الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
دل سے ہیں خدّامِ ختم المرسلیںؐ
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر و دسمبر 2012ء کی زینت بننے والے مکرم ہادی علی چودھری صاحب کے محرّرہ ایک مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت اور علم کلام کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرتﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کی خاطر حضرت مسیح موعودؑ نے نہایت پُرحکمت جدّوجہد فرمائی۔ ایک طرف معاندین کی بدزبانیوں کے مدلّل اور مسکت جواب دیے اور دوسری طرف حکومت کو توجہ دلائی کہ امن عامہ کے قیام کے لیے بانیان مذاہب کے تقدّس کی خاطر اُن کے خلاف کسی کو بدزبانی کی اجازت نہ دی جائے۔ آپؑ ’’کتاب البریہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’ان دنوں میں بہت تکلیف جو ہمیں پیش آئی وہ یہ ہے کہ پادری صاحبان یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہر ایک طرح سے ہمارے نبیﷺ کی بےادبی کریں، گالیاں نکالیں، بےجا تہمتیں لگاویں اور ہر ایک طور سے توہین کرکے ہمیں دکھ دیں اور ہم اُن کے مقابل پر بالکل زبان بند رکھیں۔ …ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خداتعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راستباز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہماری قلم سے اُن کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں لیکن پادری صاحبان چونکہ ہمارے نبیﷺ پر ایمان نہیں رکھتے اس لیے جو چاہتے ہیں منہ پر لاتے ہیں۔ …یہ بات ظاہر ہے کہ کوئی شخص اپنے مقتدا اور پیغمبر کی نسبت اس قدر بھی سننا نہیں چاہتا کہ وہ جھوٹا اور مفتری ہے اور ایک باغیرت مسلمان بار بار کی توہین کو سن کر پھر اپنی زندگی کو بےشرمی کی زندگی خیال کرتا ہے تو پھر کیونکر کوئی ایماندار اپنے ہادی پاک نبی کی نسبت سخت سخت گالیاں سن سکتا ہے۔ …ہم یقیناً جانتے ہیں کہ ہرگز ممکن نہیں کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ ان (پادریوں۔ناقل)کے اس طریق کو پسند کرتی ہو یا خبر پاکر پھر پسند کرے …اور ہم تمام مسلمانوں پر ظاہر کرتے ہیں کہ گورنمنٹ کو ان باتوں کی اب تک خبر نہیں ہے کہ کیونکر پادریوں کی بدزبانی نہایت تک پہنچ گئی ہے اور ہم دلی یقین سے جانتے ہیں کہ جس وقت گورنمنٹ عالیہ کو ایسی سخت زبانی کی خبر ہوئی تو وہ ضرور آئندہ کے لیے کوئی احسن انتظام کرے گی۔‘‘ (کتاب البریہ صفحہ119تا122)
قانونی چارہ جوئی کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے آنحضرتﷺ کے مقام کی عظمت کے زندہ اظہار کے لیے آریوں کی بدزبانیوں کا جواب دے کر انہیں مناظرے اور نشان نمائی کی دعوت بھی دی۔ چنانچہ بدزبان شاتمِ رسولؐ لیکھرام مقابلے پر آیا تو آپؑ نےاپنے فارسی منظوم کلام میں اُسے یہ انذار کیا:
اَلا اے دشمنِ نادان و بے راہ
بترس از تیغِ برّانِ محمدؐ
کرامت گرچہ بے نام و نشان است
بیا بنگر زِ غلمانِ محمدؐ
کہ اے نادان اور گمراہ دشمن! محمدﷺ کی تیز کاٹنے والی تلوار سے ڈر۔ اگرچہ اب نشان نمائی کا نام و نشان باقی نہیں رہا مگر غلامانِ محمدﷺ میں آکر یہ مشاہدہ کرو۔
لیکھرام نے اس انذار سے فائدہ نہ اٹھایا اور اپنی شوخی میں بڑھنے کے نتیجے میں جلد ہی 7؍مارچ 1897ء کو اللہ تعالیٰ کی قہری تجلّی کا نشانہ بن کر واصلِ جہنّم ہوا۔
