مستورات سے خطاب (1942ء) (قسط دوم۔ آخری)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
ان کے علاوہ کچھ اَور بدیاں ہیں جن کا نیکیوں سے مقابلہ کیاجائے گا، وزن کیاجائے گا، سُستی سے نماز پڑھنا، چُغلی، غیبت وغیر ہ یہ ایسی بدیاں ہیں جن کا مقابلہ کیاجائے گا۔ کسی نیکی کے زیادہ ہوجانے سے انسان جنت میںجاسکتاہے لیکن اگر رسول کا انکار کرے تو پھر جنت میں نہیں جا سکتا۔ خداتعالیٰ رحیم ہے اگروہ چاہے تو سب گناہگاروں کو معاف کردے باقی قانون یہی ہے۔ تو ایک گناہ وہ ہیںجن کا پلڑا بھاری رہے گا دوسرے وہ جن کا نیکیوں سے مقابلہ کیاجائے گا اگر نیکیوں کی روح بڑھی ہوئی ہوتو خداتعالیٰ جنت میں لے جائے گا اگربدیوں کی روح بڑھی ہوئی ہو تو خداتعالیٰ جہنّم میں لے جائے گا۔باجماعت نماز مردوں کے لئے فرض ہے اگر مرد نہیں پڑھے گا تو اُس کا گناہ لکھاجائے گا اور اُس کا نمبر کٹ جائے گا لیکن اگرتم جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتیںتو گناہ نہیں ہوگا لیکن باجماعت نماز پڑھوگی تو ثواب ہوگا۔ اگرتم کہو کہ باجماعت نماز پڑھنے کو دل توبہت چاہتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں کوئی جماعت نہیں اِس لئے ہم باجماعت نماز نہیں پڑھ سکتیں تواِس کا جواب یہ ہے کہ جو کام جماعت کے ساتھ ہوتے ہیںاگرتم اُن کی نیت کرلوگی تو تمہیں اُتنا ہی ثواب ملے گا کیونکہ تمہارا دل تو چاہتا ہوگا تمہاری خطا تو نہ ہوگی سامانوں کی خطا ہوگی۔ خدا کہے گا کہ اِس کی نیت نیک تھی قصور مال میسر نہ ہونے کا ہے۔
خداتعالیٰ فرماتاہے کہ میرا بندہ کسی بندے کے ساتھ جیسا سلوک کرتاہے گویا وہ میرے ساتھ کرتا ہے، اگر اُس نے میرے بندوں کو روٹی کھلائی تو گویااُس نے مجھے کھلائی، اگر اُس کے لئے مکان بنایا ہے تو خدا کہے گا اُس نے میرے لئے مکان بنایا ہے اِس لئے اس کا ا س سے بہتر مکان جنت میں بنائو۔(مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض) اسی طرح اولاد کی تربیت ہے یہ اجتماعی کام ہے۔ تمہیں بڑا شوق ہے کہ تمہارا بچّہ سچ بولے۔ تم رات دن اسے کہتی ہو کہ بچہ سچ بول بچہ سچ بول لیکن تم اکیلے اُسے کِس طرح سِکھا سکتی ہو تمہارا بچہ باہر کھیلنے جاتا ہے تو دوسرے کو کہتاہے کہ بھائی! ابّا کو نہ بتانا کہ میں سکول نہیں گیا۔ تم گھر میں کہتی ہو کہ بچّہ سچ بول تو اِس کشمکش کے بعد کبھی تو تمہاری تعلیم اثر کرتی ہے، کبھی بھائی کی۔ اگر اُس بھائی کی ماں اُسے کہنے والی ہوتی کہ تو سچ بولاکر تووہ فوراً تمہارے بچّہ کو کہہ دیتا کہ میں جھوٹ نہیں بول سکتا میری ماں نے منع کیا ہوا ہے تو تربیتِ اولاد کبھی اجتماع کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ عورتوں کو چاہئے کہ وہ مل کر بیٹھیںاور سوچیں کہ ہمارے بچوں میں کیا کیا خرابیاں ہیں، عورتیں تدابیر کریں اور عہد کریں کہ وہ اِن کمزوریوں کو دور کریں گی اِس میںتعاون کی ضرورت ہے۔ اگر ساری عورتیں اپنے بچوں کو سچ بولنے کی ترغیب دیں گی تو کوئی بچّہ جھوٹ بولنے والا نہیں ہوگا۔ اگر پندرہ بچے کھیلنے والے ہوں گے اور ان میں سے ایک جھوٹ بولنے والا ہوگا تو پندرہ دوسرے کہیں گے کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولنا ہماری اماں نے منع کیا ہوا ہے توتمہارا بچّہ بھی سچ بولنے لگ جائے گاغرض یہ اجتماعی نیکیاں ہیں جو مل کرکرنے کے بغیر نہیں ہوسکتیں۔
