متفرق مضامین

موعود بیٹا اور ایک عظیم ماں …حضرت مصلح موعودؓ اور اُمّ المومنین حضرت امّاں جانؓ

(زینوبیہ احمد)

’’بچّو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابّا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے۔ انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دُعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پہ ملتا رہے گا۔‘‘

(روایت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ، مطبوعہ الفضل19؍جنوری 1962ء)

اپنے پیارے اور مقدس باپ حضرت مسیح موعودؑ کی تدفین کے بعد جب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ عزم وصبر کا پیکر بن کے نہایت وقار کے ساتھ دنیاوی اسباب سے بظاہر ایک خالی گھر میں تشریف لائے۔ اُمّ المومنین حضرت اماں جانؓ نے اپنے بچوں کو اکٹھا کیا اور مذکورہ بالا نہ بھولنے والے ایمان افروز الفاظ میں نصیحت فرمائی۔ یہ کوئی معمولی تسلّی نہ تھی بلکہ آنے والا وقت اس بات کا گواہ بن گیا اور آج تک گواہ ہے کہ یہ دعاؤں کا بھاری خزانہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کی صورت میں اس نوجوان بیٹے پہ خصوصیّت کے ساتھ اور باقی تمام بہن بھائیوں پر بالعموم حسب مراتب ہمیشہ نازل ہوتا رہا۔ بلکہ اولاد در اولاد پر ان دعاؤں کا فیضان اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاری ہے۔

حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ ایم اے حضرت امّاں جان کے ان الفاظ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’یہ کوئی معمولی رسمی تسلی نہیں تھی جو انتہائی پریشانی کے وقت میں غم رسیدہ بچّوں کو ان کی والدہ کی طرف سے دی گئی بلکہ یہ ایک خدائی آواز اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شاندار الہام کی گونج تھی کہ’’ اَ لَیْسَ اللّٰہُ بِکَا فٍ عَبْدَہ‘‘ یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟ اور پھر اُس وقت سے لےکر آج تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں نے اس طرح ہمارا ساتھ دیا ہے اور اللہ کا فضل اس طرح ہمارے شاملِ حال رہاہے کہ اس کے متعلق میں حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ

اگر ہر بال ہو جائے سُخن ور

تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر

حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس رنگ میں ہماری دستگاری فرمائی ہے اُس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر حضرت مسیح موعودؑ کی نسل نیکی اور تقویٰ اور اخلاص اور خدمتِ دین کے مقام پر قائم رہے گی تو حضورؑ کی دردمندانہ دُعائیں جن کا ایک بہت بھاری خزانہ آسمان میں جمع ہے قیامت تک ہمارا ساتھ دیتی چلی جائیں گی‘‘

(دُرّ مکنون، مطبوعہ الفضل19؍جنوری 1962ء)

مبارک جوڑا اور مبشر اولاد

آج سے چودہ سو سال پہلے آنحضرتﷺ نے پیشگوئی فرمائی کہ

یَتَزَوَّجُ وَ یُولَدُ لَہُ

یعنی آنے والا مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی۔ (مشکوٰۃ، باب نزول عیسیٰ صفحہ 480)حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ یہاں تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں عام طور پر ہر یک شادی کرتا ہےاور اولاد بھی ہوتی ہےبلکہ تزوّج سے مراد وہ خاص تزوّج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مراد ایک خاص اولاد ہے۔

(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 337حاشیہ)

ایک اور مقام پر اس پیشگوئی پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’اور یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود کے اولاد ہوگی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اُس کی نسل سے ایک ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو اُس کا جانشین ہوگا اور دینِ اسلام کی حمایت کرے گا جیسا کہ میری بعض پیشگوئیوں میں یہ خبر آچکی ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ 325)

خدا تعالیٰ کی بات پوری ہوئی اور 12؍جنوری 1889ء کو ایک عالی شان موعود بیٹا ایک عظیم ماں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے بطن سے پیدا ہوا۔ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ

’’میں نے حضرت اُمّ المومنینؓ کو ایک خواب بیان فرماتے سنا بلکہ مجھے بھی مخاطب کرکے سنایا ہے۔ دو چار بار فرمایا:’’جب تمہارے بڑے بھائی پیدا ہونے کو تھے تو ایام حمل میں میں نے خواب دیکھا کہ میری شادی مرزا نظام الدین سے ہو رہی ہے اس خواب کا میرےدل پر مرزا نظام الدین کے اشد مخالف ہونے کی جہ سےبہت بُرا اثر پڑا کہ دشمن سے شادی میں نے کیوں دیکھی؟ میں تین روز تک برابر مغموم رہی اور اکثر روتی تھی۔ تمہارے ابّا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے ذکر نہیں کیا۔ مگر جب آپ نے بہت اصرار کیا کہ کیا بات ہے؟ کیا تکلیف پہنچی ہے؟مجھے بتانا چاہیئے تو میں نے ڈرتے ڈرتے یہ خواب بیان کیا۔ خواب سن کے تو آپ بےحد خوش ہوئے اور فرمایا اتنا مبارک خواب اور اتنے دن تم نے مجھ سے چھپایا؟ تمہارے ہاں لڑکا اسی حمل سے پیدا ہوگا اور نظام الدین کے نام پر غور کرواس کا مطلب یہ مرزا نظا م الدین نہیں۔ تم نے اتنے دن یہ تکلیف اُٹھائی اور مجھے یہ بشارت نہیں سنائی۔‘‘

(تحریراتِ مبارکہؓ، صفحہ219-220)

یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جن بزرگ ہستیوں کا کا ذکر بحیثیت ایک ماں اور بیٹا اس مضمون میں کیا جارہا ہے وہ کوئی معمولی افراد نہیں ہیں بلکہ ان کے متعلق آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کی کئی بشارات ہیں۔ کیا ہی خوبصورت انعام ہے کہ اس بزرگ ماں کو اللہ تعالیٰ نے’’میری خدیجہ‘‘ (الہام حضرت مسیح موعودؑ، براہینِ احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر4صفحہ558۔ روحانی خزائن جلد1صفحہ666، تذکرہ صفحہ29) اور پسرِ موعود کو ’’نور اللہ‘‘ (پیشگوئی مصلح موعود، اشتہار 20؍فروری 1886ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 96-97مطبوعہ ربوہ)کہہ کر مخا طب فرمایا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کی تربیت میں آپ کی بزرگ والدہ کا حصّہ

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تربیت کے ساتھ ساتھ حضرت امّاں جانؓ کی تربیت کا بھی آپ کے کردار کی تشکیل پر نہایت گہرا اثر پڑا۔ بہت کم اورخوش نصیب بچے وہ ہوتے ہیں جن کے والدین دونوں ہی مربیانہ اوصاف سے متصف ہوں۔ مزید برآں دونوں کی تربیت کے دھارے ایک ہی سمت میں بہتے ہوں اور دونوں کے مزاج میں تضاد کے بجائے ہم آہنگی پائی جائے۔ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی دادی حضرت امّاں جان کے تربیتی انداز پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’چوبیس(24)سال تک مجھے بھی آپ کا زمانہ پانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ بڑے سادہ اور مؤ ثر انداز میں نصیحت فرمایا کرتی تھیں۔ بناوٹ اور تصنع کے کوچےسے نا آشنا، صدق و صفا کی مظہر تھیں۔‘‘ آپؒ مزید فرماتے ہیں :

’’ہم بچے تو آپ کے پوتوں، پوتیوں، نواسوں، نواسیوں کی حیثیت سے کبھی کبھی آپؓ سے فیضیاب ہوتے تھے۔ ہاں وہ اولاد بڑی خوش قسمت تھی جسے مسلسل آپؓ کا فیضان حاصل رہا۔ میرے والد حضرت مرزا محمود احمدؓ کے بچپن کے زمانہ میں آپؓ کا کیا اندازِ تربیت تھا، اس کے متعلق بہترین بیان آپؓ کی اولاد ہی میں سے کسی کا ہوسکتا ہے۔ لہذا اپنی بڑی پھوپھی جان حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ایک مضمون میں سے متعلقہ اقتباس پیشِ خدمت ہے۔ آپ فرماتی ہیں :

’’بچے پر ہمیشہ اور بہت پختہ اعتبار ظاہر کرکے اس کے والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینایہ آپ کا بڑا اصولِ تربیت ہے۔ جھوٹ سے نفرت اور غیرت و غنا آپ کا اوّل سبق ہوتا تھا۔ ہم لوگوں سے بھی آپ ہمیشہ یہی فرماتی رہیں کہ بچے میں یہ عادت ڈالو کہ وہ کہا مان لے، پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی ڈر نہیں۔ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنھا ہمیشہ فرماتی تھیں کہ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا بلکہ متنفر کرتا تھا…اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدسؑ سے حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد محبت وقدر کرنے کی وجہ سے آپ کی قدر میرے دل میں اَور بڑھا کرتی تھی۔ بچوں کی تربیت کے متعلق ایک اور اصول آپ یہ بھی بیان فرمایا کرتی تھیں کہ پہلے بچے کی تربیت پر اپنا پُورا زور لگاؤ دوسرے اُن کا نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘

(سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 88تا89)

حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت اماں جانؓ دونوں ہی اساتذہ کے مقام کو نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ اساتذہ کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی خدمت کرنا فرض سمجھتے تھےاور یہی سبق بچوں کو بھی دیا گیا۔ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ استاد کی خدمت کرنی ضروری ہوتی ہے اور اس طرح بچوں کو بھی سمجھ آتی ہے۔ اور حضرت امّاں جاں میں بھی یہی روح کارفرماتھی۔

اہلیہ شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ سے روایت ہے کہ

’’ایک مرتبہ ہم حضرت امّ المومنین کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ میاں محمود احمد(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جو اس وقت چھوٹے بچے تھے ایک ربڑ کا سانپ لئے ہوئے آگئے اور اس کوچھوڑ دیا۔ مارے دہشت کے میرا رنگ زرد ہو گیا اور میں کانپ گئی۔ حضرت اُمّ المومنین نے میری طرف دیکھا اور پھر میاں صاحب کو کہا میاں محمود! یہ تمہارے استاد کی بیوی ہیں تم نے یہ کیا کیا؟ میاں صاحب کہنے لگے اماں مجھ سے بھول ہوگئی۔ پھر امّاں جان نے مجھے دلاسہ دیا کہ بہو یہ تو ربڑ کا سانپ ہے۔‘‘

(سیرت حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ از حضرت شیخ محمود علی عرفانیؓ و حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ، صفحہ 403)

یہ واقعہ حضرت امّاں جانؓ کی پاکیزہ فطرت کا مظہر ہے اور تربیت اولاد کا بہترین سبق اپنے اندر لیے ہوئے ہے کہ استاد اور اس کی بیوی کا ادب کس طرح ملحوظ رکھنا چاہیے۔

محبت کا ایک خاص تعلق

ایک بچہ کا اپنی ماں سے محبت کرنا ایک فطری امر ہے لیکن جس محبت اور عزت و احترام کا خاص تعلق حضرت مصلح موعودؓ کو حضرت اماں جانؓ سے تھا اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر فرماتی ہیں کہ

