب سے بڑا سچاﷺ، خُلق عظیم کے بھی سب سے اعلیٰ درجے پر تھا۔ صاف گو ہونے اور منہ پھٹ ہونے میں فرق ہوتاہے۔ نصیحت کے نام پر بحث، مجادلہ اور جھگڑے میں پڑنے سے خاموشی اور اعراض بہتر ہوتا ہے۔
موقع ومحل کے مطابق، حسب حال عمل کرنا ہی موثر ہوتا ہے۔ عرصے بعداگرکوئی آپ سے ملنے آیا ہےتو دیکھیے کہ حتی المقدور مہمان نوازی کرنے کے قابل ہو سکے کہ نہیں، خوشی اور خوش خلقی سے پیش آئے کہ نہیں۔ بس اس کے ظاہری حال، حالات یا بچوں کو دیکھ کے بے تحاشا نصیحتیں کرناشروع ہو گئے، آنے والا شرم سے پانی پانی ہو گیا، آئندہ ملنے کے تصور سے توبہ کر اٹھا۔ یاد رکھیے تیروں کے زخم مندمل ہو سکتے ہیںلیکن زبان کا گھاؤنہیں، اور یہ بھی کہ تند وتلخ الفاظ کو جھیلنے کے بعد بھول بھی جانے کا فن یا تو کاملوں کو آتا ہےیا پاگلوں کو۔
قہر درویش برجان درویش والے معاملے سے پرہیز کریں۔ کہیں کا غصہ کہیں نہ نکالیے، جس کو جس معاملے میں جتنی نصیحت کی ضرورت ہووہی کریں۔
حالاتِ حاضرہ اور معاشرتی برائیوں پر ہمہ وقت بات کرنے کا شوق ہو، اس لیے جہاں اپنے حساب سے کوئی برائی دیکھی، زیادہ سوچے سمجھے غور کیےبغیر بے نقط شروع ہو گئے۔ ہر جگہ اور زمانے کے لوگوں کا حالات کے مطابق اپنا لائف سٹائل، مصروفیات اور مشاغل ہوتےہیں، اچھائیاں، برائیاں ہوتی ہیں۔ ہر ایک کو اپنا بچپن کا زمانہ، جوانی کا وقت کسی نہ کسی رنگ میں پسند ہوتا یا یادگار ہوتا ہے۔
اگلے کی عمر، مقام، رشتے اور رتبے کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ بچوں اور کم عمروں کو نصیحت کرنے کا الگ قرینہ ہوتاہے، تنبیہ اور تادیبی انداز بھی اختیار کرنا پڑ جاتاہے۔ اس میں بھی الفت اور ملاطفت کا پہلو ضروری ہم عمر، دوستوں، ہم جلیسوں، ماتحتوں کو نصیحت کرنے کے انداز کا اوپر ذکر کیا جاچکاہے۔
ایک بات جو یہاں عرض کرنی ہے وہ یہ کہ اپنے آپ کو عقل کُل سمجھتے ہوئے بزرگوں کو ان کی صحت کے بارے میں بے لاگ نصیحت شروع کر دی جاتی ہےکہ ہمیں آپ کی بہت فکر ہے۔ یقینا ًان کی بہت فکر ہو گی، ان سے ہمدردی ہوگی ان کا خیال ہو گا، وہ آپ کے اپنے ہوتے ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی صحت، آرام و سکون کے حوالے سے اپنا خیال رکھیں، تاکہ خود ان کو بھی ان کی طرف سے تسلی، سکون، سہولت اور آسانی ہو۔ لیکن یاد رکھیے کہ عمر کے اس حصے میں اتنا وقت گزار کر وہ اپنی عادتوں میں پکے ہو چکے ہوتے ہیں۔ بڑھاپے کی اپنی تکالیف، مجبوریاں اور تقاضے ہوتے ہیں اور وہ عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں جہاں ان کی زندگی چراغ ِسحر کے مانند ہوتی ہے۔ ان کو آپ کے وعظ و نصیحت کی نہیں بلکہ آپ کی کمپنی کی، ساتھ کی، صحبت کی، پیار اور توجہ کی عملی رنگ میں ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو ہر وقت عقلمند ناصح، ذاکر یا واعظ نہیں بلکہ اکثر اچھا سامع، رازدان اور دوست چاہیے ہوتا ہے۔ خاص کر وہ بزرگ جو اپنے ساتھی کے نہ ہونے، چلے جانے، چُھٹ جانے یا اور کئی قسم کے صدمات کی وجہ سے زیادہ اکیلا پن اور تنہائی محسوس کرتے ہیں وہ آپ کے حسن سلوک کے اور بھی زیادہ حق دار ہوتے ہیں۔
بعض اوقات ہم کسی کے بارے میں کچھ غلط فہمی کا شکار بھی ہو جاتےہیں۔ ظاہری صورت حال کی وجہ سے، یا دوسرے نے کچھ اور کہا ہوتا، ہمیں سننے سمجھنے میں غلطی لگ گئی ہوتی ہے اور نصیحتوں کے انبار کھڑے کر دیے جاتےہیں۔ کسی کے حالات پر بات کرتے وقت سیاق وسباق پر ذرا غور کر لینا چاہیے۔ سامنے والا اگر کوئی صفائی دینا چاہ رہا ہے تو ذرا سا موقع اُسےبھی دینا چاہیے۔
ہم اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے، ناصح، پند آموز، صلاح کار، خیر اندیش، داعی اور واعظ تو ہو سکتےہیںلیکن ہم اس پر داروغہ، نگران، محافظ یا وکیل نہیں۔ نیکی اور بھلائی کی طرف مائل کرنا، پیار سے اس کی ترغیب اور توجہ دلانا ہمارا کام ہے۔ ہمیں اس کے لیے کوشاں رہنا چاہیے لیکن اصل ہدایت دینے والی قادر و توانا ذات اللہ ربّ العزت کی ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضورؐ نے فرمایا کہ
’’آسانیاں پیدا کرو، مشکل میں نہ ڈالو، خوشخبری دو، متنفر نہ کرو‘‘( متفق علیہ)
ڈرانے کے اسلوب میں بھی وہ درد اور شفقت ہونی چاہیے کہ اس ڈرانے کا مقصد خوفزدہ یا دل شکستہ کرنا نہیں، بلکہ مصیبت سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا ہواور نصیحت ہمیشہ تدریجاً ہونی چاہیے۔
لو جان بیچ کے بھی، جو فضل و ہنر ملے
جس سےملے، جہاں ملے، جس قدر ملے
حدیث نبوی ہے حکمت کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہوتی ہےجہاں بھی ملتی ہے وہ اسے لے لیتا ہے۔
خذ ما صفا ودع ما کدر
(عبداللہ بن علوی الحداد)
یعنی اچھا لے لو اور برا چھوڑ دو۔ یہ مت دیکھیں کہ کون ہے کیا کہہ رہا ہے اس کی ظاہری شخصیت اور طبقاتی حیثیت کیا ہے ظاہری اوقات کیا ہے۔
کوئی مفید جملہ، مفید اور کام کی بات کسی کی بھی زبان سے نکالنے پر خدا تعالیٰ کی ذات قادر ہے۔ مومن کے لیے یہ مناسب نہیں کہ اسے محض اس لیے رد کردے کہ جس کی زبان سے نکلی وہ اہل محسوس نہیں ہو رہا بلکہ چاہیے کہ قیمتی اور مفید بات کو کھلے دل سے قبول کیا جائے اور بغیر کسی تعصب، تنگ دلی یا تنگ نظری کے اور یہ دیکھے بغیر کہ کہنے والاکون ہے۔