اِسی طرح بہادری ہے اگر ہمارے بچے کمزور ہوں گے تو انہوں نے اپنی کیا اصلاح کرنی ہے اور جماعت کی کیا کرنی ہے، انہوں نے ملک کی کیا خدمت کرنی ہے اور قوم کی کیا کرنی ہے۔ بہادر آدمی کولوگ گیند کی طرح اُچھال اُچھال کر پھینکتے ہیں لیکن وہ اپنے کاموں سے باز نہیں آتا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے سناکہ مکہ میں ایک شخص نے دعوئ نبوت کیا ہے انہوں نے اپنے بھائی کو تحقیقات کے لئے بھیجا لیکن اُس نے واپس جاکر کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا پھر وہ خود مکہ گئے لوگوں سے دریافت کیا۔کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچنے دیا یہی کہا کہ ایک شخص ہے جو اپنی سحر بیانی سے بھائی کو بھائی سے، بیوی کو خاوند سے جُداکرتا چلا جاتاہے لیکن یہ چپ چاپ گلیوں میں چکر لگایا کرتے۔ حضرت علیؓ نے انہیں ایک دن دیکھا، دوسرے دن دیکھا، تیسرے دن دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے آپ چکر لگایا کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا شاید تم بھی مجھے ٹھیک ٹھیک نہ بتلا سکو میں ایک کام کے لئے آیا ہوں حالانکہ حضرت علیؓ تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں سے تھے۔ حضرت علیؓ نے پوچھا اور اصرار کیا تو اُنہوں نے بتلادیا وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے وہ مسلمان ہوگئے۔ دشمنِ اسلام بڑے دھڑلّے سے خانہ کعبہ میں گالیاں دیاکرتے تھے وہ ایک دن گالیاں دے رہے تھے تو یہ وہاں گئے اِنہوں نے کہا تم گالیاں دے رہے ہو سنو!
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔
کفارنے پکڑ کر خوب پیٹا۔ پیٹنے کے بعد پھر پوچھا تو چونکہ دل بہادر تھا پھر کہا
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔
تو یہ اُن کی جرأت اور بہادری تھی۔ اِتنے میں حضرت عباسؓ آپہنچے یہ اُس وقت مسلمان تھے اُن سے کسی نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بڑے ہیں؟ حضرت عباسؓ نے جواب دیا کہ درجے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں پیدا پہلے مَیں ہوا تھا۔ تو جب یہ وہاں آئے تب حضرت ابوذرؓ کو اُن کے ہاتھوں سے چھڑایا۔(بخاری کتاب المناقب باب قِصَّۃ اسلام ابی ذَرٍّ الغفاری رضی اللّٰہ عنہ) تو جب دل میں ایمان پیداہوجاتا ہے تو جو شخص بہادر ہوتاہے وہ ہر جگہ اُٹھ کھڑا ہوتاہے۔ دین کے لئے بہادری کی ضرورت ہے اور دُنیوی کاموں کے لئے بھی بہادری کی ضرورت ہےبزدلی ہر صورت میں بری ہے اور بہادری ہر لحاظ سے اچھی ہے۔ اگر جاپانی گھس آئیں توکیا تمہارا دل یہ چاہتاہے کہ تمہار ابیٹا کھیت میں گھس جائے اور وہ گھروں کو لوٹ لے جائیں؟ یا تمہارا دل یہ چاہتاہے کہ تمہارا بیٹا دروازے میں کھڑاہوکر بہادری سے مقابلہ کرے اور لوگ کہیں واہ بھئی نوجوان مر تو گیا لیکن اپنی عورتوں کی جان بچا لی یا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے کہ اس وقت تمہارا بیٹا گھر میںگھس جائے اور دشمن عورتوں کی چوٹیاں پکڑ کر گھسیٹتے پھریں؟ تم کو تو وہی بچہ اچھالگے گا جو گھر کی حفاظت میں اپنی جان تک دے دے گا۔ ایک کاڈر دوسرے کو بھی ڈرا دیتاہے۔ ڈر ایسی چیز ہے جو ایک سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اگر تم نے اپنے بچے کے دل میں ڈر پیدا کیاہے تو وہ بہادری کس طرح دکھائے گا اور اگر تم صرف اُس کو بہادری کی تعلیم دیتی ہو اور وہ دوسرے بچوں کو ڈرتے دیکھتا ہو تو خود بھی ڈرنے لگتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ حنین میں گئے۔ غزوئہ حنین میں نئے نئے مسلمان شامل تھے ذرا تیر پڑے تو وہ بھاگے۔ جب وہ بھا گےتو سارا لشکرِ اسلام بھی بھاگ پڑا یہاں تک کہ صرف بارہ آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س رہ گئے۔ دوسری طرف چار ہزار آدمی تیر برسانے والے تھے۔ وہ اپنی ذات میں ڈرپوک نہیں تھے، بزدل نہیں تھے بلکہ بزدلوں کو دیکھ کر بزدل بن گئے تھے کوئی عورت اپنے بچے کا دل مضبوط نہیں کرسکتی جب تک کہ سارے گائوں کی عورتیں اپنے بچوں کے دل مضبوط نہ کریں۔