’’حضرت سیّدنا بڑے بھائی صاحب حضرت خلیفۃا لمسیح بچپن سے حضرت اماں جان سے بے حد مانوس تھے اور جوان بچوں والے ہو کر بھی چھوٹی چھوٹی بات جو شکایت ہو تکلیف ہو حضرت اماں جانؓ کے پاس ہی ظاہر کرنا اور آپ کی محبت، ہمدردی اور مشورہ سے تسکین پانا آپ کا ہمیشہ طریق رہا۔ ذرا سی بات ہے مگر ماں کی محبت ظاہر کرتی ہے کہ ایک میٹھے تاروں کے گولے (cotton candy)سے ہوتے ہیں۔ جن کو ’’مائی بڈھی کا جھاٹا‘‘ کہہ کر ہمارے پنجاب میں فروخت کرتے اور بچے شوق سے کھاتے ہیں۔ کہیں بچپن میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو بھی پسند ہوگا۔ میں نے دیکھا کہ بچوں کے پاس دیکھ کر حضرت امّاں جان نے فوراً منگوایا کہ میاں کو پسند ہے اُن کو دے آؤ۔‘‘

(تحریراتِ مبارکہؓ، صفحہ 37)

ذیل میں دیا گیا واقعہ حضرت مصلح موعودؓ کی سیرت اور قوّت فکر پر نہایت خوبصورتی سے روشنی ڈالنے کے علاوہ آپؓ کے حضرت امّاں جانؓ سے ایک گہرے تعلق اور محبت کے پہلو کو بھی خصوصیّت سے ا ُجاگر کرتاہے۔ آپؓ خود اس واقعہ کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ

’’مجھے یاد ہےحضرت مسیح موعودؑ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلےمجھے ایک گھوڑی خرید کردی تھی۔ درحقیقت وہ خرید تو نہ کی گئی تھی بلکہ تحفۃً بھیجی گئی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے لڑکوں کو سائیکل پر سواری کرتے دیکھا تو میرے دل میں بھی سائیکل کی سواری کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے اس کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں کیا۔ آپؑ نے فرمایا کہ مجھے سائیکل کی سواری تو پسند نہیں، میں تو گھوڑے کی سواری کو مردانہ سواری سمجھتا ہوں۔ میں نے کہا اچھاا ٓپ مجھے گھوڑا ہی لے دیں۔ آپؑ نے فرمایا پھر مجھے گھوڑا وہ پسند ہے جو مضبوط اور طاقتور ہو۔ اس سے غالباً آپؑ کا منشاءیہ تھا کہ میں اچھا سوار بن جاؤں گا۔ آپؑ نے کپورتھلہ والے عبد المجید خان صاحب کو لکھا کہ ایک اچھا گھوڑا خرید کر بھجوادیں …انہوں نے ایک گھوڑی خرید کر تحفۃً بھجوادی اور قیمت نہ لی۔ حضرت مسیح موعودؑ جب فوت ہوئے تو چونکہ آپؑ کی وفات کا اثر لازمی طور پر ہمارے اخراجات پر بھی پڑنا تھا۔ اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ اس گھوڑی کو فروخت کردیا جائےتاکہ اس کے اخراجات کا بوجھ والدہ صاحبہ پر نہ پڑے۔ مجھے ایک دوست نے جن کو میرا یہ ارادہ معلوم ہوگیا تھا اور جو اب بھی زندہ ہیں، کہلا بھیجا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعودؑ کا تحفہ ہے۔ اسے آپ بالکل فروخت نہ کریں۔ اس وقت میری عمر اُنیس سال کی تھی۔ وہ جگہ جہاں مجھے یہ بات کہی گئی تھی، اب تک یاد ہے۔ میں اس وقت ڈھاب کے کنارے تشحیذ الاذہان کے دفتر سے جنوب مشرق کی طرف کھڑا تھا۔ جب مجھے یہ کہا گیا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحفہ ہے اس لئے اسے فروخت نہ کرنا چاہیئے تو بغیر سوچے سمجھے معاً میرے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے کہ بے شک یہ تحفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے مگر میں گھوڑی کی خاطر حضرت اُم المومنینؓ کو تکلیف دینا نہیں چاہتا چنانچہ میں نے اس گھوڑی کو فروخت کردیا۔‘‘

(الفضل لاہور18؍فروری1948ء، سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ130تا131)

یقینی طور پر یہ گھوڑی حضرت مسیح موعودؑ کا تحفہ ہونے کی وجہ سےایک یادگار تھی اور حضرت مسیح موعودؑ سے غیر معمولی طور پر محبت کے باعث آپؓ کو بہت پیاری بھی ہوگی لیکن موقع محل کو مدّ نظر رکھتے ہوئے نہایت روشن قوّت فکر کے ساتھ آ پ نے گھوڑی کو بیچ کر صرف حضرت اماں جانؓ کی تکلیف کا سوچا اوراپنے جذبات کی قربانی کرنا قبول فرمایا۔

عقیدت و احترام کی بے نظیر مثال

حضرت امّاں جانؓ کو حضرت مصلح موعودؓ سے ایک بہت پیار کا تعلق تھا اور اسی طرح آپؓ بھی حضرت امّاں جانؓ سے بہت محبت کرتے تھے اورحضرت امّاں جانؓ کے لیے آپؓ کے دل میں بے حد عقیدت اور احترام تھا جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ(اُمّ متین) لکھتی ہیں کہ

’’ماں سے محبت تو اولاد کو ہوتی ہی ہے لیکن جیسی محبت حضرت فضل عمرؓ کو حضرت اماں جانؓ سے تھی اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ آپ کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے۔ ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے اور بیویوں سے بھی یہی اُمید رکھتے کہ حضرت امّاں جان کی جتنی ممکن ہو خدمت کریں گی۔‘‘

(گلہائے محبت، صفحہ 72)

