متفرق مضامین

ایک عظیم الشان نشان آسمانی کے حقیقی مصداق کا پُر شوکت اعلان

(ابن قدسی)

پیشگوئی مصلح موعود کی عظمت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّشانہ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لیے ظاہر فرمایا اس عاجز کی دعا کو قبول کرکے ایسی با برکت رُوح بھیجنے کا وعد ہ فرمایا جس کی ظاہری وباطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 99)

اس عظیم الشان نشان آسمانی یعنی پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق کو بیان کرتے ہوئے مندرجہ ذیل مختلف پہلوؤں کو لینا چاہیے۔

(1)…اس عظیم الشان نشان آسمانی کے مصداق کے حوالے سے کلام الٰہی میں کیا بیان ہوا ہے؟

(2)…اس نشان کے مصداق کے حوالے سے نبی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان کیا ہے؟

(3) …اس نشان کے مصداق کے حوالے سے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان کیا ہے؟

(4)…اس نشان کے مصداق کے حوالے سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ کا بیان کیا ہے؟

عظیم الشان نشان آسمانی کے حوالے سے کلام الٰہی 20؍فروری 1886ء کے اشتہار میں شائع ہوا۔

پیشگوئی کی اشاعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 22؍مارچ 1886ء کو ایک اشتہار شائع کیا جس میں آپ علیہ السلام نے مصلح موعود کی پیدائش کے متعلق تحریر فرمایا کہ

’’ہم جانتے ہیں کہ ایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی 9برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے۔ بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا۔ ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ98جدید ایڈیشن)

اس پیشگوئی کے بعد 7؍اگست 1887ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا جو 4؍نومبر1888ء کو وفات پا گیا۔ اس لڑکے یعنی بشیر اوّل کی وفات کے بعد حضور علیہ السلام نے سبز اشتہار شائع فرمایا جس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:

’’اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ 20؍فروری 1886ء کی پیش گوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے پہلے بشیر کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو روحانی طور پر نزول رحمت کا موجب ہوا اور اِس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیر کی نسبت ہے۔ ‘‘

(سبز اشتہار،روحانی خزائن جلد 2صفحہ462۔ 463حاشیہ)

مزید فرمایا کہ

’’بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ…مصلح موعود کے حق کی جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے اور ضرور تھا کہ اس کا آنا معرضِ التوا میں رہتا جب تک یہ بشیر جو فوت ہو گیا ہے پیدا ہو کر پھر واپس اٹھایا جاتا کیونکہ یہ سب امور حکمت الٰہیہ نے ا س کے قدموں کے نیچے رکھے تھے اور بشیر اول جو فوت ہو گیا ہے بشیر ثانی کے لئے بطور ارہاص تھا اس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا۔ ‘‘

(سبز اشتہار،روحانی خزائن جلد 2صفحہ466۔ 467حاشیہ)

’’سو مطابق پہلی پیشگوئی کے ایک لڑکا پیدا ہو گیا اور فوت بھی ہو گیا اور دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے۔ وہ اگرچہ اب تک جو یکم دسمبر 1888ء ہے پیدا نہیں ہوا۔ مگر خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہو گا۔ زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔ ‘‘

(سبز اشتہار،روحانی خزائن جلد 2صفحہ451۔ 453حاشیہ)

گذشتہ حوالوں میں مذکور کلام الٰہی کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے

(1)…سبز اشتہار کے مطابق بشیر اوّل کی وفات کے بعد 20؍فروری والی پیشگوئی کے مطابق بشیر ثانی نے آناہے۔

(2)…سبز اشتہار میں مصلح موعود کے نام محمود، بشیر ثانی، فضل اورفضل عمر ہیں۔

(3)…زمین وآسمان ٹل سکتے ہیں مگر وہ مصلح موعود اپنی میعاد یعنی نوبرس کے عرصہ میں لازماً پیدا ہوگا۔

(4)…مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل سے ہوگا۔

(5)…مصلح موعود کے وقت میں یہ سلسلہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پیدائش

