جلسہ سالانہ 1910ء اور 1939ء کی 2 امتیازی خصوصیات
آواز کے انتظام کے لیے آدمیوں کا تقرر اور ملکی جلسوں کا آئیڈیا
جلسہ سالانہ 1910ء
جماعت احمدیہ کا دسمبر 1909ء کا جلسہ سالانہ 25؍تا 27؍مارچ 1910ء کو منعقد ہوا جس کے شرکاء 3 ہزار سے زائد تھے۔ 25؍ مارچ کو جمعہ تھا اور کثرت حاضرین کی وجہ سے حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی آواز دور تک نہیں پہنچ سکتی تھی اس لیے آپ نے 4 افراد کو مقرر کیا کہ وہ آپ کے مبارک کلمات آگے پہنچاتے رہیں۔ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب ایسا انتظام کرنا پڑا۔
(تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ316)
اس کے بعد حسب حالات یہ سلسلہ 1936ء تک جاری رہا۔
1935ء میں 25؍تا27؍دسمبر کو رمضان میں جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ 28؍دسمبر 1935ء کو عید الفطر تھی۔ کثرت سے احباب شریک ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے عید گاہ میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ حضورؓ کی آواز آگے پہنچانے کے لیے 9احباب مقرر تھے۔ الفضل نے ان کا نقشہ بھی شائع کیا۔
(الفضل 2؍جنوری 1936ء صفحہ4)
27؍نومبر 1936ء کو حضورؓ نے خطبہ جمعہ میں تحریکِ جدید کے نئے سال کا اعلان فرمایا۔ اس موقع پر بھی 5احباب حضورؓ کی آواز آگے پہنچاتے رہے۔ حضورؓ نے پہلے بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ آخر پر کھڑے ہو گئے۔
(الفضل29؍نومبر1936ء)
1936ء کے جلسہ سالانہ پر پہلی بار لاؤڈ سپیکر استعمال کیا گیا۔ اس جلسہ کی حاضری 25ہزار سے زائد تھی۔
1937ء کے جلسہ سالانہ پر مستورات نے حضرت مصلح موعودؓ کے تمام خطاب بذریعہ لاؤڈ سپیکر سنے۔
7؍ جنوری 1938ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں پہلی دفعہ لاؤڈ سپیکر لگا اور حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ میں پیشگوئی فرمائی کہ قادیان کا درس قرآن وحدیث ساری دنیا میں سنا جائے گا۔ (الفضل 13؍جنوری 1938ء)یہ پیشگوئی ایم ٹی اے کے ذریعہ پوری ہو رہی ہے۔
جلسہ سالانہ 1939ء
1939ءکا جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ یہ جلسہ جماعت احمدیہ کی 50 سالہ جوبلی اور خلافت ثانیہ کی 25 سالہ جوبلی کے طور پر منایا گیاجس میں قریباً 40 ہزار افراد شریک ہوئے۔ اس جلسہ کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے پہلی بار بیرونی ملکوں کے سالانہ جلسوں کا تصور پیش فرمایا۔ جو جلد ہی حقیقت کا روپ دھار گیا اور اب 213ممالک میں سے بیشتر میں سالانہ جلسہ کا انعقاد ہوتا ہے۔ خواہ حاضری اور انتظام کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو۔ حضورؓ نے ملکی جلسہ سالانہ کا خیال اس تقریب میں پیش فرمایا جو جلسہ کے انتظامات کے اختتام کی تقریب تھی۔
