الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت مسیح ناصریؑ
ماہنامہ ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ فروری 2012ء میں مکرم سید میر مسعود احمد صاحب مرحوم کا ایک مختصر مضمون روزنامہ الفضل کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پیشگوئی مصلح موعود میں ایک علامت ’’مسیحی نفس‘‘ ہونا ہے۔ اب اگر ان الہامات کو جو مصلح موعود کے متعلق ہیں اور اُن آیاتِ قرآنی کو جو حضرت مسیح ناصریؑ کے متعلق ہیں دیکھا جائے تو ان میں حیرت انگیز تطابق پایا جاتا ہے۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے قبل حضرت مریمؑ مشرق کی طرف چلی گئی تھیں۔ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ کو یہ وحی اُس وقت ہوئی جب آپؑ قادیان سے مشرق کی جانب ہوشیارپور میں تھے۔
حضرت مریمؑ حضرت مسیحؑ کی پیدائش سے قبل علیحدگی میں چلی گئیں اور آپؑ کے پاس کوئی نہ جاسکتا تھا۔ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ نے ہوشیارپور میں چالیس دن کا چلّہ کاٹا اور آپؑ کا ارشاد تھا کہ ان دنوں میرے پاس کوئی نہ آئے۔
حضرت مریمؑ خداتعالیٰ کے حکم کی وجہ سےکسی انسان سے کلام نہ کرتی تھیں۔ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی فرمایا تھا کہ مجھ سے کوئی کلام نہ کرے۔
حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں قرآن کریم میں روح منہ کے الفاظ آئے ہیں جبکہ پیشگوئی مصلح موعود میں فرمایا گیا ہے: ’’ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے۔‘‘
حضرت مسیح ناصریؑ کی آمد ثانی پر اُن کے لیے نزول کا لفظ احادیث میں استعمال ہوا ہے جبکہ حضرت مصلح موعودؓ کی آمد کے واسطے نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں حضرت عیسیٰؑ سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بیان ہوا ہے: رَافِعُکَ اِلَیّ۔ جبکہ پیشگوئی مصلح موعود میں رفع روحانی کا ذکر یوں ہے: ’’آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔‘‘
حضرت عیسیٰؑ کے متعلق مسیح کا لفظ سیاحت اور مسح کے معنے ظاہر کرنے کے لیے آیا ہے جبکہ مصلح موعود کو مسیح کا خطاب ان الفاظ میں دیا گیا: ’’خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔‘‘
………٭………٭………٭………
’’دل کا حلیم‘‘
سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے ’’دل کا حلیم‘‘ ہونے کے بارے میں مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن، جنوری فروری 2013ء میں مکرم راجہ برہان احمد طالع صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پیشگوئی مصلح موعود کے بارہ میں فرمایا :
’’یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے جو کسی شخص کی ذات سے وابستہ نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی اسلام کی نشأۃ ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے اور اس پیشگوئی کی اصل تو آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی ہے۔ …گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ ایک بیٹا عطا فرمائے گا جو مصلح موعود ہو گا اور اس کی تفصیل میں آپ نے اس کی بہت ساری خصوصیات بیان فرمائی تھیں۔ لیکن یہ پیشگوئی تو آنحضرت ﷺ نے یہ الفاظ بیان فرما کر چودہ سوسال پہلے بیان فرمادی تھی کہ یَنْزِلُ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ اِلَی الْاَرْضِ فَیَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ کہ عیسیٰ ابن مریم جب زمین پر نزول فرما ہوں گے تو شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی۔ …مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ خدا کی رحمت و غیّوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍فروری 2011ء)
ان الفاظ کی مناسبت سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا اپنے اہل خانہ، خادموں اور احباب جماعت یعنی ہر خاص وعام کے ساتھ شفقت و محبت کے سلوک نیز دوسروں کی صرف تکالیف ہی نہیں بلکہ جذبات کا بھی خیال رکھتے ہوئے احساس کرنا، اور تکلیف دُور کرنے کے متعلق بےشمار واقعات محفوظ ہیں۔یہ واقعات جہاں ایک طرف اس عظیم الشان پیشگوئی کے ایک فقرہ کی صداقت کے گواہ ہیں وہاں رہتی دنیا تک ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ نیز سیدنا محموؓد کے مبارک، مسیحی نفس اور سخت ذہین و فہیم ہونے کے بیّن ثبوت بھی اور دل کے حلیم ہونے پر مہر بھی ثبت کرتے ہیں۔
مکرمہ صاحبزادی امۃ الرشید بیگم صاحبہ بنت سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ تحریر کرتی ہیں کہ حضوؓر باوجود بے حد عدیم الفرصت ہونے کے اور باوجود اس کے کہ آپ کی اولاد خدا کے فضل سے بہت زیادہ ہے سب کی تربیت اور تعلیم کا خیال رکھتے۔ آپ نہایت ہی شفیق اور رحیم واقع ہوئے۔حضور کی طبیعت کا یہ خاصہ ہے کہ بچوں کو ہمیشہ سبق آموز کہانیوں اور لطائف سے محظوظ کرتے ہوئے ان کی تربیت فرماتے ہیں۔ خود خوش رہتے ہیں اور دوسروں کو خوش رکھتے ہیں لیکن خوشی کی گھڑیوں میں بھی حقیقی مقصد کبھی آنکھ سے اوجھل نہیں ہوتا…شادی کے موقع پر میری بڑی بہن امۃ القیوم صاحبہ کو قرآن کریم کا ایک نسخہ دیتے ہوئے اس کے پہلے صفحہ پر تحریر فرمایا:
’’امۃالقیوم ! یہ خدا کا کلام ہے۔ میں نے سب کچھ اس سے پایا۔ تم بھی سب کچھ اس سے ہی پاؤ۔میرے اللہ! تیرا یہ کلام میری اس بچی اور اس کی اولا د کے دل میں دائمی طور پر جاگزیں ہو…۔‘‘
حضرت مصلح موعود ؓ کا دستور یہی رہا ہے کہ اپنے خدام کو مخاطب کرتے وقت ’صاحب‘ کا لفظ ضرور استعمال فرماتے۔ چنانچہ بیشتر دفعہ مکرم چوہدری برکت علی خان صاحب وکیل المال کے لیے جب لفافہ پر نوٹ لکھا تو ’چوہدری برکت علی خان صاحب‘ پورا نام لکھ کر کوئی ہدایت دی اور ایک ادارے کے افسر کو اس طور پر ہدایت دی کہ اپنے ماتحت کارکنوں کے نام کے ساتھ ’صاحب‘ کا اعزازی لفظ ضرور استعمال کیا کریں۔ فرمایا دیکھیں میں نے آ پ کا نام تین چار دفعہ لکھا ہے یا پکارا ہے۔ میرا بھلا کتنا وقت زیادہ لگ گیا ہوگا اور مجھے بھلا کتنی دقّت ہوئی ہوگی۔ کچھ بھی نہیں۔
حضورؓ کے اپنے خدام کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے مکرم لطیف احمد خان صاحب مرحوم سابق کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری لکھتے ہیں : 1942ء میں حضوؓر پالم پور تشریف لے گئے۔ وہاں سے ایک دن حضوؓر کا پروگرام بیج ناتھ ٹرپ کا بنا۔ چونکہ کاروں میں جگہ کم تھی اس لیے حضوؓر نے خاکسار اور مرزا فتح الدین صاحب کو فرمایا کہ آپ بس پر آجائیں ہم وہاں انتظار کریں گے۔ پہلے تو ہمارا ارادہ نہ جانے کا ہوا کیونکہ بس کی آمد کی امید نہ تھی۔ سڑک ٹوٹی ہوئی تھی مگر پھر ہم دونوں اس وجہ سے کہ حضوؓر نے ارشاد فرمایا ہے کہ کھانے پر انتظار کریں گے، پیدل چل پڑے۔ ڈیڑھ بجے ڈاک بنگلہ میں پہنچے تو حضوؓر کھانا تناول فرمارہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر مسکراکے فرمایا کہ انتظار کرکے کھانا شروع کیا ہے، اتنی دیر کیوں ہوگئی؟ ہم نے عرض کیا کہ بس نہیں آئی ہم پیدل آئے ہیں۔ چنانچہ اسی وقت حضورنے پیالوں میںکھانا ڈال کر اپنے ہاتھ سے ہمیں دیا۔