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے12؍جنوری 1889ء کو شرائط بیعت پر مشتمل ایک اشتہار بعنوان تکمیل تبلیغ شائع فرمایا جس میں آپؑ نے اپنے دوسرے بیٹے بشیر الدین محمود احمد کی پیدائش کی خبر دی۔ فرمایا کہ

’’خدائے عز و جل نے جیساکہ اشتہار دہم جولائی 1888ء و اشتہار دسمبر1888ء میں مندرج ہے اپنے لطف و کرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اول کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہو گا اور اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہو گا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا۔ وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ سو آج 12؍جنوری 1889ء میں مطابق 9 جمادی الاول 1306ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہو گیا ہے جس کا نام بالفعل محض تفاول کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی۔ مگر ابھی تک مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا وہ کوئی اور ہے لیکن میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہو گا۔ اور اگر مدت مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو خدائے عز و جل اس دن کو ختم نہیں کرے گا جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کر لے۔ مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا:

اے فخرِ رُسل قربِ تو معلومم شد

دیر آمدۂ زراہِ دُور آمدۂٖ

پس اگر حضرت باری جل شانہٗ کے ارادہ میں دیر سے مراد اسی قدر دیر ہے جو اس پسر کے پیدا ہونے میں جس کا نام بطور تفاول بشیر الدین محمود رکھا گیا ہے ظہور میں آئی تو تعجب نہیں کہ یہی لڑکا موعود لڑکا ہو۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد1صفحہ160 و 161حاشیہ)

عظیم الشان نشان آسمانی کے حوالے سے نبی کاکلام (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سبز اشتہار میں فرمایا تھا کہ

’’اسی خیال اور انتظار میں سراج منیر کے چھاپنے میں توقف کی گئی تھی تاجب اچھی طرح الہامی طور پر لڑکے کی حقیقت کھل جاوے تب اس کا مفصل اور مبسوط حال لکھا جائے‘‘

(سبز اشتہار،روحانی خزائن جلد 2 صفحہ نمبر 450)

حضرت مرز ا بشیر الدین محمود صاحب رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے بعدسراج منیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’ہاں سبز اشتہار میں صریح لفظوں میں بلاتوقف لڑکا پیدا ہونے کا وعدہ تھا۔ سو محمود پیدا ہوگیا۔ کس قدر یہ پیشگوئی عظیم الشان ہے اگر خدا کا خوف ہے تو پاک دل کے ساتھ سوچو‘‘

(سراج منیر،روحانی خزائن جلد12صفحہ36حاشیہ)

پھر سراج منیر میں ہی مزید فرمایا کہ

’’پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہو گا اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا۔ اور اس پیشگوئی کی اشاعت کیلئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کے میعاد میں پیدا ہوا اور اب نویں سال میں ہے۔ ‘‘

(سراج منیر،روحانی خزائن جلد12صفحہ36)

انجام آتھم میں فرمایا کہ

’’محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی معہ محمود کے نام کے موجودہے جو پہلے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا۔ جو رسالہ کی طرح کئی ورقوں کا اشتہار سبز رنگ کے ورقوں پر ہے۔ ‘‘

(ضمیمہ انجام آتھم،روحانی خزائن جلد11صفحہ299)

تریاق القلوب میں فرمایا کہ

’’محمود جو میرا بڑا بیٹا ہے۔ اس کے پید ا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی 1888ء میں اور نیز اشتہار یکم دسمبر 1888ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا۔ پیشگوئی کی گئی اور سبز رنگ کے اشتہارمیں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا‘‘

(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد15صفحہ219)

حقیقۃ الوحی میں بیان فرمایا کہ

’’میرے سبز اشتہار کے ساتویں صفحہ میں اس دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے۔ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود ہے۔ وہ اگرچہ اب تک جو یکم دسمبر 1888ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا۔ زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔ یہ ہے عبارت اشتہار سبز کے صفحہ سات کی جس کے مطابق جنوری 1889ء میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہے اور سترھویں سال میں ہے۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22صفحہ373 و 374)

