متفرق مضامین

تزکیہ نفس کے لیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا پاکیزہ نمونہ اور نصائح

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے افراد خوش قسمت ہیں کہ ان کی زند گی میں ایک بار پھر 20؍فروری کا دن آرہا ہے۔یہ عظیم الشان اور تاریخی اور بابرکت دن ہے جب کہ زمانے کےامام حضر ت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر ایک مزکی نفس کے آنے کی پیشگوئی شائع کی اور جس کے بارے میں کہاگیا کہ

’’وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریو ں سے صاف کرے گا۔‘‘

آپ کا 52سالہ دَور خلافت اس با ت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پیشگوئی مصلح موعود کا ایک ایک لفظ آپ کی ذات میں پورا ہو ا۔اللہ تعالیٰ نے سورةالجمعہ کی آیت نمبر 3میں فرمایا:

یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَةَ

کہ وہ ان پر اس کی آیا ت کی تلاوت کر تا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے۔اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتاہے۔

یہ آنحضر تﷺ کی شا ن میں بیان کیاگیا ہے کہ آپﷺاپنے اوپر ایمان لانے والوں پر تلاوت آیا ت کے ساتھ ہی ان کا تزکیہ فرماتے تھے۔اور سورة البقرة میں جہاں حضرت ابراہیم ؑکی دعا کا ذکر ہے جو آنحضر تﷺ کی بعثت سے تعلق رکھتی ہے، آپ ؑ نے ایسے رسول کی بعثت کی دعا مانگی ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات ان کو پڑھ کر سنائے پھر ان کو علم وحکمت سے آگاہ کرے اور اس کے نتیجہ میں ان کا تزکیہ کرے۔

(ماخوذ از ترجمة القرآن حضر ت خلیفة المسیح الرابعؒ۔ تشریحی نوٹ زیر آیت ہذا۔صفحہ 1029)

سورة الجمعہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ اس کی ابتدائی آیا ت میں ا س زمانے میں آنے والے موعود اور مہدی آخر الزماں کا ذکر ہے جس کے ذمہ بھی آنحضر تﷺ کی متابعت میں وہی کام ہیں جو آپ کےپیشوا اور مطاع کےہیں۔اور پھر خلفاء مسیح موعو د علیہ السلام نے بھی اس مشن کو پورا کر نا ہے۔

چنانچہ جب ہم اس رنگ میں حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں توہمیں آپ کی ہر بات،ہر کام، ہر فعل ہر نصیحت میں قرآنی علوم اور ان کی حکمت اور احباب جماعت کا تزکیہ نفس کر نے کی جد وجہد نظر آتی ہے۔خاکسار اس وقت چند واقعات جو مختلف کتب اور رسائل اور آپ کی تقاریر سے لیے گئے ہیں پیش کرتا ہےجن میں یہ بات روز روشن کی طر ح واضح ہے کہ آپ کس طرح جماعت کو مزکی بنا نے کی فکر میں رہتے تھے۔

مزکی بنا نے کا مطلب ہے کہ ان کا خد اتعالیٰ سے تعلق قائم کرنے اور انہیں با خدا بنانے، انہیں آنحضر تﷺ کے اسوہ پر چلنے اور اسلام و احمدیت کے لیے مفید وجو د بنا نے کی فکر میں رہتے تھے۔اور یہ کام وہی شخص کر سکتا ہے جو خدا کا تائید یافتہ ہواور اس کا اپنا نفس بھی مزکی ہو اور وہ خود بھی باخدا ہو اور آنحضر تﷺ کی کامل اطا عت اور پیروی کرنے والا ہو۔

عبادت میں انہماک

حضر ت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیا ن کر تے ہیں کہ

’’حضر ت اولوالعزم مرزا بشیر الد ین محمود احمد کو ان کے بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح ہمیشہ ان کی عا دت حیا اور شرافت اور صداقت اوردین کی طر ف متوجہ ہونے کی تھی۔اورحضرت مسیح موعو د ؑکے دینی کا موں میں بچپن سے ہی ان کو شوق تھا۔نمازوں میں اکثر حضر ت مسیح موعو د ؑکے سا تھ جامع مسجد میں جاتے اور خطبہ سنتے۔ایک دفعہ مجھے یا د ہے جب آپ کی عمر دس سال کے قر یب ہو گی، آپ مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعو د ؑکے ساتھ نما ز میں کھڑ ے تھے۔اور پھر سجدہ میں بہت رو رہے تھے‘‘

(روزنامہ الفضل 20؍جنوری 1928ء ماخوذ از ماہ نامہ خالد جون جولائی 2008ء صفحہ 37)

حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظؓ جو ایک نومسلم تھے اور حضر ت مسیح موعو دؑ کے ہاتھ پر اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اخلا ص اور ایمان میں ایسی ترقی کی کہ نہا یت عا بد اور زاہد اور صاحب کشف والہام بز رگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے آپ فرمایا کر تے تھے:

’’ایک دفعہ میں نےیہ ارادہ کیا کہ آج کی رات مسجد مبارک میں گز اروں گا اور تنہائی میں اپنے مو لا سے جو چاہوں گا مانگوں گا۔ مگر جب میں مسجد میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ کو ئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحا ح سے دعا کر رہا ہے۔اس کے اس الحا ح کی وجہ سے میں نماز بھی نہ پڑھ سکا اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ پر بھی طا ری ہو گیا۔اور میں بھی دعا میں محو ہو گیا اور میں نے دعا کی کہ یا الٰہی !یہ شخص تیر ے حضو ر سے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے وہ اس کو دے دے اور میں کھڑ ا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کر وں کہ کو ن ہے ؟میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہو ئے تھے۔ مگر جب آپ نے سراٹھا یا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ حضر ت میاں محمود احمد صاحب ہیں۔میں نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا اور پو چھا میاں !آج اللہ تعا لیٰ سے کیا کچھ لے لیا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں نےتو یہی ما نگا ہے کہ الٰہی ! مجھے میر ی آنکھو ں سے اسلام کو زند ہ کرکے دکھا اور یہ کہہ کر آپ اند ر تشریف لے گئے ۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 15)