6؍جنوری 1940ء کو جلسہ جوبلی کے انتظامات بخیر و خوبی ختم ہونے پر مدرسہ احمدیہ کے صحن میں صبح سوانوبجے کے قریب کارکنان جلسہ کا اجتماع ہوا۔ جہاں سٹیج پر لاؤڈسپیکر کا بھی انتظام کیا گیا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے تشریف لانے پر جلسہ سالانہ کے انتظامات کرنے والی پانچ نظامتوں کی طرف سے رپورٹیں سنائی گئیں۔ پھر حضورؓ نے سو ا دس بجے سے سوا بارہ بجے تک تقریر فرمائی جس میں حضورؓ نے اہم امور کی اصلاح کے متعلق ہدایات دیں۔ اس تقریر کا خلاصہ الفضل میں شائع ہوا ہے اور یہ سلسلہ کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اسی لیے اسے یہاں درج کیا جاتا ہے۔ انتظام جلسہ کی وسعت کے متعلق حضورؓ نے فرمایا:
میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں جس نے باوجود ہر قسم کے موانع اور ہر قسم کی کمیوں کے گزشتہ سالوں سے زیادہ اس بات کی توفیق بخشی کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ اور دین کے لیے جمع ہونے والے مہمانوں کی خدمت کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے حوصلہ اپنے اخلاص اور اپنی طاقت و ہمت کے مطابق موقع ملا۔ ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے اندر بھی ایسا اجتماع کہیں نہیں ہوتا۔ جس میں اتنی مقدار میں مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا ہو۔ انگلستان، امریکہ، جرمنی، فرانس اور روس یہ اس وقت ترقی یافتہ اور بڑے بڑے ممالک خیال کیے جاتے ہیں۔ مگر ان میں تیس چالیس ہزار آدمیوں کے اجتماع ایسے نہیں ہوتے جن کو کھانا کھلایا جاتا ہو۔ ہندوستان میں کانگرس کے اجتماع بے شک بڑے ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال میں نے نمائندے تحریک جدید سے وہاں بھجوائے تو انہوں نے بتایا کہ ان کو کھانا مفت ملنا تو الگ مول لینے میں بھی دقتیں پیش آئیں۔ غرض یہ ہمارے جلسہ کی خاص خصوصیت ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ جن کو دوسرے اجتماع دیکھنے کا موقع ملا ہے جب وہ یہاں آتے ہیں تو ہمارے انتظام کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ اسی سال یو پی کے ایک اخبار کے نمائندے جو بعض انگریزی اخبارات کے بھی نمائندے رہ چکے ہیں اور کانگرس سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں آئے تو انہوں نے ملاقات کے وقت کہا کہ کانگرس کے اجلاس سے اتر کر ہندوستان میں اتنا بڑا اجتماع میں نے کہیں نہیں دیکھا۔ میں نے کہا سنا ہے کانگرس کے اجلاس میں لاکھ لاکھ دو دو لاکھ آدمی شریک ہوتے ہیں کہنے لگے لاکھ دو لاکھ تو ہرگز نہیں چالیس، پچاس ہزار کے قریب ہوتے ہیں اور مرد عورتیں اکٹھے ہوتے ہیں۔ میں نے کہا ہمارے ہاں مستورات کے لیے الگ جلسہ گاہ ہے تو وہ کہنے لگے پھر آپ کے جلسہ کے مردوں کی اس تعداد کے ساتھ مستورات کی تعداد بھی شامل کرلی جائے تو کانگرس کے اجتماع میں بھی شاید اتنے ہی مرد عورتیں ہوتی ہوں۔
غرض قادیان کا جلسہ سالانہ اب کم از کم ہندوستان میں دوسرے نمبر پر ہے اور اپنے انتظام کے لحاظ سے تو دنیا بھر کے اجتماعوں سے اول نمبر پر ہے۔ کیونکہ ایسا انتظام کھانا کھلانے کا قادیان کے سوا اور کسی اتنے بڑے اجتماع میں نہیں ہوتا۔ ہاں میلے بے شک ہوتے ہیں۔ جن میں بڑے بڑے اجتماع ہوتے ہیں۔ مگر ان میں نہ تو رہائش کا انتظام ہوتا ہے نہ کھانے کا اور نہ روشنی کا۔ پس قادیان کا یہ جلسہ ایک لحاظ سے اول نمبر پر اور تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر۔ اور جس رنگ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کی ترقی ہورہی ہے اس کے لحاظ سے ہمارا جلسہ سالانہ انشاء اللہ کسی وقت کانگرس سے بھی ہر لحاظ سے اول نمبر پر ہوگا۔