ایک عقلمند چھوٹی چھوٹی باتوں سے نصیحت پکڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ قصوں کہانیوں کو محض تفنن ِطبع کے لیے نہ تو پڑھتا ہے نہ ہی سنتا ہے بلکہ ان میں پنہاں قصے سے نصیحت حاصل کرکے اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ نصیحت سننا، اس پر اچھے طریقے سے عمل کرنے کی کوشش کرنا بہت خوش نصیبی کی بات ہے۔ نصیحت خواہ دیوار پر لکھی ہو ا سے کانوں میں ڈالنا چاہیے۔
ناصح کا مشکور ہونا چاہیے کہ اس نے اچھی رہ نمائی کی، ہمیشہ مثبت انداز اپنانا چاہیے، خواہ بات اچھی لگے یانہیں۔ صبر و تحمل، برداشت اور حوصلے سے کام لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فوری منفی ردعمل یا جوابی وار سے گریز کرنا چاہیے کہ کہہ دیا ’’خود تو کرتے نہیں ہیں ہمیں کہے جا رہے ہیں۔ ‘‘ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ناصح نے خود کسی اچھی بات پر کبھی، کسی وجہ سے عمل نہ کر کےنقصان اٹھایا ہو اور وہ اپنے پیاروں کو ممکنہ تکلیف سے باز رکھنے کی کوشش میں ہو۔ آپ کو ان کے مشاہدے اور تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صرف اس لیے فتوے، توجیہات اور حوالہ جات تلاش نہیں کرنے چاہئیں کہ اگلے کو منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ ہمارے بڑے، ہمارے قریبی کبھی ہمارا برا نہیں چاہتے۔ ایساتاثر نہ دیں کہ اپنے کام سے کام رکھیں، ہم اپنا برا بھلا خوب جانتےہیں، جب دیکھو یہی بات شروع کر کے وقت ضائع کر دیا…آپ کے زمانے کے حالات اور تقاضے کچھ اور تھے ہمارے کچھ اور۔ غور کیجیے! اگر کوئی اپنا قیمتی وقت نکال کر آپ کو نصیحت کر رہا ہے تو اس میں آپ کے ساتھ تعلق، محبت کا جذبہ کارفرما ہے ورنہ کیوں کوئی اپنا وقت ضائع کرے؟
جھٹ سے بے حد زُود رنجی اور زُود حسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کہ بُرا منا کر دکھی ہو کر اپنا حال خراب کر لیا۔ بعض اوقات نصیحت سن کر اس پر عمل کرنے والا نصیحت کرنے والے سے بھی بڑا بن جاتا ہے۔
ہمیشہ حکمت سے کام لینا چاہیے۔ اگر بات اصولی ہے، شریعت کے منافی نہیں مگر آپ کسی وجہ سے عمل نہیں کرسکتے تو وقتی خاموشی بھی اختیار کی جاسکتی ہے۔ خاموشی میں سلامتی ہے۔ تکبرانہ انداز اختیار کرنے، مذاق اڑانے سے گریز کریں اپنے رویے میں خشیتِ الٰہی، عاجزی، نرمی اور لچک رکھیں۔ ادب آداب اور چھوٹے بڑے کا لحاظ کبھی نہ بھولیں۔
یاد رکھیےکہ نصیحت کرنے اور سننے والوں سب کے لیے اپنے خیالات کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ کیونکہ آپ کے خیالات ہی الفاظ بن جاتے ہیں جو کسی کواپنابنا بھی لیتےہیں، توڑ کر بھی رکھ دیتے ہیں، رہ نمائی بھی کرتے ہیں، اور بھٹکا بھی دیتے ہیں اور یہ الفاظ اعمال بن جاتے ہیں کہ جن کا دارومدار نیتوں پر ہی ہوتا ہے اور یہ اعمال کردار بن جاتے ہیں اور کردار ہی انسان کی شخصیت اور تربیت کی پہچان ہوتا ہے۔
٭…٭…٭