ایک نماز کے رہ جانے کا خیا ل اور کیفیت

آپؓ اپنا ایک واقعہ بیا ن کرتے ہوئے فرما تے ہیں کہ

’’مجھے یا د ہے چند سال ہو ئے میں ایک دفعہ دفتر سے اٹھا تو مغر ب کے قر یب جب کہ سو ر ج زرد ہو چلا تھا مجھے یہ وہم ہو گیا کہ آج مجھے کام میں مصر و ف ہو نے کی وجہ سے عصر کی نماز پڑھنی یا د نہیں رہی۔جب یہ خیا ل میرے دل میں آیاتو یک دم میرا سر چکر ایا اور قر یب تھا کہ اس شد ت غم کی وجہ سے میں اس وقت گر کر مر جا تا کہ معاً اللہ تعا لیٰ کے فضل سے مجھے یا د آگیا کہ کسی شخص نے مجھے نما ز کے وقت آکر آوازد ی تھی۔اس وقت میں نماز پڑ ھ رہا تھا۔ پس میں نماز پڑھ چکا ہو ں۔ لیکن اگر مجھے یہ با ت یا د نہ آتی تو اس وقت مجھ پر اس غم کی وجہ سے جو کیفیت ایک سیکنڈ میں طا ری ہوگئی تھی وہ ایسی تھی کہ میں سمجھتا تھا اب اس صد مہ کی وجہ سے میری جا ن نکل جا ئے گی۔ میر ا سر یکدم چکر ا گیا اور قر یب تھا کہ میں زمین پر گر کر ہلاک ہو جا تا۔‘‘

(ماخوذ از سوانح فضل عمر جلد5صفحہ 61)

اوپر جو تین واقعا ت آ پؓ کی زند گی کےبیا ن کیے گئے ہیں ان میں آپ کے خو د مزکی ہو نے، خد ا تعالیٰ سے محبت اور عبادات اور دعاؤں میں شغف کی ایک جھلک نظر آتی ہے۔اور یہی جذبہ ٔعباد ت اور تعلق با للہ آپ جما عت کے ہر فرد میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔آپؓ کی تفسیر قرآنی اور کتب اور تقاریر اس بات پر شاہدنا طق ہیں۔چنا نچہ نماز با جماعت کی اہمیت بیا ن کرتے ہوئے آپ سو رۃالبقر ةکی آیت نمبر4کی تفسیراورمعانی اس طرح بیا ن فر ما تے ہیں :

الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ

یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ:

یہ متقین کی ایک صفت یہاں بیان ہوئی ہے۔

فرمایا :

اقامة الصلوٰة کے معانی (1) با قا عد گی سے نما ز ادا کرنے کے ہیں۔نماز میں نا غہ نہیں کرتے۔

ایسی نماز جس میں نا غہ کیا جا ئے اسلام کے نزدیک نماز ہی نہیں …جو لو گ درمیان میں نماز چھوڑتے ہیں ان کی سب نمازیں ہی رد ہو جا تی ہیں۔پس ہر مسلمان کا فر ض ہے کہ جب وہ با لغ ہو یا جب اسے اللہ تعالیٰ تو فیق دے اس وقت سے موت تک نما ز کا ناغہ نہ کر ے۔

(2) دوسر ے معنی یہ ہیں کہ متقی نماز کو اس کی ظاہری شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس کے لیے جو قواعد مقررکیے گئے ہیں ان کو تو ڑتے نہیں۔مثلاً تندرستی میں یا پانی کی موجودگی میں وضو کر کے نماز پڑھتے ہیں۔اور وضو بھی ٹھیک طرح ان شرائط کے مطا بق کر تے ہیں جو اس کے لیے شریعت نے مقر ر کی ہیں۔

(3) تیسر ے معانی یہ ہیں کہ وہ نماز کو گر نے نہیں دیتے ہمیشہ اس کو شش میں رہتے ہیں کہ ان کی نماز درست اور باشرائط ادا ہو (یعنی جب ادھرادھر کے خیا لا ت نماز میں آتے ہیں یا انہیں کو ئی چیز نماز میں مخل کر تی ہے ان مشکلات سے وہ گھبراتے نہیں بلکہ اسے سنو ار کر ادا کر نے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔)

(4)متقی دوسرے لوگوںکونماز کی ترغیب دیتے ہیں۔ پس

یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوة

کا عا مل متقی وہ ہی کہلا ئیں گے کہ جو خود نماز پڑ ھنے کے علاوہ دوسر ے لوگوں کو بھی نماز کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔

(5) وہ نما ز با جماعت ادا کر تے ہیں اور دوسروں سے اد ا کر واتے ہیں۔

ان معانی کو بیا ن کر نے کے بعد آپؓ اصلاح نفس اور مسلمانوں کو عبادت کی طر ف (نما ز با جما عت )ادا کر نے کی طرف تو جہ دلا تے ہیں ۔ فرمایا:

نماز با جما عت کی ضر ور ت کو عام طور پر مسلمان بھول گئے ہیں اور یہ ایک بڑا مو جب مسلمانو ں کے تفر قہ اور اختلاف کاہے۔اللہ تعالیٰ نے اس عبادت میں بہت سی شخصی اور قومی برکتیں رکھی تھیں مگر افسوس کہ مسلمانوں نے انہیں بھلا دیا۔ قرآن کریم نے جہاں بھی نماز کا حکم دیا نماز باجماعت کا حکم دیا۔ خالی نماز پڑھنے کا کہیں بھی حکم نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت اہم اصول دین میں سے ہے۔ قرآن کریم کے نزدیک نماز صرف تبھی ادا ہوتی ہے کہ باجماعت ادا کی جائے۔

(6) ایک معانی یقیمون الصلوة کے آپ نے یہ بیان فرمائے کہ نماز چستی اور ہوشیاری سے ادا کی جائے۔

والدین کو بچوں کے لیے نصیحت

آپؓ نے نماز باجماعت کی اہمیت کے پیشِ نظر والدین کو یہ نصیحت فرمائی کہ

’’بڑا آدمی اگر خود نماز باجماعت نہیں پڑھتا تو وہ منافق ہے۔ مگر وہ لوگ جو اپنے بچوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے وہ ان کے خونی اور قاتل ہیں۔ اگر ماں باپ ان کو نماز باجماعت کی عادت ڈالیں تو کبھی ان پر ایسا وقت نہیں آسکتا کہ یہ کہا جائے کہ ان کی اصلاح ناممکن ہے اور وہ قابلِ علاج نہیں رہے۔‘‘

فرمایا : ’’ہم نے دیکھا ہے بعض لوگ خود تو نماز کے بڑے پابند ہوتے ہیں مگر اپنے بیوی بچوں کے متعلق کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ حالانکہ اگر ان کے دل میں سچا اخلاص ہو تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی بچے کا یا بیوی کا یا بہن بھائی کا نماز چھوڑنا انسان گوارہ کر سکے۔‘‘

(الفضل 31 دسمبر 2009ء صفحہ 14)

اللہ تعالیٰ سے محبت

حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (ام متین) حرم حضرت مصلح موعود ؓ فرماتی ہیں:

آپ کو اللہ تعالیٰ سے کتنی محبت تھی اسلام کے لئے کتنی تڑپ تھی، اس کی مثال کے طور پر ایک واقعہ لکھتی ہیں، عموماً شادیاں ہوتی ہیں، دلہا دلہن ملتےہیں تو سوائے عشق و محبت کی باتوں کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ میری شادی کی پہلی رات بے شک عشق و محبت کی باتیں بھی ہوئیں مگر زیادہ تر عشق الٰہی کی باتیں تھیں۔ آپ کی باتوں کا لب لبا ب یہ تھا اور مجھ سے ایک طرح کا عہد لیا جا رہا تھا کہ میں ذکرِالٰہی اور دعاؤں کی عادت ڈالوں۔ دین کی خدمت کروں حضر ت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی عظیم ذمہ داریوں میں آپ کا ہا تھ بٹاؤں۔ با ر با ر آپ نے اس کا اظہا ر فر مایا کہ میں نے تم سے شادی اس غر ض سے کی ہے ۔اور میں خود بھی اپنے والد ین کے گھر سے یہی جذبہ لے کر آئی تھی۔

(ماہنامہ خا لد جون، جو لا ئی 2008ص107)

عشق محمدﷺ

حضر ت مصلح موعو دؓ کو آنحضر تﷺ سے بھی حد درجہ کا عشق تھا۔آپؐ کا نام آنے پر آواز میں رقت آجا تی تھی اور آنکھو ں میں آنسو۔ آپ کے اس عشق کی ایک ہلکی سی جھلک آپ کی اس تحریر سے نمایاں ہے جو حضر ت سیدہ آپا مریم صدیقہ نے لکھی۔

’’نا دان انسان ہم پر الزام لگا تا ہے کہ مسیح مو عو د کو نبی مان کر گویا ہم آ نحضر تﷺ کی ہتک کر تے ہیں۔ اسےکسی کے دل کا حال کیا معلوم اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گو شہ میں حضر ت رسولﷺ کا ہے۔ وہ کیا جا نےکہ محمدﷺ کی محبت میرے اند ر کس طرح سر ائیت کر گئی ہے وہ میری جان ہے میرا دل ہے میرا مطلوب ہے اس کی غلامی میر ے لئے عزت کا با عث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم ہو تی ہے۔ اس کے گھر کی جا روب کشی کے مقا بلہ میں باد شاہت ہفت اقلم ہیچ ہے۔ وہ خد اتعالیٰ کا پیارا ہے پھر میں اس سے کیوں نہ پیا ر کر وں۔ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں کیوں اس سے محبت نہ کروں،وہ خدا تعالیٰ کامقرب ہے پھر میں کیوں اس کا قر ب نہ تلاش کروں۔ میر ا حا ل مسیح موعو دؑ کے اس شعر کے مطا بق ہے کہ

بعد از خدا بعشق محمد مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

( ما ہنا مہ خالد جون وجو لائی 2008ص 110)

حضر ت مصلح موعودؓ نے جو اپنے دل کی حا لت و کیفیت عشق محمدﷺ میں بیان کی ہے۔ دراصل آپ نے تمام احمدیوں کو اس تحر یر سے یہی سبق دیا ہےکہ انہو ں نے بھی ایسا ہی کر نا ہے کیو ں کہ عشق محمد ی ہی عشق الہی کا مو جب ہو گا اور یہی ہماری علت غائی ہے۔

