مختصر روئیداد جلسہ سالانہ 1920ء
(شائع شدہ الفضل قادیان 03، 06 اور10؍جنوری 1921ء)
جماعت احمدیہ کا سب سے بڑا مرکزی پروگرام سالانہ جلسہ کہلاتا ہے، جماعت احمدیہ کی وسعت کے ساتھ ساتھ ہر ملک میں مقامی جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوتا ہے۔ لیکن خلیفۃ المسیح کی موجودگی جلسہ کو مرکزی حیثیت بھی دیتی ہے۔ قادیان دارالامان میں مسیح دوراں کے ہاتھوں سے اس کی بنا رکھی گئی اور تقسیم ہند تک مرکزی جلسہ سالانہ قادیان میں منعقد ہوتا رہا۔
آج سے سو سال قبل حضرت خلیفۃا لمسیح الثانی المصلح الموعودرضی اللہ عنہ کے بابرکت دورِ خلافت کے آٹھویں سال میں جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ جلسہ سے قبل جماعتی رسائل کے ذریعہ جلسہ کے پروگرام اور تاریخوں کا اعلان کیا جاتا رہا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے جلسہ سالانہ 1920ء میں بتفصیل ذیل تین تقاریر فرمائیں:
٭…27؍ دسمبر کے روز مختلف نصائح پر مشتمل تقریر فرمائی جو ’’اصلاحِ نفس(متفرق امور)‘‘ کے عنوان سے انوار العلوم جلد پنجم میں شائع کی جا چکی ہے۔
https://www.alislam.org/urdu/au/AU5-16.pdf
٭…28؍ اور 29؍ دسمبر 1920ء کو ’’ملائکۃ اللہ‘‘ حضورؓ کے خطابات کا موضوع تھا۔ یہ ایمان افروز تقریر انوار العلوم جلد پنجم میں ہی ’’ملائکۃ اللہ‘‘کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔
https://www.alislam.org/urdu/au/AU5-17.pdf
٭…29؍ دسمبر1920ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے مستورات سے بھی خطاب فرمایا۔
اس جلسے کی رپورٹ میں 24؍ اور 25؍ دسمبر یعنی جلسے کے آغاز سے پہلے کے دو ایام کا احوال بھی درج کیا گیا۔
24؍ دسمبر1920ء: جلسہ کی کارروائی باقاعدہ طور پر 26؍ دسمبر کو شروع ہوئی لیکن چونکہ 24؍تاریخ جمعہ تھا اس لیے بہت سے احباب نمازِ جمعہ میں شامل ہونے کے لیے اس دن پہنچ گئے اور نماز مسجد اقصیٰ کی بجائے مسجد نور میں ہوئی۔ خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے سورۂ کوثر پڑھ کر فرمایا۔ جس میں بتایا کہ ’ہر ایک چیز اور ہر ایک طاقت زوال کی طرف جا رہی ہوتی ہے سوائے اس کے جس کا ایسا ذخیرہ ہو کہ جو کبھی ختم نہ ہونےوالا ہو اور ایسی طاقت اسلام ہی ہے۔ اس کا ایسا ذخیرہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے ذریعہ دیا ہے کہ جو کبھی ختم ہونےوالا نہیں۔ ہاں اس میں مسلمانوں کی اپنی غفلت سے روک پڑ سکتی ہے۔ اور اس زمانہ میں ایسا ہی ہوا ہے۔ مگر اس کے دور کرنے کا طریق بھی خدا نے بتا دیا ہے کہ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ کہ اوّل اپنے جسموں کو خدا کے لیے لگا دو۔ نمازیں پڑھو۔ دعائیں کرو اور دوم اپنے اموال کو لگا دو۔ اس وقت ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیئے۔‘
25؍دسمبر1920ء: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے حسبِ معمول مسجد اقصیٰ میں درس القرآن دیا۔
26؍ دسمبر 1920ء(پہلا روز)
اجلاسِ اول
جلسہ کی کارروائی حسبِ پروگرام مسجد نور میں شروع ہوئی۔ پہلے اجلاس کے صدر جناب سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب سکندر آبادی تھے۔ تلاوت حافظ جمال احمد صاحب اور پنجابی نظم ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم نے پیش کی۔
جناب مولوی رحیم بخش صاحب کی تقریر کا خلاصہ
ساڑھے نو (½ 9)بجے سے سوا گیارہ (¼ 11) بجے تک جناب مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے ناظر تالیف و اشاعت نے تقریر بر موضوع ’’اسلام کا طریق عبادت بمقابلہ دیگر مذاہب‘‘ کی۔ جناب مولوی صاحب کو سالانہ جلسہ پر تقریر کرنے کا پہلا ہی موقع تھا۔ لیکن آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح کے ارشاد کی برکت سے بخوبی اپنے مضمون کو بیان فرمایا۔
آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ’سب سے پہلے میں بتانا چاہتا ہوں کہ عبادت کی دو قسمیں ہیں (۱) ظاہری (۲) باطنی۔ مگر اس وقت میں ظاہری عبادت کو لوں گا۔ جس کو مختلف زبانوں میں سندھیا۔ نماز۔ پریئر وغیرہ کے ناموں سے نامزد کیا جاتا ہے۔ اس میں سب سے پہلے سوال ہوتا ہے کہ عبادت ہے کیا جس کو دوسرے لفظوں میں پوجا، پرستش، ورشپ کہتے ہیں۔ اس سے مراد وہ تعلق ہے جو بندہ کو خدا سے ہے۔ اور جو اس کا اظہار ہے اور یہ اس انسانی فعل کا نام ہے جو خدا سے تعلق رکھتا ہے۔ اس تعلق کی بنیاد اعتقادات پر ہے جو خدا کے متعلق بندے کے ہوتے ہیں۔ اگر کسی مذہب کا خدا کے متعلق ادنیٰ عقیدہ ہے تو اس کا طریق عبادت بھی ادنیٰ ہوگا اور اگر اعلیٰ ہے تو اعلیٰ ہوگا۔
لغت میں عبادت کے معنی ہیں الطاعۃ مع الخضوع یعنی اپنے گناہوں اور غلطیوں کے اقرار کے ساتھ اپنے معبود کے حضور جھک جانا۔
مذاہب کی دو تقسیمیں ہیں۔ ایک بت پرست جو بدیہی باطل ہیں دوسرے خدا پرست۔ ہم اس بحث میں خدا پرستوں کے طریق عبادت کو ہی لیں گے۔ طریق عبادت میں یہ دیکھنا ہو گا کہ کامل عبد کس عبادت کے ذریعہ پیدا ہوتے ہیں اور کامل عبودیت کس طریق میں ظاہر ہوتی ہے۔ الفاظ عبادت کس کے اعلیٰ اور بہتر ہیں اوقات کس کے عمدہ ہیں۔ حرکات کس عبادت کی بہتر ہیں۔مذہب وہ اعلیٰ ہو سکتا ہے جو اس بات کو تسلیم کرے کہ دنیا میں رہے بغیر چارہ نہیں مگر دنیا ہی دنیا اصل چیز نہیں۔ بلکہ یہاں رہ کر کچھ اَور حاصل کرنا اصل مقصد ہے۔ اس لیے اصل مذہب وہ ہوگا جو یہ تعلیم دے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرو۔
اسلام نے پانچ اوقات عبادت کے مقرر کیے ہیں۔ کنفیوشس جس کی تعلیم چین میں رائج ہے سال میں ایک دن عبادت کا رکھتا ہے اور وہ بھی عوام کے لیے نہیں صرف بادشاہ کے لیے۔ برہم دھرم جو یونانی اور یورپین فلسفہ کا مجموعہ ہے وہ عبادت کو ضروری قرار دیتا اور کہتا ہے کہ دن کے کسی حصہ میں کر لی جائے۔ وہ 24 گھنٹہ میں سے صرف آدھ گھنٹہ دیتا ہے۔ آریہ اور عیسائی صبح شام قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ عیسائی مذہب کی بنیاد عبادت پر نہیں بلکہ کفارہ پر ہے۔ یہود وغیرہ تین وقت قرار دیتا ہے۔ اور یہ دنیا کی بجائے دین مقدم کرنے کی تعلیم ہے۔ کسی وقت عبادت کرنے کی اجازت میں نقص ہے لیکن اسلام پانچ وقت مقرر کرتا ہے جس میں سستی کا احتمال نہیں۔
آخر پر یہ دیکھنا ہے کہ کامل عبد کس طریق عبادت کے ذریعہ بنتا ہے۔ کامل عبد کی نشانی یہ ہے کہ خدا کا مکالمہ و مخاطبہ اس شخص کو حاصل ہو۔ اور اسلام کے سوا کوئی مذہب اعلیٰ نمونہ مذہب کا پیش نہیں کرتا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کے طریق عبادت کی افضلیت کا بہترین ثبوت ہیں۔ پس جب ہمیں نمونہ مل گیا کہ کس طریق عبادت سے کامل عبد پیدا ہوتے ہیں توکیسے اس طریق عبادت کو چھوڑ دیا جائے۔‘
خلاصہ تقریر جناب حکیم خلیل احمد صاحب
اس کے بعد سوا گیارہ بجے جناب حکیم خلیل احمد صاحب نے ’’ حضرت مسیح موعود کے احسانات ‘‘ کے موضوع پر پُرجوش تقریر فرمائی جس نے دلوں کو گرما دیا۔ آپ نے آیت کریمہ
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ
پڑھ کر فرمایا :
’آپ کے احسانات شاہ و گدا، گور ے کالے باشندۂ مشرق و مغرب سب پر ہیں اور بے حساب ہیں۔ اس لیے میں تو یہی کہتاہوں کہ
دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار
گلچین بہار نو زداماں گلہ دارد
آپ کے احسان اقوام عالم پر ہیں اور سب سے بڑی قوم عیسائی پر بہت بڑا احسان ہے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ ہمارا خداوند مسیح ہمارے لیے ملعون ہوا مگر آپ نے ثابت کیا کہ تمہارا خداوند مسیح ملعون نہیں ہوا کیونکہ ملعون خدا کا مقرب نہیں ہو سکتا۔ پھر نہ صرف ایک عیسائی قوم پر بلکہ ہر ایک قوم پر احسان کیا اور انبیاء پر بھی احسان کیا جیسا کہ فرمایا:
زندہ شد ہر نبی باآمدنم
ہر رسولے نہاں بہ پیر نہم