مکرم خان صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ 1941ء کا واقعہ ہے کہ حضور ڈلہوزی میں تھے وہاں سے ایک دن سیر کے لیے دیان کنڈ جو ایک اونچی پہاڑی تھی تشریف لے گئے۔ وہاں چائے کا بھی پروگرام تھا۔ مگر اتنے میں بارش ہونی شروع ہوگئی۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔ مَیں اور خان میر خان صاحب اور نذیر احمد صاحب ڈرائیور آگ جلانے میں مصروف تھے مگر لکڑیوں کے گیلا ہونے کی وجہ سے بڑی دقت تھی اور پتھروں کے چولہے پر جھکے پھونکیں ماررہے تھے کہ اتنے میں حضور خود دو چا ر سوکھی لکڑیا ں لیے ہوئے تشریف لے آئے اور ہمارے سروں پر چھتری کردی۔ ہم نے وہ لکڑیا ں رکھ کر آگ جلائی اور جب تک پانی اُبل نہیں گیا حضور چھتری کا سایہ کیے دُھویں میں ہمارے پاس ہی کھڑے رہے۔
حضورؓ کی اپنی جماعت سے محبت کا ایک واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضوؓر کے کمرےمیں خاندا ن کے کسی فرد کی خواہش پر قالین بچھوایا گیا۔ اتفاق سے ایک دن کوئی دیہاتی خاتون حضوؓر کی زیارت کے لیے حاضر ہوئیں تو ان کے گرد آلود پاؤں سے قالین پر نشان پڑ گئے۔ حضوؓرنے محسوس فرمایا کہ آپ کے اس عزیز (جن کی خواہش پر یہ قالین بچھایا گیا تھا ) کے چہرے پر کچھ ناپسندیدگی کے آثار ہیں۔ اس خاتون کے جانے کے بعد حضوؓرنے وہ قالین اسی وقت وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکلوادیا کہ مَیں اسے اپنے اور اپنی جماعت کے درمیان حائل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
حضرت مصلح موعود ؓ نے ساری زندگی دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھا اور جب بھی جماعت کے کسی فرد کو تکلیف میں دیکھا اپنے آرام کوترک کردیا اور اس کی تکلیف کو دُور کرنے کی سعی دُعا اور دوا دونوں طرح سے کی۔ اس حوالے سے ایک واقعہ حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ نے یوں بیان کیا کہ ایک گرم اور حبس والی رات، گیارہ بجے دروازہ کھٹکا، ان دنوں بجلی ابھی ربوہ میں نہیں آئی تھی۔ حضوؓر لالٹین کی روشنی میں صحن میں لیٹے ہوئے کتاب پڑھ رہے تھے۔ حضوؓر نے مجھے کہا کہ دیکھوکون ہے ؟ میں نے دریافت کیا اور آکر حضوؓر سے کہا کہ ایک عورت ہے وہ کہتی ہے کہ میرے خاوند کو حضور نے دوائی دی تھی اس سے بہت افاقہ ہوگیا تھا مگر اب طبیعت پھر خراب ہوگئی ہے، دوا ئی لینے آئی ہوں۔ آپؓ نے فرمایا کہ کمرے میں جاؤ اور فلاں الماری کے فلاں خانے سے فلاں دوائی نکال لاؤ ۔ گرمی مجھے بہت محسوس ہوتی ہے اور یہ موسم میرے لیے ہمیشہ ناقابلِ برداشت رہا ہے۔ اپنی اس کمزوری کی بنا پر میں کہہ بیٹھی : یہ کوئی وقت ہے، میں اسے کہتی ہوں کہ صبح آجائے، اندر جاکر تو حبس سے میرا سانس نکل جائے گا ۔ اس پر حضورؓ نے بڑے جلال سے فرمایا کہ تم اس اعزاز کو جو خدا نے مجھے دیا ہے چھیننا چاہتی ہو! ایک غرض مند میرے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے آتاہے، یہ خدا کی دی ہوئی عزت ہے کہ مجھے خدمت کاموقع ملتا ہے، اُسے مَیں ضائع کردوں تو قیامت کے دن خدا کو کیا شکل دکھاؤں گا، میں خود جاتاہوں۔ مَیں نے کہا: آپ نہ جائیں، گرمی بہت ہے، میں چلی جاتی ہوں۔ لیکن حضوؓرنہ مانے اور خود اندر گئے اور دوائی لاکر اسے دی اور ساتھ اسے ہدایت کی کہ صبح آکر اپنے خاوند کی خیریت کی خبر دے۔
حضورؓ کی جماعت سے گہری محبت کے بارہ میں مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ (تقسیمِ ہند کے بعد) جب بھی قادیان سے کوئی قافلہ پاکستان کے لیے روانہ ہوتا تو آپؓ قرآن شریف لیے برآمدہ میں اس وقت تک ٹہلتے ہوئے تلاوت فرماتے رہتے جب تک اس قافلے کی حفاظت سے سرحد پار کرنے کی اطلاع نہ آجاتی۔ ان مواقع پر آپؓ مسلسل دعا کرتے رہتے۔