نئی نسل کی تر بیت کا خیال

حضر ت سید عبد الرزاق شاہ صاحب فر ماتےہیں : ’’قادیان دارالا مان کی با ت ہے کہ ہم چند طلباء صبح کی نماز اکثر مسجد مبارک میں حضور کی اقتداء میں پڑھا کر تے تھے۔ ایک دن صبح کی نماز کے بعد حضر ت المصلح الموعود نے مسجد کے دروازے نماز ختم ہو تے ہی بند کر وادیئے اورکسی لڑکے کو با ہر جا نے کی اجا زت نہ دی۔ لڑ کوں کو جو موجو د تھے کھڑا کر کے ان کی تعداد گن لی۔ کچھ لڑکے اپنے پا س بلا لئے اور با قی جو تھے ان کو حضرت مولوی سر ور شاہ صاحب کے پا س بھجوایا اور فر مایا ان کا امتحان لو کہ ان کو نما ز با تر جمہ یا د ہے یا نہیں ؟ حضور نے بھی امتحان لیا ۔ میں حضرت مو لو ی صاحب کے گروپ میں تھا۔ امتحان کی رپورٹ کے بعد حضور نے سب کو اکٹھا کیا اور فر مایا کہ جو نوجوان نماز باقاعدگی سے باجماعت مسجد میں پڑھتا رہے گا وہ کبھی بھی ضائع نہ ہو گا۔

آنحضرتﷺ کا نماز با جماعت کا اعلی نمونہ اور ہدایات کی وجہ سے ہم سب جماعت احمدیہ کے افراد کو ہمارے خلفاء با ر بار اس اہم فر یضہ کی ادا ئیگی کی طر ف تو جہ دلا رہے ہیں تا کہ ہماری نسل ضا ئع نہ ہو جا ئے اور نئی نسل کو بچا نے کا یہی ایک اہم آسمانی نسخہ ہے کہ سب کو نماز با جما عت کا عا دی بنا دیا جائے اور سب کا تعلق مسجد سے جو ڑ دیا جا ئے۔

مذہبی اصطلا حا ت اور شعائر کا احتر ام

مکرم صاحبزادہ مرزا مبا رک احمد صاحب بیا ن کر تے ہیں کہ ایک دفعہ حضور پہاڑ پر رہا ئش پذیر تھے اور وہاں سے ایک قا فلہ پکنک کے لیے حضور کے ساتھ جا رہا تھا ۔قا فلہ کےافراد پہاڑی ٹٹوؤں پر سوار تھے ایک ٹٹو ضر ور ت سے زیادہ سست اور کا ہل تھا اس کے پیچھے رہ جا نے پر حضور نے آواز دی۔ ’’ٹٹو کو چلا تے کیو ں نہیں ؟‘‘۔ انہوں نے کہا یہ نہیں چلتا استخا رہ کر رہا ہے۔ استخارہ ایک مذہبی اصطلا ح ہے اس پر حضور کو سخت جلال آیا اور غصہ آیا اور آپ نے قا فلہ کے اس ساتھی کو جو حضور کے بہت قریبی عزیز تھے وہا ں سے واپس کر دیا اور اپنے ساتھ جانے کی اجازت نہ دی کیو ں کہ آپ مذہبی اصطلاحات اور شعائر کا احترام ضرور کر تے تھے۔

اعلی اخلا ق

حضر ت مولانا شیر علی صاحبؓ اپنے ایک مضمو ن مطبوعہ روزنامہ الفضل 28دسمبر 1939ءص7۔8میںفر ماتے ہیں:

’’آپ کے اخلا ق کا یہ حال ہے کہ جب کبھی کوئی شخص ملنے کے لئے آپ کی خد مت میں حا ضر ہو تا ہے تو خواہ وہ کیساہی غر یب ہو آپ اس کے اعزاز کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب وہ ملا قات کے بعد واپس جا نے لگتا تھا تو اس وقت بھی اس کے اکرام میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حا لا نکہ وہ لوگ جو آپ کی خد مت میں حا ضر ہو تے ہیں ان میں سے اکثر آپ کے غلا م اور مریدہی ہوتے ہیں۔ اس طر ح آپ نے نا ظر وں کو ہد ایت دے رکھی ہے کہ جب کوئی شخص ملنے آئے تو آپ کھڑے ہو کر ملیں خواہ وہ شخص کیسا ہی غریب کیوں نہ ہو۔ اس طرح آپ نے نا ظر وں کو یہ ہد ایت بھی دی ہوئی ہے کہ جب راستہ میں کوئی شخص ان کو ملے تو ان کا فر ض ہے کہ وہ پہلے السلام علیکم کہیں ۔‘‘

محمد رسول اللہﷺ کی عظمت کا اظہار

حضرت مصلح موعودؓنے اپنی ایک تقریر میں آنحضرتﷺ کی عظمت کا اظہا ر یو ں فر مایا :

’’خدا نے مجھے اس غر ض کے لئے کھڑا کیاہے کہ میں محمد رسول اللہﷺ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا ؤں۔ اور اسلام کے مقا بلے میں دنیا کے تمام با طل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں۔ دنیا زور لگا لے وہ اپنی تمام طا قتوں اور جمعیتو ں کوا کٹھا کر لے،عیسائی باد شاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جا ئیں،یورپ بھی اور امر یکہ بھی اکٹھاہو جائے، دنیا کی تمام بڑی بڑی مالد ار اور طاقتو ر قو میں اکٹھی ہوجا ئیں۔ اور وہ مجھے اس مقصد میں نا کا م کر نے کے لئے متحد ہو جائیں۔ پھر بھی میں خد ا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میر ے مقا بلہ میں نا کا م رہےگی اور خدا میر ی دعا ؤں اور تد ابیر کے سامنے ان کے تمام منصو بوں اور فکر وں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے میر ے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے آئے رسول اللہﷺ کے نام کے طفیل اور صد قے اسلام کی عز ت کوقا ئم کر ے گا اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہوجا ئے اور جب تک محمد رسول اللہﷺ پھر دنیا کا زند ہ نبی تسلیم نہ کر لیا جا ئے ‘‘

