خطبہ عید الفطر سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔ 24؍مئی 2020ء
ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی دولت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ یہی حقیقی عید ہے
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں عید منانے والوں کی تین حالتوں نیز حقیقی عید کی گہرائی، حکمت اور فلسفے کا بیان
اسیرانِ راہِ مولیٰ کی رہائی، امتِ مسلمہ اور دنیا میں قیامِ امن کے لیے دعا کی تحریک
انسان کو اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کا صحیح فہم و ادراک دلوائیں تا کہ دنیا سے تاریکی کے بادل چھٹ جائیں۔ ہدایت کا سورج دنیا کو اپنی نورانی کرنوں سے جگمگا دے۔
خدا کی حقیقی بندگی دنیا میں قائم ہو جائے تبھی ہماری عیدیں حقیقی عیدیں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ عید دیکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے
دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کی کوشش اور اس کے ساتھ دعاؤں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو اپنے اس فرض کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور اسے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے
یاد رکھنا چاہیے کہ عید اصل میں خوشی کا نام ہے اور خوشی اس وقت ہوتی ہے جب انسان کسی کام میں کامیابی حاصل کرے
خدا تعالیٰ سے تعلق کا ثبوت انسان کے کھانوں یا فاقے پر نہیں بلکہ خد اتعالیٰ سے محبت کا ثبوت خدا تعالیٰ کے سلوک پر ہے
خطبہ عید الفطر سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 24؍مئی 2020ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقعےپر ایک عید پر یہ مضمون بیان فرمایا تھا کہ عید منانے والے لوگوں کی مختلف قسم کی عیدیں ہوتی ہیں اور ان قسموں کے مطابق پھر عید کی بھی قسمیں بن جاتی ہیں۔ اور پھر وہ کون سی قسمیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بھی قبول فرماتا ہے یعنی حقیقی عید ان کی کس طرح ہوتی ہے۔ اس سے عید کی گہرائی، حکمت اور فلسفے کی بھی سمجھ آتی ہے۔ اپنی اصلاح اور حقیقی عید منانے کی کوشش کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے۔ بہرحال اس مضمون سے استفادہ کرتے ہوئے آج میںاسی حوالے سےکچھ بیان کروں گا۔
انسان کی زندگی عادات کا اور جذبات کا مجموعہ ہے۔ یعنی زیادہ تر حصہ انسانی زندگی میں انہی دو چیزوں کا ہے۔ خاص طور پر اپنی معاشرتی زندگی گزارنے کے لیے اور مذہبی زندگی گزارنے کے لیے معاشرے کے رسم و رواج اور بہت سے کام انسان جذبات اور عادات کے زیر اثر ہی کر رہا ہوتا ہے۔ عید کے متعلق بھی بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو حقیقت میں اس کی صحیح روح کو نہیں جانتے اور ایک عادت کے مطابق مناتے ہیں۔ ماں باپ کو عید مناتے دیکھا، جس ماحول میں رہے انہیں عید مناتے دیکھا، اس لیے عید مناتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور خدا اور رسول کا یہ حکم ہے کہ عید مناؤ۔ یا دوسری مذہبی باتیں کہنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ ان باتوں کو سن سن کر بعض الفاظ انسان بولتا ہے۔ اس ماحول کی وجہ سے عادتاً بولتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اس بات کو جانے کہ اس کی حقیقت کیا ہے، ہم کیا کہہ رہے ہیں، کیوں کہہ رہے ہیں، کیا باتیں ہم کر رہے ہیں، کیوں کر رہے ہیں، ان کی حکمت کیا ہے۔ عید کے دن اتنا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ نہا دھو کر، اچھے کپڑے پہن کر عید گاہ پہنچ جائیں۔ آج کل تو وہ بھی پابندیاں ہیں اور آج کے دن تو گھروں میں ہی لوگ نہا دھو کر عید منا رہے ہیں۔ بعض جگہوں پہ مسجدوں میں restrictedاجازت ہے، کچھ پابندی کے ساتھ اجازت ہے وہاں عیدیں پڑھی بھی گئی ہیں یا پڑھی جائیں گی۔ بہرحال اس بات پر غور نہیں کرتے کہ عید کا مقصد کیا ہے اور عید کیا چیز ہے؟ اس کے فوائد کیا ہیں ا ور کیا آج جب ہم عید منا رہے ہیں ہماری عید ہوئی بھی ہے یا نہیں؟