مکرم صاحبزادہ صاحب کا ہی بیان ہے کہ یہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ جب بھی جماعت کسی ابتلا کے دَور سے گزر رہی ہوتی تو آپ بستر پر سونا ترک کرکے فرش پر سوتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آزمائش کے بادل چھٹنے کا اشارہ ملتا کہ چلو جاکر بستر پر آرام کرو۔
مکرم صاحبزادہ صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ ایک اَور بات جس نے مجھ پر نقوش چھوڑے یہ کہ میری شادی کے تھوڑے عرصے بعد ہی جب میں ملتان میں بطور اسسٹنٹ کمشنر متعین تھا اور اپنی بیوی کے ماموں کرنل سید حبیب اللہ شاہ صاحب کے ہاں عارضی طور پر مقیم تھا جو وہاں سپرنٹنڈنٹ سنٹرل جیل تھے تو حضورؓ نے سند ھ جاتے ہوئے وہاں ایک روز قیام فرمایا۔ آپؓ مجھے ڈرائنگ روم میں لے گئے اور ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا کہ دیکھو تم آئی سی ایس ہو اور تمہیں اعلیٰ طبقے سے ملاقات کے بہت مواقع ملیں گے لیکن یہ بات تمہیں ہرگز غرباء اور کمزور لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرنے سے کبھی باز نہ رکھے۔ آپؓ نے فرنیچر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا فرنیچر جو غریبوں سے ملاقات میں روک بنے، رکھنے کے قابل نہیں۔ جس طرح ہر غریب پر رسول ﷺ کے دروازے بلا امتیاز کھلے رہتے تھے یہی وہ سنت ہے جسے اپنانا چاہیے۔ آپؓ کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور آپؓ کی آنکھیں پُرنم تھیں۔ میری حالت کا اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ مَیں نے آپ کو کبھی اتنی جذباتی حالت میں نہیں دیکھا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک فدائی صحابی حضر ت منشی اروڑا خان صاحبؓ کی عیادت کے لیے ایک روز نماز جمعہ کے بعد حضوؓر ہسپتال تشریف لے گئے۔ اخبار الفضل اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مع ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب آپ کی کوٹھڑی میں گئے، نبض دیکھی گئی چمچے کے ذریعہ دودھ دیا گیا، آنکھیں کھلی تھیں، بخار زور کا تھا، ہوش بجا نہ تھے، سانس اُکھڑی ہوئی تھی، حضرت خلیفۃالمسیح جمعہ کے بعد سے عصر کے وقت تک کوئی ڈیڑھ گھنٹہ منشی صاحب کے پاس اسی کوٹھڑی میں بیٹھے رہے۔‘‘
حضرت مصلح موعود ؓ اگر کسی معاملے میں تربیت کی خاطر سختی بھی فرماتے تو دل کی حلیمی بھی اپنی شان کے ساتھ ظاہر ہوتی۔ کئی واقعات اس ضمن میں تاریخ کا حصہ بنائے جاچکے ہیں جب آپؓ نے کسی کو سزا دی لیکن پھر اُس کی بھرپور دلجوئی بھی فرمائی۔ چنانچہ آپؓ کے ایک پرائیویٹ سیکرٹری مکرم مولوی عبدالرحمٰن صاحب انور کی اہلیہ صاحبہ نے ایک دفعہ بیان کیا کہ ربوہ میں ایک بار بہت بجلی بند ہوئی تو حضوؓر نے انور صاحب کو سزا دی کہ ان کے گھر کی بجلی کاٹ دی جائے کیونکہ ان کی سستی ہے کہ یہ بجلی کے صحیح ہونے کے لیے واپڈا سے مل کر کوشش نہیں کرتے۔ کہتی ہیں خیر ہمارے گھر کی بجلی کاٹ دی گئی۔ مغرب کا وقت ہوگیا۔ ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ جاکر دیکھا تو ایک کارکن ہاتھ میں مٹی کے تیل کا کنستر اور لالٹین لیے کھڑا تھا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ وہ اندھیرے میں بیٹھے ہوں گے، یہ چیزیں ان کے گھر پہنچاؤ۔
اسی طرح کوئٹہ میں کسی کارکن سے ناراض ہو کر سزا دی کہ تین دن میں بیٹھ کر استغفار کرے۔ بعد میں خیال آیا بیچارہ اکیلا بیٹھا کیا کرے گا ۔ساتھ ہی کچھ کتابیں بھی پڑھنے کو بھیج دیں اور کھانا وغیرہ بھی گھر سے جاتا رہا۔ تو کسی نے یونہی نہیں کہا تھا کہ حضور جب سزا دیتے ہیں تو بڑا مزہ آتاہے۔