(سوانح فضل عمر جلد5ص32)

سلسلہ مقدم ہے سب انسانوں پر

آپ نے جماعت کو نصیحت کر تے ہو ئے ایک دفعہ فر مایا :

’’سلسلہ مقدم ہے سب انسانوں پر سلسلہ کے مقا بلہ پر کسی انسان کا کوئی لحاظ نہیں کیا جا ئے گا خواہ وہ کوئی ہو۔ حتی کہ اگر حضرت مسیح موعو د ؑ کا بیٹا بھی مجر م ہو تو اس کا بھی لحاظ نہیں کیا جا ئے گا… اگر ہمیں اپنی اولادوں کو بھی قتل کرنا پڑے تو ہم اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیں گے لیکن سلسلہ کو قتل نہ ہو نے دیں گے۔‘‘

(الفضل 15جون 1944ء)

شادی بیاہ اور ولیمہ کے موقع پر بنا بلائے مہمانوں اور بچوں کی شر کت

حضر ت مصلح موعو دؓ نے ایک دفعہ فر مایا :’’پچھلے دنوں ایک واقعہ ہمیں پیش آیا کہ گو میں اپنی طبیعت کے لحا ظ سے اس کو بیان کر نے پر شر م محسوس کر تا ہوں یا اس لئے کہ اپنے دوستوں کے نقص کاذکرکرنا پڑتا ہے مجھے اس کا بیا ن کر نے میں شر م محسوس ہوتی ہے مگر چو نکہ میر ے سپر د جماعت کی تر بیت کا کام ہے اس لئے میر ا فر ض ہے کہ گو مجھے اس کے بیان کرنے پر شر مند گی محسوس ہو تی ہے لو گو ں کے سامنے بیان کروں۔‘‘

فر ماتے ہیں :وہ واقعہ جس کی طر ف میں نے اشارہ کیا ہے میرے لڑکے کے ولیمہ کی دعوت ہے……میں نے اپنے لڑکے ناصر احمد کے ولیمہ کے موقع پر منتظمین کو ہد ایت دی تھی کہ وہ محلہ وار دعو ت کے لئے نمائندوں کا انتخاب کر لیں…… اس طرح ایک ہز ار کے قر یب افر اد کا اندازہ کیا گیا۔ اور جو کھانا تیا ر کیا گیا وہ چودہ سو کا تھا…… اس وقت مجھے بتایا گیا کہ سولہ سو کے قر یب آدمی جمع ہو چکے ہیں دس پند رہ منٹ بعد دوبارہ اندازہ لگایا تو معلوم ہوا کہ دو ہزار آدمی اکٹھا ہو چکا ہے آخر یہ تجو یز کی گئی کہ صدر انجمن احمدیہ کے تمام کا رکن، حضر ت مسیح موعو د ؑ کے بعض صحا بہ اور بہت سے طالبعلم اٹھا ئے جا ئیں۔ اندازاً چھ سو کے قر یب لوگ تھے جنہیں اٹھایا گیا۔ یہ ایک ایسی غلطی ہے جس کی اصلاح ضر وری ہے۔

رسول کر یمﷺ کے نمونے کا ذکر کر تے ہوئے آپ نے فر مایا کہ ’’آپ ؐ سے زیادہ کو ئی مہر با ن نہیں ہو سکتا۔ آپؐ کی ایک شخص نے دعو ت کی اور چا ر اور صحابہ کو مدعو کیا۔ جب رسولﷺ اس شخص کے مکان کی طر ف چلے تو ایک اور شخص بھی سا تھ ہو گیا۔جب آپ ؐ دروازہ پر پہنچے تو اس شخص سے جس نے دعوت کی تھی فر مایا کہ تم نے میری اور میرے چا ر دوستوں کی دعوت کی تھی ہمارے ساتھ یہ بھی شامل ہو گیا ہے اگر اجا زت ہو تو آجا ئے نہیں تو واپس چلا جا ئے۔ چونکہ جہا ں پا نچ کے لئے کھانا پکا یا گیا ہو وہا ں چھٹا شخص اگر آ جائے تو کوئی خاص تکلیف محسوس نہیں ہو تی اس لئے اس نے کہا یا رسو ل اللہﷺ میری طر ف سے اجا زت ہے یہ شخص بھی آجا ئے۔‘‘

فر مایا :میں نے دیکھا کہ کچھ لو گ تھے جنہو ں نے اپنی غفلت سے یہ سمجھ لیا کہ ہمارا بچہ چھوٹا سا ہے اگر یہ ولیمہ کی دعوت میں شریک ہو گیا تو ڈیڑ ھ ہزار کے قر یب آدمیوں میں کیا حرج ہو گا اور اسی طر ح یہ شخص جہاں خودآیا وہا ں اپنے بچوں کو ساتھ لا کر تعد اد میں اس نے غیر معمولی اضا فہ کر دیا۔ مجھے معلوم ہو ا ہے کہ دعو ت میں پا نچ چھ سو بچے شریک تھے۔ حالانکہ عام طو ر پر بچوں کو ہم نے مد عو نہیں کیا تھا……حقیقت یہ ہے کہ ہمیں تاریخوں پر غو ر کر نے پر کبھی معلوم نہیں ہوا کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں ولیموں میں بچے بلائے جا تے ہوں یہ ایک دعا کی تحریک ہوتی ہے۔ اور اس میں بڑی عمر کے لوگوں کا شریک ہونا ضر ور ی ہو تا ہے۔ مگر مجھے بتایا گیا ہے پانچ چھ سو کے قریب بچے دعوت میں شامل تھے……