یاد رکھنا چاہیے کہ عید اصل میں خوشی کا نام ہے اور خوشی اس وقت ہوتی ہے جب انسان کسی کام میں کامیابی حاصل کرے۔ اگر کامیابی نہیں تو کون عقل مند ہے جو خوش ہو گا بلکہ الٹا ناکامی پر روئے گا۔ پس عید کو بھی ہمیں اسی طرح دیکھنا ہو گا۔ جب کوئی عید مناتا ہے تو اصل میں وہ اپنی کامیابی کا دعویٰ کر رہا ہوتا ہے۔ جب یہ کامیابی کا دعویٰ ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیا حقیقت میں کامیابی ہے اور کیا اس کامیابی کی وجہ سے اسے حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ عید منائے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایک دن ہم عید کا مقرر کر کے اس دن ہم اچھے کپڑے پہن لیں، کھانا پینا اچھا کر لیں، ظاہری طور پر رونق لگالیں، شورشرابا کر لیں، دعوتیں کھا لیں اور کھلا دیں۔ ان سب چیزوں میں ہم کچھ نہ کچھ خرچ کرتے ہیں۔ یہ سارے کام مفت نہیں ہوتے۔ تو جس عید پر ہم صرف خرچ کرتے ہیں اور وہ ہمیں کچھ دے کر نہیں جاتی تو پھر وہ عید نہیں ہو سکتی۔ یا کچھ حاصل بھی کیا تو وقتی خوشی۔ عید تو وہ ہے جو ہمیں کچھ دے کر جائے اور وہ باطنی عید ہے۔ اندرونی عید ہے ۔ دلی عید ہے۔ وہ عید ہے جو ہماری روح کو سیراب کرے، جو ہمیں کچھ دے۔ اور ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی دولت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور ہونا چاہیے اور یہی حقیقی عید ہے کیونکہ اس میں کامیابی نظر آ رہی ہے۔ روزوں کے بعد یہ عید اللہ تعالیٰ نے اس لیے رکھی ہے تا کہ یہ خوشخبری دے کہ روزے قبول ہو گئے۔ پس عید پر ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا حقیقت میں ہمارے روزے قبول ہو گئے ؟کیا واقعی میں خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کی توفیق دی اور کیا واقعی میں ہماری عبادت قبول بھی ہو گئی؟ کیا پتہ کہ جس عبادت کی ہمیں توفیق ملی وہ قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں۔ کئی عبادتیں قبول نہیں ہوتیں۔ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جلدی جلدی نماز پڑھی۔ جب نماز سے فارغ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر نماز پڑھو کیونکہ تمہاری نماز قبول نہیں ہوئی۔ اس نے پھر جلدی جلدی نماز پڑھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ پھر نماز پڑھو تمہاری نماز قبول نہیں ہوئی۔ اس نے پھر نماز پڑھی پھر اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تو اس پر اس شخص نے کہا کہ کس طرح نماز پڑھوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آہستگی اور سکون سے نماز پڑھو۔ یہ اصل نماز ہے پس اس کو ہمیں پڑھنا چاہیے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو لوگ حقوق العباد ادا نہیں کرتے ان کی نمازیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔
پس جس طرح نمازیں قبول نہیں ہوتیں اسی طرح بعض روزے داروں کے روزے بھی قبول نہیں ہوتے۔ روزوں میں حقوق اللہ کے ساتھ جو حقوق العباد کرنے کا خاص طور پر حکم ہے اگر وہ ہم نے ادا نہیں کیے توکس طرح روزے قبول ہوں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو بیماری اور معذوری کی وجہ سے روزے رکھنے کی رخصت ہے، مجبوری ہے اور یہ اجازت اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے لیکن کیونکہ وہ باقی فرائض اور نوافل اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے ادا کر رہے ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو روزے نہ رکھنے کے باوجود ثواب سے محروم نہیں رکھتا۔ ایسے لوگ تو عید بھی اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے منا رہے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر نظر کر کے ان کے کھاتے میں حقیقی عید کی خوشیاں لکھ رہا ہوتا ہے۔ بعض لوگ روزے کی طاقت ہونے کے باوجود روزہ نہیں رکھتے اور افطاری ایسے ذوق شوق سے کرتے ہیں جیسے سب سے زیادہ ان کو ہی روزے کی کمزوری ہو رہی ہے اور پوچھو تو کہتے ہیں کہ روزہ تو فلاں فلاں عذر کی وجہ سے نہیں رکھا، نمازیں بھی کاروباری یا کام کی مصروفیت کی وجہ سےٹھیک طرح نہیں پڑھ سکا ، نوافل بھی ادا کرنے کے لیے نہیں اٹھ سکا نیند بڑی آ جاتی ہے، نیند کا غلبہ آ جاتا ہے، فلاں احکام بھی ادا نہیں کر سکتا۔ اگر افطاری بھی نہ کھاؤں تو بالکل ہی کافر ہو جاؤں۔ اس حوالے سے لوگوں نے مختلف لطیفے بھی بنائے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر یہ لطیفے آج کل پھیلے بھی ہوئے ہیں اور پرانے زمانے سے ہی پھیلے ہوئے ہیں۔ تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ یہ صرف لطیفہ ہی نہیں ہے حقیقت میں ایسے لوگ ہوتے ہیں اور عید والے دن بھی سب سے پہلے آ کر شامل ہو جاتے ہیں کہ عید کے منانے کا سب سے زیادہ ادراک شاید صرف انہیں ہی ہے لیکن اس قسم کے دھوکوں کے ساتھ خدا تعالیٰ دھوکے میں نہیں آ سکتا ،نہ ہی ہمارے نفس کو اس کا کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پس ہمیں اپنے دلوں پر غور کرنا چاہیے۔ یہ غور کرنا چاہیے کہ ہماری عید کیسی ہے؟
عیدیں عموماً تین قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک تو اُس شخص کی عید ہے جس نے اپنے رب سے ملنے کی کوشش کی۔ اخلاص سے عبادت کی۔ محبتِ الٰہی کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خدمت کی۔ دلی صفائی کے ساتھ خدا سے اور اس کے بندوں سے صلح کی۔ نمازیں پڑھیں ا ور صرف خدا کے لیے پڑھیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسی اسلامی تعلیم کی روشنی میں ہمیں نصیحت فرمائی ہے کہ عبادتیں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہوں نہ کہ ذاتی اغراض کے لیے، نہ ہی دوسروں کو دکھانے کے لیے۔ روزے رکھے تو صرف خداتعالیٰ کی خاطر، دوسروں کو دکھانے کے لیے نہیں۔ خدا تعالیٰ کے لیے رکھے جانے والے روزے جو ہیں ان کی جزا بھی اللہ تعالیٰ ہوتا ہے۔ ہر روزے کی جزا نہیں ہوتا۔ دکھاوے کے روزوں کی اللہ تعالیٰ جزا نہیں ہوتا۔ جس میں یہ خواہش ہو کہ لوگ کہیں گے کہ بڑا روزے دار ہے تو پھر تو وہ لوگوں کے لیے روزے ہوئے۔ ذکرِ الٰہی کیا تو محض خدا کے لیے کیا۔ اس لیے نہیں کیا کہ لوگ کہیں کہ اس کے ہونٹ ہر وقت ذکر الٰہی میں ہلتے رہتے ہیں۔ صدقہ و خیرات دیا تو صرف اس لیے دیا کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو، لوگوں پر احسان جتانے یا نیک نامی حاصل کرنے کے لیے نہیں۔ حج کیا تو محض حاجی کہلانے یا سیر کرنے کے لیے نہیں بلکہ محض اس لیے کہ خدا اس سے راضی ہو جائے۔ تبلیغ کی تو اس لیے نہیں کہ لوگ کہیں گے کہ بڑی تبلیغ کرتا ہے، بڑا اچھا مبلغ ہے اور اس کام کے لیے بھی تعریف اس کی غرض ہو بلکہ اس لیے تبلیغ کرے کہ چاہے لوگ مجھے اچھا کہیں یا برا کہیں میں خدا تعالیٰ کے پیغام کو اس کے حکم کے مطابق پھیلاتا چلا جاؤں گا۔پس ایسے شخص نے خدا کو پا لیا اور اس کے خدا نے بھی اپنے گمشدہ بندے کو ڈھونڈ لیا اور جدائی اور فراق کی گھڑیاں کٹ گئیں۔ دو بچھڑے ہوئے ملے۔ عاشق اپنے معشوق کی صحبت میں بیٹھ گیا۔ ایسے بندوں کی آج بھی عید ہے اور کل بھی بلکہ ایسے بندے کی ہمیشہ عید ہوتی ہے۔ ایسی عید کرنے والوں میں جو خدا کا قرب پانے والے ہیں ایسے بھی ہیں جن کے چہرے بظاہر مرجھائے ہوئے لگتے ہیں، صحت کی حالت بھی اچھی نہیں ہے، غربت کی بھی انتہا ہے، دنیاوی لحاظ سے بہت خراب حالت ہے اور دیکھنے والا ان کی ظاہری حالت دیکھ کر نہیں سمجھ سکتا کہ یہ عید منا رہے ہیں یا انہوں نے بھی عید منائی ہو گی۔ اچھے کپڑے پہننے والا اور اچھے کھانے کھانے والا ان کو دیکھ کر کہتا ہے کہ ان غربت کے مارے ہوؤں کی بھی کوئی عید ہے۔ حالانکہ عید انہی کی ہے۔ جس وقت یہ دنیا دار لوگ اپنے زعم میں اپنی آسائشوں آراموں اور اچھے کھانوں کو ہی حقیقی عید سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں اس وقت غریب مسکین اور کمزور نظر آنے والے انسان کو اللہ تعالیٰ خود اپنے پاس سے کھلا رہا ہوتا ہے۔ ایک دنیا دار کہے گا کہ کیا یہ سوکھی روٹی اور معمولی کھانا اسے خدا کھلا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صرف اتنی پہنچ ہے۔ یہ تو سوچ کی بات ہے۔ وہ غریب سمجھتا ہے کہ یہ روکھی سوکھی روٹی جو مجھے مل رہی ہے یہ خدا کے فضل سے مل رہی ہے۔ آج جو میں نے پیٹ بھرا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھرا ہے اور اس پر وہ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔ اس ذریعے سے وہ خدا تعالیٰ کے اَور قریب ہوتا ہے اور یہی مسکینی اور غربت اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اسے اس مقام پر لے جاتی ہے جو عید کا مقصد ہونا چاہیے۔ دنیا دار تو ظاہری آسائشوں کے ساتھ دنیا داری کی عید میں ڈوب کر وقتی خوشی کے سامان کر کے پھر دنیاداری کے دھندوں کی بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے لیکن یہ مسکین شخص اللہ تعالیٰ کی لِقا حاصل کر کے دائمی عید کے سامان کر رہا ہوتا ہے جو اگلے جہان کی زندگی میں بھی عید کے سامان کرے گی لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ عید صرف ان غریبوں اور مسکینوں کی ہے۔ یہ عیدیں جو ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی رضا پانے والے ان مقرّب بندوں کی بھی ہیں، ان لوگوں کی بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتوں سے نوازا ہے، جن کے ظاہری لباس بھی اچھے ہیں، جنہیں کھانے بھی اچھے نصیب ہوتے ہیں اور جو سنت نبوی کے مطابق خوشبو بھی لگاتے ہیںا ور بڑی اچھی اچھی خوشبوئیں لگاتے ہیں اور یہ ظاہری زیب و زینت جو ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی باطنی طور پر انہیں حاصل ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں سے جہاں خود فیض حاصل کرتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اس کے بندوں کے بھی حق ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہے وہ کس کو کس طرح نوازتا ہے، کس ذریعے سے اپنا قرب عطا فرماتا ہے۔ وہ اپنے بندے کو کانٹوں سے گزارتے ہوئے بھی اپنے پاس بلاتا ہے اور کسی بندے کو پھولوں کی سیج پر سے گزارتے ہوئے اپنے پاس جگہ دیتا ہے۔ وہ بیوقوف ہے جو یہ کہتا ہے کہ کانٹوں پر سے چل کر آنے والا ہی خدا رسیدہ اور مقبول ہے اور وہ بھی بیوقوف ہے جو یہ کہتا ہے کہ پھولوں کی سیج پر چل کر آنےو الا ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات ہیں اسی طرح اس کے پاس پہنچنے کے راستے بھی مختلف ہیں۔ بعض لوگ اس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بندوں پر اعتراض کر دیتے ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اولؓ فرمایا کرتے تھے کہ آپ ایک دفعہ اس مکان کے قریب سے گزر رہے تھے جو مسجدِ اقصیٰ سے ملحق ہے۔ قادیان کے رہنے والے اسے جانتے ہیں یا وہاں گئے ہوئے لوگ بھی جانتے ہوں گے یہ ڈپٹیوں کا مکان کہلاتا تھا۔ اب غالباً یہ مسجداقصیٰ میں شامل ہو گیا ہے۔ یہ خرید لیا گیا اور حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ کے وقت میں وہاں سلسلہ کے دفاتر بھی قائم ہو گئے تھے۔ جماعت نے خرید کے وہاں دفاتر قائم کر دیے تھے۔ اب تو شاید بدل دیا ہے۔ میرا خیال ہے یہ وہی جگہ ہے جہاں مسجد کا حصہ آ گیاہے۔ بہرحال مکان کا مالک جو ہندو تھا اور ڈپٹی رہ چکا تھا حضرت خلیفہ اولؓ سے کہنے لگا کہ مَیں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوںاگر آپ ناراض نہ ہوں۔ آپؓ نے فرمایا بےشک پوچھو۔ اس نے کہا مَیں نے سنا ہے کہ مرزا صاحب پلاؤ اور بادام روغن بھی کھا لیتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ فرمانے لگے کہ مَیں نے اسے کہاکہ ہاں کھا لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ چیزیں پاک اور طیب ہیں اس میں کوئی حرج نہیں اور انہیں کھانا جائز ہے۔ اس پر بڑے افسوس والی شکل بنا کر کہنے لگا کہ فقیراں نوں وی جائز اے؟ آپ نے کہا ہاں فقیراں نوں وی جائزاے۔ جو اللہ والے لوگ ہیں ان کو بھی جائز ہے۔ تب وہ خاموش ہو گیا لیکن اس کے چہرے سے یہی تاثر تھا کہ اس کو یہ بات کچھ بھائی نہیں۔ تو اس کے نزدیک بزرگی کا یہی معیار تھا کہ عمدہ چیزیں نہ کھائی جائیں۔ تو دنیا میں لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا رسیدہ لوگوں کی یہ علامات ہیں کہ دنیا سے بالکل کٹ جائیں حالانکہ اصل چیز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوں اور اسے حاصل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ عمدہ کھلائے پہنائے تو پہنیں اور کھائیں۔ اللہ تعالیٰ غربت اور مسکینی سے گزار کر قرب دینا چاہے تو اس امتحان میں بھی پورا اتریں۔ پس نہ اچھا کھانا خدا کی محبت کا ثبوت ہے اور نہ فاقہ کرنا اس کے قرب کی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیں آپؐ کا ہر پہلو نظر آتا ہے۔ آپؐ کے فاقوں کی مثالیں بھی ملتی ہیں اور عام کھانے کھانے کی مثالیں بھی ملتی ہیں اور عمدہ کھانے کھانے کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کا قرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا وہ کسی کو نہ کبھی ملا نہ مل سکتا ہے۔ پس آپؐ کے نمونے اور اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ اگر صرف خراب کھانا کھانا یا فاقے کرنا ہی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے تو پھر کیا لاکھوں کروڑوں انسان ایسے نہیں جو فاقے کرتے ہیں لیکن ان کا خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق نہیں ہے اور لاکھوں کروڑوں انسان ایسے بھی ہیں جو اچھے کھانے کھاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی محبت سے محروم ہیں۔ پس خدا تعالیٰ سے تعلق کا ثبوت انسان کے کھانوں یا فاقے پر نہیں بلکہ خد اتعالیٰ سے محبت کا ثبوت خدا تعالیٰ کے سلوک پر ہے۔ یہ یاد رکھنے والی چیز ہے۔ نہ امارت سے یہ محبت ملتی ہے نہ صرف غربت سے ملتی ہے۔ امارت نے بہت سے فرعون پیدا کیے، جہاں امیر لوگوں میں بہت سے فرعون بھی پیدا ہوئے وہاں غربت نے بہت سے کافر بھی بنا دیے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ فَقر و فاقہ انسان کو کافر بنا دے۔ پس اصل راہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو۔ اگر خدا تعالیٰ کسی کو فاقے کے ذریعے اپنا قرب عطا کرنا چاہے تو فاقہ اختیار کرنا ہی اصل نیکی ہے اگر کھانا کھلانا چاہے تو کھانا کھانا ہی خداتعالیٰ کی رضا کا موجب ہے۔ پس وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے قرب اور محبت کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں یا کرتے ہیں وہ بظاہر یہاں اس دنیا میں ہمیں نظر آتے ہیں ہمارے اندر ہی پھر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے دل اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے ہوئے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کی حقیقی عید ہوتی ہے۔