حضرت امّاں جانؓ کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کی عزت و احترام کے ذکر میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مزید کہتی ہیں کہ

’’حضرت اُمّ المومنینؓ کی عزت و احترام کا مشاہدہ تو اپنی آنکھوں سے کیا ہے۔ ایک دفعہ ایک عورت نے آپ سے شکایت کی کہ میرا بیٹا میرا خیال نہیں رکھتا آپ سمجھائیں۔ آپ بے اختیار رو پڑے اور کہنے لگے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کوئی بیٹا ماں سے بُرا سلوک کر ہی کیسے سکتا ہے۔ حضرت اُمّ المومنینؓ کا خود باوجود عدیم الفرصتی کے بہت خیال رکھتے تھے۔ کبھی فراغت ہوئی تو حضرت امّاں جانؓ کے پاس بیٹھ جاتے۔ آپؓ کو کوئی واقعہ یا کہانی سناتے۔ سفروں میں اکثر اپنے ساتھ رکھتے۔ جس موٹر میں خود بیٹھتے اُس میں حضرت امّاں جانؓ کو اپنے ساتھ بٹھاتے۔ کہیں باہر سے آنا تو سب سے پہلے حضرت امّاں جانؓ سے ملتے اور آپؓ کی خدمت میں تحفہ پیش کرتے۔

اپنے بہن بھائیوں سے بھی بہت پیار تھا۔ ہجرت کے وقت حضورؓ پاکستان تشریف لاچکے تھے اور حضرت مرزا بشیر احمدؓ ابھی قادیان میں ہی تھے حالات خراب ہورہے تھے آپ کو ان کے متعلق بہت تشویش تھی ٹہل ٹہل کر دعائیں کرتے رہتے تھے۔ جس دن حضرت مرزا بشیر احمدؓ لاہور پہنچے اور گھر میں داخل ہوئے آپ پہلے تو فوراً سجدہ میں گر پڑے اور پھر حضرت میاں صاحب کا ہاتھ پکڑا اور سیدھے حضرت امّاں جانؓ کے کمرہ میں تشریف لے گئے اور فرمانے لگےلیں اماں جان! آپ کا بیٹا آگیا۔‘‘

(گلہائے محبت، صفحہ 32)

صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب(ایم ایم احمد) ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ میری سب سے پہلی یاد مجھے اس زمانہ میں لے جاتی ہے جب میں حضورؓ کو حضرت اماں جانؓ کے صحن سے نماز پڑھانے مسجد مبارک جاتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ نماز سے واپسی پر آپؓ اپنا کچھ وقت حضرت امّاں جانؓ کے ساتھ گزارتے تھے خاص طور پر مغرب کی نماز کے بعد۔ جو بچے وہاں موجود ہوتے ان سے بھی گفتگو فرماتے۔ صاحبزادہ صاحب کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہمیں مخاطب کرکے فرمایا کہ قرآن مجید حکمت و دانش کا سمندر ہے تم بچوں کو اس کے مطالعہ اور اس پر غور کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے تا تم اس سے حکمت کے موتی نکال سکو۔ اگر تم ابھی بالغ نظری کی عمر تک نہیں بھی پہنچے تو کم از کم سیپیاں ہی نکالنے کی اہلیت پیدا کرلو۔

(حضرت مصلح موعودؓ کی یادیں از صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب)

آپؓ کو حضرت امّاں جانؓ سے بہت گہرا لگاؤ تھا۔ اپنے سفروں پر اکثر انہیں ساتھ لے جاتے تھے۔ حضرت اماں جانؓ آپؓ کو محبت سے ’’میاں‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتیں۔ جب کبھی حضرت مصلح موعودؓ کو کسی سفر سے واپسی پردیر ہوجاتی تو حضرت امّاں جانؓ بڑی گھبراہٹ اور بے چینی کا اظہار فرماتیں۔ اسی ضمن میں صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ایک واقعہ اپنی اہلیہ سے روایت کرتے ہیں ۔ یہ واقعہ آپ کی اہلیہ صاحبزادی امۃ القیوم صاحبہ نے یوں بیان کیا ہے کہ: ’’ایک دفعہ جب احرار کا فتنہ زوروں پر تھا ہم لوگ ڈلہوزی گئے ہوئے تھے ۔ ابا جان (حضرت مصلح موعود ؓ) ہر جمعہ ڈلہوزی سے قادیان جاتے ۔ اماں جان کی تاکید تھی کہ شام سے پہلے واپس آجایا کرو۔ ایک دفعہ کسی وجہ سے ابا جان کو دیر ہوگئی ۔ اماں جان گبھراہٹ میں ٹہل ٹہل کے دعائیں کر رہی تھیں ۔ پھر انہوں نے ایک درخت کی پتلی سی ٹہنی توڑی۔ اتنے میں اباجان پہنچ گئے ۔ اماں جان نے دیکھتے ہی کہا تمہیں جلدی آنے کی تاکید نہیں کی ہوئی۔ ابا جان کا سر جھکا ہوا تھا۔ اور بالکل چھوٹے بچوں کی طرح ڈرتے ہوئے کہا ، ’’جی اماں جان ‘‘ پھر اماں جان نے وہی ٹہنی جو ہاتھ میں تھی آہستہ سے ٹانگ کو چھوئی اور کیا پھر کرے گا۔ ابا جان نے پھر اسی طرح بچوں کی سی معصومیت سے کہا ’’ نہیں اماں جان‘‘۔ (سیرت و سوانح حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ؓ ، لجنہ اماء اللہ ضلع لاہور صفحہ 709-710)

یہ ایک ماں کا فطری جذبہ تھا جس کا اظہار حضرت امّاں جانؓ نے فرمایا ورنہ وہ خود ہر دوسرے احمدی کی طرح حضورؓ کی بڑی عزت فرماتی تھیں۔