ان حوالہ جات کا خلاصہ یہی ہے کہ

سبز اشتہار کے مطابق جس لڑکے نے بشیر اوّل کے بعد پیدا ہونا تھا وہ حضرت مرز ا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔ اور سبز اشتہار کے ہی مطابق بشیر اول کے بعد پیدا ہونے والے محمود نے ہی بشیر ثانی، محمود، فضل، فضل عمر اور مصلح موعود ہونا تھا۔

عظیم الشان نشان آسمانی کے حوالے سے کلام صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

مذکورہ بالا تحریرات اور اشتہارات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کیا سمجھتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ

حضرت پیر منظور محمد صاحب رضی اللہ عنہ نے 10؍ستمبر1913ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ

’’مجھے آج حضرت اقدس (مسیح موعود) علیہ السلام کے اشتہارات کو پڑھ کر پتہ چل گیا ہے کہ پسر موعود میاں صاحب (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد۔ ناقل) ہی ہیں۔ ‘‘

اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:

’’ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کس خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں۔ ‘‘

حضرت پیر صاحب موصوف رضی اللہ عنہ نے یہی الفاظ لکھ کر تصدیق کےلیے پیش کیے تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا:

’’یہ لفظ میں نے برادرم پیر منظور محمد سے کہے ہیں۔‘‘ (دستخط)نورالدین10؍دسمبر1913ء

حضرت پیر صاحب رضی اللہ عنہ نے خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے مصلح موعود ہونے کے بارے میں ’’پسر موعود‘‘کے نام سے ایک لاجواب رسالہ شائع کیا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی اس تحریر کو بھی چھاپ دیا۔

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد9صفحہ485)

حضرت مولوی محمد احسن صاحب اپنی ایک تقریر میں کہتے ہیں کہ

’’اور ان الہامات میں سے ایک یہ بھی الہا م تھا کہ

اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ مَظْہَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَآ ءِ…

الخ جو اس حدیث کی پیشنگوئی کے مطابق تھا جو مسیح موعود کے بارے میں ہے کہ

یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ۔

یعنی آپ علیہ السلام کے ہاں ولد صالح عظیم الشان پیدا ہو گا۔ چنانچہ مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب موجود ہیں۔ …انہوں نے تھوڑے ہی عرصہ میں ایسی غیر معمولی ترقی کی ہے جیسے کہ الہام میں تھی اور میں نے تو ارہاص کے طور پر یہ سب ارشاد مشاہدہ کئے ہیں اس لئے میں مان چکا ہوں کہ یہی وہ فرزند ارجمند ہیں جن کا نام محمود احمد سبز اشتہار میں موجود ہے۔ ‘‘

(ضمیمہ اخبار بدر مطبوعہ 26/جنوری 1911ء صفحہ2 تا 4)

دعویٰ مصلح موعود کے متعلق پُرشوکت اعلان

(تقریر فرمودہ 20؍فروری 1944ءبمقام ہوشیارپور)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ نے 1886ءکے 58سال بعد اسی جگہ یعنی ہوشیار پور میں اسی مکان کے سامنے ایک عظیم الشان جلسہ میں دعویٰ مصلح موعود کے متعلق پرشوکت اعلان فرمایا:

’’جیسا کہ آپ لوگوں نے سنا ہے آج سے پورے 58سال پہلے…20؍فروری کے دن 1886ءمیں اِس شہر ہوشیارپور میں اِس مکان میں جو کہ میری انگلی کے سامنے ہے ایک ایسے مکان میں جو اُس وقت طویلہ کہلاتا تھا جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رہائش کا اصلی مقام نہیں تھا بلکہ ایک رئیس کے زائد مکانوں میں سے وہ ایک مکان تھا جس میں شاید اتفاقی طور پر کوئی مہمان ٹھہر جاتا ہو یا وہاں انہوں نے سٹور بنا رکھا ہو یا حسبِ ضرورت جانور باندھے جاتے ہوں، قادیان کا ایک گمنام شخص جس کو خود قادیان کے لوگ بھی پوری طرح نہیں جانتے تھے، لوگوں کی اِس مخالفت کو دیکھ کر جو اسلام اور بانی اسلام سے وہ رکھتے تھے اپنے خدا کے حضور علیحدگی میں عبادت کرنے اور اُس کی نصرت اور تائید کانشان طلب کرنے کے لئے آیا اور چالیس دن لوگوں سے علیحدہ رہ کر اُس نے اپنے خدا سے دعائیں مانگیں۔ چالیس دن کی دعاؤں کے بعد خدا نے اُس کو ایک نشان دیا۔ وہ نشان یہ تھا کہ مَیں نہ صرف اِن وعدوں کو جو میں نے تمہارے ساتھ کئے ہیں پورا کروں گا اور تمہارے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا بلکہ اِس وعدہ کو زیادہ شان کے ساتھ پورا کرنے کے لئے مَیں تمہیں ایک بیٹا دوں گا جو بعض خاص صفات سے متّصف ہو گا۔ وہ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا، کلامِ الٰہی کے معارف لوگوں کو سمجھائے گا، رحمت اور فضل کا نشان ہو گا اور وہ دینی اور دُنیوی علوم جو اسلام کی اشاعت کے لئے ضروری ہیں اُسے عطا کئے جائیں گے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ اُس کو لمبی عمر عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔

یہ اعلان بانی سلسلہ احمدیہ نے یہاں سے کیا اور اُس وقت کیا جبکہ وہ ابھی بانی سلسلہ نہیں تھے اور جماعت احمدیہ کی ابھی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی۔ …چونکہ موجودہ زمانہ کی اصلاح ایک لمبے عرصہ کی متقضی تھی اِس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ وہ آپ کو ایک بیٹا عطا فرمائے گا اور جیسا کہ بعض دوسری خبروں میں اِس کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتایا کہ وہ لڑکا 9سال کے عرصہ میں پیدا ہو گا، تمہارا جانشین ہو گا اور اِن صفات سے متّصف ہو گا۔

یہ خبر ایسی زبردست ہے کہ کوئی شخص جو اپنے دل میں دیانت کا مادہ رکھتا ہو اِس کے پورے ہونے سے انکار نہیں کر سکتا اور اُسے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ خبر خدا کی طرف سے ہی تھی کسی انسان کی طاقت میں نہیں تھاکہ وہ ایسی خبر دے سکتا۔ …

کون شخص ہے جو کہہ سکے کہ میں اتنا عرصہ ضرور زندہ رہوں گا۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ میرے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ وہ بیٹا 9سال کے عرصہ میں پیدا ہو گا۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ کسی زمانہ میں مَیں اتنی عظمت حاصل کر لوں گا کہ دنیا میں میرے جانشین مقرر ہوا کریں گے۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ میرا بیٹا ایک زمانے میں میرا خلیفہ اور جانشین ہوگا۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ میرے بیٹے کے زمانہ میں اسلام سارے جہان میں پھیل جائے گا اور اِس کے دنیا پر غالب آ جانے کے سامان پیدا ہو جائیں گے۔ یہ اتنے نشان ایک پیشگوئی میں جمع ہیں کہ کسی انسان میں طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنی طرف سے ایسی پیشگوئی کر سکتا اور پھر دنیا میں اعلان کر کے کہہ سکتا کہ یہ پیشگوئی ایک دن ضرور پوری ہوگی لیکن یہ پیشگوئی جو آج سے اٹھاون سال پہلے کی گئی تھی پوری ہوئی اور بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہوئی۔ …