ہندوؤں پر احسان کیا اور بتایا کہ ہند میں بھی نبی ہوا ہے۔ پھر آپ کا ہندوستان میں مبعوث ہونا ہندوستان پر احسان ہے۔ پنجاب پر احسان ہے اور پنجاب کی سکھ قوم پر خاص احسان ہے۔ باوا نانکؒ پر کیا کیا الزام لگائے گئے مگر آپؑ کے قلم نے ست بچن میں ان کی تردید کی اور ثابت کیا کہ باوا صاحب خدا رسیدہ بزرگ تھے۔
پھر آپؑ کا احسان ہر ایک شخص پر ہے کہ اس کو پتہ دیا کہ خدا ہے اور زندہ خدا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ
آں خدائیکہ ازْ اہل جہاں بے خبر اند
برسن او جلوہ نمود است گرامی بپذیر
آپ کے علمی و دینی احسانات کا کیا شمار ہے۔ آپؑ نے قرآن کے علوم کے دروازے کھولے۔ قرآن کی برتری ثابت کی۔ مخالفین نے لفظاً لفظا ًسرقہ کیا اور اس کو اپنی تحقیق بتایا۔
قرآن کے مقطعات اور قرآنی قسموں کا فلسفہ، دعا کی حقیقت، بہشت و دوزخ کی حقیقت، فرشتوں کا فلسفہ،عرش کی حقیقت بیان فرمائی۔آپؑ نے مذہبی علم الکلام میں وہ تبدیلی کی کہ اس کا رخ پھیر دیا۔ عربی زبان کو ام الالسنہ ثابت کیا، اردو زبان پر احسان کیا کہ ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔اس زمانہ کے نبی نے اس میں تصانیف کیں اور اب وہ یورپ و امریکہ تک میں اردو میں پڑھی جانے لگی ہیں۔ آپؑ نے اردو زبان میں نئے الفاظ اور نئی ترکیبیں داخل کیں۔
آپؑ نے اختلافاتِ روایات میں فیصلہ کیا۔ یاجوج و ماجوج، دجال اور خر دجال، مسیح کا آسمان پر جانا، نبوت وغیرہ تمام مسائل جو بوجہ اختلاف روایات اسلام کے لیے موجب اعتراض تھے، صاف ہوگئے۔ ملکی حیثیت میں ہندوستان پر احسان کیا لوگ یورپ جاتے اور یورپ کے شاگرد بننے کے لیے جاتے ہیں۔ مگر اب ہندوستان سے یورپ کے لیے استاد گئے اور ایک وقت میں یورپ ان کی شاگردی پر فخر کریگا۔
آپؑ نے جماعت پر احسان کیا۔ آج جبکہ دنیا زلزلہ میں ہے ہم نہیں۔ وہ پراگندہ اور حیران ہیں لیکن ہم ایک امام رکھتے ہیں۔ ان کے لیے رستہ نہیں ہمارے پاس ہے۔ وہ زمین پر ہیں ہم بہت بلند ہیں۔ آج دنیا کی عزت کے لیے لوگ سرگرداں ہیں اور سیلف گورنمنٹ کے لیے مر رہے ہیں مگر ہمیں آسمانی گورنمنٹ مل گئی۔ اس سے بڑھ کر اَور کیا ہو سکتا ہے۔
آج کل کے لیڈر لوگوں کے پاس جاتے ہیں مگر پھولوں کی بارش میں مگر ہمارا لیڈر ہماری رہبری کے لیے آیا پتھروں کی بارش میں۔ سب سے بڑھ کر ہمیں محمدؐ وہ دیا کہ جس کے فیوض قیامت تک جاری رہیں گے۔ اور موجودہ گورنمنٹ پر احسان کیا کہ اس کی ایک سچے دل سے وفادار جماعت پیدا کر دی۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی لوگوں کے قلوب کی اصلاح کی کوشش کریں اور دنیا میں آپؑ کی تعلیم پھیلا دیں۔‘
نمازِ ظہر و عصر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے جمع کر کے پڑھائیں جس سے یہ اجلاس برخاست ہوا۔
اجلاسِ دوم
دوسرا اجلاس آنریری کپتان غلام محمد خان صاحب ساکن دوالمیال کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس کے آغاز میں حکیم احمد حسیب صاحب لائل پوری اور بابا فضل کریم صاحب نے نظمیں پڑھیں۔ اس کے بعد حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت پر عام فہم اور پر از دلائل تقریر فرمائی جو شام پانچ بجے تک جاری رہی۔
خلاصہ تقریر حضرت مولانا حافظ روشن علی صاحبؓ
آپؓ نے سورۂ ابراہیم کی آیات
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ… وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیمٌ
کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا:
’انسانوں کی عجیب حالت ہے کہ باوجود اس بات کے کہ وہ ہر پہلو میں نبیوں کے محتاج ہوتے ہیں لیکن پھر بھی لوگوں نے اللہ کے نبیوں کو کبھی آتے ہی قبول نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں بندوں پر افسوس فرمایا ہے کہ ان کے پاس کوئی بھی نبی نہیں آیا جس کی انہوں نے ہنسی نہ اڑائی ہو۔ قرآن کریم نے راست باز اور جھوٹے میں فرق کرنے کے اصل بتائے ہیں۔ اور تمام نزاع مذہبی کا فیصلہ کر کے بتا دیا گیا ہے کہ سچے کون ہوتے ہیں اور جھوٹے کون؟