(’’حضرت مصلح موعودؓ کی یاد میں‘‘از صاحبزادہ مرزا مظفر احمدصاحب)

یہاں ایک بات کا ذکر کرنا بہت اہم ہے کہ حضرت امّاں جانؓ حضرت مصلح موعودؓ کی بہت عزت فرماتی تھیں۔ جب دوسروں کے سامنے حضرت مصلح موعودؓ کا ذکر فرماتیں تو حضرت صاحب یا خلیفۃ المسیح کہہ کر بات کرتی تھیں اور جب حضورؓ سے خود مخاطب ہوتیں تو بڑے پیار سے ’’میاں‘‘ کہا کرتی تھیں۔ جوعزت و احترام حضرت امّاں جان کے دل میں حضرت خلیفۃ المسیح کے لیے تھا اس کا اظہار اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے۔ صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ جو حضرت مصلح موعودؓ کی بیٹی تھیں بیان کرتی ہیں کہ کچے مکانوں کی بات ہے حضرت امّاں جانؓ باورچی خانہ کے صحن میں بستر میں لیٹی ہوئی تھیں۔ میں گھر میں داخل ہوئی تو آپؓ چہرہ دیکھتے ہی سمجھ گئیں کہ کوئی بات ہوئی ہے۔ کہنے لگیں لڑکی! اگر باپ سے ناراض ہو کر آئی ہے تو فوراً واپس چلی جا اور اگر اماں نے کچھ کہا ہے تو خیر ہے میں سنبھال لوں گی۔ اب یہ امر غور کرنے کے لائق ہے کہ نہ صرف حضرت اماں جانؓ نے بہت پُر حکمت طریق سےبات کو سنبھالا بلکہ ایک اہم تربیتی نکتہ بھی سمجھا دیا کہ حضرت مصلح موعودؓ صرف ایک باپ ہی نہیں ہیں بلکہ خلیفۃ المسیح ہیں اور جس طرح ان کی عزت واحترام کرنا ہر ایک احمدی پر واجب ہے اسی طرح ایک بیٹی پر بھی واجب ہے۔

( سیرت و سوانح حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ، لجنہ اماء اللہ ضلع لاہور صفحہ 590تا591)

ایک سفر کے دوران حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے حضرت امّاں جانؓ کی خدمت میں مشورہ کے لیے ایک خط تحریر کیا اور حضرت اماں جانؓ نے اس خط کا جو جواب دیا وہ ہر احمدی کے لیے عمومی طور پر لیکن احمدی خواتین کے لیے خصوصی طور پر مشعلِ راہ ہے۔ یہ خط روزنامہ الفضل20؍نومبر 1917ءمیں حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحبؓ کے ایک نوٹ کے ساتھ اس طرح شائع ہوا۔

’’حضرت اُمّ المومنینؓ کے دینی جذبات

ایک خط جو اتفاق سے مجھے مل گیا ہے اسے خواتین جماعت احمدیہ پڑھ کر ان پاک خیالات کا اندازہ کریں جو حضرت اُمّ المومنینؓ کے قلب مطہر میں موج زن ہیں۔ اور پھر اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں کہ ایک احمدی کی اولاد کیا ہونی چاہیے۔ یہ خط حضرت اُمّ المومنین نے سیّدنا محمود کو ان دنوں میں لکھا تھا جب آپ بارادہ سیا حت مصر و حج بیت اللہ تشریف لے گئے تھے۔ (اکمل)

السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

خط تمہارا پہنچا۔ سب حال معلوم ہوا۔ مولوی صاحب کا مشورہ ہے کہ پہلے حج کو چلے جاؤ۔ اور میرا جواب یہ ہے کہ میں تو دین کی خدمت کے واسطے تم کو اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دے چکی ہوں۔ اب میرا کوئی دعویٰ نہیں۔ وہ جو کسی دینی خدمت کو نہیں گئے بلکہ سیر کو گئے۔ ان کو خطرہ تھا۔ اور تم کو کوئی خطرہ نہیں۔ خداوند کریم اپنے خدمتگاروں کی آپ حفاظت کرے گا۔ میں نے خدا کے سپرد کردیا۔ تم کو خدا کے سپرد کردیا۔ خدا کے سپرد کردیا۔ اور یہاں سب خیریت ہے۔

والدہ محمود احمد4اکتوبر 1912ء‘‘

ایک شیدائی بیٹا

صاحبزادہ مرزا مبارک احمدؓ 8سال کی چھوٹی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ آپ کی وفات پرحضرت امّاں جانؓ نے نہایت صبر و استقلال اور راضی بالقضائے قدیرکا ایسا بے نظیر نمونہ دکھایا کہ عرش کے خدا نے بذریعہ الہام حضرت مسیح موعودؑ سے فرمایا کہ’’خدا خوش ہوگیا۔‘‘

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان فرماتی ہیں کہ

مبارک احمد کی وفات کے بعد کے الہامات بھی شاہد ہیں۔ ایک بار حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت امّاں جانؓ سے بڑے زور سے اور بہت یقین دلانے والے الفاظ میں فرمایا تھا کہ’’ تم کو مبارک کا بدلہ بہت جلد ملے گا بیٹے کی صورت میں یا نافلہ کی صورت میں۔‘‘

(تحریراتِ مبارکہ، صفحہ 316)