فر مایا :آئندہ کے لئے میں نصیحت کر تا ہو ں کہ ایک تو جب تک بچوں کو بلایا نہ جا ئے انہیں ہمراہ نہ لایا جا ئے۔آخر کیا وجہ ہے کہ یہ سمجھ لیا جا تا ہے میں اکیلا ہی بچے کو لے جا رہا ہوں۔ اور لو گ اپنے بچے سا تھ نہیں لائیں گے ؟پھر کہیں بھی احا دیث سے یہ ثابت نہیں کہ دعو تو ں کے موقع پر بچے بھی بلائے جا تے تھے۔ اور اگر اخلاص کی وجہ سے ہی اپنے بچے ہمر اہ لاتے تھے۔تو پھر وہی کر لینا تھا جو رسو ل کریمﷺ نے ایک دفعہ کیا۔ آپؐ نے دعو ت کی تو دیکھا کہ لو گو ں میں بہت جو ش ہے اور وہ سب شامل ہونے کے لئے بےتا ب ہیں۔ آپؐ نے فر مایا جو آئے گھر سے کھا نا لیتا آئے۔ اگر یہاں بھی ہو جاتا تو کوئی دقت نہ ہوتی۔ ہر شخص جو بن بلائے آتا اپنے گھر سے کھا نا لے آتا اور سب مل کر کھا لیتے اور مومنوں میں یہ کوئی شر م کی با ت نہیں۔ پس اس طر ح تو ہم بھی کر سکتے تھے اور اگر یہ نہیں تو پھر تو یہی ہو سکتا ہے کہ چند آدمیوں کی دعو ت کر دی جا ئے اور انہیں کھا نا کھلا دیا جا ئے۔

رسو ل اللہﷺ کے زمانے میں کبھی یہ شکا یت نہیں سنی گئی کہ پچا س آدمیو ں کو کیو ں بلا یا گیا، مد ینہ کے تمام افراد کو کیوں شامل نہیں کیا گیا۔‘‘

(خطبات محمود جلد 15ص 225ماخوذ سوانح فضل عمر جلد 5 ص 189 تا 194)

غیر معمو لی تحمل

مخالفوں کی اشتعال انگیز حرکات پر جو ش میں نہ آنے اور بز رگو ں کا طر یق اختیا ر کر نے کی تلقین کر تے ہوئے آپؓ فر ما تے ہیں۔

’’میرے پا س ایک شکا یت پہنچی ہے کہ مصر ی صاحب کے بعض ساتھی ایک جگہ کھڑ ے تھے۔ کہ انہو ں نے میر ی تصویر لے کر اسکی ایک آنکھ چا قو سے چھید دی اور اس کے نیچے رنجیت سنگھ لکھ دیا اور ایسی جگہ پھینک دیا جہاں سے احمدی اسےاٹھا لیں۔ یہ شکا یت پہنچانے والے دوستوں نے لکھا ہے کہ ہمیں یہ دیکھ کر سخت غصہ اور جو ش آیا۔ حالا نکہ اس میں جو ش کی کون سی با ت تھی۔ دشمن جب عداوت میں اند ھا ہوجا تا ہے تو وہ اس قسم کے ہتھیا روں پر اترا کر تا ہے۔ پھر ہمارے لئے تو یہ کو ئی نئی بات نہیں ہمارے بزرگو ں کے سا تھ بھی ایسا ہی ہو تا چلا آتا ہے۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد 5 ص 128)

دشمن کی عزت کا خیال

سوانح فضل عمر میں آپ کے با رے میں یہ حیر ان کن واقعہ بھی لکھا ہےکہ

مولانا عبدالرحمٰن خادم صاحب جو جماعت کے ایک بلند پایہ عالم اور دین کے بے لوث خادم بنے جو شیلے نو جو ان تھے۔ ایک دفعہ مو لا نا ظفر علی خان صا حب کسی جلسہ میں تقر یر کے لیے کھڑے ہوئے۔تو خاد م صاحب اپنے فطری جوش و جذبہ سے مو لا نا ظفر علی خان صاحب سے سوا لات کر نے لگے اور کہا کہ آپ نے جماعت کے فلاں لٹر یچر اور فلاں تعلیم کے خلا ف با ت کی ہے حالا نکہ آپ بزرگ ہیں غلط بیانی کر تے ہیں ہمیں اس کا جو اب دیں۔ مولانا خادم صاحب کی با ر بار مداخلت سے تنگ آکر وہ اسٹیج سے اتر ے اور کہا میں ایسی بیہودہ مجلس میں تقریر نہیں کر وںگا اور یہ کہہ کر اپنے گھر کی طر ف پید ل روانہ ہو گئے۔ لیکن خادم صاحب نے ان کا پیچھا نہ چھو ڑا ان کے ساتھ احمدیہ ہو سٹل کے چند اور احمدی جو ان بھی ساتھ ہولئے اور بار بار یہی کہتے گئے کہ مولانا ہماری با ت کا جو اب کیو ں نہیں دیتے حتی کہ مولانا ظفر علی خان صاحب کا گھر آگیا اور مولا نا نے نہایت غصہ سے کو اڑ بند کر کے کنڈی لگا لی۔