حضرت مرزا غلام احمد صاحب ؑکے دعویٰ پر دو قسم کے خیالات ہیں۔بعض لوگ اس پر معترض ہیں اور بعض اس کی تائید میں ہیں۔ اس لیے ہم اس آیت کی روشنی میں آپؑ کے دعویٰ پر نظر کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آپؑ اور آپؑ کی تعلیم کلمۂ طیبہ اور شجرۂ طیبہ ہیں یا نہیں۔ آپؑ نے دنیا میں ظاہر ہوتے ہی دعویٰ کیا کہ قرآن کریم خدا کی کتاب اور کامل کتاب ہے اور محمد رسول اللہﷺ خد اکے نبی ہیں۔ براہین احمدیہ اسی فلسفہ میں لکھی اور ثابت کیا کہ قرآن وہ کتاب ہے جو اپنی تعلیمات پر چلنے والوں کے لیےبہترین نمونے پیش کر سکتی ہے۔
پھر آپ نے قرآن کریم کے علوم کھولے۔ مثلاً روح کا مسئلہ۔‘
مختلف دلائل اور اعتراضات کے جوابات دے کر آپ نے اپنی تقریر کے اختتام پرفرمایا:
’آپؑ نے اعلان کیا کہ
آؤ لوگو! کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے
لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے
کلمہ طیبہ کے مقابلہ میں کلمہ خبیثہ ہوتا ہے۔ اب دیکھ لو کہ مرزا صاحب نے جو کہا وہ دنیا میں قائم ہو رہا ہے یا وہ جو دشمنوں اور مخالفوں نے کہا۔ قادیان کے متعلق خدا نے فرمایا:
اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ
اور فرمایا کہ اس کی طرف بھی دور دور سے لوگ آئیں گے۔ کیا یہ سچ نہیں؟ کیا اس میں کچھ شک ہے؟ دیکھنے والے دیکھتےہیں اور ہر ایک شخص جو قادیان کی طرف آتا ہے وہ ایک نشان قائم کرتا ہے اور نشان کو دیکھتاہے۔لوگ اعتراض کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ مگر ان اعتراضات سے حق پوشیدہ نہیں ہو سکتا۔ اور یہ ہر نبی کے ساتھ ہوا ہے۔ فرمایا
کَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ۔
پس آپ پر بھی اعتراض ہوئے اور آپ کی عداوت میں ہر قسم کے لوگوں نے زور لگایا۔ مگر جس طرح خدا نے کہا۔ کلمۂ طیبہ شجرۂ طیبہ ہوتا ہے جو قائم رہتا ہے۔ آپ کی تعلیم اور آپؑ کا سلسلہ قائم ہے اور ہر قسم کی مخالفت اس کو ذرا جنبش نہیں دے سکتی۔‘
انگریزی تقریر
مسٹر محمد احمد ساگرچند صاحب کے زیرِ صدارت تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے آنحضرتﷺ کی مدنی زندگی پر بزبانِ انگریزی تقریر فرمائی۔
27؍دسمبر 1920ء (دوسرا روز)
اجلاسِ اول
پہلا اجلاس چودھری نصر اللہ خان صاحب وکیل سیالکوٹ کی صدارت میں شروع ہوا۔ جناب سید بشارت احمد صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ حیدر آباد دکن نے تلاوت کی جبکہ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم نے نظم پڑھی۔بعد ازاں شیخ عبدالرحمٰن صاحب نے’’اسلام اور دیگر مذاہب‘‘ کے عنوان سے تقریر کی۔
ان کے بعد جناب میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق نے ’’مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ کے عنوان سے تقریر کی۔ تقریر بے حد پسند کی گئی لیکن وقت کی کمی اور نماز کا وقت ہو جانے کے سبب پورا مضمون بیان نہ ہوسکا جس کا سامعین کو بہت افسوس رہا۔
میر صاحب نے اپنے لیکچر سے پہلے اپنی طبع زاد نظم ثناءاللہ کے متعلق پڑھی اور مضمون یوں شروع کیا:
’……مولوی ثناء اللہ ہر جلسہ اور ہر تقریب میں اس مضمون کو بیان کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ میری زندگی اور مرزا صاحب کی وفات ثبوت ہے اس امر کا کہ میں سچا اور آپ (نعوذ باللہ) جھوٹے تھے۔ لیکن میں اب آپ کو اس کی تاریخ سناتا ہوں اور مسئلہ کا حل بتاتا ہوں۔‘
میر صاحب نے اس دعویٰ کی تاریخ اور حقیقت بیان کر کے فرمایا: مولوی ثناء اللہ نے لکھ دیا کہ یہ طریق فیصلہ مجھ کو منظور نہیں نہ کوئی دانا اس کو قبول کر سکتا ہے اور لکھا کہ نشان تو وہ ہونا چاہیے جو میں بھی دیکھوں۔ اگر میں مر گیا تو یہ کیا نشان ہوا۔ اور یہ بھی لکھا کہ آپ میری موت کیوں چاہتے ہیں اور لکھا کہ دیکھو مسیلمہ زندہ رہا اور آنحضرت ﷺ فوت ہوگئے پھر اگر میں مر گیا تو میں جھوٹا کیسے ہوں گا۔ اور اہل حدیث میں شائع ہوا کہ بدکاروں کی لمبی عمریں ہوتی ہیں۔