اسی طرح بدزبان شاتمِ رسولؐ عیسائی پادری آتھم بھی مباحثے کے لیے مقابل پر آیا اور 27؍جولائی 1896ء کو تیغِ بُرّانِ محمدؐ کا کشتہ بنا کر ہاویہ میں گرایا گیا۔
دسمبر 1907ء میں آریوں نے ایک جلسہ کیا اور اس میں آنحضرتﷺ کی توہین پر مبنی مضمون پڑھا گیا جس سے مسلمانوں کی بےحد دلآزاری ہوئی۔ اس کے ردّعمل پر حضرت مسیح موعودؑ نے کتاب ’’چشمۂ معرفت‘‘ تحریر فرمائی۔ اس میں سارے واقعہ کی تفصیل لکھنے کے بعد آپؑ نے فرمایا: ’’مَیں نے یہ رسالہ دو غرض سے لکھا ہے۔ (۱) ایک یہ کہ اُن اعتراضوں کا جواب پبلک کو معلوم ہوجائے۔ (۲) دوسری یہ کہ تا مسلمانوں کے دلوں میں جو آریہ لوگوں کی سخت گوئی کی وجہ سے ایک جوش ہے وہ جوش جواب ترکی بترکی سن کر کم ہوجائے اور شاید آریہ لوگ آئندہ شرارتوں سے باز آجائیں۔ والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ۔ ‘‘ (چشمۂ معرفت صفحہ8)
تاریخ کے اس موڑ پر آپؑ واحد جری اللہ ہیں جو رسول اللہﷺ کے دین اور آپؐ کے ناموس کی حفاظت کے لیے شیر ببر کی طرح کھڑے نظر آتے ہیں۔ جن کی للکار سے پادری لیفرائے جو عیسائیت کے غلبے کے خواب لے کر لندن سے چلا تھا، جلد ہی دُم دباکر بھاگ گیا۔ آرچ پشپ آف گلوسسٹر سرجان ایلی کوٹ انگلستان کے پادریوں کی کانفرنس میں حضرت مسیح موعودؑ کی قوّتِ براہین سے لرزاں دینِ محمدی سے شکست کا اعتراف کرنے لگا۔
حضرت مسیح موعودؑ نے رسول اللہﷺ کی ناموس کی حفاظت اور امن عامہ کے قیام کے لیے ہندو صاحبان کو یہ دعوت بھی دی کہ اگر وہ آئندہ آنحضورﷺ کی توہین و تکذیب چھوڑ دیں تو ہم بھی ہمیشہ ویدؔ کے مصدّق ہوں گے اور ویدؔ اور اس کے رشیوں کا تعظیم اور محبت سے نام لیں گے اور اگر ایسا نہ کریں تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہوگی، ادا کریں گے۔ (پیغام صلح)
مذکورہ بالا مضمون میں ہی آپؑ نے آنحضورﷺ کی ناموس کے لیے اپنی غیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: جو لوگ ناحق خدا سے بےخوف ہوکر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں، اُن سے ہم کیونکر صلح کریں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔ ‘‘ (پیغام صلح صفحہ459)
1923ء کے اوائل میں ہندوؤں نے ایک تحریک شروع کی جس کے تحت اُن مسلمانوں کو جو کسی وقت ہندومت چھوڑ کر مسلمان ہوگئے تھے، دوبارہ ہندومت میں داخل کرنا تھا۔ یہ ’’تحریکِ شدّھی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس کے تحت انہوں نے چار ہزار سے زائد مسلمانوں کو ہندو بنالیا۔ اس کے ردّعمل میں چند مسلمان تحریکیں بلند و بانگ دعوے لے کر اٹھیں تو سہی مگر بےعملی کی راہ میں گم ہوگئیں۔ صرف حضرت مصلح موعودؓ نے ایسی فوری، تیز اور مؤثر تحریک چلائی کہ آپؓ کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے کثرت سے احمدی مجاہدین اس میدان میں اُترے اور ہر طرح کی قربانی کرتے ہوئے اسلام اور آنحضرتﷺ کی حسین تعلیم اور نمونے کو پیش کرکے انہیں واپس اسلام میں داخل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اُس دَور کے سارے اخبارات میں آپؓ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس تحریک کی تفصیلی کامیابیوں کا بیان ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں ہی ایک آریہ مصنّف نے کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘لکھی جس میں آنحضورﷺ اور ازواجِ مطہرات پر انتہائی جھوٹے اور دلخراش الزامات لگائے گئے۔ اس پر مسلمانوں نے ہنگامہ آرائی شروع کی تو آپؓ نے مسلمانوں کو امن عامہ کو خراب کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے سے باز رہنے کی تلقین کی اور حکومت پر زور دیا کہ وہ بانیانِ مذاہب کی توہین کے خلاف قانون سخت کرے۔ آپؓ کی قائدانہ صلاحیتوں نے مسلمانوں کی رہنمائی کی اور حکومت وقت نے علمی اقدامات کا اعلان کیا۔ تاہم اسی اثناء میں مذکورہ کتاب کے پبلشر کو ایک شخص (غازی)علم دین نے قتل کردیا جس پر علم دین کو مقدمہ چلاکر سزائے موت سنائی گئی۔
ابھی علم دین کا مقدمہ زیرسماعت تھا کہ مئی 1927ء میں ایک ہندو رسالہ ’’ورتمان‘‘ نے ایک مضمون ’’سیرِ دوزخ‘‘ شائع کیا جس میں آنحضرتﷺ کی توہین کی گئی۔ حضورؓ کی بروقت حکمتِ عملی اور خداداد بصیرت کی وجہ سے کوئی سازش کامیاب نہ ہوسکی اور مقدمہ چلانے کے بعد مضمون نگار کو ایک سال اور اس کو شائع کرنے والے کو چھ ماہ کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس پر اخبارات نے آپؓ کی مساعی جمیلہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ مگر آپؓ نے فرمایا: ’’میرا دل غمگین ہے کیونکہ مَیں اپنے آقا، اپنے سردار حضرت محمدﷺ کی ہتکِ عزت کی قیمت ایک سال کے جیل خانے کو نہیں قرار دیتا۔ مَیں اُن لوگوں کی طرح جو کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو گالیاں دینے والے کی سزا قتل ہے ایک آدمی کی جان کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا۔ مَیں دنیا کی موت کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا بلکہ مَیں اگلے پچھلے سب کفار کے قتل کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا کیونکہ میرے آقاﷺ کی عزّت اس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے۔ کیونکہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ میرا آقا دنیا کو جِلانے کے لیے آیا تھا نہ مارنے کے لیے، وہ لوگوں کو زندگی بخشنے کے لیے آیا تھا نہ کہ اُن کی جان نکالنے کے لیے۔ غرض محمدﷺ کی عزت دنیا کے احیاء میں ہے نہ اس کی موت میں۔ پس مَیں اپنے نفس میں شرمندہ ہوں کہ اگر یہ دو شخص جو ایک قسم کی موت کا شکار ہوئے ہیں اور بدبختی کی مُہر انہوں نے اپنے ماتھوں پر لگائی ہے اُس صداقت پر اطلاع پاتے جو محمد رسول اللہﷺ کو عطا ہوئی تھی تو کیوں گالیاں دے کر برباد ہوتے، کیوں اس کے زندگی بخش جام کو پاکر ابدی زندگی نہ پاتے۔ اور اس صداقت کا اُن تک نہ پہنچنا مسلمانوں کا قصور نہیں تو اور کس کا ہے۔ پس مَیں اپنے آقاؐ سے شرمندہ ہوں کیونکہ اسلام کے خلاف موجودہ شورش درحقیقت مسلمانوں کی تبلیغی سستی کا نتیجہ ہے۔ قانون ظاہری فتنہ کا علاج کرتا ہے ۔نہ دل کا ۔اور میرے لیے اس وقت تک خوشی نہیں جب تک کہ تمام دنیا کے دلوں سے محمد رسول اللہﷺ کا بغض نکل کر اس کی جگہ آپؐ کی محبت قائم نہ ہوجائے۔ ‘‘
(اخبارالفضل19؍اگست1927ء)
مذکورہ بالا پیغام میں آپؓ نے مسلمانوں کو ایک عزم باندھنے اور تین باتوں کا عہد کرنے کی طرف توجہ دلائی یعنی اوّل خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بےپرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔ دوسرے تبلیغ اسلام میں اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور تیسرے یہ کہ مسلمانوں کو تمدّنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لیے پوری کوشش کریں گے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے آنحضورﷺ کی پاک سیرت سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے 1928ء میں جلسہ ہائے سیرۃالنبیﷺ کا اجرا فرمایا تو ہندوستان کے طول و عرض میں اور دنیا کے پندرہ ممالک میں وسیع پیمانے پر جلسے ہوئے جن میں غیرمسلم مقررین نے بھی آنحضورﷺ پر عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔
1988ء میں سلمان رشدی نے اپنی مذموم کتاب “Satanic Verses” شائع کی تو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اس کتاب کا علمی رنگ میں جواب لکھوایا اور خطبات و خطابات کے ذریعے مسلمانوں کو پُرامن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے انہیں دعوت و تبلیغ میں آگے بڑھنے اور اُسوۂ محمدیؐ پر عمل پیرا ہونے کی تلقین فرمائی۔ اس کتاب کے خلاف نکلنے والے مسلمانوں کے جلوسوں کے نتیجے میں املاک کےنقصان کے علاوہ کئی جانیں بھی تلف ہوئیں جن کے پسماندگان کو پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اُن کی دستگیری فرمائی اور اُن کی مالی مدد کے سامان کیے۔
2006ء میں ڈنمارک کے اخبار ’’یولنڈپوسٹن‘‘نے آنحضرتﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع کیے تو سب سے پہلے جماعت احمدیہ نے مذکورہ اخبار سے شدید احتجاج کرتے ہوئے اس میں آنحضرتﷺ کی پاک سیرت اور عظیم مرتبے پر مشتمل مضمون شائع کروایا۔ دیگراخبارات میں بھی مضامین شائع ہوئے۔ ڈینش احمدی مکرم عبدالسلام میڈسن صاحب کے انٹرویو شائع ہوئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطاب میں خاکوں کی اشاعت کی مذمّت کی اور جماعت کو تبلیغ اور کثرت سے آنحضورﷺ پر درود بھیجنے کی طرف توجہ دلائی۔ حضورانور نے اُن ممالک کو انذار فرمایا جو ایسی کارروائیوں کی پشت پناہی کرتے ہیں اور مسلمانوں کو منفی ردّعمل دکھاکر اپنا نقصان کرنے نیز اسلام اور آنحضرتﷺ کی طرف منسوب ہوکر اُنہیں بدنام کرنے والے مظاہروں سے منع فرمایا۔
2012ء میں ایک گندی فلم چلانے کی سازش کی گئی تو حضورانور نے ایک بار پھر ہر سطح پر رہنمائی فرمائی نیز مسلمان ممالک کو تحریک کی کہ وہ اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو پیش کرکے اس کا حل نکالیں اور بانیانِ مذاہب کے خلاف دلآزار اور گندی زبان استعمال کرنے کی روک تھام کا قانون بنوائیں۔ حضورانور نے استہزا سے باز نہ آنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر وہ استہزا اور ظلم سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی بڑی سخت ہے۔ دنیا کے ہر خطّے پر آج کل قدرتی آفات آرہی ہیں۔ ہر طرف تباہی ہے۔ امریکہ میں بھی طوفان آرہے ہیں اور پہلے سے بڑھ کر آرہے ہیں۔ معاشی بدحالی بڑھ رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آبادیوں کو پانی میں ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہورہا ہے۔ پس ان حد سے بڑھے ہوؤں کو ان سب باتوں کی وجہ سے خداتعالیٰ کی طرف پھیرنے کی ضرورت ہے نہ یہ کہ بیہودہ گوئیوں کی طرف وہ توجہ دیں۔ لیکن بدقسمتی سےاس کے اُلٹ ہورہا ہے اور حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ زمانے کا امام تنبیہ کرچکا ہےکہ دنیا نے اگر اُس کی آواز پر کان نہ دھرے تو ان کا ہر قدم دنیا کو تباہی کی طرف لے جانے والا بنائے گا۔
(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ستمبر2012ء)
………٭………٭………٭………