پھر دوسری قسم کے لوگوں کی عید ہے جنہوں نے اپنی توفیق کے مطابق عمدہ کھانے بھی کھائے، اچھے کپڑے بھی پہنے، عطر اور خوشبو بھی لگائی، عید کے تحفے بھی دیے اور وصول بھی کیے۔ وہ خوش بھی ہیں کہ انہیں ظاہری طور پر عید مل گئی لیکن وہ عید ان سے اتنی ہی دور ہے جتنا مشرق مغرب سے دور ہے مگر باوجود اس کے وہ خوش ہیں اور باوجود اس کے وہ عید کی خوشیوں میں شامل ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے مثال دی ہے کہ ان کی خوشی بالکل اس بچے کی سی ہے جو نادانی سے ایک سانپ کو دیکھتا ہے اور اس کی چمکیلی آنکھوں کو دیکھ کر اسے کھلونا سمجھتا ہے۔ تب وہ محبت اور پیار سے اسے پکڑ لیتا ہے۔ اگر سانپ نہ ہلے بعض دفعہ بچے پکڑ بھی لیتے ہیں اور سمجھتا ہے کہ مجھے بڑی اچھی چیز حاصل ہو گئی حالانکہ جس وقت وہ خوشی سے جھوم رہا ہوتا ہے جس وقت وہ مسرت اور انبساط سے اپنے جامے میں پھولا نہیں سماتا اس وقت سانپ کا زہر جو اسے ایک منٹ میں اس جہان سے اگلے جہان میں پہنچانے والا ہوتا ہے اس کے بدن میں سرایت کر رہا ہوتا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ تھوڑی دیر میں اس کی تمام خوشی جاتی رہے گی، اس کی تمام مسرتیں خاک میں مل جائیں گی اور وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہی مثال اس شخص کی ہوتی ہے جو خوش ہوتا ہے اور شاید اپنی نادانی میں ان خدا رسیدہ لوگوں سے بھی زیادہ خوش ہو جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر چکے ہوتے ہیں مگر یہ نادانی اور غفلت کی جو خوشی ہے بےشک اس کے خیال میں یہ عید ہے لیکن ماتم کی پیش خبری ہے، افسوس ناک خبر کی پیش خبری ہے۔ پس جو خدا کو بھول کر، اس کے حقوق بھول کر اس کی مخلوق کے حقوق بھول کر صرف اپنی اور اپنے قریبیوں کی خوشی کر رہے ہوتے ہیں اور عید منا رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور ناپسندیدگی کو مول لے کر اپنی دنیا اور عاقبت خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ کچھ پاتے نہیں بلکہ کھوتے ہیں اور ایسے لوگوں کی عید حقیقی عید نہیں کہلا سکتی۔
اس کے علاوہ کچھ اَور لوگ ہیں، یہ دونوں قسمیں جو بیان کی ہیں ایک وہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم بھی عید منا رہے ہیں یعنی خدا رسیدہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ عید منا رہے ہیں اور دوسرے نیک لوگ بھی جو حقوق کوادا کر رہے ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں ہم عید منا رہے ہیں۔ اور اسی طرح دوسری قسم بھی ہے جو میں نے بیان کی جنہیں حقیقی عید نصیب نہیں ہوئی اور دھوکے میں سمجھتے ہیں کہ ہم عید منا رہے ہیں ۔لیکن ایک تیسری قسم بھی ہے۔ یہ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو ان دونوں سے بالکل مختلف ہیں، الگ قسم ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ ہم گناہ گار ہیں، ان کو احساس ہے، جو دل میں خیال کرتے ہیں کہ روزے تو رکھے لیکن روزوں کا حق ادا نہیں کیا، دل میں ایک شرمندگی ہے۔ جو نمازیں بھی پڑھتے ہیں لیکن دل میں شرمندہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی شرطوں کے مطابق نماز نہیں ادا کر سکے۔ ایسے لوگوں میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہےکہ آج بھی عید پر شاید ایک رسم اور لوگوں کو دکھانے کے لیے عمدہ لباس پہن کر مجلس میں آگیا ہوں اور عمدہ کھانا بھی کھا رہا ہوں مگر اس کا دل رو رہا ہوتا ہے، اس کا دماغ پریشان ہے۔ اس کی ایک نظر اپنے بھائیوں پر پڑتی ہے اور ایک نظر اپنے تاریک دل پر ڈالتا ہے۔ ہر تَر لقمہ، ہر وہ لقمہ جس کو اپنے مزے میں کھانے کے لحاظ سے بھرپور لقمہ کہہ سکتے ہیں اسے جھنجھوڑتا ہے اور اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ اچھے سفید کپڑے تو پہنے ہوئے ہیں لیکن انہیں دیکھ کر اس کا دل روتا ہے کہ کاش میرا اندرونہ بھی ایسا ہی صاف ہوتا۔ اپنے بھائی پر نظر پڑے تو اپنی کمزوریاں اَور اُبھر کر سامنے آ جاتی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کو دیکھ کر جن کا اللہ تعالیٰ سے خاص قرب ہے اور سمجھتا ہے کہ میری حالت کی چوری پکڑی گئی۔ شاید میرے گناہ اسے نظر آ گئے ہیں، شاید میرے نقائص اسے نظر آ گئے ہیں۔ ہر دفعہ جب اپنے بیوی بچوں اور دوستوں اور ہمسایوں پر نگاہ دوڑاتا ہے اور پھر اپنے نفس پر غور کرتا ہے تو شرمندہ ہو جاتا ہے اور ندامت سے اپنا سر جھکا لیتا ہے۔ ظاہر میں تو مجلس میں شامل ہوتا ہے لیکن دل اپنے گناہوں کی وجہ سے ندامت اور شرمندگی سے پُر ہوتا ہے۔ خیال کرتا ہے کہ شاید اس مجلس میں مَیں ہی ایسا ہوں جو حقیقی عید سے محروم ہے اور ضمیر ملامت کرتا ہے کہ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔ نہ اُن میں شامل ہوں جو غفلت اور نادانی سے عید منا رہے ہیں اور نہ ان میں شامل ہوں جو وصالِ الٰہی کی خوشی میں عید منا رہے ہیں۔ پھر سوچتا ہے کہ خدا تعالیٰ بڑا ستار ہے اگر میں ظاہر میں عید منا لوں تو کیا تعجب کہ خدا تعالیٰ مجھے باطن میں بھی عید منانے کی توفیق دے دے۔ جس طرح خدا تعالیٰ نے میرے ظاہر کی ستاری کی ہے میرے باطن کی بھی ستاری کر دے، میری اندرونی حالت کی بھی ستاری کر دے۔ اللہ تعالیٰ جو بندوں پر بہت رحم کرنے والا اور بخشنے والا ہے اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا۔ جب بندہ سوچتا ہے کہ اصل عید تو خدا تعالیٰ کے ملنے سے ہے یہ مجھے میسر نہیں آ رہی۔ نفس بار بار اسے ملامت کرتا ہے کہ کیا تمہارے عمل ہیں۔ توبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے، ندامت محسوس کرتا ہے اور پھر جب پشیمانی اس کو بے چین کر دیتی ہے تو خدا تعالیٰ بھاگ کر اس کے پاس آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا کوئی شخص صحرا میں ہو اور اس کی اونٹنی گم ہو جائے جس پر اس کی خوراک اور پانی بھی ہو اور پھر اچانک وہ اسے مل جائے اور اس اونٹنی کو دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی حسرت اور ندامت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ جس کے پاؤں تھے، جو نیک عمل کرنے والا تھا وہ چل کے میرے پاس آ گیا، نیک لوگ تھے ان کو اتنی توفیق اللہ تعالیٰ نے دی ہوئی تھی، ان کے پاؤں تھے جن سے چل کے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے ۔اور دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں ان کے بھی پاؤں تھے اور ان کے عمل تھے لیکن ان کے عمل دکھاوے کے تھے۔ وہ چل کر شیطان کے پاس چلا گیا ۔مگر وہ بندہ جس کے پاؤں نہیں ہیں ،جو کہیں جانے کی طاقت نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چلو میں اس کے پاس جاتا ہوں وہ بہت زیادہ ندامت اور پشیمانی کا اظہار کر رہا ہے، توبہ اور استغفار کر رہا ہے۔ یہ گرا ہوا ہے تو اسے اٹھاتا ہوں اپنے پاس لے آتا ہوں۔
پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اگر پہلی قسم میں سے نہیں تو ہم اس تیسری قسم سے ہی بن جائیں کہ یہ بھی تحقیر کا مقام نہیں ہے، یہ بھی کوئی کم چیز نہیں ہے، یہ بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے انسان کا مقام گر رہا ہو۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کامل حسرت، کامل عجز، کامل انابت، کامل غم اور کامل دکھ جو انسان پر طاری ہو جائے وہ خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتا ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم دوسری قسم کی عید کرنے والوں میں سے نہ بنیں جن کا کام صرف کھانا پینا ہے اور دنیا کی ہا ہو ہے بلکہ ان میں سے بننے کی کوشش کریں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو پا لیا یا کم ازکم ان میں سے بنیں جو خدا تک ابھی نہیں پہنچے مگر وہیں گر گئے اور ندامت اور پریشانی کی وجہ سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور اپنی جان کو رنج و الم کی وجہ سے ایسا ہلاک کیا کہ ان کی حالتِ زار کی وجہ سے عرشِ الٰہی ہل گیا اور عرش کا مالک خود چل کر ان کے پاس آیا اور انہیں اٹھا کر محبت کے مقام پر بٹھایا۔
(ماخوذ از خطباتِ محمود خطباتِ عید الفطر جلد 1 صفحہ 196 تا 208 بیان فرمودہ مورخہ 9 فروری 1932ء)
پس ہمیں ہمیشہ یہ دعا اور کوشش کرنی چاہیے کہ یا پہلی قسم کی عیدیں ہمیں ملیں یا تیسری قسم کی عید ہمیں ملے اور یہی عید ہے جو حقیقی خوشیاں دینے والی عید ہے۔ یہی عید ہے جو خرچ کروانے کے بجائے انعامات سے نوازتی ہے بلکہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جو دوسری قسم کی عید کو عید سمجھے ہوئے ہیں انہیں بھی حقیقی عید کا ادراک دلوانے کی کوشش کریں۔ دنیا کو اس حقیقی پیغام کے پہنچانے کی کوشش کریں جو اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ذریعہ سے ہمیں ملا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کا صحیح فہم و ادراک دلوائیں تا کہ دنیا سے تاریکی کے بادل چھٹ جائیں۔ ہدایت کا سورج دنیا کو اپنی نورانی کرنوں سے جگمگا دے۔ خدا کی حقیقی بندگی دنیا میں قائم ہو جائے تبھی ہماری عیدیں حقیقی عیدیں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ عید دیکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
ان تمام احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں جن کو مذہب کے نام پر تکلیفیں دی جا رہی ہیں، جن کو قیدو بند کی صعوبتوں میں رکھا گیا ہے۔ ان اسیران کی جلدرہائی کے لیے دعا کریں تا کہ وہ بھی آزادی سے عید یںکر سکیں۔ امّت مسلمہ کے لیے دعا کریں۔ دنیا کے امن کے لیے بہت دعا کریں۔ دنیا کے لیڈر جیسا کہ پہلے بھی مَیں کہہ چکا ہوں اپنی عارضی تسکین کے لیے دنیا کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں اور اس وباکی وجہ سے بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو اپنی حرکتوں سے اس کے غضب کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ پس دنیا کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کی کوشش اور اس کے ساتھ دعاؤں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو اپنے اس فرض کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور اسے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دعا کر لیں۔ (آمین) دعا کے بعد فرمایا: سب کو عید مبارک ۔ دنیا میں رہنے والے سب احمدیوں کو عید مبارک۔ کچھ لوگ گھروں میں عیدیں کر رہے ہیں۔ کچھ مسجد میں چند پابندیوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھ رہے ہیں اور پڑھیں گے۔ سب کو اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے۔ اورسب کو عید مبارک ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
٭…٭…٭