آپ لوگ جانتے ہیں مَیں اِس وقت کس کی طرف اشارہ کر رہا ہوں وہ لڑکا مَیں ہی ہوں جو بارہ تیرہ سال تک خنازیر کے مرض میں مبتلا رہا۔ میں ہی وہ ہوں جو مہینوں نہیں سالوں مدقوق و مسلول لوگوں کی طرح بیمار رہا۔ میں ہی وہ ہوں جو نہایت کمزور، دُبلا اور نحیف تھا۔ پھر میں ہی وہ ہوں جس کی آنکھوں میں تیرہ چودہ سال کی عمر میں شدید ککرے ہوگئے اور میں پڑھائی کے ناقابل ہوگیا یہاں تک کہ میں بورڈ کی طرف آنکھ اُٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میں ہی وہ ہوں مڈل میں بھی فیل ہوا اور انٹرنس میں بھی۔ …پھر میں ہی وہ ہوں جس کے خلاف جماعت کے بڑے بڑے لوگ کھڑے ہوگئے۔ تمام محکموں پر ان کا قبضہ تھا، مدرسہ ان کے پاس تھا، لنگران کے پاس تھا، ریویو ان کے پاس تھا، جماعت کا انتظام ان کے ہاتھوں میں تھا، خزانہ ان کے پاس تھااور مختلف عُہدے ان کو حاصل تھے۔ …

میں نے کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے رؤیا میں بتایا کہ مجھے اُس کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا کیا گیاہے اور چونکہ قرآن کریم کے علم میں دنیا کے سارے علوم شامل ہیں اس لئے اس کے بعد جماعت اور اسلام کے لئے مجھے جس علم کی بھی ضرورت محسوس ہوئی وہ خدا نے مجھے سکھا دیا۔ چنانچہ آج میں دعوے کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہوں بلکہ آج سے نہیں بیس پچیس سال سے میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ دنیاکا کوئی فلاسفر، دنیا کا کوئی پروفیسر، دنیا کا کوئی ایم اے، خواہ وہ ولایت کا پاس شدہ ہی کیوں نہ ہواور خواہ وہ کسی علم کا جاننے والا ہو، خواہ وہ فلسفہ کا ماہر ہو، خواہ وہ منطق کا ماہر ہو، خواہ وہ علم النفس کا ماہر ہو، خواہ وہ سائنس کا ماہر ہو، خواہ دہ دنیا کے کسی علم کا ماہر ہو میرے سامنے اگر قرآن اور اسلام پر کوئی اعتراض کرے تو نہ صرف مَیں اُس کے اعترا ض کا جواب دے سکتا ہوں بلکہ خدا کے فضل سے اُس کا ناطقہ بند کر سکتا ہوں۔ دنیا کا کوئی علم نہیں جس کے متعلق خدا نے مجھ کو معلومات نہ بخشی ہوں اور اِس قدر صحیح علم جو اپنی زندگی درست رکھنے یا قوم کی رہنمائی کے لئے ضروری ہو مجھ کو نہ دیا گیا ہو۔

پھر اِس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے فوراً مجھے ہمت بخشی اور میں نے دنیا کے مختلف اطراف میں اسلام اور احمدیت کو پھیلانے کے لئے مشن قائم کر دیئے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے اُس وقت صرف ہندوستا ن اور کسی قدر افغانستان میں جماعت احمدیہ قائم تھی باقی کسی جگہ احمدیہ مشن قائم نہیں تھا۔ مگرجیسا کہ خدا نے پیشگوئی میں بتایا تھا ’’وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا‘‘اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ مختلف ممالک میں احمدیہ مشن قائم کروں۔ چنانچہ میں نے اپنی خلافت کے ابتدا میں ہی انگلستان، سیلون اور ماریشس میں احمدیہ مشن قائم کئے۔ پھر یہ سلسلہ بڑھا اور بڑھتاچلا گیاچنانچہ ایران میں، روس میں، عراق میں، مصرمیں، شام میں، فلسطین میں، نائیجیریا میں، گولڈ کوسٹ میں، سیرالیون میں، ایسٹ افریقہ میں، یورپ میں سے انگلستان کے علاوہ سپین میں، اٹلی میں، زیکوسلواکیہ میں، ہنگری میں، پولینڈ میں یوگوسلاویہ میں، البانیہ میں، جرمنی میں، امریکہ میں، ارجنٹائن میں، چین میں، جاپان میں، ملایا میں، سماٹرامیں، جاوا میں، کاشغر میں خدا کے فضل سے مشن قائم ہوئے۔ ان میں سے بعض مبلّغ اِس وقت دشمن کے ہاتھ میں قید ہیں، بعض کام کر رہے ہیں اور بعض مشن جنگ کی وجہ سے عارضی طور پر بند کر دیئے گئے ہیں غرض دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو آج سلسلہ احمدیہ سے واقف نہ ہو، دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو یہ محسوس نہ کرتی ہو کہ احمدیت ایک بڑھتا ہوا سیلاب ہے جو ان کے ملکوں کی طرف آرہا ہے۔ حکومتیں اِس کے اثر کو محسوس کر رہی ہیں …