اس کے بعد حضورؓ نے انتظامی امور کے متعلق متعلقہ صیغوں کو ہدایات دیں اور آخر میں فرمایا:
میں ان سب دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس خدمت دین میں حصہ لیا اور محنت و مشقت سے جی نہ چرایا۔ دیکھو خدا تعالیٰ نے اس خدمت میں تم لوگوں کو منفرد کیا ہے۔ اور منفرد ہونا کوئی معمولی بات نہیں …اس وقت خدا کے فضل سے آپ لوگوں کو قومی طور پر یہ فخر حاصل ہے کہ آپ لوگوں کے ذمہ خدا تعالیٰ کے مہمانوں کی میزبانی کاکام سپرد کیا گیا ہے یہ میزبانی اور اتنی بڑی جماعت کی اس رنگ میں میزبانی کسی اور کے سپرد نہیں کی گئی آپ لوگوں کے ہی مکان ایسے ہیں۔ جو خدا کے دین کے لیے آنے والے مہمانوں کے لیے وقف ہوتے ہیں۔ … یہ صرف قادیان ہی کے مکانات ہیں۔ جن کی نسبت مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَکے مطابق خرچ کرنے کا آپ لوگوں کو موقع ملتا ہے۔ پھر آپ لوگ ہی ایسی جماعت ہیں جسے وہ شرف حاصل ہے۔ جس کا حضرت خدیجہؓ نے آنحضرتﷺ کو مخاطب کرکے یوں ذکر کیا تھا کہ خدا کی قسم !خدا تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ مہمان نواز ہیں۔ پس یہ کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص انعامات سے ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے قیامت کے دن پانچ شخص ایسے ہوں گے جن پر خدا تعالیٰ اپنا سایہ کرے گا۔ ان میں سے آپ نے ایک مہمان نواز قرار دیا ہے۔
بے شک ایک دوست دوست کی میزبانی کرتا ہے۔ مگر وہ ایک رنگ کا سودا ہوتا ہے۔ ایک رشتہ دار اپنے رشتہ دار کی میزبانی کرتا ہے۔ اور وہ بھی ایک سودا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے تعلق کی وجہ سے مہمان نوازی کرتا ہے۔ مگر آپ لوگ جن لوگوں کی میزبانی کرتے ہیں۔ ان سے کوئی دنیوی تعلق نہیں ہوتا اور یہی دراصل مہمانی ہے۔ جو خدا تعالیٰ کی رحمت کے سایہ کے نیچے آپ لوگوں کو لے جانے والی ہے اور یہی وہ مہمانی ہے جو شاذونادر ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ نے قادیان والوں کو عطا کررکھی ہے۔ یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اگر اخلاص سے آپ لوگ کام لیتے ہوں تو نہ معلوم کتنے احد پہاڑوں کے برابر آپ کو ثواب حاصل ہوتا ہوگا۔
ممکن ہے کہ جب ہماری جماعت بڑھ جائے اور یہاں قادیان میں ایسے جلسے کرنا مشکل ہوجائیں تو پھر ہم اجازت دے دیں کہ ہر ملک میں الگ سالانہ جلسے ہوا کریں اس وقت ان ممالک میں کام کرنے والے بھی ثواب کے مستحق ہوا کریں گے۔ مگر وہ وقت تو آئے گا جب آئے گا۔ اس وقت تو آپ لوگوں کے سوا ایسی خوش قسمت جماعت اور کوئی نہیں۔
اب میں دعا کرتا ہوں آپ لوگ بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس حقیر خدمت کو قبول فرمائے اور ہماری غلطیوں، سستیوں اور کمزوریوں سے درگزر کرے تا ایسا نہ ہو کہ غلطیاں ہماری نیکیوں کو کھاجانے والی ہوں ۔اور ہم آئندہ سال اس سے بھی بڑھ کر خدمت خلق کرکے اپنے خدا کو راضی کرسکیں۔
(ماخوذ ازالفضل 9؍جنوری 1940ء)
٭…٭…٭