بہر حال یہ ایک امتحان تھا جس پر حضرت امّاں جانؓ بہت صبر و ہمت کے ساتھ پورا اُتریں۔ اور حضرت مصلح موعودؓ کو اس بات کا بہت احساس تھا اور اسی لیے آپؓ نے اپنے بیٹے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد( خلیفۃ المسیح الثالثؒ ) کو پیدائش کے فوراًبعد حضرت امّاں جان کی مبارک گود میں دے دیا۔ حضرت اماّں جانؓ آپ کوصاحبزادہ مرزا مبارک احمد کا نعم البدل خیال فرماتی تھیں اور آپؓ کے بابرکت ہاتھوں سے ہی صاحبزادہ صاحب کی پرورش ہوئی۔ آپؓ حضرت صاحبزادہ ناصر احمد صاحبؒ کو بچپن میں اکثر یحیٰ کہا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ یہ میرا مبارک ہے یحیٰ ہے جو مجھے بدلہ میں مبارک کے ملا ہے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر کرتی ہیں کہ

’’مجھے مبارک احمد کی وفات کے تین روز بعد ہی خواب آیا کہ مبارک احمد تیز تیز قدموں سے چلا آرہا ہے۔ اور دونوں ہاتھوں پر ایک بچہ اُٹھائے ہوئے ہے۔ اُس نے آکر میری گود میں وہ بچہ ڈال دیا جو لڑکا ہے۔ اور کہا ہے کہ’’لوآپا یہ میرا بدلہ ہے‘‘ ( یہ فقرہ وہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا) میں نے جب یہ خواب صبح حضرت اقدسؑ کو سنایا تو آپؑ بہت خوش ہوئے۔ مجھے یاد ہے آپ کا چہرہ مبارک مسّرت سے چمک رہاتھا۔ اور فرمایا تھا کہ’’بہت مبارک خواب ہے‘‘۔

…یہ حضرت مسیح موعودؑ کی بشارتوں اور آپؑ کے کہنے کی وجہ تھی کہ ناصر احمد کو امّاں جان نےاپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ امّاں جان کے ہاتھوں میں اُن کی پرورش ہوئی اور شادی بیاہ بھی اُنہوں نے ہی کیا۔ …تمام پاس رہنے والے جو زندہ ہوں گے اب بھی شاہد ہوں گے کہ حضرت امّاں جان ناصر کو مبارک سمجھ کر اپنا بیٹا ظاہر کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں ’’یہ تو میرا مبارک ہے۔‘‘

(تحریراتِ مبارکہ صفحہ316تا317)

اسی مضمون کے حوالہ سے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے چند اشعار اور ان کا پس منظر بھی آپؓ ہی کے الفاظ میں پیشِ خدمت ہے:

’’کل عزیزی مبشر احمد محمودہ منور کے بڑے لڑکے نے ایک تصویر عزیزی ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث کی اس گزشتہ جلسہ سالانہ کی سٹیج پر کرسی پر بیٹھے ہوئے کی لی تھی وہ انلارج(Enlarge) کرواکے بھیجی۔ اس کو دیکھا۔ لیٹے لیٹے اسی وقت یہ تین شعر زبان پر آگئے اور سوچا یہ اس کے نیچے لکھے جاتے تو اچھا تھا۔ الفضل کے لئے ارسال ہیں۔ بیمار سا کلام ہی سہی بیمار کا۔ گر قبول افتد۔

خدا کا فضل ہے اس کی عطا ہے

محمدؐ کے وسیلے سے ملا ہے

’’مبارک‘‘ تھا یہ اُمّ المومنیں کا

ہوا مقبول ربّ العالمیں کا

نویدِ احمد و تنویرِ محمود

یہ ’’موعود ابن موعود1‘‘ ابن موعود2

[1 حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح موعودؓ۔ 2حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام]

(تحریراتِ مبارکہ، صفحہ 304، از مصباح مئی1966ء)

حضرت مصلح موعودؓ بچپن سے ہی حضرت امّاں جانؓ سے بہت مانوس تھے اور آپ کی عزّت اور محبت اور آپؓ کے آرام کا ہر وقت خیال حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بعد بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان کرتی ہیں کہ

’’ایک بار حضرت امّاں جانؓ بیمار ہوئیں تو مجھے الگ لے جاکر کہا کہ میں بھی ایک دُعا کرتا ہوں اور تم بھی کرو اور کرتی رہو کہ اب امّاں جان کو ہم میں سے خدا تعالیٰ کسی کا غم نہ دکھائےاور امّاں جان کی زندگی میں برکت بخشے۔‘‘

(تحریراتِ مبارکہ، صفحہ 232)

حضرت امّاں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے تین امتحان

حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت امّاں جانؓ سے فرمایا تھا کہ تین امتحان تمہارے اور ہوں گے اور یہ آپؑ نے حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمدؓ کی وفات سے پہلے فرمایا تھا۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر فرماتی ہیں کہ میں نے یہ بات حضرت امّاں جانؓ سے سنی تھی۔ چنانچہ اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے آپؓ تحریر کرتی ہیں :

’’حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد حضرت امّاں جانؓ نے فرمایا تھا کہ تین امتحان تھے دو ہوچکے ایک باقی ہے۔ اس وقت جب مجھے یہ بات بتا رہی تھیں تو میرے چھوٹے بھائی کے کپڑے بکس میں رکھ رہی تھیں (سامان سفر تیار کرنا تھا۔ یہ لاہور سے سفرِ واپسی حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے وقت کا ذکر ہے)۔ تو مجھے ہمیشہ چھوٹے بھائی کا بہت فکر رہتا تھا مگر پھر باوجود دونوں ماموں جان اور میرے میاں کی وفات کے جب پارٹیشن ہوئی تو قادیان چھوڑنا پڑااس وقت۔ حضرت امّاں جان کی تڑپ اور صدمہ دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ تیسرا امتحان یہ تھا۔