اِسی طرح تعلیم کو دیکھ لو امیر سے امیر آدمی بھی اکیلا سکول کو نہیں چلا سکتا لیکن مل کر غریب سے غریب آدمی بھی شاندار کالج تیار کرسکتے ہیں۔ یہاں سکول کا 26،25ہزار خرچ ہے یہ کوئی اکیلا امیر آدمی خرچ نہیں کررہا بلکہ تم میں سے ہی وہ مرد ہیں جن کی چار روپے آمد ہے اور وہ پیسہ پیسہ دے رہے ہیں۔ اکٹھے کاموں کے لئے ضرورت ہوا کرتی ہے جماعت کی، اس کے لئے یہ قانون ہم نے بنایا ہے کہ جہاں کہیں بھی احمدی عورتیں ہیں وہاں لجنہ اماء اللہ بنالیں۔ لجنہ اماء اللہ کے معنے ہیں ’’اللہ کی نیک بندیوں کی انجمن۔‘‘ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہر جگہ انجمنیں قائم نہیں ہوئیں۔ جہاں لجنہ قائم ہووہاں کی ہر عورت ممبر ہوگی اور ہر عورت یہ اقرار کرے کہ خدا کے دین کو پھیلانے کے لئے میں مر جائوں گی، سردے دوں گی لیکن پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ ہفتہ میں ایک یا دو دن وقف کردے۔ بجائے اِس کے ہمسایہ کی غیبت کرو دین کی باتیں کرو۔ آپس میں نیک مشورے کرو۔
میں نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ تم اپنے قومی کام کیسے کرسکتی ہو جب تمہارے پاس ہتھیار نہیں لجنہ اماء اللہ تمہارے لئے ہتھیار ہے اجتماعی کام تم کس طرح کرسکتی ہو جب تک تم مل کر کام نہیں کرتیں۔ کوشش تویہ کرنی چاہئے کہ پانچوں نمازوں میں سے ایک نماز باجماعت اداکرو۔ اگرتم باجماعت نماز پڑھو گی تو بہت ممکن ہے کہ تمہارا یہی ثواب تمہیں جنت میں لے جانے کا موجب ہوجائے۔ اسی طرح تم اقرار کرو کہ ہم اپنے بچوں کو کہیں گی کہ تم دلیر بنو، انہیں سچ بولنا سکھائیں گی، نماز سکھائیں گی یا اِسی طرح مثلاً یہ نیکیاں کہ اُن کے متعلق فیصلہ کرو۔ تعلیم کے لئے کوئی اُستاد رکھو کہ وہ دین سکھائے یہ سارے کام ایسے ہیں جو تم مل کر کر سکتی ہو۔ اسی طرح قرآنِ کریم کا ترجمہ ہے اکٹھی ہوئیں ایک رکوع باترجمہ سنا دیا عورتوں کے فائدے کیلئے اخبار مصباح جاری ہے چندہ اکٹھا کرکے منگوائو اور جلسوں میں پڑھ کر سنا دیاکرو اِسی طرح چندہ اکٹھا کرکے کبھی بخاریؔ منگوا لی یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی کتاب منگوالی تاتمہاری تبلیغ وسیع ہوجائے، تمہاری تعلیم وسیع ہوجائے اور اچھی اچھی باتیں دوسروں کوسنانے کا موقع مل جائے۔ اِسی طرح اخبار الفضل ؔ منگوا لیا تا قادیان کے حالات تمہیں معلوم ہوتے رہیں۔ خداتعالیٰ نے تمہیں جماعت دی ہے جماعت سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے پس اگلے سال تک کوئی جماعت ایسی نہ رہ جائے جہاں لجنہ کاقیام نہ ہو۔ لجنہ کے لئے کام یہ ہے۔
اوّل:- تھوڑا تھوڑا ہرایک اپنی توفیق کے مطابق چندہ دے اور چندہ جمع کرکے مصباح منگوائیں۔
دوم:- کم از کم نماز باجماعت اداکریں۔ اس کے بعد دوچار آیتوں کا ترجمہ سنادیا۔
سوم:- لجنہ رجسٹر ڈ کرالو اور مرکز سے قواعد منگوالو۔
اِس سال خصوصیت کے ساتھ یہ عملی تجاویز پیش کرتاہوں۔
(الازھار لذوات الخمار صفحہ 354 تا 361)
٭…٭…٭