ادھر حضرت مسیح موعودؑ اپنے اور ثناءاللہ میں ایسا فیصلہ چاہتے تھے جو حق و باطل میں تمیز کرے اور لوگوں پر حجت ہو۔ آپ نے اپنے رسالہ اعجاز حمدی میں لکھا کہ اگر ثناءاللہ نے اس اصول کو تسلیم کیا کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مرتا ہے تو وہ ضرور مجھ سے پہلے مریں گے۔ لیکن ثناء اللہ نے اس معیار کو تسلیم نہیں کیا۔ اس لیے اس کے مسلمات کی بنا پر ایسا فیصلہ ہوا جو اس پر حجت ہو۔ اور وہ زندہ رہ کر اس نشان کو دیکھے اور اس کے ہم خیالوں پر حجت ہو سکے۔ چنانچہ حضرت اقدسؑ فوت ہوئے اور ثناء اللہ زندہ رہا اور ثابت ہوگیا کہ کون مسیلمہ کذاب کا مثیل ہے اور کون آنحضرت ﷺ کا؟‘
میر صاحب مکرم یہیں تک بیان کرنے پائے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نمازِ ظہر و عصر کے لیے تشریف لے آئے جو حضورؓنے جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی پر یہ اجلاس اختتام کو پہنچا۔
اجلاسِ دوم
دن کے دوسرے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی تقریر ہوئی۔
تقریر سے قبل صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے تلاوتِ قرآن کریم کی۔ اس کے بعد حضورؓ نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ ’’پیشتر اس کے کہ میں اپنا مضمون شروع کروں۔ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب آپ کو ایک صاحب میری ایک نظم پڑھ کر سنائیں گے۔ اس نظم میں نوجوانانِ جماعت کو مخاطب کیا گیاہے اور ان کو چند نصائح کی گئی ہیں جو ابھی تک اس حد تک نہیں پہنچے کہ سلسلہ کے کاموں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ لیکن آئندہ ان سے توقع ہے کہ وہ سلسلہ کے کاموں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ لیکن آیندہ ان سے توقع ہے کہ وہ سلسلہ کے کام کریں گے نیز وہ لوگ بھی مخاطب ہیں جو اگرچہ نوجوانی سے گذر چکے ہیں۔ مگر سلسلہ میں ابھی داخل ہوئے ہیں اس لیےوہ بھی ہمارے نونہال ہی ہیں۔ پس میری نظم کے مخاطب وہ بچے ہیں جنھوں نے ابھی جماعت کے کاموں کا بوجھ نہیں اٹھایا۔ مگر آیندہ ان پر بوجھ پڑے گا اور وہ لوگ بھی جونئے نئے داخل ہوئے ہیں۔
اس نظم میں جو میں نے نصائح کی ہیں وہ سب ضروری ہیں اور وہ ہیں جو لکھتے وقت میرے دماغ میں تھیں۔ میرا جی چاہتا تھا کہ یہ نظم اچھی چھپے۔ اس کام کو میر قاسم علی صاحب نے اپنے ذمہ لیا اور بہت صرف سے نہایت اعلیٰ طور پر اس کو چھپوایا ہے جو غیروں میں بھی تقسیم ہو سکتی ہے اور گھر میں لٹکائی جا سکتی ہے۔ اس نظم پر میں نے نوٹ بھی لکھے ہیں جو حاشیہ پر چھپے ہوئے ہیں۔ چاہیئے کہ جماعت کے لوگ اس کو نظر کے سامنے رکھنے کے لیے فریموں میں لگائیں اور دیواروں پر لٹکائیں۔‘‘
اس مختصر تقریر کے بعد ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی نظم ’’لوح الہدیٰ‘‘ نوجوان سلسلہ کے نام پیغام پڑھ کر سنائی۔
نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے
پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو
ان اشعار نے ایسی رقت پیدا کر دی کہ اکثر اصحاب کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور بعض کی تو چیخیں نکل گئیں۔
ازاں بعد حضورؓ نے کھڑے ہو کر پونے پانچ گھنٹہ تک تقریر کی جو حقائق و معارف اور نصائح و حکم کا دریا تھی اور جس میں حضورؓ نے سورۃ الناس کی تفسیر بیان فرمائی جو آپ کو بتائید روح القدس ایک سجدہ میں جاتے ہوئے تعلیم ہوئی تھی۔
حضورؓ نے اس تقریر میں جماعت کے اخلاص اور عمومی حالت کا ذکر فرمایا اور اصلاحِ نفس اور ترکِ شر کے حوالے سے بد ظنی، جھوٹ، سخت کلامی و درشتی، نشہ اور حقہ نوشی وغیرہ امور سے احباب جماعت کو مجتنب رہنے کی تلقین فرمائی اور اعمالِ خیر کے حوالے سے نماز باجماعت پڑھنے، نماز کا ترجمہ سیکھنے، روزہ رکھنے، علم حاصل کرنے، خدا کی محبت دل میں پیدا کرنے اور زکوٰۃ و صدقات دینے کی طرف دل نشیں اور مؤثر انداز میں توجہ دلائی۔ حضورؓ نے سورۃ الناس کی تفسیر میں فرمایا کہ