حضرت بڑے بھائی صاحب جب پاس آتے تو کہتی تھیں میاں دیکھو مجھے قادیان ضرور پہنچانا بہشتی مقبرہ میں۔ بڑے بھائی صاحب کی آنکھیں تر ہو جاتیں اور کمرہ سے باہر نکل جاتے یہ حالت یہ تڑپ دیکھ کر۔‘‘

(تحریراتِ مبارکہ، صفحہ232تا233)

حضرت اُم المومنینؓ کی وفات

مسیحِ محمدی علیہ السلام کے یومِ وصال 26؍مئی1908ءکی طرح 20؍اور21؍اپریل1952ءکی درد بھری رات بھی سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ یہ وہ رات تھی جس میں جماعتِ احمدیہ اور مہدیٔ موعودؑ کے درمیان وہ زندہ واسطہ جو حضرت اُمّ المومنینؓ سیّدہ نصرت جہاں بیگم کے مقدس وجود کی شکل میں اب تک باقی تھا آپؓ کی وفات کے ساتھ ہمیشہ کے لیے منقطع ہوگیا۔

(تاریخِ احمدیت جلد 14صفحہ 93)

خاندانِ مسیح موعودؑ کے دیگر افراد اور جملہ امرائے جماعت کو حضرت امّاں جانؓ کی وفات کی اطلاع بذریعہ ایکسپریس تار دی گئی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش تھی کہ حضرت امّاں جانؓ کی خواہش کو پورا کیا جائے اور ان کے خاوند حضرت مسیح موعودؑ کے پہلو میں تدفین ہو۔ صاحبزادہ مرزا مظفر احمد تحریر کرتے ہیں کہ

’’میں ان دنوں لاہور میں متعین تھا۔ حضور کا ارشاد موصول ہوا کہ اس سلسلہ میں انڈین ہائی کمیشنر سے رابطہ کیا جائے۔ میری درخواست پر انڈین ہائی کمیشنر نے دہلی سے رابطہ کیا اور بتا یا کہ ہندوستان کی گورنمنٹ نے خاص کیس کے طور پر اس کی اجازت دے دی ہے لیکن یہ شرط لگائی ہے کہ اس غرض کے لئے بیس سے زائد عزیزوں یا دیگر اصحاب کو ویزے نہیں دیے جا سکتے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ پیشکش اس وجہ سے مسترد کردی کہ حضرت امّاں جان کی حیثیت کے پیشِ نظر کم از کم دس ہزار آدمی میت کے ساتھ جانے ضروری ہیں۔

( سیرت و سوانح حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ، لجنہ اماء اللہ ضلع لاہور صفحہ 649)

حضرت اُمّ المومنینؓ کا مقام، حضرت مصلح موعودؓ کی نظر میں

حضرت مصلح موعودؓ حضرت امّاں جانؓ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’اس سال احمدیت کی تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہوا ہے اور وہ ہے حضرت اُ مّ المومنین کی وفات۔ ان کا وجود ہمارے اور حضرت مسیح موعودؑ کے درمیان میں ایک زنجیر کی طرح تھا۔ اولاد کے ذریعہ بھی ایک تعلق اور واسطہ ہوتا ہے مگر وہ اور طرح کا ہوتا ہے۔ اولاد کو ہم ایک درخت کا پھول تو کہہ سکتے ہیں مگر اُسے اس درخت کا اپنا حصہ نہیں کہا جاسکتا۔ پس حضرت اُمّ المومنین رضی اللہ عنہا ہمارے اور حضرت مسیح موعودؑ کے درمیان ایک زندہ واسطہ تھیں اور یہ واسطہ ان کی وفات سے ختم ہوگیا۔ پھر حضرت اُمّ المومنین کے وجود کی اہمیت عام حالات سے بھی زیادہ تھی کیونکہ ان کے متعلق خدا تعالیٰ نےقبل از وقت بشارتیں اور خبریں دیں۔ چنانچہ انجیل میں آنے والے مسیح کو آدم کہا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جس رنگ میں حوّا آدم کی شریکِ کار تھیں اسی طرح مسیح موعودؑ کی بیوی بھی اس کی شریکِ کار ہوگی۔ پھر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی حدیث ہے کہ آنے والا مسیح شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی۔ اب شادی تو ہر نبی کرتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس خبر میں یہی اشارہ تھا کہ اس کی بیوی کو یہ خصوصیت حاصل ہوگی کہ وہ اس کے کام میں اس کی شریک ہوگی۔ اسی طرح دلّی میں ایک مشہور بزرگ خواجہ میر ناصر گزرے ہیں ان کے متعلق آتا ہے کہ ان کے پاس کشف میں حضرت امام حسینؓ تشریف لائے اور انہوں نے ایک روحا نیت کی خلعت دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تحفہ ایسا ہے جس میں تم مخصوص ہو۔ اس کی ابتداء تم سے کی جاتی ہے اور اس کا خاتمہ مہدی کے ظہور پر ہوگا۔ چنانچہ یہ کشف اس طرح پورا ہوا کہ آپ کی ہی اولاد میں سے حضرت اُمّ المومنینؓ کا وجود پیدا ہوا۔ یہ کشف خواجہ ناصر نذیر فراق کے بیٹے خواجہ ناصر خلیق نے اپنی کتاب میخانۂ درد صفحہ 25میں درج کیا ہے۔‘‘

(تاریخِ احمدیت جلد 14صفحہ102تا103)