بہرحال جب اِس قسم کی علامتیں ظاہر ہوئیں تو جماعت نے کہا کہ وہ پیشگوئی جس کی خبر شیخ مہر علی صاحب کے طویلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دی گئی تھی وہ پوری ہوگئی مگر مَیں نے ہمیشہ اِس کو قبول کرنے سے احتراز کیا اور مَیں نے یہ کبھی دعویٰ نہ کیا کہ میں اِس پیشگوئی کا مصداق ہوں۔ … گو جماعت نے متواتر اصرار کیا کہ میں اِس پیشگوئی کا اپنے آپ کو مصداق قراردوں مگر میں نے کبھی اس پیشگوئی کا اپنے آپ کو مصداق قرار نہ دیا اور جب بھی یہ پیشگوئی میرے سامنے آتی میں اِس پر سے خاموشی کے ساتھ گزر جاتا۔ اِس عرصہ میں دشمن نے چیلنج بھی کئے کہ اگر یہ شخص اس پیشگوئی کا مصداق ہے تو بولتا کیوں نہیں۔ مگر میں نے ہمیشہ یہی سمجھا کہ خدا پر تقدم تقویٰ کے خلاف ہے۔ پس میں خاموش رہا اور باوجود جماعت کے اصرار اور دشمنوں کے چیلنج کے میں نے کبھی اِس کے متعلق کچھ نہیں کہا۔ یہاں تک کہ تیس سال کا لمبا عرصہ اِس پر گزر گیا اور یہ مضمون قریباً ٹھنڈا ہو گیا۔ دوستوں نے زور لگایا کہ میں اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا اعلان کروں مگر میں خاموش رہا۔ دشمنوں نے کہا کہ اگر یہ اِس پیشگوئی کامصداق ہے تو بولتا کیوں نہیں ؟ مگر میں نہ بولا۔

جب موافق اور مخالف سب اس مضمون پر بحثیں کر کر کے تھک گئے تو اِس سال کے شروع میں 5-6؍جنوری 1944ء کی درمیانی رات کو میں نے ایک رؤیا دیکھا۔ …

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے اور آپ نے میری زبان سے فرمایا۔

اَنَاالْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ

اے لوگو! میں تم کو بتاتا ہوں کہ میں وہی مسیح ہوں جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا۔ اِس کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنا دعویٰ لوگوں کے سامنے پیش کروں اور میں ان سے کہوں کہ میں مسیح موعودؑ کا خلیفہ ہوں مگر اُس وقت بجائے یہ الفاظ جاری ہونے کے میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ

اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ

میں بھی مسیح موعود ہی ہوں یعنی اُس کا مشابہ، نظیر اور خلیفہ۔ جب خواب میں مَیں نے اپنے متعلق یہ الفاظ کہے تو یکدم میں گھبراگیا کہ میں نے یہ کیا کہہ دیا ہے اِس پر معاً مجھے اِلقاء ہوا کہ یہ وہی پیشگوئی ہے جو مصلح موعود کے بارہ میں کی گئی تھی اور جس میں بتایا گیا تھا کہ مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مثیل اور نظیر ہوگا۔ تب میں نے سمجھا کہ یہ پیشگوئی خدا نے میرے لئے ہی مقدر کی ہوئی تھی۔ …

میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں نے کشفی حالت میں کہا

اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ

اور میں نے اِس کشف میں خدا کے حکم سے یہ کہا کہ میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے اُنیس سَو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں۔ پس میں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچانا ہے۔ ‘‘