’اس وقت چھ قسم کے فساد ہوں گے (۱) آقا کے خلاف لوگ سٹرائیک کریں گے۔ (۲) مالک ظالم ہوں گے۔ (۳) رعایا بادشاہ کے خلاف فساد کرے گی۔ وہ بادشاہ کے خلاف فساد کرے گی۔ (۴) اور بادشاہ ظلم سے نہیں رکیں گے۔ (۵) مولوی پنڈت پادریوں کے خلاف لوگ فساد کریں گے اور ان کی نہیں سنیں گے۔ (۶) مولوی پنڈت پادری مخلوق پر ناواجب سختی روا رکھیں گے۔
یہ چھ قسم کے فساد اس میں بتائے گئے ہیں۔ دو قسم کے فساد رَبِّ النَّاسِ کے ماتحت ہیں، دو مَلِکِ النَّاسِ کے اور دو اِلٰہِ النَّاسِ کے۔ اس وقت چھ باتیں ہو رہی ہیں۔ مومن کے لیے یہ ہے کہ وسواس خناس سے بچے۔ اس میں یہ بھی بتایا کہ ہر ایک شرارت و ظلم انتظام کے ماتحت ہو گا۔ چنانچہ ہر ایک سٹرائک ہر ایک فساد آرگنائزیشن کے ماتحت ہو رہا ہے۔ اور ہر ایک طبقہ کے لوگ اپنی اپنی انجمنیں بنا رہے ہیں۔‘
28؍دسمبر 1920ء (تیسرا روز)
اجلاسِ اول
دس بج کر 18 منٹ پر جلسہ کی کارروائی زیرِ صدارت جناب خان صاحب منشی فرزند علی صاحب ساکن فیروز پور شروع ہوئی۔اس اجلاس میں مختلف محاکم کی رپورٹیں اور اپیل وغیرہ ہونا تھی۔ ہر ایک رپورٹ کے لیے پہلے تھوڑا تھوڑا وقت مقرر تھا یعنی 25-25منٹ۔ لیکن ناظر صاحبان کے وقتِ مقررہ پر نہ پہنچنے کی وجہ سے جلسہ کی کارروائی دیر سے شروع ہوئی اور اس وجہ سے پریذیڈنٹ صاحب کو ان کے اوقات میں پانچ پانچ منٹ کی اَور بھی کمی کرنا پڑی اور جلسہ کی کارروائی دس بج کر 18 منٹ پر شروع ہوئی۔
کارروائی کی ابتدا میں تلاوت قرآن کریم کے بعد صدر جلسہ نے مختصر تقریر کی جس میں بتایا کہ ’رپورٹیں ایک ضروری چیز ہوتی ہیں مگر ایک خشک مضمون ہونے کی وجہ سے ہمیشہ غیر دلچسپی سے سنی جاتی ہیں۔ آج اجلاس دیر سے شروع ہوتا ہے۔ کل میں نے سنا ہے کہ پہلا اجلاس وقت مقررہ پر ختم نہ ہونے کی وجہ سے حضرت خلیفۃ المسیح ؓنے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ اس لیے یا تو یہ ہو کہ جن صاحب کا پہلے وقت ہے ان کا وقت ختم شدہ سمجھ کر دوسری رپورٹ سنائی جائے یا سب کو کم وقت دیا جائے، میرے نزدیک یہ صورت زیادہ مناسب ہے۔‘
اس کے بعد ناظر تعلیم و تربیت، ناظر امورِعامہ، ناظر تالیف و اشاعت، سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ اور ناظر صاحب بیت المال نے اپنے اپنے محکمہ کی رپورٹیں سنائیں۔ جناب سیکرٹری صاحب صدر انجمن نے اپنے وقت میں سے کچھ منٹ مکرم مسٹر محمداحمد ساگر چند بیریسٹر کو بولنے کے لیے دیے۔
اپیل بغرض چندہ
رپورٹوں کے بعد جناب ذوالفقار علی خان صاحب رام پوری نے نظم و نثر میں اپیل کی۔ خان صاحب کی نظم منشی سراج الدین صاحب تاجر چرم بریلی نے پڑھ کر سنائی۔ پھر اپیل پر چندہ ہوا۔ نظم کا مطلع یہ تھا کہ
اے قوم سست تیری رفتار کس طرح ہو
دارالاماں میں کوئی بیمار کس طرح ہو
آپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’تم مسیح کی جماعت ہو۔ تم صحابہ کے مثیل بنو۔دیکھو جن کے تم مثیل ہو انہوں نے اپنے خون سے اپنے ایمان کی شہادت دی تھی۔ پھر تم کس طرح اپنی جانوں اور مالوں سے خدا کی راہ میں دریغ کر سکتے ہو۔ جن سے تمہارا مقابلہ ہے ان کے پاس سامان ہیں۔ عیسائیوں کے مشن اور ہسپتال جا بجا قائم ہیں۔ امریکہ میں دو لیکچراروں نے دو منٹ میں 18 لاکھ روپیہ جمع کر لیا کہ اسلامی ممالک میں تبلیغ عیسائیت کی جائے۔ تم خدا کی آخری جماعت ہو اور اس وقت اسلام نرغہ میں ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم اسلام کو دنیا میں پھیلائیںگے۔ پس اٹھو۔ اور خدا کے رستہ میں جو کچھ لگا سکتے ہو لگا دو۔‘
اس کے بعد جناب حامد حسین صاحب میرٹھی نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ مبلغ امریکہ کا خط پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد نماز کے لیے جلسہ برخاست ہوا۔ نمازِ ظہر و عصر حضور نے جمع کر کے پڑھائیں۔