حضرت مصلح موعودؓ اپنی دلی محبت اور عقیدت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’حضرت مسیح موعودؑ جب فوت ہوئے اس وقت ہمارے پاس گزارے کاکوئی سامان نہیں تھا۔ والدہ سے اس کے ہر بچہ کو محبت ہوتی ہے لیکن میرے دل میں نہ صرف اپنی والدہ ہونے کے لحاظ سے حضرت اماں جان کی عظمت تھی۔ بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کی اہلیہ جن کی وجہ سے آپ کی دوہری عزت میرے قلب میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ جس چیز نے میرے دل پر خاص طور پراثر کیا وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ جب فوت ہوئے تو اس وقت آپؑ پر کچھ قرض تھا۔ آپؓ نے یہ نہیں کیا کہ جماعت کے لوگوں سے کہیں حضرت مسیح موعو دؑ پر اسقدر قرض ہے۔ یہ ادا کردو۔ بلکہ آپ کے پاس جو زیور تھا اسے آپؓ نے بیچ کر حضرت مسیح موعودؑ کے قرض کو ادا کردیا۔ میں اس وقت بچہ تھا۔ اور میرے لئے ان کی خدمت کا کوئی موقع نہ تھا۔ مگر میرے دل پر ہمیشہ یہ اثر رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو کتنا محبت کرنے والا اور آپؑ سے تعاون کرنے والا ساتھی دیا۔‘‘

( سیرت و سوانح حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ، لجنہ اماء اللہ ضلع لاہور صفحہ 666)

حضرت مصلح موعودؓ حضرت اماں جانؓ کو شعائر اللہ میں سے جانتے تھے۔ جلسہ سالانہ1932ءکی ایک تقریر میں جلسہ پر آنے والے احباب کو قادیان میں دیگر شعائر اللہ کی زیارت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے یہ بھی فرمایا کہ

’’اسی طرح ایک زندہ نشان حضرت اُمّ المومنین ہیں۔ صحابہ کا یہ طریق تھا کہ جب آتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور باقی اُمہات المومنین کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتے اور اُن کی دُعاؤں کے مستحق بنتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں اور پھر بعد میں کئی لوگ حضرت اُمّ المومنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دُعا کی درخواست کرتے۔ نئے آنے واے لوگوں کو چونکہ اس قسم کی باتیں معلوم نہیں ہوتیں۔ پھر اتنے ہجوم میں یہ بھی خیال ہوسکتا ہے کہ شائد حاضر ہونے کا موقع نہ مل سکےاس لئے میں نے یہ بات یاد دلا دی ہے۔‘‘

(انوار العلوم جلد 12صفحہ 579)

خدا تعالیٰ کا شکر اور دُعا بزبان حضرت امّاں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت امّاں جانؓ اور حضرت مصلح موعودؓ دونوں بزرگ جن کے متعلق خدا تعالیٰ کی متعدد بشارات ہیں جماعتِ احمدیہ کی تاریخ کا ایک بہت بڑا اور اہم حصہ ہیں اور دونوں کی سیرت طیّبہ کے جس پہلو کو اس مضمون میں بیان کیا جارہا ہے اُس کو سمیٹ کر پیش کرنا با لکل ایسا ہی ہے جیسے ایک بہت بڑے خزانہ میں سے صرف ایک قیمتی موتی چن لینا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت اُم المومنین امّاں جانؓ کی اپنی مبشر اولاد کے حق میں دعائیں دنیا کے سب سے زیادہ قیمتی خزانوں میں سے زیادہ قیمتی خزانہ ہیں بلکہ تمام نسل کے لیے ہی جیسا کہ حضرت امّاں جانؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد اپنی اولاد سے فرمایا تھا کہ دُعاؤں کا یہ بڑا بھاری خزانہ تمہیں وقت پر ملتا رہے گا۔

حضرت مرزا بشیر احمد اپنی ایک مشہور تقریر ’’ دُرّ مکنون‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اگر حضرت مسیح موعودؑ کی نسل نیکی اور تقویٰ اور اخلاص اور خدمت دین کے مقام پرقائم رہے گی تو حضورؑ کی دردمندانہ دُعائیں جن کا ایک بہت بھاری خزانہ آسمان پر جمع ہےقیامت تک ہمارا ساتھ دیتی چلی جائیں گی۔ آپؓ مزید لکھتے ہیں کہ خدا کرے کہ ہم ہمیشہ نیکی اور دینداری کے رستہ پر قائم رہیں اور جب دنیا سے ہماری واپسی کا وقت آئے تو حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت امّاں جانؓ کی روحیں ہمیں دیکھ کر خوش ہوں کہ ہمارے بچوں نے ہمارے بعد اپنے آسمانی آقا کا دامن نہیں چھوڑا۔

(الفضل19؍جنوری1962ء)

آخر میں حضرت مسیح موعودؑ کی ایک نظم بعنوان’’خدا تعالیٰ کا شُکر اور دُعا بزبان حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم‘‘ میں سے چند اشعار پیش خدمت ہیں :

ہے عجب میرے خدا میرے پہ احساں تیرا

کس طرح شُکر کروں اے میرے سلطاں تیرا

مجھ پہ وہ لطف کئے تو نے جو برترزِ خیال

ذات برتر ہے تیری پاک ہے ایواں تیرا

چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لیے

سب سے پہلے یہ کرم ہے مرے جاناں تیرا

فضل سے اپنے بچا مجھ کو ہر ایک آفت سے

صدق سے ہم نے لیا ہاتھ میں داماں تیرا

میری اولاد کو تو ایسی ہی کردے پیارے

دیکھ لیں وہ آنکھ سے چہرۂ تاباں تیرا

عمر دے، رزق دے اور عافیت و صحت بھی

سب سے بڑھ کر یہ کہ پا جائیں وہ عرفاں تیرا

اس جہاں کے نہ بنیں کیڑے، یہ کرفضل اُن پر

ہر کوئی اِن میں سے کہلائے مسلماں تیرا

غیر ممکن ہے کہ تدبیر سے پاؤں یہ مراد

بات جب بنتی ہے جب سارا ہو ساماں تیرا

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button