(دعویٰ مصلح موعود کے متعلق پر شوکت اعلان، انوارالعلوم جلد 17 صفحہ نمبر148 تاصفحہ نمبر160)

12؍مارچ 1944ءکو لاہور میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’آج مَیں اِس جلسہ میں اُسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے اور جس پر افتراء کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اسی شہر لاہور میں 13؍ٹمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان میں یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہوگی۔ پس یہ جلسہ اِس غرض کیلئے کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کوبتایا جائے کہ وہ عظیم الشّان پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1886ءمیں فرمائی تھی پوری ہوگئی۔ ‘‘

(میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں، انوار العلوم جلد 17 صفحہ نمبر239)

پھر اسی سال جلسہ سالانہ 1944ءمیں فرمایا:

’’میں کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پیشگوئیوں کا مورد بنایا ہے جو ایک آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائیں۔ جو شخص سمجھتا ہے کہ میں نے افترا سے کام لیا ہے یا اس بارہ میں جھوٹ اور کذب بیانی کا ارتکاب کیا ہے وہ آئے اور اس معاملہ میں میرے ساتھ مباہلہ کر لے اور یا پھر وہ اللہ تعالیٰ کی مؤکد بعذاب قسم کھا کر اعلان کر دے کہ اسے خدا نے کہا ہے کہ میں جھوٹ سے کام لے رہا ہوں پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اپنے آسمانی نشانات سے فیصلہ فرما دے گا کہ کون کاذب ہے اور کون صادق‘‘

(الموعود، انوارالعلوم جلد 17صفحہ نمبر645)

اس اعلان کے بعد بھی آپ تقریباًبائیس سال تک زندہ رہے لیکن کسی نے آپ رضی اللہ عنہ سے مباہلہ نہیں کیا۔ اوراسی طرح جو بات آپ نے خدا کی قسم کھا کر کہی آج ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں وہ بات پوری ہوچکی ہے اور آپ کانام دنیا کے کناروں تک پہنچ چکا ہے۔ آج 20؍فروری کے دن پوری دنیا میں جلسہ ہائے یوم مصلح موعود ہورہے ہیں۔ یہ بات آپ کی سچائی کا عظیم الشان نشان ہے۔ اسی طرح پیشگوئی مصلح موعود میں بیان کردہ دیگر علامتیں بھی پوری ہوئیں۔

اب آخر پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں ہی اختتام کرتے ہیں ۔ آپؓ نے1944ءکے ہی جلسہ سالانہ پر حاضر احباب جماعت سے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے الہاماً میرے متعلق یہ خبر دی ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا۔ پس میرے لئے یہی مقدر ہے کہ میں سُرعت اور تیزی کے ساتھ اپنا قدم ترقیات کے میدان میں بڑھاتا چلا جاؤں مگر اِس کے ساتھ ہی آپ لوگوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے قدم کو تیز کریں اور اپنی سُست روی کو ترک کر دیں۔ مبارک ہے وہ جو میرے قدم کے ساتھ اپنے قدم کو ملاتا اور سُرعت کے ساتھ ترقیات کے میدان میں دَوڑتا چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرے اُس شخص پر جو سُستی اور غفلت سے کام لے کر اپنے قدم کو تیز نہیں کرتا اور میدان میں آگے بڑھنے کی بجائے منافقوں کی طرح اپنے قدم کو پیچھے ہٹا لیتا ہے۔ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو، اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہو تو قدم بقدم اور شانہ بشانہ میرے ساتھ بڑھتے چلے آؤ تاکہ ہم کُفر کے قلب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑ دیں اور باطل کو ہمیشہ کے لئے صفحۂ عالم سے نیست و نابود کر دیں اور اِنْشَاءَ اللّٰہُ ایسا ہی ہو گا۔ زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں۔ ‘‘

(الموعود، انوارالعلوم جلد 17 صفحہ 648تا649)

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق عطافرمائے آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button