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ حضورؓ کی دلی کیفیات کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
میرے پیارے بڑے بھائی حضرت خلیفۃ المسیح کی صفات میں ایک نہایت پیاری صفت نمایاں دیکھی کہ آپ کا دل بہت ہی صاف ہے اتنا صاف دل کہ غصہ، کینہ جس میں ٹھہر ہی نہیں سکتا۔ کسی کی برائی آپ سوچ ہی نہیں سکتے۔ ہمیشہ دوسروں کے لیے خیر کے الفاظ ہی آپ کی زبان مبارک سے نکلے اور خیر ہی ہر ایک کی آپ نے چاہی۔ دل کے حلیم آپ سچے معنوں میں ہیں۔ بہت تنگ آکر یا کاموں کے سلسلہ میں آپ کو غصہ کے بعد جس پر غصہ کیا گیا اس سے زیادہ آپ کو تکلیف ہوتی رہی ہے اور کسی نہ کسی طرح اس کے تدارک میں کوشاں رہے۔ کسی صورت میں جب تک نرمی کا اظہار نہ ہوجائے آپ کو خود چین نہ آتاتھا… جیسے ماں تنگ آکر اپنے پیارے بچے کو مار کر خود آنسو بہاتی ہے … نرمی اور رحم و شفقت آپ میں اعلیٰ درجہ کا ہمیشہ پایا۔ ایک بار بہت عرصہ کی بات ہے ایک اخبار میں خبر آئی کہ ایک بچی (کوئی تین سال عمر کی) نے اپنے غریب باپ کی جمع پونجی سے نوٹ دو تین سوکے چولہے میں پھینک دیے اور باپ نے فوری غیظ و غضب کے تحت اس معصوم کی ٹانگیں چیر کر مار ڈالا۔ مجھے یاد ہے اس خبر کو پڑھ کر جو آپ کی حالت ہوئی تھی سخت صدمہ تھا ٹہلتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’غربت کی وجہ سے جو باپ جوش میں ایسا فعل کر بیٹھا اب خود اس کے دل کی کیا حالت ہوگی۔ جب تک زندہ رہا اس بچی کی موت اور اپنے ظالمانہ سلوک کو یاد کرکے تڑپتا ہی رہے گا۔‘‘جو تکلیف اس وقت آپؓ کو تھی اور آپؓ کا کرب وہ مجھے ہمیشہ یاد آتاہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا تھا :
’’جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا، جب لوگ میرے کاموں کی نسبت ٹھنڈے دل سے غور کر سکیں گے، جب سخت دل سے سخت دل انسان بھی جو اپنے دل میں شرافت کی گرمی محسوس کرتاہوگا ماضی پر نگاہ ڈالے گا،جب وہ زندگی کی ناپائیداری کو دیکھے گا اور اس کا دل ایک نیک اور پاک افسردگی کی کیفیت سے لبریز ہو جائے گا اس وقت وہ یقیناًمحسوس کر ے گا کہ مجھ پر ظلم پر ظلم کیا گیا اور میں نے صبر سے کام لیا۔ حملہ پر حملہ کیا گیالیکن میں نے شرافت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا … یہ بہترین بدلہ ہوگا جو آنے والا زمانہ اور جو آنے والی نسلیں میری طرف سے ان لوگوں کو دیں گی اور ایک قابلِ قدر انعام ہوگا جو اس صورت میں مجھے ملے گا۔‘‘
(انوار العلوم جلد 10صفحہ 323)
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملّت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پس آج ہمار ا بھی کام ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں۔ اپنے علم سے، اپنے قول سے، اپنے عمل سے اسلام کے خوبصورت پیغام کو ہر طرف پھیلادیں۔ اصلاحِ نفس کی طرف بھی توجہ دیں۔ اصلاحِ اولاد کی طرف بھی توجہ دیں۔ اور اس اصلاح اور پیغام کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے بھرپور کوشش کریں جس کا منبع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بنا یا تھا۔ پس اگر ہم اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے تو یومِ مصلح موعود کا حق ادا کرنے والے ہوں گے، ورنہ تو ہماری صرف کھوکھلی تقریریں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ18؍فروری 2011ء)
………٭………٭………٭………