اجلاسِ دوم
نماز کے بعد جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ جب حضورِ اقدس تقریر کے لیے سٹیج پر تشریف لے آئے تو حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے تلاوت کی جس کے بعد چار نظمیں پڑھی گئیں۔
ماسٹر نعمت اللہ صاحب گوہر نے حضرت امام کے خیر مقدم میں اپنی نظم پڑھی جس کا مطلع یہ ہے کہ ؎
محمود میرزائے عالی مقام آیا
تاروں کی انجمن میں ماہِ تمام آیا
پھر حکیم احمد حسین صاحب لائلپوری نے اپنا کلام پیش کیا جس کا ایک مصرعہ یہ ہے کہ ؎
جری ابن جری کے ہاتھ میں عقدہ کشائی ہے
پھر بابا فضل کریم صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی تازہ نظم پڑھی جس کا پہلا شعر یہ ہے کہ ؎
ساغرِ حسن تو پُر ہے کوئی میخوار بھی ہو
ہے وہ بے پردہ کوئی طالبِ دیدار بھی ہو
اس کے بعد ایک مستزاد پیش کیا گیا۔ نظموں کے بعد اعلان کیا گیا کہ بیعت کرنے والے اصحاب اپنی پگڑیوں کا ایک ایک سرا حضرت خلیفۃ المسیح تک پہنچا دیں اور جو الفاظ کہے جائیں انہیں دہراتے جائیں۔ بیعت کے الفاظ اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل بلند آواز سے دہراتے گئے۔ بیعت کے بعد دعا کی گئی۔
حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر ’ملائکۃ اللہ‘
اور پھر حضرت اقدسؓ کی تقریر ملائکہ پر اس شان سے ہوئی جو کہہ سکتے ہیں کہ بے نظیر تھی گو یہ سلسلہ تقریر پونے آٹھ بجے دعا پر ختم ہوا مگر چونکہ ابھی مضمون کا بہت سا حصہ باقی تھا اس لیے دوسرے دن تقریر کا اعلان ہوا۔
حضورؓ نے اپنی تقریر میں ملائکۃ اللہ کے دقیق و لطیف مضمون پر ایسی صاف و شفاف اور ایسی بصیرت افروز وتسکین بخش روشنی ڈالی کہ دل عش عش اور روح وجد کرنے لگی۔ حضورؓ نے ملائکہ کی حقیقت و ضرورت اور ان کے فرائض وخدمات بیان فرمائے۔ ان کے وجود پر ہوسکنے والے شبہات و اعتراضات کے کافی وشافی جوابات دیئے۔ اور آخر میں ان سے تعلق پیدا کرنے اور فیض حاصل کرنے کے دس ذرائع بتائے۔ قارئین کرام درج ذیل لنک کے ذریعے اس معرکہ آرا خطاب کا مطالعہ کر کے اس سے فیضیاب ہو سکتے ہیں:
www.alislam.org/urdu/pdf/Malaikatullah.pdf
اس اجلاس کا اختتام نمازِ مغرب و عشاء کی ادائیگی پر ہوا جو حضورؓ نے پڑھائیں۔
29؍دسمبر1920ء( چوتھا روز)
اجلاسِ اول
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی آمد سے قبل نظمیں وغیرہ ہوتی رہیں۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی نظم
نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلیٰ نکلا
ایک لڑے نظام الدین نام نے نہایت خوش الحانی سے پڑھی۔ اس اجلاس کی کارروائی دس بجکر 40 منٹ پر شروع ہوئی۔ حافظ روشن علی صاحبؓ نے تلاوت اور جناب ماسٹر عبدالرحمٰن صاحب خاکی نے مولانا عبد الماجد صاحب بھاگل پوری کی فارسی نظم سنائی جس کا مطلع تھاکہ
اے اولو العزم چہ اعجاز نمایاں کردی
آنچہ مشکل بشماں بود تو آساں کردی
ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلمؔ نے اپنی ایک نظم سنائی۔
حضورؓنے اپنی بقیہ تقریر گیارہ بجے شروع کی جو ایک بجکر 20 منٹ پر ختم ہوئی۔
اس کے بعد دعا ہوئی اور اعلان کیا گیا جو احباب آج جانے والے ہوں وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓسے مصافحہ کر لیں۔ چنانچہ احباب نے مصافحے کیے۔ اور پھر نمازظہر و عصر حضور ؓنے جمع کر کے پڑھائیں۔
اجلاسِ دوم
حضور اقدس کے تشریف لے جانے پر بقیہ جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ نماز کے بعد بہت سے لوگ واپس تشریف لے گئے اور جلسہ گاہ کا بہت سا حصہ خالی ہو گیا۔ صرف تھوڑی سی جگہ میں آدمی بیٹھے تھے۔
پروگرام میں تو دوسرا اجلاس نہ تھا۔ مگر چونکہ آج کے پہلے اجلاس میں حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی ؓکی تقریر مبائعین اور غیر مبائعین کے اختلاف کے متعلق ہونا تھی اور یہ وقت حضرت خلیفۃ المسیح ؓ کی پرمعارف تقریر میں صرف ہو گیا۔ اس لیے دوسرا اجلاس کرنا پڑا۔ مگر لوگوں کو جانے کی جلدی تھی اس لیے بہت دیر سے کارروائی شروع ہوئی۔