خاد م صاحب مر حو م نے حضر ت صاحب کو قادیان خط لکھا اور اس واقعے کی ساری روداد بھی لکھ دی اور لکھا کہ اردو محاورہ کے مطا بق ’’جھو ٹے کو گھر تک پہنچا آئے ‘‘اب خادم صاحب دادو تحسین کے منتظر تھے اور بے تا بی سے حضو رکے جواب کے منتظر تھے۔ چنا نچہ حضورؓ کا خط آیا۔ لکھا تھا :

’’آپ کا خط پہنچا۔ خو شی کی بجا ئے افسو س ہو ا۔ آخر مو لانا ظفر علی خان صاحب بھی اپنے حلقہ میں ایک معزز اور قابل احترام شخصیت ہیں اور اسلام کسی کے ساتھ بد تمیزی کی اجازت نہیں دیتا۔ میں آپ سے نا راض ہو ں اور اس وقت تک معاف نہ کروں گا جب تک مولانا آپ کو معاف نہ کر دیں۔‘‘

خادم صاحب نے بیا ن کیا کہ میرے ہا تھو ں کے طوطے اڑ گئے یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ؟ ہمار ا خلیفہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے وہ خط لے کر روڈ پر مو لانا صاحب کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹا یا۔ مو لانا باہر آئے آپ کو دیکھا اور دروازہ بند کر نے لگے مگر خاد م صاحب مرحوم جلدی سے دو کو اڑوں کے درمیان آگئے اور عا جزی سے کہا مو لانا میں بحث کر نے نہیں معافی مانگنے آیا ہو ں۔

معافی کا لفظ سن کر چکر ا گئے کہ کہیں یہ کوئی دھو کا تونہیں۔ مگر خادم صاحب مر حوم کے چہرے پر لجا جت اور عا جزی کے تاثر ات پڑ ھ لئے۔ خادم صاحب اند ر گئے اور مو لانا کے سامنے حضر ت صا حب کا خط رکھ دیا۔ خط پڑ ھ کر مو لانا کی آنکھیں بھر آئیں کہنے لگے کہ ’’میں ایسے اخلا ق کا مظاہرہ رسول اللہﷺ کے بعد صرف آپ کے صحا بہ تک محدودسمجھتا تھا۔ ‘‘

خادم صاحب مر حوم کہنے لگے ۔مولانا جلد ی سے معافی لکھئے ہماری تو دنیا اند ھیر ہو گئی ہے۔

(سوانح فضل عمر جلد 5 ص136۔137)

حضرت خادم صاحب کاذکر آیا ہے تو مجھے ایک اور واقعہ اس ضمن میں یا د آیا جو یہا ں لکھتا ہو ں۔

خاکسار کو آٹھ سال تک مسجد بیت الر حمٰن میں مر کزی مبلغ کے طورپر خد مت کی سعادت ملی ہے اور یہ زمانہ 1996سے 2004ءتک کا ہے۔ یہاں مکرم محتر م صاحبزادہ مر زا مظفر احمد صاحب مرحو م امیر جماعت تھے۔ مسجد بیت الر حمٰن میں جب بھی آپ کی صدارت میں جلسہ مصلح موعود ہو تا تو آپ حضر ت مصلح موعود ؓکی زند گی پر بہت سارے تر بیتی امور پر واقعات سنا تے تھے۔اور آپ کی آواز بھرآئی ہوتی تھی رقت آمیز لہجے میں آپ ان کی یادوں کو تازہ کر تے ۔یہ واقعہ بھی آپ تقریباً ہر مجلس میں سناتے تھے کہ جب حضر ت خادم صاحب کی وفا ت ہو تی ہے اس وقت حضر ت مصلح موعو دؓ کے گھر میں لجنہ کا اجلاس ہورہا تھا جو کہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا اور لجنات غالباًچا ئے وغیرہ پی رہی تھیں آپس میں محو گفتگو تھیں۔ حضر ت مصلح موعو دؓ نے جب یہ دیکھا تو فوراًکہا کہ ایک خا دم زند گی اور خادم سلسلہ کا جنازہ آرہا ہے اور آپ چائے میں مصروف ہیں۔یہ حضر ت مصلح موعوؓد کا سلسلہ کے خدام سے پیار اور احتر ام کا تعلق تھا۔

ایک واقعہ

حضر ت چھو ٹی آپا ام متین صاحبہ حرم حضر ت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیا ن کر تی ہیں کہ ’’قر آن مجید کے درس کے ساتھ آپ نے کچھ عر صہ بخاری شریف کا درس بھی عورتوں میں دیا تھا۔ ایک دن درس دیتے ہوئے آنحضر تﷺ کے آخری حج کا واقعہ بیان فر مایا اور جب یہ الفا ظ بیان فر مائے کہ آ نحضرتﷺ نے فر مایا کہ جس طر ح یہ مہینہ مقدس ہے جس طر ح یہ علاقہ مقدس ہے اسی طر ح اللہ تعالی نے ہر انسان کی جا ن اور اس کے مال اور عزت کو مقدس قر ار دیا ہے اور کسی کی جا ن اور کسی کے مال پر حملہ کرنا ایسا ہی نا جا ئز ہے جیسے کہ اس مہینے اس علاقے اور اس دن کی ہتک کر نا یہ آج کے لئے نہیں کل کے لئے نہیں بلکہ اس دن تک کے لئے ہے کہ تم خدا سے جا ملو گے۔ پھر فرمایا یہ با تیں جو میں تم سے آج کہتا ہوں ان کو دنیا کے کناروں تک پہنچادو۔ کیو ں کہ ممکن ہے کہ جو لوگ آج مجھ سے سن رہے ہیں ان کی نسبت وہ لوگ ان پر زیا دہ عمل کریں گےجو مجھ سے نہیں سن رہے۔یہ حد یث بیا ن فر ما کر آپ نے عورتو ں سے کہا کہ میں آنحضر تﷺ کی یہ حد یث تمہیں سنا کر اپنی ذمہ داری سے سبکد وش ہو تا ہو ں اور تم میں سے ہر عو ر ت جو میر ا درس سن رہی ہے وہ کم از کم ایک ایسی عو ر ت کو جس نے آج درس نہیں سنا اس کے گھر جا کر یہ حدیث سنا ئے او ر اس پر عمل کر نے کی تا کید کر ے۔ آپ بیا ن کر تی ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے عو ر تو ں میں بڑ ا جوش پیدا ہو ا اور قادیا ن میں گھر گھر عورتیں پھر کر جو عو ر تیں درس میں نہیں آسکی تھیں ان کو یہ حد یث سناتی پھرتی تھیں اور ہر عو ر ت کو شش کر تی تھی کہ اس ثواب سے محروم نہ رہ جائے۔‘‘