اس اجلاس کے صدر جناب سید عابد حسین صاحب بی اے تھے۔ پہلے تو کئی نظمیں پڑھی گئیں اور مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ؓ نے اپنا بقیہ مضمون ’مبائعین اور غیر مبائعین میں اختلافات‘ کے متعلق نہایت خوبی سے سنایا۔ یہ تقریر سوا پانچ بجے ختم ہوئی۔ تقریر کے بعد جلسہ دعا پر ختم ہوا۔
جلسہ مستورات
مستورات کا جلسہ مسجد اقصیٰ میں ہوتا رہا جس میں تقریریں ہوئیں۔ 29؍ دسمبر1920ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی تقریر مستورات میں ہوئی۔
دیگر کوائف جلسہ1920ء
امسال سٹیج کو بھی سنین ما سبق کی نسبت کسی قدر وسیع کیا گیا تھا اور چاروں طرف جنگلا لگایا گیا تھا اور پنڈال بھی پہلے سالوں کی نسبت بڑھایا گیا تھا۔ مگر حضرت اقدسؓ کی تقریر کے وقت تمام پنڈال کھچا کھچ پُر تھا۔ لوگوں کے لیے جب اندر جگہ نہ رہی تو بہت سے کھڑے رہنے پر مجبور ہوئے اور بہت سے لڑکے مسجد نور کے مقابل کے برگد کے درخت پر چڑھ گئے۔ لوگوں کو گنجان ہونے کے لیے کہا گیا۔ جس سے کسی قدر لوگ اور اندر آسکے مگر پھر بھی تمام لوگوں کے لیے اندر جگہ نہ نکل سکی۔
علاوہ ازیں امسال سوائے مسجد اقصیٰ میں مستورات کے لیے علیحدہ وعظ کا انتظام ہونے کے مردانہ پنڈال میں بھی برعایت پردہ ایک مختصر حصہ قناتیں لگا کر عورتوں کے لیے مخصوص کیا گیا تھا جس میں قلیل تعداد میں مستورات کو باقاعدہ ٹکٹ لے کر شامل ہونے کی اجازت تھی۔
گذشتہ جلسوں میں حضرت خلیفۃ المسیح کی تقریر کے مختص وقت کا بہت سا حصہ نکاحوں کے اعلان میں صرف ہوجاتا اور اس کا اثر حضور ؓکی تقریر پر پڑتا۔ اس لیے اس دفعہ جلسہ گاہ میں نکاحوں کا اعلان نہیں کیا گیا بلکہ دوسرے اوقات میں نکاح ہوتے رہے۔
تعداد شاملین
مہمانوں کی تعداد سال ہائے گذشتہ کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ اس دفعہ جلسہ گاہ میں گذشتہ سال کی نسبت ایک ہزار زیادہ آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ بڑھائی گئی تھی لیکن وہ بھی ناکافی ثابت ہوئی اور باوجود گنجان بیٹھنے کے پھر بھی بہت سے لوگوں کو جگہ نہ مل سکی۔
مہمانوں کے شمار کرنے کا صیغہ امورِ عامہ نے اب کے خاص انتظام کیا تھا اور اشتہار و زبانی اعلانات کے ذریعہ بتا دیا گیا تھا کہ نو بجے کے بعد مہمان اپنے اپنے کمروں میں جمع رہیں۔ اس وقت شمار کرنے والے آئیںگے۔ لیکن معلوم ہوا کہ پورے طور پر مردم شماری نہیں ہو سکی۔ مہمانوں کا ایک خاص حصہ میں جو مختلف گھروں میں ٹھہرا ہواتھا وہ شمار نہ ہوسکا۔ مستورات کو بھی نہ گنا جاسکا۔ اور مہمان اپنی ضروریات کے باعث کمروں میں بھی سارے کے سارے نہ ٹھہر سکے۔ کیونکہ سارا دن جلسوں میں مصروف رہنے کی وجہ سےرات کا وقت انہیں دوسری ضروریات کے لیے ملا۔ ان وجوہات کو مد نظر رکھ کر مہمانوں کی وہ تعداد جو معلوم ہو سکی پوری نہیں کہی جا سکتی۔ یہ تعداد سات ہزار کے قریب بتائی گئی ہے۔
جلسہ کا انتظام خدا کے فضل و کرم سے بہت اچھا رہا۔ سوائے ان شکایات کے جن کا پیدا ہوجانا اتنے بڑے ہجوم میں ناگزیر ہے کوئی ایسی شکایت پیدا نہ ہوئی جسے منتظمین کی کوتاہی کہا جا سکے۔
اکثر مہمان 31؍ دسمبر کو روانہ ہوگئے۔ اگلے جمعہ اس خیال سے کہ بہت زیادہ مہمان چلے گئے ہیں، نماز جمعہ مسجد اقصیٰ میں ہوئی۔ لیکن مسجد ناکافی ثابت ہوئی۔ مسجد کی چھت اور آس پاس کی دکانوں پر لوگوں نے نماز پڑھی۔
٭…الفضل 6؍جنوری 1921ءمیں مدینۃ المسیح کے کالم میں قادیان کی رونق کے بارہ میں درج ہے کہ
’’اب کے سالانہ جلسہ پر احباب جلسہ کی تاریخوں سے قبل ہی آنا شروع ہو گئے۔ اور جلسہ کے بعد بھی کئی ٹھہرے رہے۔ اس طرح قریباً دو ہفتے خاصی چہل پہل رہی۔‘‘
(نوٹ:جلسہ سالانہ کی مندرجہ بالا کارروائی روزنامہ الفضل قادیان میں شائع شدہ رپورٹ جلسہ سالانہ سے اخذ کی گئی ہے)
٭…٭…٭