(سو انح فضل عمر جلد 5ص 364۔365)

آپ کی چند نصائح پیش کرتا ہوں۔فرمایا : ’’میں دوستوں کو نصیحت کر تا ہو ں کہ بنی نو ع سے محبت کر و یاد رکھو کہ عداوت میٹھی چیز نہیں۔ محبت میٹھی چیز ہے تم دیکھو دونوں میں سے کون سی چیز آرام دہ ہے۔ آیا محبت آرام دہ ہے یا غصہ۔تم غور کر و کہ تم غصہ کی حالت میں ہوتے ہو اس وقت آرام کی حالت میں ہو تے ہویا جس وقت محبت کے جذبات اور خیا لات میں۔

جب تم غور کر وگے تو تمہیں معلوم گا کہ امن خدا کی طرف سے آتاہے۔ غضب اس وقت جا ئز ہے جب خدا کے غضب کے مقابلہ میں آجا ئے ورنہ محبت ہی ضر وری ہے۔ جو لوگ حسن سلوک اور محبت کے جذبات چھو ڑ دیتے ہیں ان کے لئے یہا ں ہی جہنم ہے۔‘‘

فر مایا : ’’وہ قوت ارادی جس سے دنیا فتح ہو سکتی ہے اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب کامل اطا عت اور فر ما نبر داری کا مادہ انسان کے اند ر ہو۔جب وہ حیل و حجت نہ کرے جب وہ اپنی تجویزوں اورقیا سات سے کام لینے کی بجائے اس حکم کو سنے جو اسے دیا گیا ہو اور اس پر پوری طر ح عمل کرے اور اگر انسان اس بات کی عا دت ڈال لے تو اس صورت میں اسے بہت جلد کامیابی حا صل ہو سکتی ہے ‘‘

(الفضل 19اگست 1936 ص5)

لاہو ر میں جلسہ پیشگو ئی مصلح مو عو د کے مو قعہ پر

حضر ت سید نا مصلح مو عودؓ نے 10مار چ 1944ءکو پیشگو ئی مصلح مو عو د کے مصد اق ہو نے کے جلسہ میں یہ فر مایا :

’’خد ا نے کیسے کام کر نے والے مجھے دیے ہیں۔ خدا نے مجھے وہ تلو ار یں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لمحہ میں کا ٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میر ی آواز پر قر با نی کرنے کے لئے تیا ر ہیں۔ میں انہیں سمندروں کی گہر ائیوں میں چھلانگ لگا نے کے لئے کہو ں تو وہ سمند رمیں چھلانگ لگا نے کے لئے تیا ر ہیں میں انہیں پہا ڑوں کی چو ٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہوں تو وہ پہا ڑوں کی چو ٹیو ں سے اپنے آپ کو گر ا دیں۔ میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں کود جا نے کا حکم دوں تو وہ جلتے ہوئے تندوروں میں کو د کر دکھا دیں۔ اگر خودکشی حر ام نہ ہوتی۔ اگر خو د کشی اسلام میں ناجائز نہ ہو تی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمو نہ دکھا سکتا تھا کہ جما عت کے سو آدمی کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلا ک ہو جا نے کا حکم دیتا اور وہ سو آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جا تا۔‘‘

(الفضل 18فر ور ی 1955ءماخوذ ازکتاب مولوی ظہور حسین جلد اول روس وبخارا158۔159)

خلافت کی اطا عت اور سب سے بڑ ی فضیلت

آخر میں خاکسار حضر ت مصلح موعودؓ کی ایک اور نصیحت لکھ کر اپنی ان گزارشات کو ختم کرتاہے۔ آپ کی سیر ت کے واقعات آپ نے جس رنگ میں جماعت کی تربیت فر مائی۔ آپ نے شر یعت اسلامیہ کے قیام کے لیے جو جد وجہد فرمائی یہ سب با تیں نہ لکھی جا سکتی ہیں اور نہ ہی بیا ن کی جا سکتی ہیں۔؎

سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لئے

آپ خلا فت کی اہمیت کے با ر ے میں فر ماتے ہیں:

’’ہزار دفعہ کو ئی شخص کہے کہ میں مسیح مو عو دؑ پر ایمان لا تا ہو ں۔ ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں خدا کے حضو ر اس کے ان دعووں کی کوئی قیمت نہیں ہو گی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہا تھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانے میں اسلام قا ئم کرنا چا ہتا ہے۔ جب تک جما عت کا ہر شخص پاگلو ں کی طر ح اس کی اطا عت نہیں کر تا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زند گی کا ہر لمحہ بسر نہیں کرتا اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حق دار نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

(الفضل 15نومبر 1946ء)

ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کر ے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button